episode 1

187 14 8
                                    

صبح دھوپ تم کو ستائے
تو سمجھ لینا کرنوں میں میں ہوں
(Copied)
سورج کی ہلکی سی روشنی بیڈ پہ سوئے ہوئے وجود پر پڑی تو اس میں تھوڑی سی حرکت پیدا ہوئی لیکن جلد ہی اس نے تکیہ پکڑ کے منہ پہ رکھ لیا۔ ابھی پانچ دس منٹ ہی گزرے ہوگے کہ الارم بجنے کی آواز آنے لگ گئی۔ وہ خفگی سے اٹھ گئی اور شیشے کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ یہ اس کا روزانہ کا کام تھا سو کر اٹھنے کے بعد شیشے کے آگے کھڑے ہو کر اپنے بالوں کو دیکھنا اور ان پر اپنی رائے کا اظہار کرنا۔
"پتا نہیں ناول میں لڑکیاں جب سو کر اٹھتی ہیں تو ان کے الجھے ہوئے بال ان کی خوبصورتی میں کیسے اضافہ کر دیتے ہیں اور ایک میرے بال ہیں ان کے سامنے تو چڑیا کا گھونسلہ بھی اچھا  لگتا ہوگا۔" وہ اپنے بال پکڑ کے دیکھتے ہوئی بڑبڑائی جا رہی تھی جب ایک دم سے اس کی نظر گھڑی پر گئی۔ تو اسے یاد آیا آج اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا
"آہ مجھے تو دیر ہو رہی ہے۔" اس نے فٹافٹ الماری سے اپنے کپڑے نکل لے اور واش روم میں گھس گئی۔
___________________________________________________________________
آمنہ نیچے کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی اور احمد چیئر پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
"السلام عليكم! اچھے بابا اچھی ماما" زینب نے نیچے آکر احمد اور آمنہ کو سلام کیا
احمد نے زینب کی آواز سن کر اخبار رکھ دیا اور اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"وعلیکم السلام! میری گڑیا کیسی ہے؟"
"بلکل تھکا اچھے بابا۔ اچھی ماما جلدی سے ناشتہ دیں دے۔" زینب نے احمد سے پیار لے کر آمنہ کو کہا
"اچھا میری جان دے رہی ہوں صبر کرو تھوڑا سا۔" آمنہ نے مسکرا کر جواب دیا
"اچھے بابا! آپ نے غور کیا ہے کہ آپ کی بیگم اب جلدی کام نہیں کرتی ذرا سمجھائے انہیں آپ " زینب نے مسکراہٹ دبا کر کہا
"ہاں مجھے بھی یہی لگتا ہے۔" احمد نے بھی زینب کی طرح آمنہ کو تنگ کیا۔
"اور مجھے پتا ہے کیا لگتا ہے؟" آمنہ نے زینب اور احمد سے پوچھا
"کیا اچھی ماما؟" زینب نے معصومیت سے پوچھا
"یہی کہ کل سے آپ دونوں باپ بیٹی اپنا ناشتہ خود بنائے گے کیوں کہ میں تو جلدی کام نہیں نا کرتی۔" آمنہ نے ناشتہ بناتے ہوئے معصومیت سے کہا
"اوہو! آپ تو ناراض ہوگئی ہیں پتا تو ہے آپ کو زینی خود کوئی کام کرتی نہیں اور آپ کے کاموں میں غلطیاں نکلتی رہتی ہے۔ آپ زینی کی باتوں کو زیادہ سیریس نا لیا کرے۔" احمد نے فورن ہی آمنہ کی سائیڈ لی۔
"کیا؟" زینب تو چیخ ہی پڑی
"اچھے بابا آپ اپنی بیٹی کی سائیڈ لینے کی بجائے اپنی بیوی کی سائیڈ لے رہے ہیں۔" زینب نے فورن ہی ناراضگی دکھائی۔
"آپ نے تو ابھی یونیورسٹی چلی جانا ہے پیچھے سے مجھے آپ کی اچھی ماما سے کون بچائے گا یہ بھی تو سوچو" احمد نے زینب کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا
"ہممممم! سہی کہہ رہے ہیں آپ۔" زینب نے بھی احمد کے ہی انداز میں کہا
"یہ آپ دونوں کیا کہہ رہے ہیں ایک دوسرے کے کان میں۔"
"کچھ بھی نہیں آپ جلدی سے ناشتہ دیں میری بیٹی کو یونیورسٹی سے دیر ہو رہی ہے۔" احمد نے زینب کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا
آمنہ نے ناشتہ ٹیبل پر رکھا تو زینب نے فٹافٹ ناشتہ کرنے کے بعد یونیورسٹی جانے کے لئے دروازے کی طرف مڑی لیکن پھر کچھ یاد آنے پر واپس پلٹی تو دیکھا آمنہ اور احمد مسکرا رہے تھے۔
زینب احمد اور آمنہ کے پاس گئی اور باری  باری دونوں کی پیشانی چومی اور انہیں اللہ‎ حافظ بول کر باہر چلی گئی۔
یہ اس کی بچپن کی عادت تھی۔
____________________________________________________________________
زینب ابھی گیٹ کھول کر باہر جانے لگی تھی جب اس کی نظر گیٹ کے پاس پڑے کالے گلاب کے پھولوں پر گئی۔
"یاررررر۔۔۔۔۔۔! پھر سے۔" اس نے اکتا کہا اور پھولوں کو اٹھایا۔ پھولوں کے ساتھ ایک لفافہ بھی تھا۔
"جب سے میں پاکستان آئی ہوں پتا نہیں کہا سے میرا عاشق پیدا ہوگیا ہے۔" وہ خط کو کھولنے کے ساتھ ساتھ اپنا پسندیدہ کام(بولنا) کرنے میں مشغول تھی۔
"اور کمینہ جہان سکندر بننے کی کوشش کر رہا ہے اگر اتنا ہی شوق ہے جہان بننے کا تو پھر سفید گلاب بھیجتا تھوڑی حیا والی فیلنگ بھی تو آتی۔ اور اسے کیا لگتا ہے کہ میں ڈر جاؤ گی ایک دفعہ مجھے پتا چل جائے اس کا پھر میں بتاتی ہوں اسے۔" وہ لفافہ کھولنے کے ساتھ بولی بھی جا رہی تھی۔
اس نے جیسے ہی خط کھولا اس میں کچھ تصویریں اور ایک کاغذ موجود تھا۔
اس نے سب سے پہلے کاغذ باہر نکالا جس پہ کچھ لائن لکھی ہوئی تھی۔
If I thought for just one moment that this would be my last breath
I'd tell you I'll love u forever, even beyond death.
If i thought for just one moment that your face would be last I'd see,
I'd take a million pictures and save them just for me.

کیسے بتاؤں تجھےDove le storie prendono vita. Scoprilo ora