زاویار گاڑی کا دروازہ کھول کر نظروں سے زمر کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ۔۔
زمر نے پہلے بےبسی سے اسے دیکھا اور آس پاس نظر گھما کر وہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔
زاویار نے غصّے سے دروازہ بند کیا اور ڈائونگ سیٹ سمبھالی ۔۔۔
بسس۔۔۔۔
ابھی زمر نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کے زاویار نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا ۔۔۔
بسس زمر خاموش ہوجاؤ اب
بہت سن لئے تمھارے دکھڑے
اب مزید میں کچھ نہیں سننا چاہتا ۔۔۔
تمہارے کچھ بھی بولنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے ہونا وہی ہے جو میں تمہیں بتا چکا ہوں ۔۔۔
زاویار نے ایک سنسان سڑک پر گاڑی موڑتے ہوے کہا ۔۔۔
ممم ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔وہ ۔۔۔ اس ٹائم ۔۔۔،۔مجھے بہت ڈر ۔۔۔ ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔
کیا ہم صبح ۔۔۔۔
نہیں پہلے ہی تمہاری بیہوشی کے چکر میں ہم بہت لیٹ ہوگئے ہیں اب ہم ابھی اور اسی وقت ہی جائیں گے ۔۔۔
اور ہاں تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم میرے ساتھ ہو اور مجہے تمہاری حفاظت اچھی طرح کرنی آتی ہے بے فکر ہوجاؤ میرے ہوتے ہوے تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔۔۔مگرر۔۔۔۔
زمر اب مجہے بہت غصّہ آرہا تمہاری بچوں والی حرکتوں پر اسے پہلےکے میرا دماغ گھومے خاموش ہوجاؤ اب ایک لفظ اور نہیں بولنا سمجھی ۔۔
زمر پھر بولی ہی تھی کے زاویار نے اسکی بات کاٹی ۔۔۔۔
زمر اسکی باتوں پر روتے روتے باہر دیکھنے لگی اور آدھی اندھیری رات کو سنسان سڑک زمر کے لئے بہت خوفناک مناظر تھے جسسے دیکھ کر وو بہت خوفزدہ ہوگئی اور اسی خوف کی حالت میں وہ
آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی ۔۔۔
زاویار نے خاموشی سے ایک نظر اس پر ڈالی اور اسے روتا دیکھ کر واپس نظریں گھمالی ۔۔۔
کافی دیر مکمل سکوت چھایا رہا زمر بار بار اپنے آنسو صاف کرتے ہوے دل میں آیت الکرسی کا ورد جاری رکھے تھی ۔۔
پاس سے تیزی سے گزرتی اکا دکا گاڑیاں دیکھ کر اسے تھوڑا حوصلہ ملتا تھا ۔۔۔
زمر کا دل اچھل کر حلق میں آگیا جب گاڑی کی رفتار ہلکی ہوتے ہوتے گاڑی بند ہوگئی ۔۔۔۔
اسکو کیا ہوگیا اب ۔۔۔
تم بیٹھو میں دیکھتا ہوں ۔۔۔
ننن ۔۔۔۔ نہیں نہیں خدا کے لئے۔۔۔۔۔۔
زمر نے دونو ہاتھوں سے اسکا بازو تھام کر اسے روکا ۔۔۔
زاویار نے مڑ کر اسکو دیکھا ۔۔۔
مجہے یہاں اکیلے چھوڑ کر نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مجہے بہت ڈر لگ رہا زاویار بھائی ایسا
نہیں کریں میرے ساتھ ممجھے بہت ڈر ۔۔۔۔
بس کردو زمر کہیں نہیں جارہا میں تمہیں چھوڑ کر یہاں باہر ہوں میں گاڑی چیک کرہا ۔۔۔
زاویار نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑآیا۔۔۔
زمر خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی
زاویار کچھ دیر باہر گاڑی میں سر جھکائے مصروف رہا پھر واپس آکر ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی ۔۔۔
کک کیا ہوا آپ رک کیوں ۔۔۔۔
یار تم دو منٹ بھی خاموش نہیں رہسکتی ۔۔۔۔
اسنے غصّے سے زمر کو دیکھ کر کہا ۔۔۔
زمر نے زاویار کی بولتے ہی رونا شروع کردیا۔۔۔۔
یار تم تھکتی نہیں رو رو کر ۔۔۔
زاویار نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔۔۔
زمر اسکے سوال کو درگزر کر کے مسلسل رونے کے شغل میں مصروف تھی ۔۔۔
افففف زاویار نے کندے اچکاتے ہوے کہا اور گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔
گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی زمر کی جان میں جان آئی ۔۔۔
رات گزر چکی تھی اور فجر کی آزانوں کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔
زمر اس وقت سے سیٹ پر سر ٹکائے دل میں آیت الکرسی پڑھتے ہوے بنا آواز کی مسلسل رورہی تھی اور اسے پتا ہی نا چلا کے کب اسکی آنکھ لگ گئی ۔۔۔
زاویار خاموشی سے ڈرائو کرنے میں مصروف تھا زمر کی طرف سے خاموشی پاکر اسنے ایک نظر اس پر ڈالی اور اسے سوتا دیکھ کر کچھ مطمئن ہوا اور ہلکی طنزیہ سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر نمودار ہوئی ۔۔۔
وہ واپس ڈرائیونگ میں مصروف ہوگیا ۔۔۔
اذان کی آواز زمر کے کانو میں پڑتے ہی اسکی آنکھ کھلی ۔۔۔
اور وہ چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔۔
گڈ مارننگ ۔۔۔۔
زاویار نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا ۔۔۔۔
زمر نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا اور دوسری طرف منہ موڑلیا ۔۔۔
زاویار نے ایک ہوٹل کے قریب جاکر گاڑی روک دی ۔۔۔۔
تم کچھ کھاؤگی ؟
زمر نے کچھ جواب نا دیا ۔۔۔
محترمہ آپ سے بات کرہا ہوں ۔۔۔
زمر پھر خاموش رہی ۔۔۔
زمر۔۔۔۔۔
زاویار اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے پکارا ۔۔۔
زمر نے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔
پانی ۔۔۔
پانی تو آ جائے گا کھانا کیا ہے وہ بتاو ۔۔۔
کچھ نہیں بس پانی ۔۔۔
زمر نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
اچھا چائے پیوگی یا کافی ۔۔۔
میں نے کہا نا بس پانی پینا ہے مجہے ۔۔۔
اتنے میں ایک لڑکا گاڑی کے قریب آیا زاویار نے شیشہ نیچے کیا ۔۔۔
سر آرڈر ۔۔
ایک گلاس فریش اورینج جوس اور ایک کپ چائے ۔۔۔
اور ہاں پہلے پانی بھی بھجوادو ۔۔۔
جی سر ۔۔۔۔
لڑکے کے وہاں سے جاتے ہی زاویار کچھ سوچتے ہوے زمر کو دیکھنےلگا جو اسکی طرف سے رخ موڑے باہر دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر خاموشی محسوس کر کے زمر نے مڑ کر اسکو دیکھا اور اپنی طرف دیکھتا پاکر واپس رخ موڑلیا ۔۔۔
وہ لڑکا پانی کی دو بوتلیں لئے واپس آیا ۔۔۔
زاویار نے ایک بوتل زمر کی طرف بڑھائی زمر نے اسکے ہاتھ سے بوتل لیکر کھولی اور پینا شروع کردی ایک سانس میں تقریبن وہ آدھی بوتل پی گئی ۔۔۔
پانی پیتے ہی اسنے ایک گہری سانس لی اور اپنے دوپٹے سے اپنا منہ پوچنے لگی ۔۔۔
زاویار حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
اتنے میں وہی لڑکا آرڈر لئے واپس آیا ۔۔
زاویار نے جوس کا گلاس زمر کی طرف بڑھایا ۔۔۔
آپ کو ایک دفع بات سمجھ نہیں آتی کیا ۔۔
میں نے جب بولا تھا کے ۔۔۔
ہاں جیسے تمہیں ایک دفع کی بات سمجھ نہیں آتی ایسے مجھے بھی نہیں آتی اب جلدی یہ جوس ختم کرو دیر ہورہی ہے ۔۔۔
مجھے نہیں پینا ہے ۔۔۔
میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے کچھ
میں نے بولا ہے یہ جوس ختم کرو ابھی ۔۔۔
زمر نے نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا ۔۔
زمر دیکھو تم خود ہر معملے میں مجھے زبردستی کرنے پر مجبور کرتی ہو اور پھر رونے لگ جاتی ہو
چلو شاباش جلدی سے یہ پی لو اب
اس نے گلاس زمر کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوے کہا ۔۔۔
اور خود چائے پینے میں مصروف ہوگیا ۔۔۔
پیو بھی اب ہاتھ میں پکڑنے کے لئے نہیں دیا ۔۔۔
پورا ختم کرنا ہے سمجھی ۔۔۔
زمر کو پیتا دیکھ کر وہ بولا ۔۔۔
زمر خاموشی سے جوس پینے لگی ۔۔۔سورج کی کرنے چاروں طرف پھیل گئی تھی ۔۔۔
گاڑی میں کافی دیر سے مکمل خاموشی تھی ۔۔
زویار خاموشی سے ڈرائیو کرہا تھا اور زمر سیٹ سے ٹیک لگائے بظاہر تو باہر دیکھ رہی تھی ۔۔۔
مگر اس وقت وہ اپنے ساتھ کھیلے جانے والے قسمت کے اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرہی تھی ۔۔۔
یار کچھ باتیں ہی کرلو اتنا لمبا سفر ہے بور ہوجاؤنگا ایسے تو میں ۔۔۔
زاویار نے ماحول بدلنا چاہا ۔۔۔
زمر ٹس سے مس نا ہوئی ۔۔۔
زمرر زاویار نے کوئی جواب نا پاکر اسے پکارا مگر زمر کو پھر بھی کوئی فرق نا پڑا ...
زمر ۔۔۔۔۔
اب کی بار زاویار نے اسکا بازو ہلا کر پکارا تو وہ خیالوں کی دنیاں سے باہر آئی ...
کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو ۔۔
زاویار کو پھر کوئی جواب نہیں ملا ۔۔۔
تم تھک گئی ہو کیا ؟؟
اگر بولو تو کہیں ہوٹل میں ریسٹ کے لئے رک جاتے ہیں ۔۔۔
آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں جس حال میں ہوں اسے آپ کو کیا فرق پڑتا ۔۔۔
ہاں یہ بھی ہے ۔۔
زاویار نے زمر کے رویہ پر ہنستے ہوے اسے مزید چڑایا ۔۔
زمر نی چڑ کر منہ باہر کی طرف موڑلیا
سوچ لو تقریباً 3 گھنٹے کا سفر باقی ہے اور ابھی قریب میں ایک ہوٹل ہے ہم وہاں اسٹے کرسکتے اسکے بعد پھر کوئی ہوٹل نہیں پھر اسلام آباد پہنچ کر ہی ریسٹ ملیگا ۔۔
نہیں کرنا مجھے کوئی ریسٹ ۔۔۔
اوکے ڈیئر جیسے آپ کہیں ۔۔۔
زاویار نے زمر کی طرف جھک کر چڑانے کے انداز سے کہا زمر نے بے ایک نظر اٹھا کر بے بس نظروں سے اسے دیکھا اور وہ مسکراہٹ چہرے پر لئے ڈرائیو کرنے میں مصروف ہوگیا ۔۔۔
کچھ گھنٹے گزر گئے تھے مزید آدھے گھنٹے کا سفر باقی تھا
ڈرائیو کے دوران زاویار نے ایک نظر زمر پر ڈالی اور ہٹانا بھول گیا ۔۔
تھکن کی وجہ سے زمر کو پتا ہے نا چلا کے کب اسکی آنکھ لگ گئی ...
سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے سوتے ہوے وہ بہت خوبصورت اور معصوم لگ رہی تھی اسکی پونی سے نکلے بال منہ پر آرہے تھے شیشے میں سے منہ پر پڑتی دھوپ اسکے حسن کو مزید نکھار رہی تھی ۔۔۔
زاویار کو اسکی معصومیت پر بہت پیار آیا ۔۔۔
اسنے آگے بڑھ کر سن شیڈ نیچے کیا جس سے زمر کے منہ پر پڑتی دھوپ ہٹ گئی ۔۔
زاویار پھر زمر کو دیکھنے لگا ۔۔۔
زمر کو اپنے چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش پڑتے محسوس ہوئی اور اسنے جھلملاتے ہوے آنکھیں کھولی اور اپنے سامنے زاویار کو دیکھ کر گھبرا کر فورن سیدھا ہوکر بیٹھ گئی ۔۔
ککیا ہوا ۔۔۔۔اسلام آباد ۔۔۔۔ پہنچ گئے ۔۔۔
نہیں بس آدھے گھنٹے بعد پہنچ جائیں گے ۔۔۔
آپ نے گاڑی ۔۔۔۔۔کیوں روکی ۔۔۔
زمر کو زاویار سے خوف آنے لگا ...
تھک گیا تھا یار میں تھوڑا ریسٹ کرنے کے لئے روکی ہے کیا ہوا تم اتنی پریشان کیوں ہورہی اب ۔۔۔
زمر باہر دیکھنے لگی ...
تھکن ہورہی ہوگی تمہیں تم سورہی تھی سوجاؤ ابھی آدھا گھنٹہ ہے ۔۔۔
نن نہیں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔
زمر نے گھبرا کر کہا ۔۔۔
اچھا ۔۔۔
زاویار نے سیٹ بیلڈ باندھتے ہوئے کہا اور گاڑی سڑک کی جانب بڑھا دی ۔۔۔Continued....