بس کر دو عالیہ کچھ دیر آرام کرلو رات سے رو رو کے خود کو ہلکان کر دیا ہے اب ایسے کرینگی تو خود کی طبیعت خراب ہو ہوجاےگی ۔۔۔
نہیں بتول اب جب تک میں اپنی بچی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھونگی مجہے آرام نہیں ملنا ارے کوئی ڈھونڈتا کیوں نہیں میری بچی کو پتا نہیں وہ کس حال میں ہوگی ۔۔۔
عالیہ حوصلہ رکھو شازل اور زرہان گئے ہوے ہیں اور جبران بھائی بھی ہر طرف کوشش کرہے ہیں انشاءلله اچھی خبر لائینگے کچھ نہیں ہوگا ہماری زمر کو وہ جلد ہمارے پاس واپس آ جائے گی اللہ سے اچھی امید رکھو اور
دعا کرو بس دعا میں بڑی طاقت ہے۔۔۔
جی انٹی بتول انٹی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ ہمّت سے کام لیں اور اللہ سے اچھی امید رکھیں سب ٹھیک ہوجاۓ گا انشااللہ ۔۔۔
مشعل نے بھی ہمّت رکھتے ہوے عالیہ بیگم کو حوصلہ دیا ۔۔۔
مشعل کے گھر والے بھی رات سے یہیں تھے جب کے مشعل نے کچھ دیر پہلے ہی زبردستی اپنی والدہ علوینا ہارون کو طبیعت خراب ہونے کے باعث کچھ دیر آرام کرنے کے لئے گھر بھجوایا تھا اور مشعل کے والد ہارون احمد جبران صاحب کے ساتھ پولیس سٹیشن گئے ہوے تھے ۔۔۔۔
آگئے وہ لوگ ۔۔۔
مشعل نے شازل اور زرہان کو آتا دیکھ کر کہا ۔۔۔
کیا ہوا بیٹا مل گئی میری بچی تم لیکر آئے اسکو بیٹا بولو نا چپ کیوں ہو تم بولو نا زمر کہاں ہے بولو نا مجھے کے ماما ہماری زمر مل گئی ۔۔
عالیہ بیگم شازل کے دونوں بازو پکڑ کر روتے ہوے بولرہی تھی جب کے شازل کب سے نظریں جھکائے خاموش کھڑا رہا تھا پھر ایک جھٹکے سے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔
عالیہ بیگم اسے ایسے بیٹھتا دیکھ کر ایک دم سے خود بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔۔
نہیں ملی تم لوگوں کو میری بچی تم لوگ نہیں ڈھونڈ رہے اسکو یا اللہ کیا ہوگیا یہ کس کی نظر لگ گئی میری بچی کی خوشیوں کو ۔۔۔
خالہ آپ ہمّت سے کام لیں ہم کوشش کرہے ہیں زمر کو کچھ نہیں ہونے دینگے اس کے پیچھے جسکا بھی ہاتھ ہے کب تک چھپ سکتا وہ جلد سامنے آ جائے گا ۔۔۔
کسی اکیلے کا ہاتھ نہیں اسکے پیچھے ہماری عزت کی دھجیاں اڑانے میں کسی غیر کے ساتھ زمر بھی برابر کی شریک ہے ۔۔۔
بس کر دو شازل بس کر دو ذرا بھی نہیں سوچا میری معصوم بچی کے کردار کے بارے میں ایسے بے ہودہ الفاظ بولتے ہوئے شرم آ رہی ہے مجھے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے ۔۔۔
عالیہ بیگم نے درد بھرے لہجے میں شازل کو کہا ۔۔۔
ماما آپ کو کیا لگتا مجہے دکھ نہیں ہے اپنی بہن کے غائب ہو جانے کا ارے میں کیسے بتاؤ آپ لوگوں کے اس کے بغیر ایک ایک لمحہ کس طرح گزر رہا ہے۔۔۔
اپنی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھنے کے بعد میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ۔۔
یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی زمر ہے جسسے ہم نے اتنے لاڈ پیار سے رکھا تھا ہم سب کی جان بستی تھی اس میں اس نے ایک دفعہ نہیں سوچا ہمارے بارے میں کیوں کیا اس نے ایسا ماما کیوں کیا ۔۔۔
کیا اسے نہیں پتا تھا کہ ہم اس کے بغیر نہیں رہ سکتے کتنی تکلیف میں ہیں ہم اسکے بغیر ۔۔
نہیں تھا ماما اسے احساس نہیں تھا ہمارا اگر احساس ہوتا تو وہ ایک دفع ضرور سوچتی ہمارا ۔۔۔
شازل بس کرو یار یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے ضروری نہیں جیسا تمہیں لگ رہا ویسا ہی ہو کوئی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے تم ہمت نہیں ہوں اس وقت ہمیں مل کر ہمّت سے زمر کی تلاش کرنی چاہیے نا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے ۔۔۔
زرہان نے شازل کو سمجھاتے ہوے کہا ۔۔۔
......................
رات کو 9 بجے کا وقت تھا جب زاویار کی گاڑی ایک عالیشان بنگلے میں داخل ہوئی ۔۔۔
زاویار نے گاڑی روکی تو گاڑی کے دونو طرف سیکورٹی گارڈ آ کھڑے ہوئے ۔۔۔
سلام سر جی ۔۔
اور ایک نے پہلے زاویار کی طرف کا دروازہ کھول کر جھک کر سلام کیا ۔۔
وعلیکم سلام زاویار نے ڈیش بورڈ زاویار سے اپنا والٹ اور فون اٹھاتے ہوئے کہا اور گاڑی سے بھر نکلا
جب کے اس نے زمر کی طرف کھڑے گارڈ کو گاڑی کا دروازہ کھولنے سے پہلے ہی ہاتھ سے جانے کا اشارہ کر دیا اور خود اس طرف جاکر گاڑی کا دروازہ کھول کر اپنا ہاتھ آگے کیا ۔۔۔
زمر بے سدھ سی حالت میں سارے منظر دیکھ رہی تھی زاویار کے ہاتھ پر نظریں جمائے پتا نہیں وہ کن سوچوں میں گم تھی زمر ۔۔
زویار نے اسے پکارا ۔۔
زمر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ کا سہارا لیے بغیر گاڑی سے نکل گئی ۔۔۔
زاویار نے پیچھے مڑ کر حیرت انگیز نظروں سے اس کو دیکھا اور طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر لئے گاڑی کا دروازہ بند کرتا ہے ۔۔۔
اسنے زمر کو دیکھا جو نظروں سے ادھر ادھر کا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔
زاویار نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔
زمر خاموش رہی ۔۔۔
چلو اندر ۔۔۔
زویار نے آگے بڑھتے ہوئے زمر نے بھی لڑکھڑاتے قدم آگے بڑھائے اس سے مزید چلنا نہیں ہوے اس سے پہلے کہ وہ چکرا کر گر جاتی اس نے زاویار کے بازو کا سہارالے لیا زاویار نے پلٹ کر فورن دونوں ہاتھوں سے زمر کو تھام لیا زمر کا سر ابھی چکرا رہا تھا ۔۔
زمر ۔۔۔
تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا ہے تمہیں زاویار نے اسے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا ورنہ اب تک وہ سمبھل نا پاتی ۔۔۔
اچھا چلو اندر ریسٹ کرو چل کر ۔۔
زاویار نے اپنا ایک بازو اسکے کندھے پر رکھا اور ایک ہاتھ سے مضبوطی سے زمر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا وہ ا سے لے کر اندر کی جانب بڑھا ۔۔۔
زمر کو اسی طرح تھامے ہوئے سیڑھیاں طے کر کے وہ ایک کمرے میں داخل ہوا کمرے میں موجود بیڈ پر اسے بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا ۔۔۔
زمر خاموشی سے زمین پر نظریں جمائے بیٹھی تھی ۔۔۔ابھی تم فریش ہوجاؤ تھوڑی دیر تک کھانا کھائیں گے ہم اور ہاں اگر چینج کرنا ہو تو یہ وارڈروب اسپیشل تمہارے لیۓ ہی سیٹ کی گئی اس کمرے میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ۔۔۔
تم یہاں اس کمرے میں بلکے اب تو اس گھر میں آرام سے رہ سکتی ہو یہاں ہر کام کے لیے ملازم موجود ہے کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو یہ انٹرکام کا استعمال کرلینا ۔۔۔
تم جب تک فریش ہوجاؤ مجھے ایک کال کرنی ہے میں آتا ہوں تو پھر کھانا کھائیں گے اوکے ۔۔۔
زاویار اٹھنے لگا تھا کہ زمر کو روتا کر اسے بہت غصّہ آیا ۔۔۔
زمر اب میری بات کان کھول کر سن لو دیکھو میرے سامنے تمہارا یہ رونا بلکل بیکار ہے اب ہم اسلام آباد آچکے ہیں اگر تمہیں یہ لگتا ہے نہ کہ تمہارا یہ رونا دھونا دیکھ کر میں تمہیں واپس لے جاؤں گا تو تمہاری بھول ہے تم اب کراچی واپس جانے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دو ۔۔
اس لیے اب پلیز میرے سامنے یہ رونا دھونا بند کرو زہر لگتی ہیں مجھے روتی ہوئی عورتیں ۔۔۔
میں واپس آؤں نا تو مجھے تمہارا روتا ہوا منہ نا دکھے ۔۔۔
اور ہاں جتنا جلدی ہوسکے اب تم ان لوگوں کو بھول جاؤ میں اب مزید اپنی اور تمھاری زندگی میں ان لوگوں کا دخل برداشت نہیں کرسکتا اور نا ہی یہ چاہتا کے تم انکا ذکر کرو اب میرے سامنے خاص طور پر وہ گھٹیا بھائی ہے جو تمہارا اسکا نام تم میرے سامنے نا ہے لینا تو اچھا ہے ۔۔۔
زاویار غصّے میں باہر نکل گیا ۔۔۔
اس کے وہاں سے جاتے ہی زمر کی برداشت بلکل جواب دے گئی تھی ۔۔۔
اب وہ باقائدہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی روتے ہوے وہ بیڈ پر سے اتر کر بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھ گئی اور گھٹنوں پر سر رکھ کر مسلسل ہچکیوں سے روئے جارہی تھی ۔۔
ماما بابا ۔۔۔کہاں ہیں آپ لوگ بابا دیکھیں نا آپ کی شہزادی مصیبت میں ہے بابا بچا لیں مجہے اس ظالم انسان سے بچا لیں ۔۔۔
اسے کچھ ہوش نا تھا دوپٹہ بیڈ پر پڑھا تھا
بکھرے بالوں اور کامپتے وجود کے ساتھ وہ گھٹنو پر سر ٹکا کر روتے ہوے بولے رہی تھی ۔۔۔۔۔Continued......