زاویار لان میں بیٹھا چاۓ کا
کپ ہاتھ میں پکڑے گہری سوچ میں تھا پھر پھر آگے ہوکر میز سے اپنا فون اٹھایا اور شازل کو کال کی ۔۔۔
زاویار کی نظر فون پر تھی
کافی دیر بعد دوسری طرف سے کال پک کی گئی ۔۔۔۔
وعلیکم اسّلام ہاں کیا حال ہے جناب ۔۔۔
زاویار نے چاۓ کا کپ میز پر رکھتے ہوے کہا ۔۔۔۔
بس یار تو سنا ۔۔۔۔
شازل نے مختصر جواب دیا ۔۔۔
اچھا آنٹی کی طبیعت کا بتا کیسی ہیں اب ۔۔۔
بس ٹھیک ہیں یار کیسا ہونا ہے انہونے
وہی حال ہے انکا ۔۔۔۔
پتا نہیں کب ختم ہو گی یہ آزمائش ۔۔
شازل کی ایسی باتوں پر زاویار سوچ میں پڑ گیا اسکے خیال کے مطابق اس وقت زمر کے بارے میں معلوم ہونے پر
شازل کا یہ رویہ نہیں ہونا چایئے تھا ۔۔۔
یار تو مایوس نہ ہو یہ بتا کے زمر کے بارے میں کوئی خبر ملی کچھ معلوم ہوا کے وہ کہاں اور کس کے ساتھ ہے ۔۔۔
نہیں یار اگر کچھ پتا چلتا تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا کوئی جگا نہیں چھوڑی یار ہم نے اسکی تلاش میں پتا نہیں کہاں ہے کس حال میں ہے کچھ نہی معلوم ہمیں ۔۔۔۔
زاویار کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔
شازل نے تو اپنے دوست سے دکھ
بانٹا تھا مگر زاویار کہاں اب شازل کو دوست سمجھتا تھا ۔۔۔
یار شازل تو پریشان نہ ہو ۔۔۔۔
دیکھ تو نے بلکل بھی ہمّت نہیں ہارنی خود کو سمبھال یار اللّه بہتر کریگا ۔۔۔
انشاءاللّه
شازل نے جوابن کہا ۔۔۔
اور بتا یشمل والے معملے کا کیا ہوا ۔۔۔
زاویار کی خاموشی دیکھ کے شازل نے مجبورن پوچھنا چاہا ۔۔۔
ہاں یار تو اسکی فکر نہ کر تو اس وقت اپنے مسائل دیکھ
گھر والوں کا خیال رکھ وہ تو میں دیکھ لونگا یشمل کا جوقاتل ہے اسکو تو میں اسکے انجام تک پہنچا کے رہونگا ۔۔۔۔
تو نے بلکل ٹینشن نہیں لینی ٹھیک ہے ۔۔۔۔
زاویار اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے
بہت اچھی ایکٹنگ کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔
شازل نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔
ہاں اوکے اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔
اللّه حافظ
شازل نے کہتے ہی کال کٹ کی ۔۔۔
شازل فکر نہ کرر انجام تک تو تجھے میں پہنچا کے ہی رہونگا ۔۔۔
زاویار بے ساختہ ہنسا اور زمر کا خیال آنے پر وہاں سے اٹھا اور اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
زمر۔۔۔۔۔
زاویار نے جلدی میں کمرے کا دروازہ کھولتے ہی زمر کو پکارا اور اسے فرش پر بیٹھ کے روتا دیکھ کر اسکی طرف بڑھا ۔۔۔
اوہ ہو زمر رونا بند کرو کرو اٹھو میری بات سنو ۔۔۔
زاویار اسکے پاس جاکر کھڑا ہوا ۔۔۔
زمر آنسوؤں سے بھیگی پلکیں اٹھا کر خوف زدہ ہوکر اسکو دیکھنے لگی ۔۔۔۔
افف کیا دیکھ رہی ہو اٹھو یار ۔۔۔۔۔
زاویار نے جھک کر اسکو دونوں بازؤں سے پکڑ کے اٹھایا اور اسی طرح سے پکڑے بیڈ کے پاس لایا اور اسکو بٹھا کر خود بھی اسکے پاس بیٹھا ۔۔۔
اب رونا بند کرو اور چپ چاپ میری بات کا جواب دو ۔۔۔
زمر سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھنے لگی ۔۔۔
تم نے علینا سے فون لیکر کس کو کال کی تھی؟
زاویار نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔۔۔
بولو زمر ۔۔۔۔۔کس کو کال کی تھی
کس سے اور کیا بات ہوئی تمہاری ۔۔۔
جواب دو مجہے زمر ۔۔۔۔۔
زمر کو خاموش دیکھ کر زاویار کو پھر غصّہ آیا تھا ۔۔۔
مم ۔۔۔میری کسی ۔۔۔سے کوئی بات نہیں ۔۔۔۔نہیں ہوئی ۔۔۔
زمر نے رک رک کر جواب دیا ۔۔۔۔۔
جھوٹ مت بولو زمر ۔۔۔۔۔۔
زاویار بیڈ سے اٹھ کر چلایا تھا ۔۔۔
جب تمہاری کسی سے بات نہیں ہوئی تو علینا سے فون کیوں لیا تھا تم نے ۔۔۔۔۔
دیکھو زمر میری ڈھیل کا ناجائز فائدہ نا اٹھاؤ میں آخری بار پوچھ رہا ہوں سچ سچ بتا دو کہیں تم نے ۔۔۔
زمر کہیں تم نے اپنے اس ناکام عاشق کو ۔۔۔۔
میں بتا رہا ہوں زمر اگر ایسا کچھ ہوا نہ تو اچھا نہیں ہوگا یاد رکھنا ۔۔۔۔۔
کس کو کال کی تم نے بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔
زاویار دهاارا تھا ۔۔۔۔
میں جھوٹ ۔۔۔۔جھوٹ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بولرہی ۔۔۔۔
کسی کو ۔۔۔ کال نہیں کی ۔۔۔۔میں ۔۔نے ۔۔۔۔
زمر پھر رونے لگی تھی ۔۔۔۔۔
اچھا چلو مان لیتا ہوں ۔۔۔۔مان لیتا ہوں کہ تم نے کسی کو کوئی کال نہیں کی ۔۔۔
مگر پھر تمہارا علینا سے فون لینے کا کیا مقصد تھا ۔۔۔۔
فون کیوں لیا تھا زمر اسکا جواب دو مجھے ۔۔۔۔۔
زاویار اب اسکے پاس بیٹھ کے بولا ۔۔۔
وہ میں نے ۔۔۔۔۔ علینا سے فون ۔۔۔. اس لیئے لیا تھا کے۔۔۔۔مجھے گھر کال کرنی تھی ۔۔۔۔ماما بہت ۔۔۔یاد ۔۔۔۔آرہی تھیں ۔۔۔۔
مگرر ۔۔۔۔
مگرر کیا بولو ۔۔۔۔۔
مگر مجھے گھر میں ۔۔۔۔۔۔کسی کا ۔۔۔فون نمبر نہیں یاد تھا ۔۔۔۔۔
تو۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔ نے علینا کا فون ۔۔۔۔۔اسکو
واپس ۔۔۔۔
زمر نے روتے ہوے اسکو تفصیل بتائی ۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا
زمر کے خاموش ہونے پر زاویار کا زور دار قہقہ ہوا میں بلند ہوا ۔۔۔۔
افف ۔۔۔ میری معصوم زمرررررر ۔۔۔
پتا ہے آج پہلی بار مجھے تمہاری معصومیت پر غصّہ آنے کے بجاے فخر ہورہا ہے ۔۔۔۔
اچھا چلو اب رونا بند کرو ۔۔۔۔
زاویار نے زمر کے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوے کہا ۔۔۔
صبح صبح موڈ خراب کردیا تھا سارا ۔۔۔
زاویار نے منہ بنا کر شکوہ کیا ۔۔۔۔
زمر خاموش رہی ۔۔۔
چلو اب میں فریش ہو لوں پھر ساتھ ناشتہ کرینگے ۔۔
زاویار اٹھنے لگا تو اسکی نظر زمر کے
ماتھے پر پڑی جوسوجن سے لال ہورہا تھا ۔۔۔
یہ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔
اسنے زمر کے بالوں کو پیچھے کرتے ہوے کہا ۔۔۔
تو زمر کرہ کر پیچھے ہوئی ۔۔۔
کیا لگا ہے یہ زمر بتاؤ ۔۔۔گری ہو کہیں ؟؟
زاویار کو پریشانی لاحق ہوئی ۔۔۔
زمر کے جواب دئیے بغیر وہ وارڈروب کی طرف گیا اور فرسٹ ایڈ نکال کر لایا زمر کے پاس بیٹھ کر اس میں سے ایک جيل نکالی اور اپنے ہاتھ سے زمر کے ماتھے پر لگانے لگا ۔۔۔۔
زمر نے تکلیف ہونے پر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔
زیادہ درد ہورہا تو چلو اٹھو ڈاکٹر کے پاس چلو ۔۔۔
نہیں ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔
زمر فورن بولی ۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح ابھی بھی ڈاکٹر کے نام سے زمر کی جان جاتی تھی ۔۔۔
کیا لگا تھا یہ ۔۔۔
صوفے کا ہینڈل ہینا ۔۔۔۔۔
زمر کے جواب سے پہلے ہی زاویار نے بولا ۔۔
جی ۔۔۔
زاویار کو خود ہی سمجھ آگیا تھا کے زمر کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔۔۔
اسنے جیل واپس باكس میں رکھا اور
زمر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
I'm really sorry zimr ...
میں نہیں چاہتا یار ایسا کرنا مگر کسی نہ کسی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے
میرا یقین کرو میں جان بوجھ کے تمہیں تکلیف نہیں دیتا ۔۔
میں تمہیں تکلیف دینے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔
اچھا تم ریسٹ کرو میں فریش ہو کر ناشتہ اپر ہی منگوالونگا ۔۔۔
چھلو اٹھو ۔۔۔۔
لیٹ جاؤ اور اب بیڈ سے نیچے نہیں اترنا ۔۔۔
زاویار نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسکی جگا پر لے جاكر بٹھایا ۔۔۔
تکلیف اور گرنے کی وجہ سے زمر کو بھی جسم ٹوٹتا محسوس ہورہا تھا وہ واقعی اس وقت آرام کرنا چاہرہی تھی ۔۔۔
اس لئے وہ بھی لیٹ گئی زاویار نے اسکو لحاف اوڑھایا اور فریش ہونے چلا ہے گیا ۔۔۔۔
.....................
شام کے ساڑھے پانچ بجے جبران ہاؤس میں روز کی طرح آج بھی سب موجود شازل ور زرہان تو گھر سے باہر ہی تھے وہ دونو رات کو واپس آتے تھے ۔۔۔
جبران صاحب آج گھر میں ہی موجود تھے ۔۔۔۔
مشعل کے والدین ہارون صاحب اور الوینا صاحبہ بھی یہیں آئے ہوے تھے
سب اکھٹے ہی ڈرائنگ روم میں بیٹھے
تھے ۔۔۔
مشعل کچن میں سب کے لئے چاۓ بنا رہی تھی ۔۔۔
عالیہ بیگم خاموشی سے بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں جب کے الوینا اور بتول بھی بیٹھے باتیں کرہے تھے
جبران صاحب اور ہارون صاحب اسکی تلاش کے بارے میں ہی مشورہ کرہے تھے ۔۔۔
ایک ہفتے سے جبران ہاؤس کا یہی معمول بن چکا تھا ۔۔۔
مگر آج کچھ مختلف ہونے والا تھا ۔۔۔
جبران صاحب ایک فیصلہ کر چکے تھے ۔۔۔۔
جسکے بارے میں وہ ہارون صاحب کو آگاہ کر چکے تھے ۔۔۔
اور حالات کی مناسبت سے الوینا صاحبہ اور ہارون صاحب کو انکے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔۔۔
اور وہ فیصلہ مشعل کی رخصتی کے حوالے سے تھا۔۔۔
اور آج یہاں بیٹھ کے کے سب کی مجودگی میں رخصتی کا دن طے ہونا تھا۔۔. .
عالیہ بیگم کی حالت کو دیکھتے ہوے جبران صاحب کا خیال تھا مشعل کی مجودگی انکے لئے بہت اہم ہے کیوں کے وہ زمر کی دوست ہونے کی وجہ سے عالیہ بیگم کے قریب تھی ۔۔۔
مگر شازل اس بات سے بیخبر تھا ۔۔۔
سب کا خیال تھا کے اسے کوئی اعتراض نہی ہوگا ۔۔۔۔
میرے خیال سے اس جمعہ کو عصر کے بعد کا وقت ٹھیک رہے گا ۔۔۔
آپ کا کیا خیال ہے ۔۔
جبران صاحب نے اپنی راۓ ہارون صاحب کے آگے رکھ کے کہا ۔۔۔۔
جی بلکل مناسب ہے ۔۔۔۔
ہارون صاحب نے مشعل کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ لیتے ہوے کہا ۔۔۔
میری زمر کے کتنے ارمان تھے بھائی سر پر سہرا سجانے کے ۔۔۔
آج سب کچھ اسکے بغیر ہورہا ہے اسے تو معلوم بھی نہیں ہوگا کے اسکی پکی سہیلی کی رخصتی کا وقت مقرر بھی ہوگیا۔۔۔۔
عالیہ بیگم دکھی لہجے میں بولی ۔۔۔۔
بھابی اگر زمر بیٹی یہاں موجود ہوتی تو یہ سب اس طرح نہ ہوتا جس طرح طے پایا ہے سب بہت مختلف ہوتا ۔۔۔۔ہماری دعا ہے کہ بچی جلد واپس آجاے پھر ساری خوشیاں ویسے ہی منائیں گے ہم ۔۔۔
ہارون صاحب نے کہا ۔۔۔
انشااللہ ۔۔۔
جبران صاحب بھی بولے ۔۔۔
عالیہ بیگم اپنی نم آنکھیں صاف کرنے لگی ۔۔۔