#میں_لاپتا
#فاطمہ_نیازی
قسط نمبر 1اس کہانی کا آغاز ہوا کراچی کے ایک پسماندہ علاقے میں۔روشنیوں کے شہر میں ایسی ہزاروں تاریک گلیاں ہیں جہاں ایسی تاریکیاں بہت عام ہیں۔دلشاد نگر بھی ایسے ہی علاقوں میں سے ایک تھا۔جہاں ایسی تنگ و تاریک گلیوں کی بھرمار تھی۔کب کس پہر ان تاریک گلیوں میں دو گروہ آپس میں بھڑ جائیں کوئی بھروسہ نہ تھا۔بوری بند لاشیں روز کا معمول تھیں۔یہاں دن دہاڑے ماحول گولیوں کی ترتراہٹ سے گونج اٹھتا کسی کو چنداں فکر نہ ہوتی ۔رہائشی فقط بچوں کو پکڑ کر گھر میں بند کردیتے اور کچھ گھنٹوں بعد سناٹا ہوتے ہی معمولات زندگی پھر سے رواں دواں۔۔
حیدر خان بھی ان تنگ تاریک گلیوں میں پل کر جوان ہوا تھا۔آٹھویں پاس حیدر کی عمر اب تیس ہوچکی تھی۔اس کی رنگت جو کبھی صاف ہوا کرتی تھی آج جل چکی تھی۔بال آگے سے اڑچکے تھے۔آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں چہرے پر جابجا نشانات تھے۔وہ ایک ٹانگ سے معذور تھا۔اس کی ریڈھ کی ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ایک ہاتھ کام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا تھا۔ایسا کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔جس کو سننے کے لیے ایک سخت جگر چاہیے۔
**********
دلشاد نگر فقط دلشاد نگر کے باہر والوں کے لیے ایک دل لرزادینے والا علاقہ تھا۔ایسا کیوں تھا اس کی بڑی وجہ تھی۔کراچی پر ستر سالوں سے کبھی ایم کیو ایم تو کبھی پی پی پی کا غلبہ رہا ہے۔ایم کیو ایم آج تو کراچی میں تقریبا اپنا اثر رسوخ کھوچکی ہے لیکن آج سے دس پندرہ سال پیچھے جائیں تو وہ کراچی کی کرتادھرتا تھی۔شروع سے کراچی کے کچھ حصے پی پی پی اور کچھ ایم کیو ایم کے پاس رہے ہیں ۔اختلافات اتنے تھے کہ آئےروز ہنگامے فائرنگ کے واقعات عام بات تھی۔کچھ علاقے ایسے بھی تھے جہاں پر آدھا حصہ پی پی پی کا تو آدھا ایم کیو ایم کا ہوا کرتا تھا۔اصل ہنگامے اور مار ڈھار خاص طور پر ان ہی علاقوں میں ہوا کرتی تھی۔دلشاد نگر بھی ایسے ہی علاقے میں سے ایک تھا جہاں ایک طرف ایم کیو ایم کے گروپ تھے تو دوسری طرف پی پی پی کے۔۔پی پی پی کے لوگ اس طرف نہیں جاسکتے تھے ایم کیو ایم کے لوگ اس طرف ۔۔کراچی کے خطر ناک ترین علاقوں میں سے ایک علاقہ دلشاد نگر تھا۔ جہاں جانے کے نام سے لوگ کانپ اٹھتے تھے۔یہاں ہر جرم کیا جاتا تھا۔چوری چکاری عام تھی۔نشے کے اڈے ہر گلی میں موجود تھے۔پوش علاقوں کے رئیس رات کے آخری پہر یہاں آکر نشہ کرتے تھے۔یہاں ہر گروپ کا ایک سربراہ ہوا کرتا تھا۔جن پر ہاتھ ڈالنے سے پولیس تک کتراتی تھی۔نشہ سپلائرز اسی علاقے کے نوجوان ہواکرتے جنھیں پولیس ان کے سربراہ کے نام سن کر ہی چھوڑ دیاکرتی کیوں کہ پولیس کا اپنا کمیشن ان گینگ کے لوگوں سے جڑا ہوا تھا۔حیدر خان بھی ایسے ہی گینگ کا اہم کارندہ تھا۔ تئیس سالہ خوبرو جوان ۔نادر پنچولی کا خاص لڑکا تھا۔ خاصیت یہ تھی کہ یہ بہادر ہونے کے ساتھ چالاک اور ہوشیار لڑکا تھا۔نادر پنچولی کا قریبی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے میں بھی خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ وہ جب چاہتا کسی سے کوئی بھی کام لے لیتا اس کے پاس ایک ہیوی بائیک تھی جس کی پشت پر "پنچولی گینگ" جلی حروف میں درج تھا۔اسے علاقے کی پولیس پہچانتی تھی اور کام آسان! کام کیا تھا؟ ڈرگ سپلائی۔اغواء برائے تاوان، لوگوں کو ڈرا دھمکاکر رکھنا۔۔یہ اس کے پیشہ ور جرائم تھے۔جنھیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر کرتا تھا۔لیکن یہی پر بس نہیں تھی۔اس کہ کچھ اور بھی سرگرمیاں تھیں۔اور وہ تھیں اس کی رنگین مزاجی! بانکپن میں اپنی مثال آپ تھا۔ماں باپ کون تھے کوئی نہیں جانتا تھا وہ بچپن سے اسی علاقے میں دیکھا گیا تھا۔ سب اسے نادر پنچولی کے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے جانتے تھے۔ان کی شکلوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔نادر پنچولی گہری سیاہ رنگت سانڈ جیسے جسم چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا پینتالیس سالہ مرد تھا۔جبکہ وہ ایک خوبرو نوجوان تھا۔صاف چمکتی رنگت بڑی بڑی آنکھوں والا صحت مند جوان تھا۔علاقے کی ہر وہ لڑکی جسے وہ پسندکرلیتا اس سے دوستی کرلیتی تھی۔کسی کو تو کیا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے کتنی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات رہے تھے۔اس کا حساب اس نے کبھی رکھا ہی نہیں۔
اس وقت وہ اپنی مخصوص جگی نما جگہ پر موجود تھا۔یوں تو اس کے پاس ایک فلیٹ تھا جو دلشاد نگر کے ذرا فاصلے پر موجود تھا۔اسی بلڈنگ میں نادر پنچولی کا اپارٹمنٹ بھی موجود تھا جس میں وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔تیرہ سال کی عمر تک وہ نادر پنچولی کے ساتھ ہی رہا تھا لیکن اس کی شادی کے بعد اس نے الگ رہنا شروع کردیا تھا۔پیسے کی کمی نہیں تھی۔وہ ہی تو تھا جو نادر پنچولی کو کماکردیا کرتا تھا۔ بھتہ لینے جاتا تو پہلی پرچی پر ہی اس کی جیبیں بھردی جاتی تھیں۔کیوں کہ وہ انتہا کا ظالم اور بدلحاظ تھا۔غلیظ گالیوں میں تو اس نے جیسے پی ایچ ڈی کررکھی تھی۔ماں بہن کی گالیاں اس کے لیے ایک عام بات تھی۔وہ، بات بعد میں فائر پہلے کیا کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ سارا علاقہ اس سے دب کررہتا تھا۔باقی گینگ کے کارندوں سے تو علاقہ مکین مذاق اور بات چیت کر لیا کرتے تھے لیکن حیدر سے سب دور دور ہی رہاکرتے تھے۔کیوں کہ وہ انسان کے روپ میں جانور جیسا تھا۔عورت اس کے لیے فقط ہوس پوری کرنے کا سامان تھی۔وہ اس سے زیادہ کے تعلق پر یقین رکھنے کا حامل نہیں تھا۔
"حیدر تجھے لالہ نے جگہ پر بلایا ہے۔وہ چٹا ہے نا اس کو پکڑ کے لائے ہیں آج ۔۔کڑک مار مارنی ہے۔سالہ چوبیس دن اوپر ہوگیا ہے پیسہ نہیں، دیا مال برابر لے کر جاتا ہے۔"محسن نے اسے اطلادی
"ہائے آج تو بڑا مزہ آنے والا ہے ۔۔بڑے دن ہوگئے ۔۔ہاتھ میں گرمی نہیں چڑھی ۔سالے کی آج ساری ہڈیاں توڑ دیں گے۔"ابھی وہ بولا ہی تھا جب اس کا فون بجنے لگا۔اسکرین پر روزی نام چمک رہا تھا۔
"ہاں بول جانو! کیا بات ہے؟ "اس کے آنکھ دباتےہوئے محسن کی طرف دیکھ کر کہا۔
"آپ آئے نہیں ۔میں انتظار کررہی ہوں۔"دوسری طرف سے نسوانی آواز آئی۔
"ارے۔میں تو بھول گیا یار جانو معاف کردے۔کل ملتے ہیں چل فون رکھ بات کرتا ہوں آکے۔"حیدر نے فون رکھا۔
"یہ وہی ہے نا باصد کی چھوٹی بہن؟ "محسن اور وہ کہتے ہوئے باہر آئے۔
"ارے چھوٹی ہے یا بڑی میرے کو کیا لینا دینا۔۔ہاں مال بڑھیا ہے ویسے۔۔"خباثت سے ہنستا وہ اپنی بائیک کی جانب بڑھنے لگا۔محسن بھی ہنستا ہوا اس کے ساتھ بائیک پر بیٹھا اور وہ دونوں وہاں سے اڈے کی طرف نکل گئے۔
*************
جاری ہے