میرا ہمسفر میرا راہنما 🌺🍁
~•بقلم لائبہ احمد•~یااااار!
نہیا نے ٹانگوں کو سیدھا اور ہاتھوں کو اوپر کرتے ہوئے انگڑائی لیتے ہوئے بولا تھا. وہ پلین گلابی قمیض اور شلوار میں ملبوس تھی البتہ دوپٹہ سفید رنگ کا تھا. جوکہ کاندھے پر ہی پڑا ہوا تھا. اور لال بال شان بے نیازی یا اذلان کی زبان میں شان ڈھٹائی سے کمر پر کھلے چھوڑ رکھے تھے. وہ اس وقت حسان ویلا میں نازلی سمیت موجود تھی. گھر پر نین اور ان دو کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا. اس لیے وہ ٹی وی لاؤنج پلس ڈرائینگ روم میں ڈیرہ جمائے بیٹھی تھیں.
حسان صاحب اور فاطمہ بیگم تو کسی بزنس پارٹی کو اٹینڈ کرنے گئے ہوئے تھے. جبکہ اذلان باقی کے دو نمونوں کے ساتھ کسی ٹرپ پر گیا ہوا تھا.
نازلی نے اپنے بائیں جانب موجود صوفے پر بیٹھی نیہا کو ایک لمحے کے لیے ٹیڑھی نظر کر کے دیکھا تھا. پھر نظریں واپس موڑ لیں تھیں. اس نے بلیو جینز پر آسمانی رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی اور اس رنگ کا دوپٹہ گلے میں پڑا تھا. کالے بال جوڑے میں مقید تھے. وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنائے ان پر اپنی تھوڑی ٹکائے ہوئے بیٹھی تھی.
نین ان دونوں سے بے نیاز 75 انچ کی ایل-ای-ڈی پر نیٹفلیکس لگائے اس پر کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی. اس نے بھی نیہا جیسے ہی کپڑے پہن رکھے تھے. بس بال حجاب کی مدد سے چھپا رکھے تھے. اس نے ایک ہاتھ کی مٹھی بنائی ہوئی تھی جس پر اس نے اپنی تھوڑی ٹکائی ہوئی تھی اور ایک ہاتھ میں ریموٹ پکڑ رکھا تھا.
"یارررر! تم دونوں کو کہہ رہی ہوں؟ سن لو کب سے ڈھونڈے جا رہی ہو لگا لو کچھ." نہیا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تھا. اب وہ صوفے سے ٹیک لگائے پاؤں سامنے میز پر رکھے بیٹھی تھی.
"اتنا ہو رہا ہے تو تم بتا دو نا." نازلی نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا.
نین البتہ اپنے کام میں مصروف رہی تھی.
"اچھاااا میں بتاؤں." نیہا نے سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا تھا.
"بلو رانی جہاں تک بات میرے بتانے کی ہے نا میں نے کتنی دفعہ کہا کہ یہ لگا لو یا وہ لگا لو مگر تم دونوں ہی نہیں مان رہیں." وہ منہ پھلا کر بولی تھی.
"تو تم نے بتائی بھی تو ایسی چیزیں ہیں نا کہ بندے کا دل ہی خراب ہو." نازلی نے اترا کر جواب دیا تھا.
"ہاں بھائی اب تو ہم ہی برے بنیں گے. "
"ضرورت نہیں ہے وہ تم پہلے سے ہی ہو."
"بکواس مت کرو نازلی. " دانت پیستے ہوئے کہا تھا.
" میں تو کروں گی میری بکواس میں کروں نہ کروں تمہیں کیا." آنکھیں مٹکا کر جواب دیا تھا.
"تم سمجھتی کیا ہو خود کو ہاں. میں نے بتایا تھا نا نہیں سنا تم نے اپنی مرضی جو کرنی ہے تم نے. تو یہی ہو گا نا. "
"شکریہ ہمیں نہیں تمہاری مرضی کا کچھ دیکھنا اتنی فارغ چوائیس کو ہم منہ نہیں لگاتے. "
"میری چوائیس فارغ ہے میری. "
"ہاں ہاں تمہاری. "
"تم پدی سی.... " ابھی اس کا جملی مکمل نہیں ہوا تھا کہ مقابل سے سچائی برداشت نہ ہو پائی اور وہ سلگتے ہوئے بولی:
"کیا پدی؟ کون؟ میں؟"
"جی آپ"
نازلی کو غصہ ٹکا کے آیا تھا دوسری جانب رقیب اس کی حالت سے خوب محفوظ ہو رہا تھا.
"تم تم تم پھینی."
نازلی نے اس کی دکھتی رگ کو پکڑا تھا. کیونکہ نیہا اپنی ناک کو لے کر ہمیشی سے کانشس رہی تھی. اس کی ناک اتنی پھینی نہیں تھی مگر سب اس کو کہتے تھے بلا وجہ.
"آآآآآ نازلی. " نیہا غصے میں دانتوں کو جوڑ کر بولی تھی.
"تم پدی"
"تم پھینی. "
"تم پدی. "
تم پھینی. "
ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو چکی تھی جسے نین کی آواز نے توڑا تھا جو اب تک ان دونوں سے لاتعلق بیٹھی کوئی اچھی فلم ڈھونڈ رہی تھی.
"مل گیا مل گیا." وہ خوشی سے اچھلنے ہی لگ گئی تھی.
"کیا ملا؟" نازلی نے پوچھا تھا.
"باس بےبی کا سیزن مل گیا. ہوررررےےےےے! " نین نے خوش ہوتے ہوئے کہا تھا.
"اوئےےےےے جیو ہماری دوست." نیہا نے جذبات میں آکر چیختے ہوئے کہا تھا.
"دیکھ کیا رہی ہو لگاؤ بھی. " یہ نازلی تھی.
"لگایا ہے لوڈنگ تو ہونے دو. " نین نے فوراً جواب دیا تھا.
"لڑکوں کا بھی پتہ کرو. " نازلی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا.
"کیا کہ کہیں وہ میری کالی زبان کا شکار تو نہیں بن گئے. " نیہا نے اس سے پوچھا تھا.
"ارے نہیں یہ کہ وہ ہیں کہا مجھے یقین ہے جس زور سے نازلی نے انہیں بد دعائیں دی تھیں نہ ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ برا ضرور ہوا ہو گا. " نازلی نے ہنستے ہوئے کہا تھا.
"ہمیں کیا فائیدہ ہمارا ہی ہو گا اگلی بار ساتھ لے کر جائیں گے. " نین نے سامنے پڑے ہوئے چپس کو باؤلز پاس کرتے ہوئے کہا تھا.
ان کے سامنے موجود میز پر جس پر کچھ دیر پہلے تک ایک طرف نیہا بی بی ٹانگیں رکھے بیٹھی ہوئیں تھی. اس پر چپس کے کافی سارے پیکٹس موجود تھے. جن میں سے آدھے انہوں نے کھول لیے تھے.
"ہممم" نازلی اور نیہا نے یک زبان ہو کر آواز نکالی تھی.
"یار اماں کی کال آئی تھی. وہ کہ رہیں رھی جلدی آنا. مطلب زیادہ بھی دیر کی تو سات بجے تک اندھیرا ہو جاتا ہے تو آجانا. ویسے بھی میں گیارہ بجے کی آئی ہوئی ہوں اور اب دو بج رہے ہیں. اماں کو زیادہ دیر اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تو پلیز پانچ بجے تک گھر ڈراپ کر دینا. " نیہا نے فکر مندی سے بولا تھا مگر منہ میں چپس ٹھونس رکھی تھی.
"ہاں میری جان چھوڑ دیں گے نہ. فکر کیوں کرتی ہے. " نازلی نے کہا تھا نین نے اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے سر کو ہاں کے انداز میں جنبش دی تھی. وہ تینوں باس بے بی دیکنھے میں محو ہوچکی تھیں. حلانکہ یہ سیریز اور مووی وہ پہلے بھی کئی بار دیکھ چکیں تھیں مگر پھر بھی ہر بار دیکھنا انہیں اچھا لگتا تھا. باہر سورج کی روشنی میں حسان ولا کا سفید سنگ مرمر چمک رہا تھا. تبھی اندر سے آواز آئی تھی: "مجھے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا ہے یار لڑکوں کے ساتھ کچھ ہو گیا ہے. " یہ نیہا کی آواز تھی.
"کوئی نہیں تم بس چپ کر کے باس بے بی دیکھو. " یہ نازلی تھی. لان میں لگی گھاس ہلکی ہلکی ہوا کے سُروں پر رقصاں تھی اور سورج پر زور آب و تاب سے چمکتے ہوئے اس لمحے کی معصومیت اور خوبصورتی کی دہائی دے رہا تھا.
........................................................................
"نیہااااااا تمہارا بیڑہ غرق ہو. "
اذلان گاڑی کی بیک سیٹ پر شاک کے عالم میں بیٹھا نیہا کو کوس رہا تھا. گاڑی کے انجن میں سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آ رہا تھا.
"میں کہہ رہا تھا اس بی بی کو ساتھ لے لو ورنہ ایسی بد دعائیں دے گی نا کے سارا مزہ خراب ہو جائے گا اب بھگتو. "
ہاتھوں کو صدمے کے سے انداز میں پھیلا کر کہا تھا.
"تم دونوں کچھ بولو گے یا نہیں. " ہوش میں آتے ہی اس نے آگے ہو کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی شخصیات سے ان کی رائے لی تھی.
اذلان نے آدھے بازوؤں اور گول گلے والی بلیک ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جو اس کے سانولے رنگ کو مزید پرکشش بنا رہی تھی. ساتھ اس نے بلیک ہی پینٹ مگر سفید جاگرز پہن رکھے تھے. ہلکے گھنگریالے بال ماتھے پر ایک ادا سے پڑے ہوئے تھے. وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا.
اس نے اپنی پوزیشن کو برقرار رکھتے ہوئے ان دونوں کی طرف دیکھا تھا جو ابھی تک شاک کی کیفیت میں منہ کھولے اپنی تباہی کا سامان دیکھ رہے تھے. تنگ آ کر وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا تھا. دھوپ بہت تیز تھی جس کی وجہ سے اس نے دونوں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر آنکھوں کو تیز روشنی میں چندھیانے سے بچانے کے لیے ایک ننھی سی کوشش کی تھی.
وہ اسی طرح ماتھے پر ہاتھ رکھے آس پاس کا جائیزہ لے رہا تھا. ان کی کالی کرولا اس وقت لاہور موٹروے پر بند پڑی ہوئی تھی.
"پھر تم دونوں میں سے کون آ رہا ہے باہر؟"
اذلان نے ڈرائیونگ سیٹ والی سائیڈ پر جا کر جھک کر اندر دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا تھا.
شہریار نے نظر گھما کر اسے دیکھا تھا. اس نے کالی جینز پر سفید آدھے بازوؤں اور گول ہی گلے کی شرٹ پہن رکھی تھی اور ساتھ کالے جاگرز. کالے بال جیل لگا کر سیٹ کیے ہوئے تھے.
پہلے تو وہ اسے دیکھتا رہا مگر اذلان کے ہاتھ ہلانے پر چونکا تھا. اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو اذلان سائیڈ پر ہو گیا. باہر نکلتے ہی اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تھی.
دور دور تک اکا دکا گاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں. کبھی کبھی کسی گاڑی کے گزرنے کی آواز آ جاتی تھی. ظاہری بات ہے اتنی گرمی میں کون باہر آیے گا وہ بھی جب جب سورج سوا نیزے پر اپنے جلوے دیکھا رہا ہو تو.
"اس کا کیا کریں؟." اس نے اذلان کی جانب دیکھ کر کہا تھا اشارہ حدید کی جانب تھا.
"کیا کیییا کیا کیا؟ کیا کریں؟ کیا کریں؟ بھائی وہ کوئی چیز تو ہے نہیں کے دکان پر لے جا کر دکاندار کو بولیں گے کے اسے صحیح کر دو نا جانے کونسا پرزہ خراب ہے اس کا. "
اذلان نے اسے غصے میں بھرے ہوئے جواب سے نوازا تھا. اب جواب بھی تو ایسا تھا نا جیسے کسی چیز کے متعلق پوچھ رہا ہو.
"بکواس بند کرو اور کچھ سوچ لو. مجھے تو لگ رہا ہے شاک کچھ زیادہ لگ گیا ہے اسے....." شہریار کی بات کو حدید نے گاڑی میں سے چلا کر کاٹا تھا.
"شاک نہیں لگا بلکہ حیرت ہو رہی ہے جس کے ساتھ غصہ بھی آ رہا ہے. " وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے ہی دروازے کو زور سے مارتا ان کی جانب بڑھا تھا.
اس نے بھی بلیک جینز پر ہلکے گرے رنگ کی آدھے بازوؤں اور گول گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی. ساتھ گرے ہی رنگ کے جاگرز بھی پہن رکھے تھے. بال اس نے بھی جیل لگا کے سیٹ کیے ہوئے تھے.
"مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ مطلب کیسے کسی کی زبان اتنی کالی ہو سکتی ہے؟ حد ہے بھائی. "
حدید نے گاڑی کے بونٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر کہا تھا.
"کسی کا تو پتہ نہیں لیکن باجی نیہا کی زبان کے کالے ہونے کی تو گارنٹی ہے نا. جب کوئی غلط بات کہتی ہے وہ پوری ہو جاتی ہے. "شہریار نے دانت نکوس کے کہا تھا.
حدید نے اب گاڑی کا بونٹ کھول لیا تھا وہ دونوں بھی اس کی دیکھا دیکھی اس کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے تھے.
اب وہ تینوں گاڑی کے بونٹ پر جھکے ہوئے تھے.
"یہ ٹھیک نہیں ہو گا ہم سے؟ لمبا کام ہے. " یہ حدید تھا.
"ہاں یار انجن تو سڑ ہی گیا ہے. کوئی مکینیک بلوانا پڑے گا. " شہریار نے بے چارگی سے بولا تھا.
"ہاں تو بلوا لیتے ہیں نا یہ پاس میں ہی ہے مکینیک کی دکان شکر کرو ہم زیادہ دور نہیں پہنچ گئے تھے. "اذلان نے جواب دیا تھا.
"ہاں تو بلا لاؤ نا. "حدید نے کہا تھا.
ہاں یار گرمی بہت لگ رہی ہے. " شہریار نے کہا تھا.
"ایک بار خود کوشش کر لیتے ہیں نا یار. " اذلان نے کہا تھا.
" تو میں کیا کر رہا ہوں. " حدید بولا تھا.
وہ تینوں بونٹ پر جھکے پچھلے آدھے گھنٹے سے اس میں سر کھپا رہے تھے مگر شاید کام ان کے بس کا نہیں تھا. وہ پسینے میں شرابور ہو چکے تھے.ان کی گاڑی ایک سائیڈ پر تھی. بیچ میں حدید تھا جبکہ اس کے بائیں طرف شہریار اور دائیں طرف اذلان تھا. ان کے پاس سے گزرتی گاڑیاں شاید بے حس لوگوں کو اپنے اندر بھرے جا رہی تھیں تبھی کوئی نہیں رک رہا تھا.
"یار مکینیک ہی بلوانا پڑے گا. " حدید نے تھک ہار کر بونٹ نیچے کر دیا تھا.
سامنے سے آتی گاڑی میں بیٹھے نفوس ان کی حالت دیکھ کر زور زور سے ہنسنا شروع ہو گئے تھے. ظاہری بات ہے حالت ہی ایسی تھی ان کی. ان کی شرٹ پر کالے رنگ کے داغ لگ چکے تھے. سب سے زیادہ کارٹون تو شہریار اور حدید لگ رہے تھے. شہریار کی سفید اور حدید کی ہلکے گرے رنگ کی رنگ کی شرٹ پر لگے کالے داغ زیادہ نمایاں ہو رہے تھے. اذلان کی کالی شرٹ پر بھی پتہ چل رہے تھے مگر ان سے کم.
ان کے چہرے بھی کالے ہوئے پڑے تھے. گریس زیادہ ہی لگ گیا تھا.
"ہم کیا جوکر لگ رہے ہیں جو یہ ہم پر ہنس رہے ہیں؟ اذلان نے کوفت زدہ اور غصے والے لہجے میں کہا تھا.
"یہی کہ یہ کارٹون یہاں کر کیا رہے ہیں اور اگر شکل دیکھ لو آئینے میں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کیوں ہنس رہے ہیں؟" حدید نے اس کے منہ کی جانب اشارہ کر کے جواب دیا تھا.
"نیہا کالی زبان ہے تمہاری. " شہریار نے ہاتھ کا مکا بنا کر دوسرے ہاتھ پر مارتے ہوئے کہا تھا.
"اوہ کیا؟ ہاں؟ وہ وہ کالی زبان والی ہے ارے تم ہو گے سمجھے سمجھتا پتا نہیں کیا ہے خود کو.اس کی زبان کالی نہیں ہے دل سے نکلتی ہے ہر بات بس." اذلان نے اس کے کمر میں دھموکا جڑ کر بولا تھا.
"اوہ بھائی کیا بات ہے؟ وہ کالی زبان والی نہیں ہے.ہمممم سب سمجھ میں آ رہا ہے. " حدید جو کہ غصے میں بھرا ہوا تھا اذلان کی بات پر فورا بولا تھا. اس کا غصہ رفوچکر ہو چکا تھا اور اس کی جگہ شرارت نے لے لی تھی.
"اوئے ہوئے چپکے چپکے ہمیں بتائے بغیر. " شہریار نے اذلان کے کاندھے پر اپنا بایاں بازو حمائل کر کے کہا تھا. وہ ٹانگوں کو قینچی کی صورت میں بنائے کھڑا تھا. شرارت تو انگ انگ سے ٹپک رہی تھی.
"ہاں یار یہ تو غلط بات ہے چپکے چپکے بھائی واہ بڑے سیانے نکلے ہو ہیں." حدید نے بھی شہریار کا ساتھ دیا تھا اس نے بھی اپنا دایاں بازو اذلان کے کاندھے پر رکھا تھا.
"شٹ اپ. بکواس مت کرو حد ہے بھائی خود سے کچھ بھی سوچ لیتے ہو. چھوڑو مجھے. "
اذلان نے تلملا کر انہیں جواب دیا تھا وہ آگے ہوا تھا ان دونوں کے بازوؤں کی گرفت سے چھڑوانے کے لیے. مگر شہریار اور حدید نے اسے واپس کھینچ لیا تھا.
"ارے کہاں جا رہے ہو بی بنے. " شہریار نے اس کی تھڑی پکڑ کر کہا تھا.
"نہیں بی بنے نہیں با بنا زیادہ صحیح لگ رہا ہے. ہے نا دولہے میاں اوہ سوری ہونے والے دلہے میاں. " حدید نے بھی اس کی تھوڑی پکڑ کر کہا تھا.
اذلان اچھا خاصا جل بھن گیا تھا.
"چھوڑو مجھے ,چھوڑو مجھے. " اذلان نے ان کا ہاتھ جھٹک کر کہا تھا. مگر بے سود رہا تھا کیوں کہ ان دونوں نے اس کو پھر سے پکڑ لیا تھا.
"ابے کہا جا رہا ہے میرا پیارا دوست دیکھ سچ سچ بتا دے کیا سین ہیں. " حدید نے اس نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے بھینچا تھا.
"ہاں بھائی سب کچھ چھپ چھپ کے چل رہا ہے ہے نا. " شہریار نے اس کے پیٹ میں ہلکا سا مکا مارا تھا جس پر وہ اچھلا تھا.
"ّمیں کہتا ہو چھوڑ دو."اذلان نے بے بسی سے بولا تھا.
"ورنہ ورنہ کیا ہاں؟" شہریار نے اسے تاؤ دیکھائے تھے.
"ہاں نا ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری. سب چھپ چھپا کے...... " حدید کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اذلان نے کاٹ دی تھی.
"کیا ہاں؟ کیا؟ کچھ چھپ چھپا کے نہیں کیا اس کو تو پتہ بھی نہیں ہے وہ تو انجان ہے. میں ہی ہوں جو...... " غصے میں وہ بہت کچھ بول گیا تھا مگر اس کا احساس اسے دیر بعد ہوا تھا.
"اوئےےےےےے , یو ہووووو! " ان دونوں نے اس کی بات پر ایک زور دار نعرہ لگایا تھا.
وہاں سے آتے جاتے ہوئے لوگوں نے ان کو مڑ کر دیکھا تھا.
"نہیں وہ ننننہییں....."
"کیا نہیں نہیں اب تو سب ہاں ہاں ہے. " اذلان کی بات کاٹ کر شہریار نے جواب دیا تھا.
اب وہ دونوں اس کو چھوڑ کر تھوڑا آگے ہو کر بھنگڑے ڈالنے لگے تھے. ان کی اس حرکت پر اذلان نے اپنا گریس زدہ ہاتھ منہ پر رکھ کر اسے چھپانے کی کوشش کی تھی. تنگ آ کر وہ بھاگنے لگا تھا مگر حدید کی نظر اس پر پڑ گئی تھی اور وہ ایک بار پھر ان کی پکڑ میں تھا.
"کہاں دولہے میاں؟ ہممم کدھر جا رہے ہو؟" شرارت سے بھرپور لہجے میں شہریار نے اسے چھیڑا تھا.
"وووہ میں مکیکککیننیککک.... " اذلان کی بات حدید نے کاٹی تھی.
"واہ راہ فرار خود اور الزام مکینیک پر."
"نننہہہں تو."
"ہاں تو. " اب کی بار شہریار نے اس کی بات کاٹی تھی.
"یار چھوڑو گرمی ہے میں جا رہا ہوں مکینیک کو لینے." آخرکار وہ ان سے خود کو چھڑوا کر بھاگ نکلا تھا. لیکن وہ بھی اس کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہ آئے تھے. اسے بھاگتے بھاگتے پیچھے سے ان کی آواز سنائی دی تھی.
"اوہ میرے یار وہ تیرا پیار صدا رہو تم سلامت.
تیرا وہ پیار اور بے شمار ہمیشہ رہے تیرے ساتھ."
ان دونوں نے اس کی ٹانگ کھینچتے کے ساتھ ساتھ گانے کا بھی بیڑہ غرق کر دیا تھا.
"ابے یار." اذلان نے بھاگتے بھاگتے سر پر ہاتھ مار کر کہا تھا مگر وہ ہنس پڑا تھا. اور وہ دونوں پیچھے کھڑے اس کا مذاق اڑا رہے تھے. یہ وقت خوبصورت لگ رہا تھا مگر ہر اچھے وقت پر برے وقت کی نظر رہتی ہے. کبھی کبھار تو بچت ہو جاتی ہے مگر کبھی کبھی بربادی جھولی میں آگرتی ہے.
ٹھیک اسی طرح ایک بد نظر دور کھڑی ایک جیپ میں سے ان کے خوبصورت لمحات کو اپنی نظر بد میں قید کر رہی تھی.
..............................................................
"یار دیر ہو رہی ہے پانچ بج کر سات منٹ ہو رہے ہیں. مجھے گھر چھوڑ دو ورنہ میں خود چلی جاؤں گی. " نیہا نے بےچارے پن سے بولا تھا.
"یار کچھ نہیں ہوتا رکو بس نکل ہی رہے ہیں. " نازلی نے اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈتے ہوئے کہا تھا.
وہ لوگ اس وقت پورچ میں کھڑے تھے.
"نین جلدی کرو نا پلیز. " نیہا اب رونے کو تھی.
"اچھا نا ریلیکس کچھ نہیں ہو رہا. ہم جا رہے ہیں بس رونا نہیں. " نین نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سہلاتے ہوئے دلاسہ دیا تھا.
"مل گئی فائینلی مل گئی. " نازلی نے چابی ہاتھ میں پکڑ کر دیکھاتے ہوئے کہا تھا.
"شکر ہے اللّٰه کا نازلی. " نیہا نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا تھا. "اب چلیں. " اس نے جلدی مچائی ہوئی تھی.
"ہاں ہاں چلو. " نین اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھی تھی.
تبھی گیٹ پر ہارن کے بجنے کی آواز آئی تھی. چوکیدار نے آگے جا کر دروازہ کھول کر گاڑی کو اندر آنے کا راستہ دیا تھا. وہ تینوں گاڑی کی جانب جاتے جاتے رک گئی تھیں اور اندر آتی ہوئی کرولا کو دیکھ رہیں تھیں.
مگر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے نفوس کو دیکھ کر وہ زور سے ہنسی تھی. گاڑی گیٹ سے تھوڑا آگے آ کر ہی رکی تھی.
نازلی نے تو فون نکال کر ویڈیو بنانا شروع کر دی تھی. گاڑی کے رکتے ہی شہریار فرنٹ ڈور کو زور سے کھول کر زور سے مارتا ان کی جانب آیا تھا. وہ سیدھا نیہا کے سر پر جا کھڑا ہوا تھا.
وہ تینوں ہنس رہی تھی مگر اس کے ایسا کرنے پر ان کی ہنسی تھم گئی تھی. وہ غصے میں کھڑا نیہا کو گھور رہا تھا. اس کے پیچھے ہیچھے حدید اور اذلان بھی آ کر کھڑے ہو گئے تھے. نازلی ساری داستان کو موبائل میں محفوظ کرنے کا کام سر انجام دے رہی تھی.
"کیا ہوا ہے؟"نیہا نے ڈرے ہوئے لہجے میں بولا تھا.
"کیا سمجھتی ہو تم خود کو ہاں اتنی بد دعائیں دی ہیں کے کیا بتاؤں. "
شہریار نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا.
"بہت دل سے نکلتی ہے بات تمہاری ہاں."
اس نے اذلان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جس پر اس نے نظریں چرائی تھیں.
"اچھا مطلب میری بات پوری ہو گئی. کیا بات ہے؟ میری تو بات ہی الگ ہے. " نیہا نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے کہا تھا.
"چپ وہ سمجھو جو سمجھانا چاہ رہا ہوں. " شہریار نے اس پر جھکتے ہوئے کہا تھا.
"کیا سمجھانا چاہ رہے ہو؟ کچھ صحیح سے بتاؤ تو نا. " نیہا کی کمر پیچھے کو ہوئی وی تھی.
"چپ رہو گی تو سمجھاؤں گا نا اب بلکل چپ رہنا. "شہریار نے اذلان کو پیچھے کرتے ہوئے بولا تھا جو آگے آ رہا تھا.
نیہا نے اس کو غور سے دیکھا تھا شہریار کی غصے سے کھلی آنکھیں مزید واہ ہوئی تھیں.
"ووہ... " اس نے ابھی بولا ہی تھا جب شہریار نے اس کی بات کاٹی تھی.
"چپ ایک دم چپ. "
حدید تو پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا نازلی کو دیکھ رہا تھا جو ویڈیو بنانے میں مصروف تھی. نین حدید کو دیکھ رہی تھی جو اسے مکمل طور پر نظر انداز کر رہا تھا. اذلان تو بے چارا نیہا کو بچانے کے درپے تھا.
نیہا جس کی کمر پیچھے کو جھکی ہوئی تھی اس نے اپنے اوپر جھکے ہوئے شہریار کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا تھا. وہ بھی آنکھیں اسی کی آنکھوں میں گاڑے کھڑا تھا.
یک دم نیہا نے ایسی حرکت کی تھی کے پہلے تو سب دم بخود ہو گئے تھے مگر پھر ہوش میں آتے ہی ہنسنے لگے تھے.
اس نے ایک دم سے ہی شہریار کو تھوڑا سا آگے ہو کر "بھؤ" کر دیا تھا اور سائیڈ سے پھرتی سے نکل کر دوڑ لگا دی تھی. شہریار اس کی اس حرکت پر ڈر کر اچھل پڑا تھا. اس کے بعد وہ آگے آگے تھی اور شہریار اس کے پیچھے پیچھے اور اذلان ان کے بھی پیچھے پیچھے.
کافی دیر کی بھاگ دوڑ کے بعد اذلان نے شہریار کو دبوچ کر روک لیا تھا اس میں حدید نے بھی اس کی مدد کی تھی. نازلی تو اب فون کو ہاتھ میں پکڑے ہنستے ہوئے کچھ ٹائیپ کر رہی تھی. نین نیہا کو پانی پلا رہی تھی جس کا سانس اتھل پتھل ہوا پڑا تھا.
لڑکے اندر کی جانب چلے گئے تھے ظاہری بات ہے جیسی ان کی حالت تھی اس سے چھٹکارا پانا بھی تو ضروری تھا نا. اور اس کارٹون جیسے حلیے میں تو وہ گھوم پھر نہیں سکتے تھے نا.
ان کے اندر جانے کے بعد وہ تینوں بھی گاڑی کی جانب بڑھی تھیں. نازلی مسلسل فون میں لگی چلتی ہوئی آ رہی تھی تبھی وہ نین کے ساتھ بری طرح ٹکرائی تھی.
"اندھی ہو کیا؟ پاگل. " نین نے کمر کو سہلاتے ہوئے کہا تھا. نیہا تو گاڑی میں بیٹھ چکی تھی کیوں کی اسے گھر جانے کی جلدی تھی اور چھ بج چکے تھے اور اس کے گھر کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا.
"سوری یار." نازلی نے خجالت سے ہنستے ہوئے کہا تھا.
نین "اٹس اوکے" کہہ کر کار میں بیٹھ گئی تھی. بیٹھتے ہی اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی تھی. نازلی نے کار کے سٹارٹ ہونے کی آواز کو سنتے ہی بیٹھنے میں ہی عافیت سمجھی تھی. نین ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی جبکہ نیہا اس کے ساتھ اور نازلی پیچھے بیٹھی ہوئی تھی.
ان کی گاڑی حسان ولا سے نکل ہی رہی تھی جب اذلان کے کمرے کی کھڑکی میں سے شہریار کے چلانے کی آواز آئی تھیں. مگر وہ اس پر سر نہ دھنتے ہوئے ہنستے ہوئے گاڑی بھگا لے گئیں تھی. اور وہ چیخ چیخ کر بول رہا تھا۔
"نازلی اسے ہٹاؤ سٹیٹس پر سے تم نے یہ واٹس ایپ کے سٹیٹس پر کیوں لگایا ہاں. اسے ہٹاؤ اور ہم تمہیں بندر لگتے ہیں جو یہ کیپشن ڈالا میں کہتا ہوں ہٹا دو. "
وہ تینوں گاڑی میں بیٹھی ہنس رہی تھیں جب نین کے نمبر پر شہریار کی کال آنے لگی تھی. اس نے موبائل اٹھا کر سویچ آف کر کے رکھ دیا تھا. نیہا نے اور نازلی نے فون سائلینٹ پر لگا دیا تھا کیوں کہ ان کے نمبرز پر وقفے وقفے کے ساتھ ان تینوں کی کالز آ رہی تھیں.
وہ تینوں قہقہے لگاتی ہوئی سوسائیٹی کا گیٹ پار کر گئی تھی. تبھی ان کے گیٹ سے نکلتے ہی ایک کالے رنگ کی جیپ جو مخالف سمت میں ان کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی سٹارٹ ہوئی تھی. اور ان کی گاڑی کے پیچھے چل پڑی تھی. وہ تینوں اس بات سے بے خبر کے برائی ان کا پیچھا کر رہی ہے اپنے آپ میں مگن ہنستی کھلکھلاتی جا رہی تھیں.
..........................................................
YOU ARE READING
میرا ہمسفر میرا راہنما 🍁♥️
Fanfictionیہ کہانی معاشرے کے چند کرداروں پر مشتمل ہے.ہر کردار کی اپنی ایک الگ کہانی ہے. ہر کردار آپ کے لیے ایک سبق لیے ہوئے ہے. یہ میری پہلی کوشش ہے امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی. All Copy Rights are reserved to writer. Dont copy and paste this story without...