قسط نمبر 8

69 1 3
                                    

               میرا ہمسفر میرا راہنما 🌺🍁
                                         ~•از قلم لائبہ احمد•~
نیہا کا گھر لاہور کے ایک پوش ایریا میں واقع تھا.
جہاں محلہ سسٹم تھا یعنی تانک جھانک اور کسی قسم کی پرائویسی نہ ہونا. ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا پر جہاں وہ رہتی تھی وہاں کچھ اسی قسم کے لوگ تھے جو دوسروں کی زندگی اجیرن بنا کر مزے لوٹتے تھے.
یہ کہا جائے کے وہ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والا کام کرتے تھے تو زیادہ صحیح رہے گا. اور ایسے کام کرنے کے لیے بقول نیہا کے ایک پوری اورگیینائیزیشن بنی ہوئی تھی جس کا نام اس نے "باجیاں پھپھے کٹنی والی" رکھا ہوا تھا.
اس آرگینائیزیشن کے ممبرز میں قابل ذکر نام رشتہ کروانے والی آنٹی ثریا خالہ کا تھا, جو رشتے تو کرواتی تھی پر ان کی اپنی دو بیٹیاں ثانیہ اور تانیہ اور ایک بیٹا بدر ابھی تک کنوارے تھے. اور باقی چار میں سے دو بیٹیوں ندا اور نادیہ کو طلاق ہو چکی تھی,اور ایک طلاق لینے کے لیے پر تول رہی تھی جن کا اسم گرامی تھا سعدیہ.اور جو بڑا بیٹا باسط تھا اس کی بیچاری بیوی شرمین کے ساتھ تو تمام اہلخانہ نے وہ ظلم روا رکھا ہوا تھا کہ اللّٰه توبہ.
یہ ایک بیوہ خاتون تھیں ان کے شوہر کا انتقال آٹھ نو سال پہلے ہو چکا تھا.ان کا گھر تین منزلہ تھا.
ثریا آنٹی کا طریقہ واردات بڑا ہی منفرد تھا. وہ دوسروں کے گھر رشتے لے کر جاتی تھیں اور وہاں سے کھانے پینے کے علاوہ بھی کوئی نا کوئی رونا رو کر پیسے اینٹھ لیتی تھیں. اس کے علاوہ کرائے کے پیسے بھی مانگتی تھیں پھر چاہے ساتھ والا گھر ہی کیوں نا ہو اور پیسے لیے بغیر ایک انچ بھی نہیں ہلتی تھیں. 
وہ جس بھی گھر میں جاتیں وہاں بیٹھ کر پورا جائیزہ لیتی تھیں ,کیا ہو رہا ہے؟, کون آرہا ہے؟, کون جارہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ. اور جب وہ باتوں میں مصروف ہوتیں تو ان کی دونوں چالاک بیٹیاں ندا اور نادیہ جو اپنا گھر تو نہیں بسا سکیں وہ دوسروں کا گھر اجاڑنے کے لیے ثریا آنٹی کا کام سر انجام دیتیں. پھر گھر آ کر پلیننگ ہوتی اور اپنے جیسی مزید عورتوں کو بلا کر دس لگا کر بتاتیں. ایک باقاعدہ میٹنگ ہوتی تھی اور جس کے کرم پھوٹ گئے ہوتے تھے ان کی نظروں میں آنے کے بعد پھر اس کا مقدر برباد ہونا ہی ہوتا تھا.
پھر آتا ہے نام سامیعہ آنٹی کا جو ثریا آنٹی کا رائیٹ ہینڈ تھیں. جن کا ایک بیٹا عاسم اور ایک بیٹی بانو تھی, جو کہ دونوں ہی کسی چھوٹے موٹے کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے. 
بیٹا تو انگریزی زبان کا کورس کر رہا تھا اور آٹھویں فیل بھی تھا. پر نام بنانے اور رنگ جمانے کے لیے اس کی جھوٹی تعلیم کا ڈھونگ رچا رکھا تھا. حلانکہ سب جانتے تھے پر نیہا اور نیہا کی والدہ کے علاوہ کوئی منہ پر نہ بولتا تھا. ہاں پیٹھ پیچھے باتیں بنا کر قبر کا پیٹ بھرتے تھے اور دوزخ کو بھی مزید تپاتے تھے. 
خیر اب آتے ہیں سامیعہ آنٹی کی بیٹی کی طرف تو جی یہ محترمہ تین مرتبہ کی بی-اے فیل تھیں. اور چوتھی مرتبہ مزید فیل ہونے کی تیاری کر رہی تھی. کیونکہ پڑھائی سے زیادہ تو ان کا رجحان ٹی-وی ڈراموں,فلموں گانوں پر یا فیشن پر ہوتا تھا.
کہنے کو بی-اے فیل تین مرتبہ تھی پر فیشن ایسے کرتی تھی جیسے پتہ نہیں کتنی پڑھی لکھی ہے. پر جب زبان کھولتی تھی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا تھا. وہ کہتے ہیں نہ انسان جب تک منہ نہ کھولے تب تک پتہ نہیں چلتا کہ آیا کان سونے کی ہے یا کوئیلے کی.
اور جب یہ زبان کھولتی تھی تو اللّٰه توبہ کوئیلے کی کان کیا ہی کہیں کوئیلے کی نہریں بہتی تھیں. اس کا نام نیہا نےBBAFT رکھا ہوا تھا. جس کا مخفف تھا بانو عرف بی-اے فیل تھرائیس۔ 
سامیعہ آنٹی کا طریقہ واردات بھی عجیب سا تھا. ان کا دوپٹی لینے کا انداز بہت کمال کا تھا. دوپٹے کو سر پر لے کر دونوں کانوں کے پیچھے اڑیس کر ایک پلو کو ایک کاندھے پر ڈال کر اور دوسرا یونہی چھوڑ دیتی تھیں. سر کے ذرا سے کالے رنگ کے بال نظر آ رہے ہوتے تھے.ان کا بھی گھر تین منزلہ ہی تھا.
یہ اپنے شوہرکی دوسری بیوی تھیں حالانکہ انکل عمران کی پہلی بیوی بہت اچھی تھیں. نیک,خدمت گزار, خوبصورت پر پتہ نہیں کیوں انکل عمران کو عزت پسند نہیں آئی تھی اور وہ سامیعہ آنٹی کے جال میں پھنس کر دل دے بیٹھے. اور پھر ایسا پھنسے ایسا پھنسے کے بس پھر باہر نہ نکل سکے.

میرا ہمسفر میرا راہنما 🍁♥️Where stories live. Discover now