قسط نمبر 7

43 2 2
                                    

           میرا ہمسفر میرا راہنما 🌺🍁
                                         ~•از قلم لائبہ احمد•~

" ایک بہت اچھا کام ہے میرے پاس تمہارے لیے." کالی شرٹ پہنے ہوئے ایک آدمی نے فون کان سے لگائے یہ الفاظ ادا کیے تھے.
اس نے کالی جینز پہن رکھی تھی اور ساتھ کالے رنگ کے بوٹس. وہ ٹیبل کی جانب منہ کیے کھڑا تھا اس کی پشت دیکھی جا سکتی تھی. پیچھے سے دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ کالے بال جیل لگا کر سیٹ کیے ہوئے تھے. اس کا رنگ صاف تھا.
"ہاں ہاں وہ میں دیکھ لو گا تمہیں جتنا کہا گیا ہے اتنا کرو. "
ناجانے کیوں مگر وہ بہت پر اسرار سا محسوس ہو رہا تھا.
"ابے یار جتنا بولا ہے نا اتنا کر بس. " اس نے خفت زدہ لہجے میں بولا تھا.
دوسری جانب سے پتہ نہیں کیا کہا گیا تھا جس پر اس کے جبڑے تن گئے تھے جن کے تنے ہونے کا اندازہ اس کی دماغ کی ابھری ہوئی نس سے ہو رہا تھا.
جس کمرے میں وہ کھڑا تھا وہ کافی چھوٹا تھا. اس میں صرف ایک میز اور کرسی سامنے کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی جس پر کالے رنگ کا کوٹ پڑا ہوا تھا. میز پر پین ہولڈر ,ایش ٹرے جس میں آٹھ ادھ بجھے سیگریٹ پڑے ہوئے تھے. کچھ فائلیں ,ایک عدد انٹرنیٹ ڈیوائیس اور ایک عدد لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا. جس کی سکرین پر پتہ نہیں کیا چل رہا تھا. میز دائیں جانب سے دیور تک جڑی ہوئی تھی اور بائیں جانب سے راستہ تھا. دیوار تک جاتے ہوئے حصے میں درازیں بنی ہوئی تھیں مگر بیچ کے دو خانے خالی تھے. میز کے تین خانے تھے جن میں سب سے اوپر والی میں چار اور نیچے والی میں چار درازیں تھیں.جبکہ بیچ والی میں دو درازیں اور دو خالی خانے تھے جو درازوں کے بیچ میں تھے.
خانوں میں چھوٹے چھوٹے دو گلدان پڑے ہوئے تھے جو ہلکے گرے رنگ کے تھے. ان میں گلابی رنگ کے نقلی پھول لگے ہوئے تھے. ان کے درمیان میں ایک گولڈ پلیٹیڈ ڈیکوریشن پیس رکھا ہوا تھا. جو کہ دو آدمیوں کا مجسمہ سا تھا.
ایک آدمی پتھر پر کتاب لیے اس پر نگاہیں جمائے بیٹھا تھا.اس آدمی کی داڑھی بھی تھی جو کافی لمبی تھی. چہرے سے لگتا تھا کہ وہ کسی ضعیف انسان کا مجسمہ تھا. اس نے کپڑے بھی درویشوں جیسے پہنے ہوئے تھے.سر پر عمامہ باندھا ہوا تھا. اور ایک لمبا سا چغہ پہن رکھا تھا جو آگے سے کھلا ہوا تھا مگر اندر بھی لمبی ہی قمیض تھی. دوسرا آدمی بھی ویسے ہی کپڑے پہنے ہوئے تھا. مگر اس کے بال بکھرے ہوئے تھے. وہ جوان لگ رہا تھا. داڑھی بھی ہلکی بڑھی ہوئی تھی. اس کے چہرے کے تاثرات رونے والے لگ رہے تھے ایسے جیسے کوئی بھٹکی ہوئی روح کو راستہ مل گیا ہو. وہ ضعیف انسان کے گھٹنے کو پکڑے بیٹھا تھا اس کی نگاہیں اوپر بیٹھے ہوئے آدمی کے چہرے پر تھیں.ان کے چہروں پر غم, خوشی اور قرب کے ملے جلے تاثرات پنہاں تھے. جو کسی ژندہ انسان کو ہی سمجھ آسکتے تھے اس انسان کو جو چیزوں میں ڈوب کر تاثرات کو جانچ سکتا ہو۔
میز کا وہ حصہ جو کرسی کے سامنے تھا اس میں سائیڈوں پر درازیں تھیں. دونوں جانب چار چار درازیں اوپر نیچے بنی ہوئیں تھی. بیچ کو حصہ خالی تھا جس میں کرسی کو آرام سے فٹ کیا جا سکتا تھا. اس حصے میں اسی لیے جگہ چھوڑی ہوئی تھی تاکہ انسان ٹانگیں سیدھی کر سکے. جیسا کہ کمپیوٹر ٹیبلز یا سٹڈی ٹیبلز میں ہوتا ہے .

میرا ہمسفر میرا راہنما 🍁♥️Where stories live. Discover now