میرا ہمسفر میرا راہنما🌺🍁
~•بقلم لائبہ احمد•~کمال اب بھی لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا تھا مگر ذہنی طور پر کسی اور ہی دنیا میں غرق تھا.
"تم نے سنا میں کیا کہہ رہا ہوں؟" سفید شرٹ جس کے سلیوز فولڈ تھے اور بلیک پینٹ میں ملبوس وہ شخص اس کی طرف مڑتے ہی بولا. کمال اب بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر کچھ سوچ کر مسکرا رہا تھا.
"تم نے سنا میں کیا بول رہا ہوں سنائی دیا تمہیں یا نہیں؟" آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے اس سفید شرٹ والے انسان نے زور سے کمال کی ٹیبل پر ہاتھ مارا تھا.
"یییسسس سسسررر. کیا ہوا؟ کیا کچھ کہا آپ نے؟" کمال نے قدرے بوکھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا.
"اس کا صااااف مطلب یہ ہے کہ تم نے کچھ سنا ہی نہیں." صاف پر قریباً غرا کر کھینچا تھا یوں کہ دونوں دانت آپس میں ملے ہوئے تھے.
"ووووہ, ہاں, نہیں مطلب پتہ نہیں. مطلب سوری سر میں میں وہ نا میں." کمال نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا تھا.
"چلو سارا کچھ چھوڑو یہ بتاؤ ایسا کییییا سوچ رہے تھے؟" کیا کو لمبا کرتے ہوئے ہاتھ کو دائیں بائیں جانب ہلایا تھا. " جو تم اتنے مست ہو کہ میری آواز نہ آسکی تمہیں." آخری الفاظ پر کمال کے ماتھے پر شہادت کی انگلی کو رکھ کر پیچھے کی جانب دکھیلا گیا تھا.
"کچھ نہیں کچھ بھی نہیں سر. وہ بس یونہی میں تو...." ابھی اس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کے مقابل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پسٹل جو بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اس کے سر پر تان لی. کمال کے پسینے چھوٹنے لگ گئے تھے. اس کا دل یوں دھڑک رہا تھا کہ مانوں ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آجائے گا. کیوں کے سامنے والی شخصیت بلا کی شیطان صفت تھی اور ظالم تو بے پناہ. اس سے کسی بھی بات کی امید کی جا سکتی تھی.
"کیا ہاں؟ کیا؟ تمہیں لگتا ہے میں پاگل ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا. تم کس بات پر ہنس رہے ہو مجھے اچھے سے معلوم ہے. منا کیا تھا نا ادھر ادھر کی باتوں میں دماغ نہ لگایا کرو. مگر نہیں تمہیں کسی کی سننی ہی نہیں ہے." چند منٹ رک کر ایسے سانس لی گئی تھی جیسے سانس بحال کیا گیا ہو مگر پسٹل پر گرفت بہت سخت تھی.
پسٹل کو کمال کے سر پر سے ہٹا کر اس شخص نے اس سے اپنا سر کجھانا شروع کر دیا تھا جو دراصل سوچنے کا تاثر دینا تھا.
"تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں اور میں کیا کیا کر سکتا ہوں؟" پسٹل اب منہ کے قریب کر کے اسے ایک ادا سے الٹ پلٹ کر کے دیکھتے ہوئے اس انسان نے اسے کہا تھا. وہ اب ٹیبل کی دوسری جانب کمال کے بلکل سامنے کھڑا تھا. اتنا قریب کے ان دونوں کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ تھا.
"ووہ.. "
"شٹ اپ "ابھی کمال کا جملہ بھی مکمل نا ہو پایا تھا کہ اس شخص کی دھاڑ نے اسے خاموش ہونے پر مجبور کر دیا تھا. اب اس کے ہاتھ کمال کی کرسی کے ہینڈلز پر تھے اور وہ قدرے جھکا ہوا تھا. پسٹل ابھی بھی ہاتھ میں ہی موجود تھی.
کمال کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے بولنا شروع کیا تھا.
"میں ظلم ہوں جیتا جاگتا, چلتا پھرتا ظلم. میں وحشی ہوں درندہ ہوں. میں ظالم ہوں. ہاہاہاہاہاہا" یک دم فلک شگاف قہقہ پورے کمرے میں گونجا تھا جس نے اندر کے ماحول کو مزید خوفناک بنا دیا تھا.
"میں انسان کے روپ میں ایک شیطان ہوں. مجھے صرف مجھ سے اور میری حوص سے غرض ہے کس سے ہے؟" اس نے غراتے ہوئے کہا تھا.اس کے چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمک رہے تھے. اس کے کالے بال ماتھے پر آ چکے تھے.
"ووہ سر سررررر" کمال ہکلاتے ہوئے رندھے ہوئے لہجے میں بول ہی رہا تھا کہ اس شخص نے اس کے جبڑے کو بائیں ہاتھ میں زور سے پکڑا تھا. پسٹل کمال کے چہرے کے ساتھ لگی ہوئی تھی.
"مجھے سب معلوم ہے تمہیں لگتا ہے کہ میں ہار جاؤں گا تو ایسا ہر گز نہیں ہو گا. میں بذات خود ایک جیت ہوں. " بڑی غلط فہمی تھی اس شخص کی. " میں جیت کے دیکھاؤں گا. میری ماں نے مجھے ہارنا نہیں سیکھایا میں ان کا ادھورا کام بھی پورا کروں گا اور بدلہ بھی لوں گا. " یہ کہتے ہی کمال کے منہ کو ایک جھٹکے کے ساتھ چھوڑا تھا.
کمال کی حالت اب واقعی خراب ہو رہی تھی. اس کے دل کے دھڑکنے کی آواز کمرے میں چند لمحے کے لیے ہونے والی خاموشی میں بخوبی سنی جا سکتی تھی.
"کیا ہوا ڈر گئے. بہہاہاہاہاہاہا. بس اتنا سا ہی دم تھا جب میرے پاس کام لینے آئے تھے تب تو بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ موت کو بھی ڈرا دوں گا.چکما دے دوں گا وغیرہ وغیرہ. اب کہاں گیا وہ نڈرپن." ٹیبل کے ساتھ ٹیک لگا کر کہا گیا تھا.
"نہیں سر ایسا کچھ نہیں ہے میں وہ میں نے نہ.... " "ٹھاہ, ٹھاہ,ٹھاہ." کمال کی بات ابھی پوری نہ ہوئی تھی کہ پسٹل سے نکلنے والی تین گولیوں نے اسے خاموش ہونے پر مجبور کر دیا تھا.
کمال کا بے جان وجود ایک جانب کو لڑھک گیا تھا. ماتھے پر لگنے والی گولی سے خون رس کر زمین پر گر رہا تھا. جبکہ سینے پر لگنے والی دو گولیوں نے اس کی شوخ پنک رنگ کی شرٹ کو مزید گہرے رنگ میں بدلنا شروع کر دیا تھا. خون کے کچھ چھینٹے اس کی سفید پینٹ پر بھی لگے ہوئے تھے. اور دائیں پاؤں والے سفید جوگرز پر سر سے ٹپک کر نیچے گرنے والے خون کے چند ایک ننھے سے داغ لگ چکے تھے.
اس شخص نے کمال کے کان میں موجود بلیو توتھ ڈیوائس کو نکال کر توڑ کر پھینک دیا تھا. پسٹل کو صاف کر کے دراز میں رکھ دیا تھا. پھر اس نے اپنے کالے رنگ کے فون سے کسی کو کال ملائی تھی. اس کا منہ کھڑکی کی جانب تھا.
"ہاں انس, عادل بھی موجود ہے. " یقیناً یہ کانفرنس کال تھی کیوں کہ پلین کو مطابق وہ دونوں الگ الگ جگہوں پر تھے.
"ہاں سنو بلکہ سن تو تم نے لیا ہو گا اس ڈیوائس کی مدد سے. سب کام چھوڑو اور یہاں واپس آؤ اور اس کی لاش کو ٹھکانے لگاؤ. شاہ فیملی کے ساتھ کیا کرنا ہے اس کو بعد میں ڈسکس کر لیں گے. "
اس نے جبڑے آپس میں جوڑ کر دانتوں کو کچکچاتے ہوئے کہا تھا.
"تم لوگ فورا یہاں پہنچو. سمجھے." بات مکمل کر کے کال کاٹ دی گئے تھی.
"کوئی نہیں شاہ لوگوں اس بار بچ گئے ہو مگر اگلی بار ایسا نہیں ہو گا. ایسا سرپرائیز دوں گا نا کہ سب کے سب دنگ رہ جائیں گے.جسٹ ویٹ اینڈ واچ" شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہا گیا تھا. وہ چلتا ہوا اس دیورا تک آیا تھا جہاں کمپیوٹرز کی سکرینز لگی ہوئی تھیں. کمال کی کرسی پر ڈھلکی ہوئی ڈیڈ باڈی کی پشت اس کے عقب میں صاف طور پر دیکھی جا سکتی تھی. پھر وہ مڑا اور کھڑکی کے سامنے والی دیوار تک گیا. اس اینگل سے کمال کی ڈیڈ باڈی کا بایاں حصہ نظر آ رہا تھا سوائے سر کے مگر پتہ چلتا تھا کہ سر دائیں جانب کو ڈھلکا ہوا ہے.
اس شخس نے دیوار پر لگی شاہ فیملی کی تصاویر میں سے نین اور حدید کی تصاویر پر سرخ مارکر سے لگائے گئے نشانات پر انگلی پھیرنا شروع کی تھی. لیکن نین کی تصویا پر انگلی پھیرتے ہوئے وہ چند ثانیے کے لیے رکا تھا.
"تم" ایک لمبا سانس کھینچا گیا تھا. "تم اتنی بری بھی نہیں ہو. " نین کی نیلی آنکھوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا گیا تھا.
پھر اس نے مڑ کر ٹیبل پر پڑے پین ہولڈر میں سے جو کہ لکڑی کا کافی بڑا سا بنا ہوا تھا میں سے نیلا مارکر اٹھایا. مارکر لے کر وہ نین کی تصویر تک آیا اور پھر اس نے اس سرخ مارکر کے نشان پر نیلا مارکر پھیرا. جو اس بات کا عندیہ تھا کہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن صرف جانی. ہاں مگر کوئی دوسرا شیطانی خطرہ ضرور تھا جو بہت زیادہ خطرناک تھا.
.......................................................................
"آپ کیا سوچ رہے ہیں؟" فاطمہ بیگم نے حسان شاہ کے مقابل بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا.
"کچھ نہیں. کچھ بھی نہیں. " حسان شاہ نے محبت سے ان کے بالوں کی چند گستاخ لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا.
وہ دونوں اس وقت اپنی خواب گاہ میں موجود تھے. حسان صاحب بیڈ پر سنگھار میز والی سائیڈ پر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے. انہوں نے رائیل بلیو رنگ کا نائیٹ سوٹ پہنا ہوا تھا. فاطمہ بیگم ان کے دوسری جانب وارڈروب کی دیوار والی سائیڈ پر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھیں تھیں. انہوں نے گلابی رنگ کا جو تھوڑا سا گیرے رنگ کا تھا نائیٹ سوٹ پہن رکھا تھا.
"کچھ تو ہے جو آپ بتانا نہیں چاہ رہے. کوئی لڑکی وڑکی تو پسند نہیں آ گئی." شرارتی لہجے میں پوچھا تھا. آنکھوں میں ناچتی شرارت صاف دیکھائی دے رہی تھی.
"ارے نہیں. کیسی باتیں کر رہیں ہیں. آپ کے علاوہ کسی اور کا سوچنا بھی گناہ ہے میرے لیے." دونوں ہاتھوں کا تکیہ بنا کر سر ان پر ٹکاتے ہوئے کہا گیا تھا.
"نہیں ایسے کوئی نہیں سوچوں میں پڑ جاتا." سر کو دائیں بائیں جانب گھما کر شرارتی مسکراہٹ کے کے ساتھ کہا گیا تھا.
"اچھا پھر کیسے اور کس وجہ سے سوچوں میں پڑا جاتا ہے." سر کو گھما کر ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا گیا تھا.
"ہائے آپ کو نہیں پتہ." سر پر ہاتھ مار کر حیران ہونے کی ایکٹینگ کرتے ہوئے کہا تھا.
"نہیں ہمیں نہیں پتہ آپ بتا دیں."وہ پریشان ہونے کی ایکٹینگ کرتے ہوئے بولے تھے.
"اوفوہ. یہ تو غلط ہو گیا."
"جی اسی لیے اس ناچیز کو آپ کی خدمات درکار ہیں. "
"اچھا تو کوئی بھی انسان صرف تب ہی سوچ میں پڑتا ہے جب یا تو اسے کوئی پریشانی ہو یا کوئی خوشی ہو یا کوئی سرپرائیز پلین کرنا ہو یا محبت وحبت کا چکر ہو وغیرہ وغیرہ." ہاتھ جھٹک کر کہا گہا تھا.
"یہ غلط بات ہے وغیرہ وغیرہ کیوں اب آپ پوری بات بتائیں." وہ ہنوز ان ہی کی طرف دیکھ رہے تھے.
"بتا تو دیا ہے اب اتنی لمبی لسٹ نکل آئے گی. " دائیں ہاتھ کی مدد سے بائیں ہاتھ سے لے کر کونی تک اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا. "اور انسان تو ہر وقت ہی کچھ نا کچھ سوچتا ہی رہتا ہے. بنا سوچ کے وہ رہ تھوڑی نہ سکتا ہے."
"کیوں جی سوچ کہ بغیر کیوں نہیں رہ سکتا پاگل ہو جائے گا کیا؟"انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا.
"لو جی کر دی نہ عجیب بات. پاگل کیوں ہو گا؟ پاگل کیا سوچتے نہیں ہیں؟ ارے وہ بھی سوچتے ہیں چاہے عجیب و غریب حرکت یا بات ہی سوچیں مگرسوچتے ضرور ہیں. اور اسی طرح مفلوج لوگ بھی سوچتے ہیں اور دنیا کی ہر جاندار چیز. کیونکہ سوچ دماغ میں آتی ہے اور دماغ سارا جسم کنٹرول کرتا ہے. ہاں بس بے جان لوگ نہیں سوچ پاتے کیونکہ وہ مر جاتے ہیں اور ان کا دماغ ڈیڈ ہو جاتا ہے نہ اس لیے." اب وہ آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھی تھیں اور ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھے ہوئے تھے.
"اچھا ہمہیں کہا پتہ ہم معصوم سے لوگ." وہ بے چاروں والی شکل بنا کر بولے تھے.
"اوہو اتنے معصوم. " شرارتی انداز میں کہا گیا تھا.
"ہاں نا اب ہم معصوموں کو کیا پتہ پاگل کیسے ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ نہیں." لہجے میں شرارت ٹپکنے لگی تھی.
"ہاں اب یہ اسی کو پتہ ہو گا نا جو یا تو پاگلوں کے ساتھ رہا ہو گا یا پاگل بذات خود رہا ہو گا." انہوں نے فاطمہ بیگم کو اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے کندھے اچکا کر کہا تھا.
اس بات پر تو مانو فاطمہ بیگم کو آگ لگ گئی تھی. انہوں نے تکیہ اٹھا کر حسان صاحب کو مارنا شروع کر دیا تھا. اور حسان صاحب اس اچانک حملے پر ہڑبڑا گئے تھے. انہوں نے ہاتھ سے تکیے کو پکڑ کر زور سے اپنی جانب کھینچا تھا. نتیجا فاطمہ بیگم بھی تکیے کے ساتھ آگے کو ہوئیں تھیں.
حسان صاحب نے فورا ان کی کمر میں اپنے بائیں بازو کو حائل کیا تھا.فاطمہ بیگم منہ پھلائے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں تھیں کیونکہ ان کی شوہر نامدار نے ان کی کمر پکڑ رکھی تھی.
"ارے ایسے منہ مت پھلایا کرو. مجھے تو بڑا تنگ کر رہیں تھی. اپنی باری آئی تو منہ پھلا لیا ہے. یہ تو نا انصافی ہے. " انہوں نے ان کے کاندھے پر سر رکھ کر کہا تھا.
یکدم فاطمہ بیگم بڑے پرجوش انداز میں آگے کو ہو کر بیٹھیں تھیں اور ان کی اس حرکت کی وجہ سے حسان صاحب اپنا توازن قائم نہ رکھتے ہوئے گرے تھے. اور ان کا سر فاطمہ بیگم کے گھٹنے پر لگا تھا.
"ہائے ہائے میرا گھٹنا توڑ دیا. ہائے. آپ کو تو درد نہیں ہو رہی نا کہ ہو رہی ہے. " وہ اپنا گھٹنا پکڑے درد سے کراہتے ہوئے بولی تھیں.
" نہیں مجھے بہت مزا آ رہا ہے. جنت کی ٹھنڈی ہوائیں مل رہی ہیں. " حسان صاحب سر کو پکڑے دانتوں کو آپس میں جوڑے جواب دیا تھا.
یکدم وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر زور سے ہنسے تھے.
"اچھا اتنی ہڑبڑی کیوں مچائی تھی." ہاتھ ہنوز سر پر تھے.
"وہ مجھے یاد آیا آپ نے ابھی کہا نا اپنی باری تو مجھے دھماکے سے یاد آیا کہ آپ سوچ میں تھے بتائیں نا کس سوچ میں تھے. " گھٹنے کو سہلاتے ہوئے کہا گیا تھا. حسان صاحب کا فلک شگاف قہقہ کمرے میں گونجا تھا. فاطمہ بیگم نے ان کی طرف کندھے اچکا کر دیکھا تھا جیسے پوچھ رہی ہوں کیا بات ہے.
" بیگم صاحبہ پہلے اردو تو سیکھ لیں." وہ ہنستے ہوئے بولے تھے.
"میں نے کیا غلط بولا ہے؟" غصے سے منہ پھر پھل گیا تھا.
"دھماکے سے نہیں جھماکے سے یاد آنا ہوتا ہے. " ہنسی ایک بار پھر چھٹی تھی.
فاطمہ بیگم نے شرمندگی چھپاتے ہوئے بولنا شروع کیا تھا. "بات مت گھمائیں آپ کی اردو آپ کو مبارک ہو بات بتائیں کیا تھی."
حسان صاحب نے بمشکل ہنسی کو روکا تھا.
"کونسی بات؟" انجان بنتے ہوئے پوچھا گیا تھا.
"اللّٰه کتنے بھلکڑ ہیں آپ ارے وہ سوچ والی." انہوں نے سر پر ہاتھ مار کر انہیں یادلایا تھا.
"اچھا وہ ہاں وہ میں لڑکی کے بارے میں سوچ....."
ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ فاطمہ بیگم نی تکیہ اٹھا کر انہیں مارنے کی کوشش کی تھی جو حسان صاحب نے تکیہ پکڑ کر ناکام بنا دیا تھا.
انہوں نے دوبارہ بولنا شروع کیا تھا.
"ارے ایک منٹ ایک منٹ. بات تو پوری سن لو.میں نے لڑکی اذلان کے لیے دیکھی ہے اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا. "
"اوہ اچھا. " وہ خجالت سے مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تھیں.
"کون ہے وہ؟"
"نیہا اور کون.اذلان کا جھکاؤ اس کی طرف ہے میں نے نوٹ کیا ہے اور پھر دیکھی بھالی بچی ہے. مگر.."
حسان صاب نے اب فاطمہ بیگم کو اپنے ساتھ لگا رکھا تھا اور ان کا بایاں بازوں ان کی کمر میں حائل تھا. فاطمہ بیگم کا سر ان کے کاندھے پر تھا.
" مگر کیا؟" انہوں نے سر کو اوپر کر کے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا.
ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ بولے تھے.
"مگر یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو کھانے کو آتے ہیں. "
"بات تو سہی ہے مگر پیار وہیں ہوتا ہے جہاں ٹشن ہو. اللّٰه بہتر کرے گا. "
"آمین."
"اور اگر اس کا جھکاؤ آپ کے مطابق نیہا کی جانب ہے تو بس پھر ٹینس نہ ہوں وہ محبت ہی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے. اور جہاں محبت ہو نا تو بس پھر وہ ہر چیز پر حاوی ہو جاتی ہے. اور صرف پیار رہ جاتا ہے اور عزت. بس اس کو یہ سمجھا دئیجیے گا کہ عورت پیار سے زیادہ عزت کی بھوکی ہوتی ہے. یہ عزت پیار کی طرح نرم اور انا کی طرح سخت ہوتی ہے. اور جب اس انا کو تکلیف پہنچے نہ تو عورت عورت نہیں رہتی بلکہ کرچی کرچی ہوا وا کانچ بن جاتی ہے. اور پھر جب مرد اسے مزہد روندتا ہے نہ تو یہی کانچ اس کے پاؤں میں چھب کر اسے لہولہان کر دیتا ہے." سر اب دوبارہ حسان صاحب کے کانھے پر رکھ دیا گیا تھا.
حسان صاحب ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولنا شروع ہوئے تھے. "مجھے معلوم ہے میری جان. جہاں عزت نہ ہو نا وہاں پیار نہیں ہوتا. وہ بس دکھاوا ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے کی عورت اسی دکھاوے کے چکر میں اپنی آخری سانس تک پستی چلی جاتی ہے. "
" ہممم"
"تم فکر نہ کرو وہ ہمارا بیٹا ہے اسے یہ باتیں معلوم ہیں. عورت کی عزت کا اسے پتہ ہے لیکن میں پھر بھی اس سے بات کروں گا. "
وہ دونوں اب آنکھیں بند کیے آنے والے مستقبل کے بارے میں خواب بن رہے تھے.
......................................................................
"میں کہہ رہا ہوں کہ تم کمرے میں واپس جاؤ." حدید نے سرگوشی کے انداز میں نین کو کہا تھا.
"کیوں واپس جاؤں میں بھی ساتھ چلوں گی." نین نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا تھا.
"نین بات کو سمجھنے کی کوشش کرو......" ابھی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ نین نے اس کی بات کاٹ دی تھی.
"بات کو آپ سمجھنے کی کوشش کریں."
"نین وہاں خطرہ بھی ہو سکتا ہے. کیا پتہ ان کے پاس بندوقیں ہوں۔ تم بچوں کے پاس جاؤ."
"بچے بلکل محفوظ ہیں. وہ ویسے بھی ہمارے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں ہیں."
"تو؟ اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سیف ہو جائیں گے اور ہم دونوں باہر ہیں. "
"آپ چپ نہیں رہ سکتے. جتنا وقت آپ یہاں بحث میں برباد کر رہے ہیں نا اتنی دیر میں سارا کچھ ہو جائے گا. "
"نین وہ چور ہیں. اور اس وقت ہمارے گھر میں ہیں.اور وہ اتنی سخت سیکیورٹی میں گھر میں گھس آئے ہیں تو اور کیا کیا نہیں کر سکتے. اچھے خاصے خطرناک لوگ لگ رہے ہیں. اسی لیے تم بچوں کے پاس جاؤ. " اس نے اب نین کو آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا تھا.
"اچھا اگر اتنے ہی خطرناک لگ رہے ہیں تو اس ڈنڈے کو کیوں لے کر جا رہے ہیں. بندوق وندوق اٹھائیں نا. اور وہ میرے بچے ہیں سنبھال لیں گے. آپ براہ کرم مجھے گھوریاں ڈالنا بند کریں اور نیچے چلیں. " اس نے بھی حدید کو آنکھیں دیکھائی تھیں.
"نین... "
"خاموش."
اور نین سے کون جیت سکتا تھا. حدید نے بلآخر ہار مان ہی لی تھی.
"چلو"
وہ دونوں اس وقت کالے رنگ کے نائیٹ سوٹس پہنے ہوئے تھے. خاموشی اور اندھیرے کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ رات کا پچھلا پہر ہے. وہ اس وقت اوپر والی منزل میں سیڑھیوں کے پاس پنجوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے. نین نے ہاتھ میں گلدان جبکہ حدید نے بیس بال والا ڈنڈا اٹھا رکھا تھا. ان کی یہ حالت دیکھ کر اچھے اچھوں کی ہنسی چھوٹ سکتی تھی لیکن شکر ہے وہاں کوئی تھا نہیں.
"تم بچوں پر نظر ہی ڈال آؤ. " حدید نے اس کی جانب پنجوں کے بل مڑتے ہوئے کہا تھا.
"آآغغ" نین نے گلدان پر گرفت کو زیادہ کیا تھا اور غصے سے غرائی تھی. "
"اچھا ٹھیک ہے لیکن میرے آنے تک جائیے گا نہیں. " وہ اسے وارن کرتے بنا آواز پیدا کیے بھاگتی ہوئی گئی تھی.
"ہاں ہاں میں یہاں بیٹھ کر تمھارا انتظار کرتا رہوں اور وہاں سارا گھر کا صفایا ہو جائے مطلب نین بی بی کیا کہوں تمہاری عقل کو."
حدید نے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا.
"ہنہ سمجھتا کیا ہے خود کو عقل تو دیکھو آیا بڑا ہیرو بننے." نین نے جاتے ہوئے بڑبڑانا لازم سمجھا تھا.آخر کوہ حدید کی ہی بیوی تھی.
حدید تیسری سیڑھی پر پنجوں کے بل بیٹھا نیچے سے وقفے وقفے سے آنے والی آوازوں کا جائیزہ لے رہا تھا کہ آخر آوازیں آ کس سمت سے رہی ہیں.ظاہر ہے اب وہ نین کا انتظار تھوڑی نا کرتا.
"میں دیکھ آئی ہوں."
وہ بڑے غور سے نیچے کا جائزہ لے رہا تھا جب ہی نین نے اس کے بائیں کان میں آ کر سرگوشی کے سے انداز میں اسے بتایا تھا. اس اچانک افتاد پر بےچارا ڈر کر اچھلا تھا. جس کی بنا پر اس کا دایاں پاؤں جو کہ سیڑھی کے بلکل کونے پر تھا پھسلا اور وہ کمر کے بل سلائیڈ لینے کے سے انداز میں آخری سیڑھی تک پہنچا تھا. نین نے اپنی طرف سے اسے بچانے کے لیے ڈنڈے کو پکڑا تھا مگر صرف ڈنڈا ہاتھ میں آیا تھا اور حدید وہ نیچے چلا گیا تھا. البتہ اس سلائیڈ میں ہچکولے بہت ملے تھے. اس کی دونوں ٹانگیں اوپر نین کی جانب تھیں اور سر نیچے والے پورشن کے فرش پر تھا. نین نے ڈنڈے کو نیچے ایک سائیڈ پر رکھ دیا تھا. اس کا منہ کھلا ہوا تھا مگر منہ پر ہاتھ رکھے ہونے کے باعث نظر نہیں آرہا تھا.آنکھیں پوری مطلب چوپٹ کھولی ہوئی تھیں. گلدان بھی وہ رکھ چکی تھی. وہ بھاگتے بھاگتے اس تک آئی تھی جو کہ نیچے پڑا کراہ رہا تھا.
"سوری حدید سوری سوری." شرمندگی سے کہا گیا تھا.
"سوری؟" غصے میں جواب کی شکل میں سوال پوچھا گیا تھا.
"اچھا نہ سوری. آپ نے ہی تو بچوں کو دیکھ کر آنے کا کہا تھا. "
"تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ ایسا کرو. "
"میں نے ایسا کیا کیا ہے؟"
"اتنے آرام سے آ کر کیوں بولا؟ پاگل ہو؟"
"تو کان کھلے رکھنے تھے. ہنہ."
"نین....."
"بس کریں ان کو تو پکڑیں جو گھر میں گھس آئے ہیں."
حدید کو سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے اس کی بات کاٹ کر جواب دیا تھا. وہ برا سا منہ بنا کر کھڑا ہوا تھا.
"وہ ڈنڈا لاؤ اوپر سے شکر ہے وہ سائیڈ پر پڑا ہوا تھا. ورنہ چوروں کو اس کی آواز سے پتہ چل جاتا. "
"میرے بغیر نہ جائیے گا."
حدید نے یہ کیا بکواس ہے کے انداز میں دونوں ہاتھ پھیلا کر کندھے اچکائے تھے. نین ڈنڈا لا چکی تھی مگر گلدان وہیں رہ گیا تھا. کیونکہ ایک تو وہ اپنی حرکت پر بہت زیادہ شرمندہ تھی دوسرا اس کا دماغ زیادہ کام نہیں کر پا رہا تھا جلدی جلدی میں وہ تو خیر ویسے بھی نہیں کرتا تھا بقول حدید کے. دفعتا کچن میں کچھ گرنے کی آواز زور سے آئی تھی.
ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا.پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کچن میں داخل ہوئے تھے. کچن میں اندھیرا تھا مگر صرف فریج کے دروازے کھلے ہونے کی وجہ سے روشنی ہو رہی تھی. ریفریجریٹر ڈبل ڈور تھا. وہ دونوں شیلف کے پاس پنجوں کے بل بیٹھ گئے تھے. دروازے کے بلکل سامنے ایک کاؤنٹر بنا ہوا تھا جس کے ساتھ لگ کر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔اس کاؤنٹر پر صرف ایک پھلوں کی ٹوکری٫ایک سبزی کی ٹوکری اور ایک چھریوں کا سٹینڈ پڑا ہوا تھا۔وہ کاؤنٹر کٹنگ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کاؤنٹر کے دونوں جانب سے راستہ تھا۔یعنی اگر دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو کاؤنٹر کے بائیں جانب دیوار تھی جس کے ساتھ فریج تھا۔ بائیں جانب والی دیوار کے ساتھ ایک اور کاؤنٹر تھا جس پر بیچ میں سینک بنا ہوا تھا جبکہ باقی خالی تھا۔ اور سامنے والی دیوار پر ایک کاؤنٹر تھا جس پر چولہے تھے اور اس کے اوپر کیبنیٹس تھیں۔ حدید نے ڈنڈا اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا.
"یہ کیسے چور ہیں جو فریج میں سے چوری کر رہے ہیں؟ " حدید نے سرگوشی کے انداز میں کہا تھا.
"ہو سکتا ہے کوئی بلی یا چوہا ہو." نین نے اپنی طرف سے بہت ٹھوس دلیل پیش کی تھی. ظاہری بات ہے جتنا دماغ اتنی بات.
حدید اس کی طرف مڑا تھا.نین کی اس فالتو دلیل پر اس کے جبڑے تن گئے تھے.
"نین یہ مذاق کا وقت نہیں ہے تو خدارا چپ رہو. بلی اور چوہا تو فریج کھول ہی لیں گے نا؟ عجیب. تم شیلف کی دوسری طرف سے جاؤ. میں ادھر سے دیکھتا ہوں."
نین جو اپنی دلیل کی بے عزتی پر منہ بسور رہی تھی حدید کی آخری بات پر اس کے بازو کو پکڑ کر اس کے قریب ہوئی.
"نہیں."
"کیوں نہیں؟ ویسے تو بڑی پھنے خاں بن رہیں تھی اب کیا ہوا ہوا پھس ہو گئی ساری بہادری.؟" حدید نے دانتوں کو پیستے ہوئے کہا تھا.
"آپ. چھوڑیں." وہ کچھ سوچ کر چپ ہوئی تھی.
یکدم کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تھی.
"یہ کچن سے ہی چوری کرنے آئے ہیں. " یہ حدید تھا.
"ایسا ہی لگ رہا ہے. " یہ نین تھی
"آلام سے ترو نا پادل(آرام سے کرو نہ پاگل) "
"یہ تو بولتے بھی توتلا ہیں." یہ بھی حدید نے کہا تھا.
"ایچھے مت پڑاؤ نہ( ایسے مت پکڑاؤ نہ) تھیت سے دو( ٹھیک سے دو) "
"آواز بھی جانی پہچانی.... " حدید نے بات مکمل بھی نہ کی تھی مگر دونوں کو سمجھ آ چکی تھی. وہ دونوں شیلف کے سائیڈ سے نکل کر فریج کے سامنے پہنچے تھے. اور سامنے کا منظر دیکھ کر بھونچکا گئے تھے. کیوں کہ سامنے کا منظر تھا ہی کچھ ایسا. حدید نے ڈنڈے کو دونوں ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا. نین آنکھیں پھاڑے اور منہ کھولے سامنے دیکھ رہی تھی.
فریج کے دونوں دروازے کھلے ہوئے تھے اور ایک طرف اندر ضارب لٹکا ہوا تھا جبکہ دوسرا دروازہ بس کھلا ہوا تھا. ایک ہاتھ سے اس نے اوپر والی جالی کو پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ پر اس کے نیوٹیلا لگا ہوا تھا. دایاں پاؤں نیچے والی جالی پر تھا مگر بایاں رکھ رہا تھا اور دونوں پاؤں پر بھی نیوٹیلا جم کر لگایا ہوا تھا جیسے پرانے زمانے کی دلہنوں کو شادی کے موقع پر لگاتے تھے. دوسرا پاؤں رکھتے ہی وہ جالی میں اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگا تھا. جبکہ صارم نیچے فرش پر کھڑا ہوا تھا. اس کے ایک ہاتھ میں نیوٹیلا کا جار تھا جبکہ دوسرے میں نیوٹیلا لگا ہوا تھا اور وہ اسے چاٹ رہا تھا.
"تدھ ملا؟(کچھ ملا؟)" صارم نے پوچھا تھا.
"متا تو تے نہ دیدا(ملتا تو دے نہ دیتا). " ضارب نے فورا جواب دیا تھا.
"پھیتنا مت ونہ ماما بابا آدائے گے( پھینکنا مت ورنہ ماما بابا آ جائیں گے) ." صارم نے اسے الرٹ کرنا ضروری سمجھا تھا جو بے سدھ تھا.
"ہمم" ضارب مصروف تھا اس لیے اتنا ہی جواب دینا کافی سمجھا تھا.
ضارب اب مایوس ہو کر واپس نیچے آ رہا تھا. وہ پھر سے لٹک گیا تھا.
یکدم حدید کے دھاڑنے کی آواز گونجی تھی.
"تم دونوں."
ساتھ ہی نین جو کے سوئیچ بورڈ کی جانب بڑھی تھی جو دروازے کے بلکل ساتھ ہی تھا اور پھر اس نے لائیٹس آن کر دی تھیں.
وہ دونوں اس اچانک ہونے والے حملے کی وجہ سے ڈر گئے تھے ضارب کا ہاتھ چھوٹا تھا اور وہ نیچے صارم پر گرا تھا. نین ہو ہائے کی صدا بلند کرتے ہوئے ان کی طرف دوڑی تھی. حدید بھی پیچھے پیچھے ان تک گیا تھا. اس نے ضارب کو اٹھایا تھا اور نین نے صارم کو.
"مسئلہ کیا ہے تم دونوں کا ماں باپ کو چین لینے دینا ہے کے نہیں؟" حدید نے ضارب کو گود میں اٹھائے ہوئے ہی جنجھوڑتے ہوئے کہا تھا.
"تیدے تو این(دیتے تو ہیں) اتے دن چھے آپ دو توی پتہ تلا(اتنے دن سے آپ کو کوئی پتہ چلا)." وہ بھی ضارب تھا بھلا جواب کیسے نہ دیتا.
"تمالی ودا سے ہوا مے لوز نتالتا تا پتہ نی تلتا تا تم نے آد نکالا شب کو پتہ دیا(تمہاری وجہ سے ہوا ہے میں روز نکالتا تھا پتہ نہیں چلتا تھا تم نے آج نکال ہے اور سب کو پتہ چل گیا ہے)." صارم نے ہانک لگائی تھی.
"تو یہ روز کا کام ہے ان کا تبھی میں کہوں نیوٹیلا اتنی جلدی ختم کیسے ہو جاتا ہے. یہ ان کی کارستانی ہے. " حدید نے دانت چباتے ہوئے کہا تھا.
"اور یہ صاف کیسے ہوتے ہیں؟" ان کی حالت دیکھ کر نین نے پوچھا تھا.
"ویپ تے ایت دوتھرے تو ساف تردے تے این(وائپس سے ایک دوسرے کو صاف کر دیتے ہیں). " صارم بولا تھا.
"کل سے یہ ہمارے ساتھ سوئیں گے. نین کل سے کوڑا اپنی نگرانی میں پھیکوانا ابھی وائیپس ضائع ہوئے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا ہوا ہو گا یا ہوتا ہو گا. ملازمہ سے دیکھوانا سمجھی. انہوں نے سمجھا ہوا ہے باپ سٹاک لا کر رکھتا ہے تو جی بھر کر اڑاؤ. " حدید غصے میں بول رہا تھا.
"جی ٹھیک ہے. " نین نے حدید کے غصے کو دیکھتے ہوئے اچھی بیویوں کی طرح جواب دیا تھا. شاید سورج مغرب سے نکلا تھا ورنہ نین اور جواب نہ دے.
"ابھی انہیں اوپر لیجا کر صاف کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ان کا. " حدید نے غصے سے فریج کے دروازے دھاڑ کے ساتھ بند کرتے ہوئے کہا تھا. وہ پھنکارے بھرتا ہوا باہر نکلا تھا. نین بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھی.
بعد میں ہوا کچھ بھی نہیں تھا وہ دونوں تو اپنے ماں باپ کی نیندیں اڑا کر خود خواب خرگوش کے مزےے رہے تھے. انہوں نے تو اپنے ماں باپ کو وائیپس استعمال کرنے کی کلاسس بھی دی تھیں۔اور وہ دونوں اتنے دنوں سے ہوتے ہوئے نقصان کو لیے پریشان بیٹھے تھے نیند تو اب ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی.
.....................................................
YOU ARE READING
میرا ہمسفر میرا راہنما 🍁♥️
Fanfictionیہ کہانی معاشرے کے چند کرداروں پر مشتمل ہے.ہر کردار کی اپنی ایک الگ کہانی ہے. ہر کردار آپ کے لیے ایک سبق لیے ہوئے ہے. یہ میری پہلی کوشش ہے امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی. All Copy Rights are reserved to writer. Dont copy and paste this story without...