قسط نمبر ۳

38 2 7
                                    

#سحر_جُنوں
(وہ مرے خوابوں میں آتا ہے چلا جاتا ہے)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۳

"کیا ضرورت تھی تُمہیں بھابھی سے بدتمیزی کرنے کی میں نے ایسی تربیت تو نہیں کی تمہاری.."
وُہ افسوس سے بولیں...
"میں جیسے کو تیسا جواب دینے پر یقین رکھتی ہوں امی آپ نے مجھے بڑوں کی عزت کرنا سکھایا اور بابا نے مُجھے اِنسان کو اُس کی اوقات کے مطابق عزت دینا اور مُجھے بابا کی نصیحت زیادہ پسند ہے..."
شانزے نے دوپٹہ اُتار کر سائڈ میں رکھتے ہوئے کہا...
"تمہارے بابا تُمہیں پوری طرح بگاڑ کر گئے ہیں.."
فرحت نے اُس کے گال پر چُٹکی لیتے ہوئے کہا...
"غلط امی بگاڑا نہیں ہے دُنیا میں با اعتماد زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا ہے اُنہوں نے ہمیشہ مُجھ سے یہ ہی کہا تھا کہ جب آپ حق پر ہو ناں تو چاہے کُچھ بھی ہوجائے جھکنا مت بھلے سامنے کوئی بھی رشتہ ہو آپ نے کسی سے نہیں ڈرنا اپنے دِل کی سننی ہے بس لوگوں کی پرواہ مت کرنا ہمیشہ سچ بولنا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنا آج نہیں تو کل آپ کی جیت ضرور ہوگی..."
تابش فصیح کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ہوتی تھی ایک اعتماد ہوتا تھا..
"بس مُجھے ایک بار وکیل بننے دیں پھر دیکھیں کیسی اِن مفت خوروں کو اپنے گھر سے دھکے مارکر باہر نکالتی ہوں ایک ڈھیلا تک نہیں رہنے دوں گی بھوکوں مریں گے دونوں کے خاندان میرے باپ کی جائیداد پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں..."
شانزے نخوت سے بولی..
"اچھا اچھا میری جان کرلینا سب کرلینا ابھی پڑھائی کرو بیٹھ کر شاباش میں اپنی بیٹی کے لئے بادام والا دودھ لے کر آتی ہوں.."
فرحت نے اسے اسٹڈی ٹیبل پر بٹھاتے ہوئے کہا...
"اگر آپ پانچ منٹ میں واپس نہیں آئیں تو میں نے پھر نیچے آجانا ہے یاد رکھیں امی اِس بات کو.."
اُس نے تنبیہی انداز میں کہا..
"ہاں آجاؤں گی زیادہ میری ماں مت بن ..."
فرحت نے مصنوئی خفگی سے کہا...

_____________________________________

"امی میرا موبائل کہاں ہے رات کو چارجنگ پر لگایا تھا ہال میں..؟"
عاشر نے سخت جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا..
"وُہ تو میں نے لبنٰی کے ہاتھ میں دیکھا تھا گیم کھیل رہی تھی اُس پر میں سمجھی تو نے ہی دیا ہوگا شاید..."
ساجدہ فصیح نے ہاتھ میں پکڑی تھیلی زمین پر رکھتے ہوئے جواب دیا...
"مگر میں تو ابھی اُٹھا ہوں امی میں نے کہاں سے دے دیا..."
وُہ کہتے کے ساتھ ہی لبنٰی کو ڈھونڈھنے لگا...
"بجو تمہاری بیٹی کہاں ہے؟..."
اُس نے کپڑے تہہ کرتی بسمہ سے پوچھا...
"یہیں تو تھی ابھی میرے خیال سے چھت پر گئی ہوگی..."
وُہ مصروف انداز میں بولی....
وُہ اوپر کی طرف دوڑا...
"نہیں ماموں تو اب تک سورہے ہیں..."
لبنیٰ نے اپنی گول گول آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا تو عاشر جو جھنجھلایا ہوا تھا مسکراتے ہوئے اُس کی طرف بڑھا..
"گندی بچی بغیر پوچھے آپ موبائل لے آئیں ماموں کا بیڈ مینرز.."
عاشر نے لبنٰی کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اُس کے بال بگاڑ کر کہا تو شرمندہ ہونے کے بجائے عاشر کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گئی..
"کس سے بات ہورہی ہے.."
اُس نے موبائل ہاتھ سے لے کر اسکرین پر نظر ڈالی تو نمبر صلہ کا تھا...
"میں چھوٹی مامی سے بات کر رہی تھی ماموں مُجھے دیں.."
اُس نے فون دوبارہ کان سے لگایا اور مزید آرام سے بیٹھ گئی...
"آپ کے ماموں جاگ گئے.."
صلہ نے مسکرا کر پوچھا تھا۔۔
"ہاں مامی ماموں آگئے.."
عاشر نے اُس کے بھرے بھرے گالوں کا بوسہ لیا جس پر وہ ہمیشہ کی طرح شیو چبھنے کی شکایت کرتے ہوئے گال مسلنے لگی...
"لبنیٰ ناشتہ کرلو میں نے چاکلیٹ سینڈوچ بنایا ہے.."
بسمہ نے آواز لگائی تو وُہ فون اُس کی گود میں پھینکتی اُتر کر نیچے بھاگی..
"آرام سے اُترنا جانو..."
وُہ اُسے ہمیشہ سے جانو کہتا تھا...
"اوکے ماموں..." وُہ رُک کر معصومیت سے بولی تو عاشر مسکرا دیا...
"اسلام علیکم.."
فون کان سے لگاتے ہی اُس نے سلام کیا...
"وعلیکم السلام.." صلہ نے مختصر جواب دیا..
"مُجھے پتا ہی نہیں چلا کب لبنٰی موبائل لے کر آگئی میں تو سورہا تھا ابھی ابھی اُٹھا ہوں..."
اُس نے بایاں ہاتھ ٹراوزر کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے چھت پر ٹہلتے ہوئے کہا...
سردیوں کی نرم گرم دھوپ طبیعت پر اچھا اثر ڈال رہی تھی...
"لگ بھی رہا ہے..."
صلہ نے ہے اختیار کہا...
"میرا مطلب آپ کی آواز سے..."
"تُم فجر کی اُٹھی ہوئی لگتی ہو..."
عاشر نے دوبارہ تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"مُجھے تو نیند ہی نہیں آئی ٹھیک سے اتنا شور مچا ہوا ہے یہاں پوری پوری رات شور،گانیں چل رہے تھے اوپر سے فہیم کے بے تکے لطیفے اور پھر اُس کی گلا پھاڑ کر ہنسنے کی عادت..."
وُہ سخت بیزار معلوم ہوتی تھی...
"تھک گئی ہو؟؟"
"ہاں بہت بس جلدی سے سب ہوجائے.."
صلہ نے ہیڈ فونز ٹھیک کیے اور بالوں کو جوڑے کی شکل دی...
"ہوجائے گا سب خیریت سے انشاءاللہ..."
عاشر نے متانت سے کہا...
اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا کیا باتیں کرے عاشر ایک بہت پیچیدہ اِنسان تھا جسے سمجھ پانا بہت مشکل تھا بہت کم گو بلکہ بہت زیادہ کم گو اُس نے بمشکل اُس کے منہ سے صرف تین چار لفظوں کے جواب کے علاوہ کچھ نہیں سنا تھا بھلے جتنی بھی بڑی بات ہو وُہ مختصر جواب دینے میں ماہر تھا صلہ پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے جب عاشر کا رشتہ اُس کے لیے آیا تھا وُہ بھی اُس کی خواہش پر ورنہ ساجدہ فصیح تو اپنی بھانجی لانا چاہتی تھیں پہلے تو صلہ کے گھر والوں نے رشتے سے معذرت کرلی تھی یہ کہہ کر کہ صلہ ابھی پڑھنا چاہتی ہے مگر عاشر نے جب سب کے سامنے اُس سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا تب اُس نے پہلی بار اُس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا عائز اُس کی زندگی سے اُس وقت جاچکا تھا...
"صلہ..."
عاشر کی آواز اُسے سوچوں کے سمندر سے واپس کھینچ لائی...
"کیا سوچ رہی ہو..؟"
"وُہ منظر یاد آگیا اچانک جب آپ نے سب کے سامنے کہا تھا "میں صلہ سے بہت محبت کرتا ہوں اُسے بہت خوش رکھوں گا.."
صلہ نے بات چھپائی نہیں۔۔۔
"اِس کے بعد ہی تو تمہارے گھروالوں سمیت تُم نے میرے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا ورنہ ایسے ہی ٹال دیا تھا پہلے..."
"مگر آپ کو نہیں لگتا یہ خاصی بے باکی کی تھی آپ نے..؟"
"بلکل نہیں ہرگز نہیں میں نے اپنے اور تمہارے بڑوں کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا کیونکہ وُہ سب اسے صرف ایک معمولی سی خواہش سمجھ کر ٹال رہے تھے مگر میری زندگی کا معاملہ تھا مُجھے ہی کُچھ کرنا تھا ناں تمہیں میں کھو نہیں سکتا تھا..."
عاشر کی آواز مزید سنجیدگی لیے ہوئے تھی وُہ اب مختصر جواب نہیں دیتا تھا یہ انکشاف نیا تھا اُس کا یہ لہجہ صلہ نے پہلی بار سنا تھا بوجھل سا اُس کے تمام تر جذبے مترشح تھے اِس لہجے میں بلاشبہ وُہ ساحر تھا بولے تو بس سنتے رہنے کا دِل کرے صنفِ نازک کو زیر کرنے کے لئے اُس کی ظاہری شخصیت کے ساتھ ساتھ آواز بھی بہت بڑا ہتھیار تھی...
"یہ لہجہ صرف میرے لیے ہی ہے يا پھر کوئی اور بھی اِس گہرائی تک جاچکی ہے.."
صلہ نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا وُہ لیٹ چکی تھی اُسے اپنے اندر سکون اُترتا محسوس ہو رہا تھا باہر کے شور اب سنائی نہیں دے رہے تھے وہ شخص اُس کے اندر اپنی دھن چھیڑ چُکا تھا اور وہ اُسی کو سننا چاہتی تھی...
"میں صفائی دینے کا پابند ہوچکا ہوں تمہیں جانتا ہوں مگر تُمہیں میرے ماضی سے کیا لگے تُم مستقبل کا سوچو تمہاری نسوانیت کی تسکین کے لئے کیا اتنا کافی نہیں کہ میں نے زندگی میں صرف ایک ہی محبت کی ہے اور پوری شدت سے کی ہے بہت کی ہے صرف تُم سے یہ لہجہ جذبوں سے بوجھل ہے اور جذبات طرح طرح کے ہوتے ہیں صلہ الگ الگ کیفیات ہوتی ہیں.."
وُہ سیدھے جواب نہیں دیتا تھا یہ بات وُہ بخوبی جانتی تھی...
"خاموش ہوگئی،کیا ناراض ہوگئی ہو..؟"
کوئی جواب نہ پاکر اُس نے نتیجہ اخذ کیا مگر پھر بھی کوئی جواب نہیں آیا تو وُہ بھی چپ ہوگیا...
"بولتے رہیں اچھا لگتا ہے آپ کو سننا.."
صلہ کی آواز میں سکون تھا..
عاشر ہولے سے ہنسا پھر بولا..
"کیا بولوں اب بار بار اظہارِ محبت تو کرنے سے رہا.."
"حرج ہی کیا ہے..؟" صلہ نے فوراً کہا...
"ضرورت ہی کیا ہے؟ مُجھے نہیں پسند یہ جھوٹوں کی نشانی ہے سستے عاشقوں کے کام ہیں اُٹھتے بیٹھتے بے موقع بے محل اپنے جھوٹے دعوؤں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے بار بار  فریب دینا.. واضح رہے تُم میری بیوی ہو..."
عاشر نے اپنا مطمع نظر صاف کیا اُس پر...
"پتا ہے میں کیا سوچ رہی ہوں ؟؟"
صلہ اُس کی آواز کے طلسم میں مکمل کھوئی ہوئی تھی ورنہ جو بات وُہ کہنے جارہی تھی وُہ ہوش و حواس میں کبھی نہ کہہ پاتی...
"کیا سوچ رہی ہو..؟"
"کہ کب میں آپ کے ساتھ ہونگی تاکہ ہمیشہ اِس آواز کو سنتی رہوں اِس لہجے میں کھوئی رہوں چاہے جانے کا احساس بہت حسین ہوتا ہے عاشر...."
صلہ نے سرشار لہجے میں کہا...
"ہوتا ہوگا.." عاشر کے لہجے میں یاسیت در آئی...
"تُم اب سوجاؤ تھوڑی دیر رات بھر کی جاگی ہوئی ہو آرام کرو میں بھی بس نہا کر باہر نکلوں گا فرنیچر والے کے پاس جاؤں گا آج ڈیلیوری دینی تھی اُس نے صبح گیارہ تک مگر اب دوپہر ہوگئی کُچھ پتا ہی نہیں..."
عاشر نے لہجہ بدلا اب وہ معمول کے انداز میں بات کر رہا تھا...
"ہاں آپ سے بات کرکے مجھے بھی نیند آرہی ہے آخر کار.."
"تمہارے کہنے کا مطلب ہے میں اتنا بور ہوں.."
اُس نے برجستہ کہا...
"نہیں بلکل نہیں آپ سے بات کرکے دِل اور دِماغ دونوں کو بہت سکون ملا ہے ایسا لگتا ہے کوئی بوجھ سا ہٹ گیا ہو جیسے آپ نے میری ساری بے سکونی،بے چینی اپنی طرف کھینچ کر مُجھے سکون دے دیا ہو باہر اب بھی سب ویسا ہی ہے شور وہی گانیں چل رہے ہیں مگر اب اندر سکون ہے میرے اور یہ سکون آپ کی وجہ سے ہے صرف آپ کی.. آپ بہت اچھے ہیں عاشر..."
"اچھا بس کُچھ انوکھا نہیں کیا ایک شوہر کی حیثیت سے میرا فرض تھا اب آرام کرو بس آج کا دِن،آج کی رات اور کل کا دِن ہے پھر تُم میرے ساتھ ہی ہوگی ہمیشہ کے لیے ٹھیک ہے خُدا حافظ "میرا خیال رکھنا.."
اُس نے صلہ کو کُچھ کہنے کا موقع دیے بغیر ہی فوراً فون رکھ دیا...
"میرا خیال رکھنا.." وُہ اِس بات کا مطلب نہ سمجھ پائی مگر یہ ایسی بات بھی نہ تھی جسے وُہ سوچتی رہتی فون ایک طرف رکھ کر اُس نے آنکھیں موندلیں۔

_______________________________________________

(جاری ہے)

Has llegado al final de las partes publicadas.

⏰ Última actualización: Jun 26, 2021 ⏰

¡Añade esta historia a tu biblioteca para recibir notificaciones sobre nuevas partes!

ساحرٓ جُنوںDonde viven las historias. Descúbrelo ahora