قسط نمبر ۱

154 8 9
                                    

#سحر_جُنوں
(وہ مرے خوابوں میں آتا ہے چلا جاتا ہے)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱

رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا آسمان اور زمین دونوں نے ہی خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی تھی کہ وہ انچ بھر بھی ہلتا تو پیروں تلے خُشک پتوں کی چُرمُراہٹ سے رات کی تاریکی میں عجیب سی سنسنی دوڑ جاتی آسمان پہ چاند تھا نہ اس کی چاندنی۔ ستاروں کی ٹمٹماتی روشنی نے ماحول کو خوفناک اور پُراسرار بنادیاتھا۔
آدھی رات کے سناٹے میں قبرستان کا یہ سفر زندگی میں دوسری بار تھا پہلی بار وُہ کئی لوگوں کے ساتھ آیا تھا اپنے نومولود بچے کو دفنانے اور آج.....
اُس کا دل زور زور سے دھڑک رہاتھا اور گہری خاموشی میں اپنے دل کی دھڑکن اُسے صاف سنائی دے رہی تھی۔ وُہ نئی کراچی 6 نمبر قبرستان کے داخلی حصے میں ہی چل رہا تھا تھوڑا سا راستہ ہی طے کر سکا تھا کہ اچانک ایک الو سر کے عین اوپر پر پھڑپھڑاتا ہوا ایک درخت سے اڑ کر دوسرے درخت پرجا بیٹھا وُہ اچھا خاصا دلیر پورا مرد دِل و جاں سے ڈر گیا تھا سانس دھونکی کی مانند چل رہا تھا پورا بدن پسینے میں شرابور بے تحاشہ کانپ رہا تھا اندر کہیں دور سے کوئی سرگوشی کر رہا تھا "مت کر رُک جا نامراد یہ کیا کرنے جارہا ہے کمبخت کس چیز کی کمی ہے تُجھے کیوں پڑا ہے کفر میں کیوں کیوں..؟؟"
تو دوسری طرف سے ہر طرف یہی آواز گونج رہی تھی...
"بہت سا پیسہ عیش و عشرت زندگی حسین ترین...."
اور یہ آواز بڑی مدھر تھی اسلئے وُہ اپنے ضمیر پر قدم دھرتا آگے بڑھنے لگا...
اُسے  یاد تھا چیتنیا ماینگ نے کیا کہا تھا...
"میری چھتر چھایا میں آنے کی اچّھا ہے تو پریکشا تو پار کرنی ہوگی..."
"کیسی پریکشا.."
اُس نے ڈر کر پوچھا تھا...
"پچھلے ایک مہینے سے تو میرے ساتھ ہے اب سمے ہے ثابت کر تو کتنا وفادار ہے آج میں تُجھے ایک بہت آسان کام دے رہا ہوں آدھی رات کو قبرستان جانا ہوگا جاسکے گا...؟"
"ہاں.." اُس نے ترنت  جواب دیا جی دار تو وہ بہت تھا..
"پچھلے مہینے تُجھے ایک میت میں بھیجا تھا.."
چیتنیا نے مخصوص ٹھنڈے لہجے میں کہا...
"ہاں آپ کے پڑوس میں جو دین محمد ہے اُس کے بچے کی تدفین میں مدد کے لیے پیسے ویسے دینے.."
اُس نے اصل بات جاننی چاہی..
"قبر یاد ہے وُہ..؟"
"ہاں..." وُہ اب اُلجھن کا شکار تھا...
"اُسی قبر کو پھر سے کھول کر اُس بچے کے کنکال سے اُسکے کولہے کی ہڈی کو لے کر آنا ہوگا صرف اُسی بچے کی کوئی اور نہیں..."
اب کی بار وُہ بری طرح چونکا تھا جسم پر لرزہ طاری ہونے لگا تھا..
"پر وُہ بچہ ہی کیوں وُہ تو پیدا بھی مُردہ..."
"ایسا ہی بچہ چاہیے جس نے دُنیا میں سانس نہ لی ہو  میرے عمل کے لیے ایسے ہی بچے کی کولہے کی ہڈی چاہیے اور وہی بچہ اسی لیے بھی کیونکہ وُہ آنکھوں دیکھا ہے وہ واقعی مُردہ پیدا ہوا تھا غلطی یا شبہ کی گنجائش نہیں.."
چلتے چلتے اُسے یکدم ایسا لگنے لگا جیسے کوئی اُسکے ساتھ ساتھ قدم اُٹھاتا آگے بڑھ رہا ہے وُہ تھم گیا جو احساس تھا وُہ سکوت میں بدل گیا دور دور تک جھینگروں کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز نہ تھی پلٹ کر دیکھنے کی اُس میں ہمت نہ تھی نظریں نیچے زمین پر تھی کہ کوئی ہو تو سایہ دکھائی دے جائے مگر تاروں کی نا مکمل سے زمین پر پڑتی روشنی میں اُسے صرف اپنا ہمزاد ہی دکھائی دیا...
اگلے ہی لمحے سرد ہوا کی لہر ریڑھ کی ہڈی میں اُترتی سی محسوس ہوئی تو اُس نے بے ساختہ جھرجھری لی جون کا مہینہ چل رہا تھا جہاں راتیں حبس میں گزرا کرتی تھیں ایسے میں سرد ہوا کا اتنا تیز جھونکا بلکل ہی غیر یقینی سا تھا ایک دِل کیا بھاگ جائے پیچھے پلٹ کر تک نہ دیکھے بھاڑ میں گئی دولت دوسرے ہی لمحے لالچ پھر حاوی تھی..
جھاڑیوں میں سرسراہٹ سی ہوئی تو اُس کی سوچوں میں مخل پڑا  اُس نے چونک کردیکھا ایسا لگا اونچی اونچی جھاڑیوں کے پیچھے کوئی کھڑا ہے وُہ ڈر کر پیچھے ہٹا تو کسی چیز سے ٹکرا گیا پھر وُہ گرتا ہی چلا گیاجیسے کوئی اُسے گھسیٹ رہا ہو 
شدید ڈر اور خوف کے مارے اُس نے چیخنا چاہا مگر زبان تو جیسے تالو سے جا چپکی ہو گرتے گرتے (گھسیٹتے) بالآخر وُہ ایک قبر کے کونے سے جا ٹکرایا اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی تو لڑکھڑا گیا ابھی وہ بھاگنے کے لیے پر تول ہی رہا تھا کہ ایک جانی پہچانی آواز ہلکی سی کان میں گونجی...
"پریکشا ہے بالک یہ کاریے سمپن کردے بس اگلا کام تیرا بھاگیے بدلنے کے لیے ہوگا..."
اُس نے گھوم کر چاروں طرف دیکھا مگر کوئی نہیں تھا...
"پھر یہ آواز کہاں سے آئی یہ تو چیتنیا کی..."
"مُجھے نہیں کھوج  كاریے کر..."
پھر سے آواز سنائی دی اب کی بار ڈر مزید بڑھ گیا تھا اُسے یوں محسوس ہونے لگا وُہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا مزید مانو جیسے بلکل بے جان ہوچکے ہیں مگر اگلے ہی لمحے وُہ دنگ رہ گیا اُس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اُس نے خود کو اُسی قبر کے سامنے پایا جس کے لیے وُہ آیا تھا...
"مگر یہ تو قبرستان کے بیچ میں تھی اور میں تو ابھی قبروں کے احاطے میں بھی داخل نہیں..."
وُہ ابھی خود سے یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ قبر سے بچے کے رونے کی آتی آواز نے اُسکے اعصاب شل کردیے وُہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹا ساری ہمت سارا جوش ہوا ہوگیا وُہ بری طرح سے کانپ رہا تھا چند لمحوں بعد ہمت متجمع کرکے بھاگنے کے لئے جیسے ہی مڑا تو ساکت رہ گیا جیسے پتھر کا ہوگیا ہو پیر کسی نے جیسے زور سے جکڑے ہوئے ہوں اُس نے اپنے پیروں کی طرف نظر کی تو  دو ننھے ننھے ہاتھ تھے بالکل کسی نومولود بچے کے جیسے
اچانک ہی قبر کے اطراف و اکناف بہت سارے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں گونجنے لگی مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہاں دور دور تک کوئی بلی تک نہ تھی..
"یہ سب ڈراوے ہیں تو جو کاریے کرنے آیا ہے وُہ کر..."
پھر آواز کانوں میں سنائی دی اُس نے دیکھا وہ اب آزاد ہل سکتا ہے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بھی آنا بند ہوگئی مگر ایک ناقابلِ یقین بات اور ہوئی بچے کی قبر کھلی ہوئی تھی اُسے تگ ودو کرنی ہی نہیں پڑی چھوٹا سا کنکال زمین کے تین فٹ نیچے چمک رہا تھا اُسکی منزل سامنے تھی ہاتھ بڑھا کر وُہ اُٹھا سکتا تھا اور وہ ایسا ہی کرنے لگا تھا مگر ایک آواز اُس کے پیروں میں اب بیڑیاں بن گئی تھیں...
"ہمارا بچہ مرگیا مرگیا ہمارا منیب..."
اُس کی بیوی کی دلخراش چیخیں راہ میں رکاوٹ بنی تھیں....

ساحرٓ جُنوںDonde viven las historias. Descúbrelo ahora