پاسداران محبت

126 14 9
                                    

تیسرا دن بھی گزرنے والا تھااسےاسی چارپائی پر ؛ اِس لمحے بھی بارش کی آواز سے اسکی آنکھ کھلی شاید بارش بھی اس کی بےبسی میں اسے رلانے کو یا اس کی بنجر آنکھوں کو تر کرنے میں اس کا ساتھ دینے کے لئے برس رہی تھی لیکن اب!؟اب کس بات کا رونا اب تو سب کچھ کھوچکا ہے اب تو شاید اسکی آنکھوں نے ہمیشہ بنجر ہی رہنا ہے یہ ضروری تو نہیں کہ "ہر صبر کا پھل یوسف کی واپسی ہو کہیں کہیں تو "حسین جیسی قربانی دینی ہوتی کچھ واپس نہیں لایا جاتا ؛ "لیکن سجدہ ریز ہونا لازم ہے"

تیسرا دن بھی گزرنے والا تھااسےاسی چارپائی پر ؛ اِس لمحے بھی بارش کی آواز سے اسکی آنکھ کھلی شاید بارش بھی اس کی بےبسی میں اسے رلانے کو یا اس کی بنجر آنکھوں کو تر کرنے میں اس کا ساتھ دینے کے لئے برس رہی تھی لیکن اب!؟اب کس بات کا رونا اب تو سب کچھ کھ...

Ops! Esta imagem não segue nossas diretrizes de conteúdo. Para continuar a publicação, tente removê-la ou carregar outra.

شاہ عبداللہ شاہ.AC تھا اپنے کام سے محبت کرتا تھا وہ بھی اپنے باپ کی طرح رحم دل تھا اور اس کے بھائی کے مطابق اس کی رحم دلی ہی اس کی ترقی میں رکاوٹ ہے لیکن وہ مطمئن اور خوشحال رہتا اکثر اسے یہیں جملہ سننے کو ملتا کہ وہ اپنے باپ کی طرح ہے.......
اور ایک بیٹے کا آئیڈیل اس کا باپ ہی ہوتا اور وہ اس جملے ہی کی وجہ سے خود کو ایک کامیاب انسان سمجھتا تھا................
******************
آخر اس نے اپنے شل ہوتے ہوئے وجود کو بمشکل چارپائی سے اتارا لیکن اگلے ہی لمحے وہ زمیں بوس ہوگئی اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا وہ پیچھلے کئی دنوں سے رزق سے محروم تھی اور اب تین دنوں سے پانی بھی نصیب نہیں ہوا لیکن اپنی کمزور حالت کا اسے ایک فائدہ ملا کہ ہوش میں آتے ہی وہ کچھ دیر میں ہی واپس غنودگی میں چلی جاتی اور اپنے حال سے بیگانہ ہو جاتی اس وقت وہ اپنے حال کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی........
اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ اپنے کمزور وجود میں ہمت لانے کی کوشش کرنے لگی اس کے عصاب تن گئے اس کے بس میں نہیں تھا کہ وہ اس آنے والے بوڑھے شخص کو جان سے مار دے وہ مزید قریب آرہا تھا اور وہ خود کو بےبس محسوس کر رہی تھی اس کا چہرہ آنسو سے تر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
بیٹا" آپ کیسی ہیں؟؟؟
کیا ہوا ہے؟؟
اس ضعیف کے ان الفاظ کی ادائیگی کے بعد اس کے تنے ہوئے عصاب ڈھیلے پڑ گئے
۔اسے پندرہ دنوں بعد کسی نے بیٹا کہا تھا اور حال پوچھا تھا وہ پھر اپنی پرانی حالت میں چلی گئی غنودگی اس پر تاری ہوگئی ایک دفعہ پھر وہ ہوش سے بیگانہ ہو گئی
۔۔۔
اب کی بار اسکی آنکھ کھلی تو اس کی کمزوری ویسی ہی تھی ایک زیرو سائز بلب جل رہا تھا جو کہ شاید وہ بزرگ جلاگئے ہونگے کیونکہ پہلے وہ کمرہ اندھیرنگر ہی تھا اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو ساتھ ہی ایک چھوٹی میز رکھی تھی اس پر ایک کھانے کی ٹرے باقی کمرہ خالی تھا اس کی بھوک اب کھانے کو دیکھ کے جاگ اٹھی بہت مشکل سےوہ خود کو سنبھال کے اٹھی اور اس میز کو قریب کیا اور اس کی بنجر آنکھوں میں نمی آگئ اس رب نے بغیر مشقت کے اس تک رزق پہنچا دیا "اپنے رزق پہنچا نے کا وعدہ پورا کیا وہ "عظیم ہے بےشک اس کے آنسو رواں تھے وہ اٹھی اسی جگ کے پانی سے وضو کیا ناجانے یہ کونسا وقت تھا لیکن اس نے بغیر جائے نماز کے اسی فرش پر دورکعت نفل کی نیت باندھ لی اور ناجانے کیوں اس کاسجدہ اتنا طویل ہوگیا وہ تو فرض نماز بھی جلدی جلدی اداء کرتی تھی اور سب نعمتوں کی موجودگی کے باوجود اسنے کبھی کوئی شکر کے نوافل ادا نہیں کئے لیکن آج اتنے دنوں بعد کھانا ملنے پر وہ اس رب کے حضور پیش تھی اس نے دو رکعت نفل ادا کئے اور کھانا کھانے لگی اس ٹرے میں کدو کا سالن پلاؤ اور سیب رکھے تھے اس نے کھانا کھایا اب اسے کچھ تقویت ملی وہ ایک دفعہ پھر ماضی حال اور مستقبل کی سوچوں میں گم ہو گئی ۔۔۔۔
***********************
شاہ عبداللہ شاہ آج بھی معمول کی طرح اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیئے ایک دم تیار کھڑا تھا اسے باہر سے اپنی امی جان کی آواز آرہی تھی شاید آج پھر ان کا اور اسکے چھوٹے بھائی شاہ احمر شاہ کا آمنا سامنا ہوگیا اور وہی بحث و تکرار شروع ہو چکی تھی جس کا کوئی خاطر خواہ حل امی جان یا کوئی اور نہیں نکال پایا آج تک ؛؛؛؛؛ وہ جلدی جلدی باہر آیا امی جان کو سلام کیا جن کا موڈ شاہ احمر شاہ سے بحث کے بعد بہت خراب تھا ناشتے کی ٹیبل پر پہنچتے ہی اسے شمیم خالہ نے ناشتہ لادیا بابا اور شاہ اصغر شاہ ہمیشہ کی طرح اس سے بھی پہلے نکل گئے اس نے جلدی ناشتہ کیا موبائل جو کہ چارج پہ لگایا تھا اسے اٹھایا اور نکل آیا آفس آتے ہی اس نے کچھ کام نمٹائے ابھی ایک ہی گھنٹہ ہوا تھا کہ حمزہ کا میسج آگیا اس نے دیکھا لیکن کچھ ضروری کام نمٹانا لازمی تھے اس لئے جواب نہیں دیا::
کچھ ہی دیر میں حمزہ کی کال آگئ ہیلو !!!اس نے ابھی یہی کہا تھا
کہ حمزہ ایک سو بیس کی سپیڈ سے شروع ہوگیا
آہ ہا یعنی تم A.Cصاحب اب میسج کا جواب کیا کال بھی رسیو نہیں کروگے دیکھ اووو A.C ہوگا تو کسی اور کے سامنے میرے سامنے نا تو ابھی بھی وہی لنگور ہے مجھے یہ بتا اوئے تونے میرے میسج کا جواب کیوں نہیں دیا اللّٰہ اللّٰہ حمزہ میری بات تو سن لو میں کچھ مصروف ہوں یار تب ہی میسج نہیں کیا ؛؛ اچھا اچھا او تو تو مصروف ہے میری مجال جو ایک A. C صاحب کو تنگ کروں اوکے بائے حمزہ مصنوعی خفگی کا اظہار کر رہا تھا
اوہو ؛؛؛؛؛ حمزہ تم کیا لڑکیوں کی طرح اب ناراض ہورہے ہو شاہ عبداللہ شاہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو حمزہ نےفوراً اس کی بات پکڑی مجھے چھوڑ تو یہ بتا کہ یہ لڑکی کا کیا معاملہ ہے
ایک دم شاہ عبداللہ شاہ کے ذہن میں پرسوں کا واقع آگیا اس‌کے ماتھے پر پسینے کے چند قطرے آگئے حمزہ کو یہ بات کیسے پتا چلی؟؟؟ وہ یہ سب سوچنے لگا
کہ !!حمزہ نے پھر کہا اوئےA.cکہیں' کے تو سچ میں مصروف ہے اچھا بعد میں بات کرتا ہوں
اوکے؛؛؛
اس نے بھی خدا حافظ کہہ دیا
اوہ!! یعنی حمزہ کو کچھ پتا نہیں اس ایک منٹ میں وہ کتنی بری پوزیشن میں آگیا اگر سچ میں اسے پتا چل جائے اوہو****
*****************************
شاہ عبداللہ شاہ؛شاہ احمرشاہ اور شاہ اصغر شاہ تینوں شاہ علی شاہ کہ بیٹے ہیں اور انکی دو بیٹیاں ہمنا علی اور یمنا علی ہمنا علی شاہ اصغر شاہ سے چھوٹی ہیں ان کی شادی خاندان میں کی شاہ علی شاہ نے اور ہمنا علی کے دو بچے احمد ارو زرمین ہیں اور پھر شاہ عبداللہ شاہ ہے اور اس کے بعد شاہ علی شاہ کے چھوٹے صاحبزادے شاہ احمر شاہ اور پھر لاڈلی بیٹی یمنا علی ؛؛؛؛
۔۔
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی عابدہ بیگم جوکے نماز میں مصروف تھی سلام پھیر کے فون تک آئی اسلام علیکم ! وعلیکم السلام امی؛؛ انکی پیاری بیٹی نوشین کی آواز میں درد تھا شاید وہ رورہی تھی
کیسی ہو میری بچی؟ عابدہ بیگم نے بہت دھیمے لہجے میں ہوچھا
امی؛؛؛ امی!! کیوں؟ آپ نے ایسے ہونے دیا وہ رودی امی کے سامنے
عابدہ بیگم اسے کیا کہتی؛ اس نے ہونے دیا کیا یہ سب؟؟؟ وہ خود کس قرب سے گزر رہیں تھیں اللّٰہ ہی جانتا ہے :)
میری بیٹی یہ اللّٰہ کی آزمائش ہے""
میری یا کسی اور کی وجہ سے نہیں ہوا یہ سب.... نوشین بیٹا دعا کرو عابدہ بیگم اس وقت بھی اپنے لہجے کو سادہ رکھے ہوئی تھی وہ "اللّٰہ کی آزمائش پر سر تسلیمِ خم کئے ہوئی تھی؛؛؛؛
امی دعا کروں ٬کیا دعا کروں ؟؟
امی آپ سب نے مل کے اسے اس آگ میں جھونک دیا
اب دعا کرنے کو بچا کیا ہے امی آپ لوگوں نے کیوں کیا میری بہن کے ساتھ ایسا کیا وہ رورہی تھی اپنی بہن کی محبت میں اس کا دل کٹ رہا تھا
لیکن:::)عابدہ بیگم وہ تو ماں تھی:: ان کے دل پہ کیا گزر رہی تھی وہ کوئی کیسے سمجھ سکتا تھا کیسے انہوں نے اپنی لاڈلی بیٹی اپنے جگر کا ٹکڑا اپنی حور عین انہیں دی ؛؛؛؛ان کے کتنے ارمان٬خواب تھے حور عین کے لئے اپنی حور کے لیے لیکن وہ کچھ نا کرسکی ان کے ہاتھ خالی رہ گئے۔ ....
*****************************************سوچیں! سوچیں! یہ سوچیں!!! اسے مار دینگیں کاش مر ہی جاؤں میں !!!! یہ سوچ اس کے ذہن میں آئی ؛؛وہ پھر ماضی کو سوچنے لگی وہ کس قدر خوش اور مطمئن تھی وہ ابھی اپنا یونیورسٹی پیریڈ کتنا اچھا گزارکہ آئی تھی لیکن ایسا کیا ؟؟گناہ اس نے کیا کہ اسے اتنی بڑی سزا ملی وہ نیک نہیں تھی لیکن وہ اتنی؛؛؛ گنہگار نہیں تھی کہ اتنی بڑی سزا ملتی اسے وہ تو اپنوں سے؛غیروں سے؛ سب سے؛ ہی مخلص تھی وہ محبت کرتی اپنے سے جڑے لوگوں کی قدر کرتی تھی لیکن اس کے ساتھ یہ سب ہوگیا وہ ایک نہ کردہ گناہ کی بھینٹ چڑھ گئی اس کی سوچ سے بھی بڑی اور مشکل اور آزمائش میں آگھری تھی وہ ابھی بھی اپنا کوئی گناہ سوچ رہی تھی کے آذان کی آواز آئی اللّٰہ اکبر!! اللّٰہ اکبر!!
اس کے منہ سے بھی
"" اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر اداء ہوا پوری توجہ سے آذان سنی اس نے؛؛؛؛وہ ایک قید سے نکل کے دوسری میں آگئ جس نے اس کی روح تک کو زخمی کردیا 'وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کونسا وقت ہوگا کس وقت کی نماز کی ادائیگی کرے وہ آہستہ آہستہ اس کمرے کے دروازے تک آئی جو کے بند تھا اس نے اسے کھولا تو سامنے اسے کچھ گھاس اور جڑی٬بوٹیا نظر آئیں شاید وہ اس گھر کی کسی پچھلی طرف میں ہے وہ جب آئی تھی یہاں تین دن پہلے تو وہ کسی چھوٹے دروازے سے اندر آئ تھی پھر اس کمرہ میں ہی بند تھی یہ وقت مغرب کا تھا وہ واپس کمرے میں آگئ نماز پڑھی پھر اسی چارپائی پر آ بیٹھی کچھ دیر بعددروازہ کھلنے کی آواز سے وہ چوکنا ہو گئی کون ہوسکتا ہے ؟؟کوئی نئی آزمائش؛؛؛ وہ سوچ رہی تھی !کہ وہی بزرگ جس نے اسے بیٹا کہا تھا مسکراتے ہوئے آئے اس نے فوراً اپنا دوبٹہ درست کیا::: اسلام علیکم بیٹی!
کیسی ہو ؟؟
مسکراتے ہوئے پوچھا!!!
اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ ابھی بھی حیران تھی؛؛
انہوں نے پھر مسکرا کر پوچھا طبیعت کیسی ہے؟؟ اس نے مروتً کہا ٹھیک۔۔۔۔ اس بابا نے میز سے پہلے والے برتن اٹھائے؛؛اور تازہ کھانا رکھ دیا؛؛؛
اور جاتے ہوئے پوچھا کچھ چاہیے؟؟؟اس نے نہیں میں سر ہلایا اور وہ دروازہ بند کر کے چلے گئے
اب اس کی بھوک شدید نہیں تھی ""کھانا کھاتے ہوئے بھی وہ کئی سوال خود سے کرتی رہی‌ ‌‌؛؛؛۔۔۔۔
*****************************************
۔۔۔۔۔۔۔
"!!! وہ گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے گھر میں داخل ہوا سامنے سے عمر بابا آتے ہوئے نظر آئے
سلام بابا!!
کیسے ہیں؟ اس نے آگے بڑھتے ہوئے کہا
وعلیکم السلام!!
آگئے ہو بیٹا؟
جی!!! اس نے مختصر جواب دیا
شاہ بیٹا کھانا لگادوں,؟ انہوں نے پوچھا
نہیں بابا حمزہ کے ساتھ ہی کہا کہ آیا ہوں آپ کب آئے اس نے پوچھا؟؟ بیٹا آج ہی واپس آیا ہوں اچھا !! بابا میں اب کچھ آرام کرونگا مجھے صبح شہر جانا ہے ؛؛؛
وہ انہیں کل کا بتا کہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا بیڈ پر لیٹتے ہی سوگیا وہ صبح چھ بجے اٹھا نماز اس کی ایک بار پھر قضا ہوگئی ""
،،آہ وہ افسردہ ہو گیا ہمیشہ اس کی فجر قضا ہو جاتی بابا اسے خود جگانے آتے جب وہ گھر میں ہوتاتو؛؛؛؛
لیکن!ادھر گاؤں میں اور یونیورسٹی میں ہمیشہ فجر قضا ہو جاتی وہ باہر آیا اور آواز دی بابا!عمربابا!
ناشتہ لادیں

محبتوں کے امین Onde histórias criam vida. Descubra agora