راہِ محبت

10 3 3
                                    

اب میں چلا اپنے والد صاحب کے پاس حمزہ جانے لگا؛؛
شاہ بھی اس کے ساتھ چلتا باہر آیا؛؛
شاہ ایک بات کرنی تھی حمزہ نے  واپس مڑ کر کہا
ہاں ؟؟
یار !!! اسے کچھ ضرورت کی اشیاء ہی لے دو
وہ یہ کہہ کر چلا گیا:::
شاہ بہت حساس تھا اسے بھی احساس تھا لیکن وہ خاموش ہی رہا؛؛؛
آج کل حمزہ صبح شام ادھر آتا رہتا پھر رات کی ڈیوٹی اور اگر ایمرجنسی ہوتی تو اور لوڈ
وہ بہت مصروف رہتا::
اب بھی وہ ایا ہوا تھا
وہ اور شاہ باتوں میں مصروف تھے ۔
عمر بابا چائے لائے '''  حمزہ اٹھ کھڑا ہوا  بابا آپ ٹھیک تو ہیں؟؟؟
پہلے ان کی نبض دیکھی کلائی پکڑی؛؛
دل کی دھڑکن چیک کرنے لگا!!.
یہ چائے؟؟؟شاہ بھی حیران ہوا تھا
لیکن حمزہ کو صدمہ ہونے والا تھا؛؛
حمزہ بس کرو عمر بابا نے حمزہ کو پیچھے کیا
تو با ہے چائے ہے زہر نہیں
بابا آپ کے ہاتھوں سے زندگی میں پہلی بار   مل رہی ہے
آپ سچ سچ بتائیں کچھ غلط تو نہیں کھا پی لیا؛؛؛؟؟ حمزہ اب بھی تشویش کر رہا تھا
شاہ کو ہنسی آرہی تھی
بیٹا پی لو؛؛
عمربابا بھی ہنسنے لگے
: شاہ نے چائے اٹھا لی
میں نے نہیں بنائی حور بیٹی نے بنائی ہے وہ حمزہ کو بتانے لگے
حور بھی اندر آگئی؛؛
آپ نے بنائی ہے؟؟ حمزہ اس سے پوچھنے لگا؟؟
جی !!
واہ واہ، حمزہ نے چائے پی کر کہا کیا چائے بنائی ہے وہ کھل کر تعریف کرنے لگا؛؛؛؛
ایسی چائے پر تو انعام بنتا کیوں شاہ!!!
شاہ جو خاموشی سے اس کی اداکاری دیکھ رہا تھا اب اپنی رائے دینے پر مجبور ہوگیا ۔۔
بلکل انعام بنتا؛؛؛
بس ڈن چائے کے بعد تم انہیں شاپنگ کراؤ گے حمزہ نے اسکی طرف سے انعام کا اعلان کیا؛؛؛
اور آپ جناب کیا انعام دینگے شاہ نے گھور کر ہوچھا!؛؛؛
ایکسکیوزمی مسٹر میں آج سے اپنی پوسٹ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہوں اب مجھ سے قابل آفیسر حور آگئیں ہیں اج سے وہ چائے بنانے کے عہدے پر فائز ہوں گی ؛؛؛؛ حمزہ نے حاتم طائی کی قبر کو لات ماری تھی
ہاہاہا !! حور کو حمزہ کی  بات پر بہت ہنسی آرہی تھی ,, شاہ نے اسے دیکھا:
: اب وہ تینوں ایک ساتھ روانہ ہوئے
حور نے کہا بھی کہ اتنی سی بات کے لیے کیا انعام وہ بہت شرمندہ ہورہی تھی لیکن حمزہ نے اسے کہا بس آپ جائیں اور اس کا کریڈٹ زیرو کر کے لائے گا؛؛؛
حمزہ کو ہسپتال چھوڑ کر اب وہ دونوں شہر کو روانہ ہوئے ,,,
: مغرب ڈھل چکی تھی جب وہ لوگ ایک مال میں پہنچے؛؛؛؛
شاہ بہت کنفیوز ہو رہا تھا
وہ  جلدی سے اسے ایک شاپ میں لے گیا
چند کپڑے اور ایک دو جوڑے جوتے لئے
شاہ نے ہی لیے اس نے بس خاموشی سے اوکے کیا:؛؛؛......
شاہ کی تیز رفتار سے اس کی سانس پھولی ہوئی تھی
اف کتنا تیز چلتا ہے اس نے دل میں سوچا
ائیں اور کچھ چاہیے ؟؟
شاہ نے روک کر اس سے پوچھا
اس نے نفی میں سر ہلایا
اچھا پھر اوپر جاکر کھانا کھاتے پھر واپس جائیں گے
وہ اسے لے کر اوپر گیا
مینیو کارڈ اٹھائے شاہ مینیو چیک کر رہا تھا
وہ اردگرد لوگوں کا معائنہ کرنے لگی
۔۔۔ آپ کچھ آرڈر کریں نا٬٬ شاہ نے ویٹر کو بلاتے ہوئے اس سے کہا؛؛
کچھ بھی منگوالیں ؛؛ اس نے آہستہ سے کہا
یہ کونسی ڈش ہے؟؟ شاہ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا:؛؛
میرا مطلب وہ اتنا ہی کہہ سکی شاہ کو اس کی ڈش اب سمجھ ائی تھی
اوہ؛؛؛ اچھا اچھا آپ کہہ رہی میں کچھ بھی منگوالوں؟؟؟ شاہ نے بات کی تائید کرانا چاہی
پہلے کیا فارسی میں کہا تھا؟؟اس نے دل میں سوچ کر اس بار بھی سر ہلا دیا؛؛
شاہ  نے اپنی پسند کا آرڈر دیا اب وہ کھانے کا انتظار کرنے لگے
: ڈنر کر کے وہ لوگ کوئی رات کے گیارہ بجےکےقریب واپس ہہنچے ٬٬
شکریہ اس نے ایک مرتبہ پھر شاہ کا شکریہ ادا کیا؛؛؛
اٹس اوکے (یہ تو میرا فرض تھا یہ وہ کہہ نہیں سکتا تھا) ۔۔
💞: کیسا رہا ڈنر؟؟
حمزہ کے بہت سے میسیجز آئے ہوئے تھے
بہت ہی اچھا
پرسکون
خاموش
اور ذرا برابر تمہاری کمی محسوس نہیں ہوئی اس نے ایک لمبا میسج اسے سینڈ کیا؛؛
اور حمزہ کی کال آگئی
کیا کیا سن رہا ہوں میں
میرے بغیر تمہیں سب ہضم کیسے ہوا؟؟
حمزہ مصنوعی لڑائی لڑنے لگا
بہت اچھے سے ہوگیا ہضم اب بیکار میں ہلکان نا ہو تم شاہ نے اسے تسلی دی
کل ملتے ہیں
۔۔۔
: حمزہ صبح صبح نازل ہوگیا تھا
کیا کہا تھا سکون تھا
کمی محسوس نہیں ہوئی
اس نے شاہ کو دو گھونسے رسید کئے!؛
اللّٰہ اللّٰہ حمزہ ظالم شاہ اپنا بازو سہلانے لگا
یار !!! میں تجھے آخری وارننگ دے رہا ہوں مجھے اب اگر تم نے کسی معاملے میں گھسیٹا میں کوئی مروت نہیں برتوں گا شاہ نے اسے وارن کیا؛؛
کیوں سکون میسرکیا میں نے ؛حمزہ نے اسی کی بات اسے لوٹائی؛؛؛
یار میرا خیال کر لو ظالم میں اتنا کنفیوز ہوتا رہا اس نے اپنی حالت اسے بتائی
۔۔۔
: حمزہ صبح صبح نازل ہوگیا تھا
کیا کہا تھا سکون تھا
کمی محسوس نہیں ہوئی
اس نے شاہ کو دو گھونسے رسید کئے!؛
اللّٰہ اللّٰہ حمزہ ظالم شاہ اپنا بازو سہلانے لگا
یار !!! میں تجھے آخری وارننگ دے رہا ہوں مجھے اب اگر تم نے کسی معاملے میں گھسیٹا میں کوئی مروت نہیں برتوں گا شاہ نے اسے وارن کیا؛؛
کیوں سکون میسرکیا میں نے ؛حمزہ نے اسی کی بات اسے لوٹائی؛؛؛
یار میرا خیال کر لو ظالم میں اتنا کنفیوز ہوتا رہا اس نے اپنی حالت اسے بتائی
۔۔۔
: اس میں بھلا کونسی بڑی بات تم بس خامخواہ ہی حمزہ نے اسے ہمت دی ؛؛؛
بڑی بات؟؟ شاہ چلایا اف توبا کرو میری جان نکل گئی تھی اوپر سے رش اتنا تھا مال میں ایسے لگ رہا تھا آج آخری مرتبہ لوگ خریداری کر رہے ہوں اور اوپر سے ۔   تم بھی نہیں تھے
اسکی زبان پھسلی تھی وہ چاہ رہا تھا کہ حمزہ کو تنگ کرےگا کہ ایسے مس نہیں کیا لیکن دل کا حال زبان سے پھسلا؛؛؛
اوہ سچ میں  ٬٬٬ میں بھی تو نہیں تھا                               حمزہ کو اب سکون مل گیا تھا؛؛؛؛
تجھے معلوم ہے میری عادت نہیں تیرے بغیر اس سب کی شاہ نے بھی اعتراف کیا
ہاں ٬٬٬ مجھے ٹوپی نا پہناؤ زیادہ بس مجھے پتا کہ تم کتنے سکون میں تھے
: ادھر کیا ہوا؟؟؟
حمزہ نے اس کے بازوں پر مرحم لگاتے ہوئے ایک دم سوال کیا؛؛؛
شاہ جو سامنے صوفے پر بیٹھا تھا اب اپنی ساری توجہ اسی طرف لے آیا تھا
حور اس اچانک سوال پر سر اٹھا کہ حمزہ کو دیکھنے لگی جو اب بھی اس کے بازو کو ٹیوب میں سے دوائی نکال کر لگا رہا تھا
انہوں نے جلا یا تھا گرم لوہے کا چمٹا لگا دیا تھا
وہ اب کافی سنبھل کر جواب دینے لگی
حمزہ رک کر اسے دیکھنے لگا؛؛
شاہ بھی پوری توجہ سے ہمہ تن گوش تھا؛؛؛وہ حیران ہوا تھا کہ کس قدر عام لہجے میں اس نے یہ بات بتائی بغیر واویلہ مچائے,,,
کس نے اور کیوں؟؟
حمزہ حیران ہوا تھا
وہ کمال ترین کی بیوی تھیں شاید؛؛؛ ۔۔۔
دراصل انہوں نے کہا تھا کہ روٹیاں وقت پر بنی ہوں اور میں لیٹ ہوگئی تھی کافی تو
لیکن اس طرح اتنے برے طریقے سے کوئی کیسے پیش آسکتا شاہ  نے اس کی بات پوری نہیں سنی بیچ میں بول پڑا  اسے بہت غصہ انے لگا  ایسے بھی کوئی کسی انسان کے ساتھ کرتا وہ بھی اٹھ کر اس کے اور حمزہ کے قریب آگیا؛؛
حور نے اسے دیکھا وہی انداز  ہمیشہ کی طرح رعب دار بس کبھی کبھی کوئی نرم بات کرلی ورنہ شاید حکومت اس  سے ٹیکس لیتی نرمی سے بات کرنے کا وہ کم ہی بات کرتا تھا
۔۔۔ وہ بس مجھے ذرا سی دیر ہوئی تھی اس نے اپنی بات اگے بڑھائی
حمزہ ھاتھ دھونے گیا؛؛.
وہ تندور ہوتا ہے نا وہ اسے سمجھاتے ہوئے بتانے لگی انہوں نے کہا تھا اس میں بناؤ روٹی اور مجھے نہیں آتی تھی بنانی تو میں لیٹ ہوگئ اور انہوں نے سزا کومے طور پر ہاتھ جلایا ؛؛؛؛ لیکن میں پھر بھی جلدی نہیں بنا سکی تو بس یو دو تین مرتبہ سزا ملی؛وہ ایسے کہہ رہی تھی جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو اور اسے کوئی بہت معمولی سزا ملی ؛؛ حمزہ کو بہت افسوس ہورہا تھا
۔۔۔
: شاہ حمزہ کی واپسی پر باہر چلا گیا حمزہ نے بھی مزید کوئی بات نہیں پوچھی ؛؛؛
شاہ شام کو واک سے لوٹا تو اس کا دماغ گھوم گیا اس کے کافی پودے بےجان ہوئے پڑے تھے اس نے ان لائن منگوائے تھے یہ سارے پودے انکی دیکھ بھال وہ خود کر تا تھا لیکن کچھ مصروف ہونے کے باعث وہ نا دیکھ سکا لیکن وہ زیادہ مقدار میں پانی دینے پر جل گئے تھے
بابا آپ نے میرے پودوں کا پانی دیا؟؟ ۔وہ ان سے استفسار کرنے لگا....
حمزہ اسے دیکھ کر رہ گیا وہ اور حور ہال میں ٹی وی دیکھ رہے تھے
نہیں بیٹا میں نے نہیں دیا
تو کس نے دیا؟؟.
وہ سب مر جھا گئے ہیں
وہ اب دل گرفتہ ہو کر کہنے لگا
حور کو سمجھ نہیں آیا کیا کرے وہ کافی بور ہوتی رہتی تھی حمزہ بھی کم اتا تھا تو وہ گارڈن میں جاکر پودوں کو پانی دے کر دل بھلالیتی اب وہ پیچھلے ویک سے لگاتار پانی دے رہی تھی اور  کچھ پودے جو مرجھائے کگ رہے تھے انہیں تو اچھا بھلا پانی دیا کہ وہ فرش ہو جائیں لیکن وہ زیادہ مقدار میں پانی کی وجہ سے ہی مرجھا گئے؛؛؛؛؛
میں نے پانی دیا حور نے نحیف سی آواز میں کہا؛؛شاہ کو شدید غصہ آیا ہوا تھا اس کا پورا گارڈن پانی میں بھگویا ہوا تھا پودے الگ سڑ گئے تھے اور کئی جگہ چلنے کی وجہ سے گڑھے بنے پانی جمع تھا
وہ غصے میں اس کے قریب گیا۔۔حور کو تو لگا روح پرواز کر جائیگی ؛؛
آپ نے  ؟؟ شاہ  نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا؟؟
جی !!
شاہ نے اس کی کلائی بہت زور سے پکڑی اس کے زخم میں شاہ کے ناخن چبھے تھے آپ سے کس نے کہا تھا وہ اب اس ہر چلا رہا تھا محترمہ اپنے کام سے کام رکھیں آپ اپنی حدود میں رہیں  اگر کسی نے انگلی دی ہے تو بازوں تک آکر گردن نا دبوچ لیں
حور کی آنکھیوں سے پانی اس کے رخساروں پر بہہ رہا تھا
آئندہ میں آپ کو اپنے گھر میں ادھر اُدھر گھومتا نا دیکھوں سمجھیں آپ؟؟شاہ کو غصہ کم نہیں ہورہا تھا
حمزہ نے شاہ کو دھکہ دیتے ہوئے دور کرنا چاہا شاہ کیا ہوگیا ہے  اتنی سی بات کےلے تم اسے ڈانٹ رہے ہو چھوڑو اس کا ہاتھ وہ اس کا  ہاتھ چھوڑ کر ایک نظر اس پر ڈال کر دور ہوگیا
شاہ یہ کیا حرکت ہے حمزہ کو بہت برا لگ رہا تھا
حور روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اسے بہت رونا آرہا تھا اتنی بےعزتی وہ بس رو رہی تھی اس کے ہاتھ کا زخم تازہ ہوگیا تھا چھالے سے تھوڑا خون نکلا تھا
وہ وہی بیڈ کے پاس نیچے بیٹھ کر روئے جارہی تھی
: برا لگ رہا تھا
💞: حمزہ اس محترمہ کو۔سمجھاو مجھے نہیں پسند یہ سب شاہ اب بھی غصے میں اونچا اونچا چلا رہا تھا حور کو اسکی آواز آرہی تھی
تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا حمزہ کو بہت
: دیکھو حمزہ میرے پودے برباد کر کے رکھ دئے اس بیوقوف لڑکی نے
جاہل کہیں کی
شاہ غصے میں دھاڑا تھا
حور کو لگا وہ سچ میں زمین میں دھنس گئی ہے کوئی کسی گھر ائے کو ایسا کہتا وہ بےتحاشا رو رہی تھی
وہ اٹھ کر باہر آئی اپنی چادر درست کی ۔
وہ اس کے مقابل آکھڑی ہوئی اب بھی اس کی آنکھوں میں درد تھا کئی آنسو تھے
مجھے بھی کوئی شوق نہیں آپ کے اس گھر میں گھومنے کا سمجھے آپ میں مجبور ضرور ہوں لیکن کچھ عزت نفس میری بھی آپ کا بہت احسان آپ نے مجھے اتنے دن عزت سے اپنے گھر رکھا وہ چیخ کر کہ رہی تھی لیکن اب اپ مزید تنگ نہیں ہونگے میں ابھی جارہی وہ باہر کی طرف بڑھی
شاہ کو  مزید غصہ آنے لگا
حمزہ اس کی طرف لپکا آپ کہا جارہی رہیں روکیں وہ اسے روکنے لگا
تھینکس ڈاکٹر حمزہ !! اس کی آواز رونے کی وجہ سے اب بہت بھرائی ہوئی تھی میں کہیں بھی چلی جاوں گی
اسے خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جائےگی
یہ کیا پاگل پن ہے حمزہ کو اس سیچویشن میں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی آپ کہیں نہیں جائینگی شاہ سوری کرو  شاہ جو اب  بھی غصے سے بھارا کھڑا تھا  حمزہ کو دیکھ کر رہ گیا..
آپ آئیں !!! بیٹھیں
حمزہ ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے لگا
نہیں میں کہیں بھی چلی جاؤں گی لیکن آپ کے اس a.cدوست کی مدد نہیں لونگی ؛؛؛وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی !!!
حمزہ نے اسے دیکھا
وہ کچھ حیران ہواA.cدوست ؟؟؟
ہاں میں سمجھی شاید یہ میری مدد کریں گے لیکن یہ میری مدد نہیں کرسکتے حور اب بھی زور دار آواز میں بولی
شاہ بھی حیران ہو کر رہ گیا اب اور کیا مدد کروں ؟؟ وہ اس کی طرف مڑ کر بولا
: بہت شکریہ آپ کا ابھی تک جو چار دن گھر رکھا  یہ بھی احسان وہ ایک مرتبہ پھر رونے لگی
شاہ میں نے کہا ہے معافی مانگو حمزہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا
کیسی معافی حور نے کہا انہیں معافی چاہیے اور میں دے رہی میں جا رہی یہ آپنے گھر میں رہیں وہ روئے جارہی تھی
شاہ کا غصہ بھی کم ہوگیا تھا وہ آخر اس وقت کہاں جائیگی
اس نے بہت آہستہ آواز میں کہا
ایم۔سوری
حور کو مزید رونا انے لگا
دیکھیں اب تو آپ بیٹھیں وہ معافی مانگ رہا حمزہ اب اسے منانے لگا
جی پہلے زلیل کرو پھر سوری کہہ کر بات ہی ختم کر دو وہ ابھی بھی غصے میں تھی
تو مانگ تو رہا ہوں معافی شاہ کا غصہ اب کم ہوگیا تھا اس نے پھر معافی مانگی
آئیں ادھر بیٹھیں حمزہ اسے بیٹھانے لگا
وہ ویسے ہی روئے جارہی تھی
شاہ وہی کھڑا ہوا تھا
حمزہ پانی لانے گیا بیٹھ جاؤ تم۔بھی وہ اسے بھی بیٹھنے کا کہہ کر پانی پلانے لگا دونوں کو؛؛
: ایسے تو نہیں ہوتا نا آپ دونوں لڑتے رہیں گے تو ہو چکا معملہ حل حمزہ ان دونوں کو سمجھانے لگا
میرا مسئلہ یہ حل نہیں کر سکتے میں سمجھی تھی یہ میری ہیلپ کریں گے لیکن یہ کوئی نہیں کرنے والے میری ہیلپ :؛؛ وہ بہت بدگمان ہوگئ تھی
ایسی بات نہیں ہے حور
پہلے بھی کی تھی نا؟؟ اب بھی ہم مل کر حل کر یں گے
حمزہ اسے سمجھا رہاتھا
شاہ ویسے ہی سنجیدہ بیٹھا تھا کیا ضرورت تھی مجھے اس کی مدد کرنے کی وہ سوچ رہا تھا,,
مجھے نہیں چاہئے ان کی ہیلپ میں کل ہی چلی جاؤں گی وہ کسی صورت راضی نہیں ہو رہی تھی
شاہ کو بھی غصّہ آیا
جائیں گی کہا ؟؟ ہمیں بھی معلوم ہو ذرا اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا
کہیں بھی جاؤں آپ نا گھلو فکر میں اس نے بھی اسکی طرف منہ کر کے سنوایا
جاؤ جاو  شاہ نے بھی تپ کر کہا
کیا بچپنا ہے یہ حمزہ نے دونوں کو گھرکہ پانی شاہ کی طرف بڑھایا
آپ کہاں جاوگی حمزہ نے اب تحمل سے اس سے بات کی
اپنے اسی بوڑھے شوہر کے پاس جس کے ہاتھ میں میرا ہاتھ کمال ترین نے دیا
کم سے کم یہ ذلت آمیز رویہ تو نہیں برداشت کرنا ہوگا
اس کی نوز پن ہلکی سی چمک اٹھی
شاہ کہ منہ سے پانی باہر نکلا تھا کچھ اس کے حلق میں اٹک گیا کچھ کپڑوں پر وہ بری طرح کھانسنے لگا
حمزا بھی بہت حیران ہوا
جلدی سے اٹھ کر شاہ کی پیٹھ تھپتھپائیں
وہ رو رہی تھی  پلیز آپ رو نہیں ہم۔کل بات کرتے ابھی آپ آئیں حمزہ اسے کمرے میں لے جاکر سونے کا کہا
۔۔۔
شاہ اپنے کمرے میں ٹہلنے لگا
: شاہ!!!  حمزہ اس کے پاس کمرے میں آیا یہ سب کب تک چلے گا؟؟ وہ اب اپنا غصہ دیکھانے لگا
اگر تجھے اتنا ہی مسئلہ ہے تو اسے آزاد کیوں نہیں کر دیتے حمزہ کو شاہ پر بہت غصہ آرہا تھا
،،
۔۔۔۔۔۔۔۔  اب وہ مغرب پڑھ ائے تھے اور مولوی صاحب کو  بھی لیتے ائے تھے  ؛؛؛
دیکھیے عبداللہ صاحب آپکی زبان ہمارے لیئے حرفِ آخر ہے لیکن یہاں معاملہ کسی کی زندگی کا
وہ سمجھ نہیں رہا تھا کہ اب کمال ترین اسے سے کیا کہنا چاہ رہا
شاید لوگوں کو دیکھ کر اس کی انسانیت جاگ اٹھی تھی
وہ اب بہت مدبر اور بے حد مخلصانہ انداز اپنائے ہوئے بیٹھا تھا
جی جی !!  عبداللہ سر جھکا ئے ہوا تھا
آپ بتائیں کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؛؛
اس لڑکی کے لیے ہمیں کوئی ضمانت چاہئیے اور ضمانت مولوی صاحب جو کہیں وہ ہوگی
انہوں نے بال مولوی صاحب کی کورٹ میں ڈال دی
جی مجھے منظور ہوگا  عبداللہ بھی اس وقت جلدی میں تھا
شرعی احکام کی رو سے تو حق مہر جو بنےگا وہ ایک اور بات مولوی صاحب نے اپنی بات شروع کی لیکن ضمانت کے طور پر میں چند شرائط بتاتا آپکو  ان کا تابع رہ نا ہوگا
آپ کی جائیداد میں سے کچھ آپ اسی وقت ان کے نام کر یں گے
اور آپ چھ مہینے تک طلاق دینے کے مجاز نہیں ہونگے
اور اگر آپ نے دی تو آپ کی کل جائیداد کا آدھا حصہ اس لڑکی کو جائیگا
لڑکی خود چاہے تو آزادی مانگ سکتی تب آپ پہلی تمام شرائط سے آزاد ہوں گے
: آہ شاہ تمہاری بیوقوفیاں!!! تم انتہائی کم عقل انسان ہو حمزہ کو اس کے جذباتی فیصلے نے تیش دلایا؛؛؛
اب کیا ہوگا ؟
یار کچھ عرصہ ہم خاموش رہ لیتے پھر سوچیں گے شاہ نے معاملہ کل پہ چھوڑ دیا
لیکن شاہ تم ؛؛ حمزہ بات کرنے کی نیت سے ادھر بیٹھنے لگا
لیکن ویکن کچھ نہیں اٹھو اور جاو میں سونے لگا میرا مزید دماغ تم نا کھاؤ شاہ نے اسے کمرے سے چلتا کیا
۔۔۔
: اور ان سب باتوں کا شرعی کوئی حیثیت نہیں یہ آپ دونوں حضرات یعنی سرپرست اور والی کے درمیان ایک معاہدہ سمجھ لیں
مولوی صاحب اپنا پہلو صاف بچاگئے
عبداللہ صاحب آپ کو کیا پہلی تمام شرائط منظور ہیں
وہ سوچ کر رہ گیا۔۔۔۔ کمال ترین اس کی سوچ سے بھی اگے تک اسے پھنسا گیا
میں اس وقت کچھ بھی نام نہیں کرسکتا اس نے بچنا چاہا
آپ کو ابھی کرنا ہوگا ورنہ تو آپ ابھی سے فرار کے رہے
مولوی صاحب پریشان ہو گئے
نہیں نہیں میں تیار ہوں فرار کیسی ،، عبداللہ نے اپنا ارادہ چھپانا چاہا
دیکھیں طلاق کے لئے کوئی نکاح نہیں ہوتا مولوی صاحب سمجھانے لگے آپ سوچ لیں
جی میںں اپنا گھر ان کے نام کر تا آخر اس نے ہمت کر لی تھی
ٹھیک ہے نکاح شروع کر یں وہ اب لڑکی کے سرپرست سے اجازت لینے لگے
۔۔۔۔
💞: گھر پہنچا تو حمزہ کی بائیک آئی کھڑی تھی
جب خود ہہ انا تھا مجھے کیوں بلایا توبا ہے حنزہ
💞: اس نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیاتھا اب دن کو بھی اس نے احتجاجاً نہیں کھایا
خاموش احتجاج تھا اس نے کسی کو کچھ نہیں کہا بس کھانے سے ناراض ہوئے بیٹھی تھی
عمر بابا نے اسے کہا تو وہ رونے لگی مجھے نہیں کھانا آپ جائیں
وہ پریشان ہوئے شاہ کو بتانا بے کار تھا انہوں نے حمزہ کو کال ملائی
جی بابا ؟؟ اس نے فون ریسیو کرتے پوچھا
بیٹا حور نے نا صبح کچھ کھایا نا دن میں اب شام ہونے کو ائی ہے آپ اسے سمجھاو میری تو نہیں سن رہی الٹا رونے لگی
انہوں نے حمزہ کو کہا کہ وہ آکر اسے کھلائے
بابا میں  ادھر بہت مصروف ہوں اچھا میں کچھ کرتا
اس نے شاہ کو کال کی
ہاں کیا کر رہے ہو؟؟ حمزہ نے رابطہ ہوتے کہا
فارغ بیٹھا مکھیاں مار رہاں ہوں ظاہرہے اس وقت افس میں ہوں تو کام ہی کر رہا ہوں گا
اچھا شاہ تم گھر جاو یار حور نے کل سے کچھ نہیں کھایا رات بھی نہیں کھایا اب تم جا کر اسے کہو مناؤ میں بہت مصروف ہوں ورنہ میں چلا جاتا
میں کیوں جاؤں ویسے بھی مجھے کوئی شوق نہیں ایسی ہمدردیاں پالنے کا تم جانو اور یہ شفا خانا جانے شاہ نے انکار کر دیا تھا
اب تو پال لی ہے نا ؟؟ فوراً جاؤ اب بھی حمزہ مصروف تھا فون بند کردیا
شاہ موبائل رکھ کر کام کرنے لگا ۔۔۔۔
پھر آدھ گھنٹے میں اس نے کام ختم کیا
اف کیا عذاب ہے اب انسان کو جب بھوک لگے گی تو کھالےگا کھانا لیکن حمزہ کو اب کون سمجھائے وہ یہ سوچ کر کوفت زدہ انداز میں گھر کو نکلا

محبتوں کے امین Donde viven las historias. Descúbrelo ahora