عزت کا پاسبان

108 12 30
                                    

اوہ اچھا تو وہ آپ کے بابا ہیں.... تبھی میں بھی سوچ رہی تھی کہ آپ اٌن سے کس طرح بات کر رہے ہیں...... شفاء کو رافع نے اب بتایا تھا کہ کرنل سر اُس کے باپ ہیں اور شفاء یہ سن کر بہت حیران ہوئی تھی.

اور تمہیں پتہ ہے شفاء ہم تینوں کالج ٹائم سے دوست ہیں اور ابھی تک ہم  بھائیوں کی طرح ہی رہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہیں ہم ایک دوسرے کے لیے........ شفاء بہت غور سے رافع کی بات سُن رہی تھی جبکہ ازمیر فون پر کسی کو میسج کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ رافع اور شفاء کی باتیں بھی سُن رہا تھا.

ماشاءاللہ.... کتنی پیاری دوستی ہے آپ سب کی...شفاء کو پارو یاد آئی تھی.. ان سب کی طرح تو نہیں مگر وہ  اُس کی اکلوتی دوست تھی اور کافی بار اُس نے شفاء کی بہت مدد بھی کی تھی.

کیا باتیں ہو رہی ہیں؟؟ دائم خود کو کمپوز کر کے اندر داخل ہوا وہ چاہتا تھا شفاء کو فلحال اس بارے میں کچھ معلوم نہ ہو...

کچھ نہیں بس میں شفاء کو اپنی باتیں بتا رہا تھا..... رافع نے دائم کو بتایا... دائم نے خود کو نارمل رکھا ہوا تھا کیونکہ کرنل سر نے اُسے یہ سب کرنے کے لیے کچھ وقت دیا تھا اور تب تک وہ رافع اور ازمیر سے مشورہ کر کے شفاء کو سمجھا لے گا.... یہی سب سوچ کر وہ تھوڑا نارمل ہوا تھا.

شفاء بیٹی..... میرے ساتھ آؤ..... وہ سب آفس میں بیٹھے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جب کرنل سر اندر داخل ہوۓ... سب اپنی جگہ سے احتراماً کھڑے ہو گئے.

شفاء نے گھبرا کر رافع کی طرف دیکھا... رافع نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا.

چلو آ جاؤ....... شفاء نے قدم کرنل سر کی طرف بڑھاۓ اور وہ دونوں دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئے.....

آؤ بیٹھو.....کرنل سر نے اپنے آفس میں موجود کُرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا....

دراصل مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے..... میرے بیٹے رافع نے تمہیں بہن بولا ہے تو اس لحاظ سے تم میری بیٹی ہوئی ناں اور اب میں یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے گھر میں رہو..... یہ سیٹھ والا معاملہ حل ہونے کے بعد بھی تم میری ذمہ داری رہو گی اور میں تم سے بھی یہی چاہوں گا کہ تم ہم سب کو اپنا سمجھو.........

مم... مگر وہ شخص مجھے ڈھونڈ رہا ہو گا اور امّاں وہ بھی تو مجھے تلاش کریں گی جب اُنہیں سب کچھ پتہ چلے گا..... میں اب اُس دلدل میں واپس نہیں جانا چاہتی...... لیکن.....

لیکن کیا بیٹی...... کرنل سر چاہتے تھے کہ شفاء کے دل میں جو بھی ہے وہ بول دے.

لیکن..... میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہے....مم... میں کیا کروں... میری سمجھ میں کک... کچھ نہیں آ رہا....... شفاء نے کب سے اپنے آنسو روک رکھے تھے مگر اب شاید اُس کا خود پر اختیار ہی نہیں رہا تھا اور وہ ہچکیوں سے رونے لگی.

ارے ایسے روتے نہیں ہیں.... کرنل سر نے شفاء کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا

دیکھو تمہارے بابا ہیں ناں پھر تمہیں کسی بھی قسم کی ٹینشن نہیں لینی.... اور نہ ہی رونا ہے.. خود کو مضبوط بناؤ.... اس معاشرے میں رہنے کے لیے ایک لڑکی کو بہت مضبوط ہونا پڑتا ہے اور میں اپنی بیٹی کو مضبوط اور نڈر دیکھنا چاہتا ہوں... ابھی آپ نے بہت سے لوگوں کو اُن کے انجام تک پہنچانے میں ہماری مدد بھی کرنی ہے لیکن سب سے پہلے آپ کو مضبوط بننا ہے...... اور کسی بھی قسم کا خوف اگر آپ کے دل میں ہے تو اُسے نکال دو..... آپ کے بابا اور بھائی آپ کی خفاظت کریں گے اور سب سے بڑھ کر وہ پاک ذات آپ کی خفاظت کرے گی جس نے پہلے بھی آپ کو اُس دلدل سے نکالا ہے....کرنل سر نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ...شفاء بہت غور سے کرنل سر کی باتیں اُن رہی تھی اور وہ خود کو بہت ہلکا بھی محسوس کر رہی تھی... ایک دم سے اُس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پر گۓ تھے.

عزت کا پاسبان Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ