Yaar e Man Maseeha 41st Episode

88 6 1
                                    

"سر ایک کارندے نے اپنا منہ کھول دیا ہے اور جو نام اس نے بتایا ہے اسے سن کر آپ شاکڈ ہو جائیں گے۔۔۔"

"جلدی بتاؤ کس کا نام لیا ہے اس کمبخت نے میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں سسپنس میں پڑنے کا"

"سر جی وہ وہ۔۔۔"
پولیس کانسٹیبل نے کرسی کے قریب ہوتے ہوئے راز دارانہ انداز میں جھک کر وہ نام اس پولیس افسر کے کان میں پھونکا تھا۔

"او آئی سی۔۔ یہ نام تم نے کیپٹن شاہ زر کے سامنے تو نہیں لیا؟ "
"نہیں سر جی لیکن شاہ زر صاحب جیسے ہی آئیں گے بتا دوں گا وہ تو کب سے اس کیس کے پیچھے سر کھپا رہے ہیں "

"او کملیا او پاگلا او عقل دیا کچیا خبر دار اگر تو نے کیپٹن شاہ زر کے سامنے کچھ پھوٹا تو۔۔۔۔ یہی موقع ہے بڑا ہاتھ مارنے کا۔۔۔۔
تو فکر نا کر تیرا بھی الگ حصہ ہوگا "

اس پولیس آفیسر نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔

"لی لی لیکن سر جی شاہ زر صاحب نوں کی دسنا اے"

"اووو تو اس بات کو چھوڑ میں دیکھ لوں گا"

اور پھر کیوں کے عارف بیگ سیاست کا اہم نام تھا اس لیے ایک بھاری بھرکم رقم اس سے وصول کی گئی تھی اور شاہ زر کو جھوٹے قصوں میں الجھا کر سچائی پر پردہ ڈال دیا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مائرہ کبرڈ کے ساتھ ٹیک لگاتی وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی روتے روتے اچانک وہ غصے سے بے قابو ہوتی ہوئی اٹھی تھی پھر اس نے الماری سے سارے کپڑے اٹھا کر باہر پھینکنا شروع کر دیئے تھے ڈریسنگ روم کی ہر چیز اس نے اٹھا کر نیچے پھینک دی تھی

اسی اٹھا پٹخ کی آواز سے شاہنواز فوراً باہر اتے ہوئے اس کی طرف بڑھا تھا۔

"دماغ خراب ہوگیا ہے کیا" شاہنواز نے مائرہ کو جھنجھوڑتے ہوئے غصے اور جنجلاہٹ سے کہا۔

"شاہنواز پلیز میرے ساتھ ایسے مت کریں میں مر جاؤں گی "
بے تحاشہ روتے ہوئے وہ شاہنواز کے سینے سے لگی التجا کر رہی تھی۔

"اپنی حالت درست کر کے فوراً کمرے میں آؤ "
شاہنواز سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے ڈریسنگ روم کے ساتھ ملحقہ کمرے کی طرف مڑ گیا تھا۔

مائرہ کو اور شدت سے رونا آرہا تھا لیکن مرتی کیا نا کرتی کے مصداق وہ ایک جوڑا اٹھا کر واش روم کی طرف بڑھ گئی، اچھی طرح شاور لینے کے بعد وہ باہر آئی تھی لیکن ابھی وہ شاہنواز کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے نیچے گرے ڈریس اٹھا کر وہ الماری میں سیٹ کرنے لگی تھی۔

"کہاں رہ گئی ہو اب۔۔۔۔"

کافی دیر بھی اس کے باہر نا جانے پر شاہنواز کی جنجلاہٹ بھری آواز اس کے کانوں سے آن ٹکرائی تھی۔

پیر پٹختی وہ ہاتھ میں پکڑا ہینگر نیچے پھینک کر باہر کی طرف بڑھی تھی۔

"جی بولیں" نظریں نیچی رکھتے ہوئے وہ جذبات سے عاری لہجے میں بولی تھی۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora