تم یہاں آؤ تحمل سے میری بات سنو" وہ اس کی کلائی تھامتے اسے کاوچ پر بیٹھانا چاہتا تھا۔
" ہاتھ بھی مت لگائیں مجھے شاہنواز" وہ کلائی چھڑاتی تیز لہجے میں بولی تھی۔
اس کی خراب لہجے پر شاہنواز کو بھی غصہ آگیا تھا۔
"میں سارے حق محفوظ رکھتا ہوں مائرہ بی بی، تم کسی بھول میں مت رہنا میں مرا نہیں جا رہا تمھیں چھونے کو"
اس کی بات مائرہ کو تازیانے کی طرح لگی تھی۔
"ہاں آپ چھونا بھی کیوں چاہیں گے مجھے میں مائرہ ہوں زائشہ جو نہیں"
غصے کی زیادتی سے شاہنواز نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھام لیا تھا مائرہ کو لگا اس کی ہڈیاں چٹخ جائیں گی۔
" یہ نام آئندہ تمھارے لبوں پہ نہیں آنا چاہیے مائرہ سنا تم نے،
ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اس بات کو اپنے ذہن میں جتنی جلدی بٹھا لو گی تمھارے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا"
وہ اس کی کنپٹی پر شہادت کی انگلی رکھ کر سرد لہجے میں بولتا اسے خوفزدہ کر گیا تھا۔
اس کا چہرا مائرہ کے چہرے سے چند انچ کے فاصلے پر تھا مائرہ بنا پلکیں جھپکے اس کی طرف دیکھ رہی تھی،
اس کی آنکھیں بلکل جامد تھیں کسی بھی احساس سے مبرا کیا کسی کی آنکھیں اتنی سرد مہر بھی سکتی ہیں۔
"مائرہ میں نے کتنا سوچا تم سے نرمی سے پیش آؤں لیکن تم"
بولتے ہوئے وہ زرا دیر کو تھما تھا اس کے رکتے ہی
مائرہ کی سانس بھی ایک لمحے کو ساکن ہوئی تھی۔
"تم اس قابل ہی نہیں کے تم سے نرمی کی جائے تم بھی انہیں لوگوں میں شامل ہو جنہیں بس دوسروں کے زخموں کو کریدنا آتا ہے"
وہ اس کو چھوڑتا تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔_________________
جنگل بیانان میں چہار سو اندھیرا پھیلا ہوا تھا، خار دار جھاڑیاں اور گھنی بیلوں سے لدھے ہیبت ناک درخت،
جو دیکھنے میں ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے کوئی خوفناک بلا۔۔۔۔ چاند کی مدھم روشنی میں اس سبزے کو دیکھنا ایک خوفناک عمل تھا۔
قبرستان جیسے سناٹے میں کسی وقت پھیلتی خوفناک جھنگروں کی آوازیں اسے اور زیادہ خوفزدہ کر رہی تھیں۔
شال کو مزید اپنے گرد کستے وہ زارم کے ساتھ اختیاط سے چلتے ہوئے بھی اچانک ایک پتھر سے ٹھوکر لگنے پر گر جاتی ہے۔
لیکن زارم وہ تو اس کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا۔ اس کے گرنے پر بھی اس کی طرف ایک نظر دیکھے بغیر آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔
اسے خبر تک نہیں کہ اگے بڑھنے سے وہ اس سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔
جب مرحہ نے اسے ہاتھ بڑھا کر روکنا چاہا تھا لیکن وہ اس کی دسترس سے دور جا چکا تھا۔
وہ اسے پکارنا چاہتی تھی روک لینا چاہتی تھی اُسے ۔۔۔۔۔۔
"زارم ! زر ! مجھے چھوڑ کہ مت جائیں زر میں مر جاؤں گی آپ کے بغیر۔۔۔۔
وہ چیخ چیخ کر زارم کو روکنا چاہتی تھی
لیکن اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی جیسے اس کا گلا کسی چیز نے زور سے جھکڑ رکھا تھا
وہ اپنے گلے کو دونوں ہاتھوں سے جھکڑتی بہت تکلیف میں تھی۔۔۔۔۔۔
وہ بہت زور لگا رہی تھی وہ اُٹھنا چاہتی تھی لیکن اس کی سب کوششیں رائیگاں جا رہی تھی۔۔
وہ بہت زیادہ تکلیف میں تھی بہت زور لگاتی آخر میں وہ چیخی تھی۔۔۔
"زارم!!!"
مِرحہ جیسے ہی نیند سے بیدار ہوئی اس نے روتے ہوئے اپنا پہلو ٹٹولا تھا۔۔۔۔۔
اس کی چیخ سے زارم بھی اُٹھ گیا تھا
"مِرحہ نے بیقراری سے زارم کے چہرے پر ہاتھ پھیرا پھر اس کے بازوؤں کندھوں پر وہ جیسے خود کو یقین دلا رہی تھی کے وہ اس کے پاس ہی ہے۔۔۔۔۔"
YOU ARE READING
یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)
General Fiction(یارِمن ہےستمگر یارِمن مسیحا بھی) میری پہلی کاوش 👇👇 اس کہانی میں بھی کہیں اپکو مسیحائی نظر آئے گی تو کہیں ستمگری کی حد یہ کہانی ہے محبت میں دھوکہ کھانے والی ایسی لڑکی کی جس نے اپنا سب کچھ گنوا دیا اور انتقام لینے کے چکر میں پھر سے غلط لوگوں کے ج...