رات کے اس پہر لیمپ کی مدھم روشنی سے کمرے کا ماحول بہت خوابناک سا لگ رہا تھا وہ لیمپ اور ٹی وی کی ملی جھلی روشنی میں بھی مائرہ کے چہرے پر ایک واضح اداسی دیکھ سکتا تھا۔
آفس ورک کے بعد جب وہ کمرے میں آیا تو مائرہ نائٹ سوٹ زیب تن کیے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی رموٹ ہاتھ میں تھامے بے دلی سے چینل بدل رہی تھی،
شاہنواز کے اندر آنے پر بھی ہنوز چہرے پر اداسی بھرا تاثر قائم تھا شاید وہ مرحہ کے ساتھ پیش آئے واقعے کو دل سے نکال نہیں پائی تھی۔
" ماہرو یار کیا ہے"
شاہنواز نے بیڈ پر آتے ہوئے اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار باندھ لیا تھا اور اس کے داہنے کندھے پر اپنے لب رکھے تھے،
اتنی نزدیکی پر مائرہ کپکپا اٹھی تھی اور شاہنواز رکا نہیں تھا اب وہ اس کا چہرا قریب کیے اپنے لبوں سے اس کے رخسار کو چھو رہا تھا۔وہ اپنے کپکپاہٹ کو کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی شاہنواز نے بے ساختہ مسکراتے ہوئے اس کا چہرا گھما کر اپنی طرف کیا تھا۔
"ماہرو ٹھنڈ لگ رہی ہے کیا ۔۔۔ "
شاہنواز کے پوچھنے پر بامشکل اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔"چلو لیٹ جاؤ اب"
شاہنواز نے کمفرٹر مائرہ کی طرف بڑھاتے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آف کر دیا تھا جبکہ مائرہ اس دوران کمفرٹر اوڑھتے باہنی کروٹ پر لیٹ چکی تھی۔شاہنواز نے اس کے پہلو میں دراز ہوتے مائرہ کا رخ دوبارہ اپنی طرف موڑتے ہوئے اس کے گرد اپنا مضبوط حصار باندھ لیا تھا۔
مائرہ کی سانس ایک لمحے کے لیے ساکت ہوئی تھی سینے میں موجود اس کے دل کی دھڑکنیں بھی سرکش ہو رہی تھیں۔" شاہ آپ مجھے تنگ کرنا چاہتے ۔۔۔۔"
" ششش!"
اس سے پہلے کے وہ جملہ مکمل کرتی شاہنواز نے اس کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے اسے روک چکا تھا۔
" میں صرف تمھیں چاہتا ہوں"
اس کے الفاظ کسی میٹھے نغمے کی طرح اس کے لبوں سے ادا ہوئے تھے۔مائرہ کا دل خوش گمانیوں سے بھر گیا تھا لیکن آنکھوں میں کئی سوال تھے، کئی الجھنیں تھیں۔
" شاہ کہیں آپ کو میرے چہرے میں۔۔۔۔۔"
ادھوری بات بول کر مائرہ کی آنکھیں لبالب پانیوں سے بھر گئی تھیں۔
اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا شاہنواز حیرت زدہ ہوا تھا۔
"کیا سمجھ رہی تھی وہ" شاہنواز کو ایک لمحے میں سمجھ آگیا تھا ۔"ماہرو میری جان بہتر ہے ماضی کو تم بھی میری طرح دفن کر دو، ہمیں نئی زندگی شروع کرنی ہے جہاں تم ہو میں ہوں اور۔۔۔۔ "
شاہنواز کے رکنے پر مائرہ کی سانس بھی جیسے اٹکی تھی۔
" اور۔۔۔۔؟ "
سوال کرتے ایک اضطراب پھر سے اس کی نظروں میں سمٹ آیا تھا۔
" ہمارے بچے یار اور کون" شاہنواز نے ایک تبسم سے کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی نمی کو اپنے انگوٹھوں کی مدد سے چنا تھا۔"شاہ جانتے ہیں آپ کی کتنی بے رخی برداشت کی ہے میں نے"
پانی جمع ہوتا پھر سے اس کی آنکھوں کو چمکتی ہوئی جھیلوں کے مواقف بنا گیا تھا۔
" اوووو میری جان میں ہر بات کا ازالہ کر دوں گا" شاہنواز نے آنسو پونچھتے ہوئے نرمی سے کہا۔

YOU ARE READING
یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)
General Fiction(یارِمن ہےستمگر یارِمن مسیحا بھی) میری پہلی کاوش 👇👇 اس کہانی میں بھی کہیں اپکو مسیحائی نظر آئے گی تو کہیں ستمگری کی حد یہ کہانی ہے محبت میں دھوکہ کھانے والی ایسی لڑکی کی جس نے اپنا سب کچھ گنوا دیا اور انتقام لینے کے چکر میں پھر سے غلط لوگوں کے ج...