Yaar e Man Maseeha 21st Episode

248 15 4
                                    

وہ زارم کے آفس جاتے وقت روزانہ اس کو سی آف کرنے باہر لان تک جاتی تھی آج بھی وہ روز کے معمول کی طرح زارم کو چھوڑنے باہر تک آئی تھی۔
"بیوی یار کچھ بھی کام مت کرنا اچھا میں جلدی آجاؤں گا شام کو پھر تمھیں ڈاکٹر کے پاس چلنا ہی ہوگا میرے ساتھ۔۔۔۔۔
اور نو ایسکیوزیز میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے وغیرہ وغیرہ"
وہ گھر کی اینٹرس سے لان کی طرف بنی روش پر ساتھ چلتے چلتے ہدایتیں کرتا مرحہ کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا،
مرحہ اس کا بلیزر ہاتھوں میں تھامے ساتھ چل رہی تھی زارم لیپٹاپ بیگ ایک ہاتھ میں تھامے دوسرا ہاتھ سیدھا کیے ساتھ ٹائم دیکھ رہا تھا۔

مرحہ نے زریں لب دانتوں تلے دبائے نظریں اپنے پیروں پر جما رکھی تھیں مائرہ کی شادی کے بعد سے اس کو اپنی طبیعت عجیب سی محسوس ہو رہی تھی،
رات کو بھی اسے کافی ڈؤان فیل ہو رہا تھا اسی وجہ سے زارم اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بات کر رہا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں زر آپ اپنا خیال رکھنا"
مرحہ نے نظریں زارم کے چہرے پر مرکوز کر لی تھیں جب زارم اپنا رخ مرحہ کی طرف کرتا رکا تھا۔
"تم میری بیوی کا خیال رکھنا بس اس میں کوئی لاپرواہی نہیں ہونی چاہیے"
وہ اس کے گال کو پیار سے تھپتھپاتا اسے الوداع کہتا چلا گیا تھا۔ مرحہ اسے دل میں خدا کے سپرد کرتی اندر آگئی تھی۔

نمروز صاحب طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے آج گھر میں ہی موجود تھے ہانیہ بھی آج یہاں ہی آئی ہوئی تھی رات سے۔۔۔۔۔
مرحہ زارم کو سی آف کرنے کے بعد واپس آئی تو ثمین بیگم نے اسے دوبارہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بلا لیا تھا،
کیوں کے باقی لوگ ابھی ناشتہ کر رہے تھے ہانیہ بھی ولیہ کو چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر کھلانے میں مصروف تھی۔
"مرحہ بیٹا تم نے ناشتہ ٹھیک سے نہیں کیا میں دیکھ رہی تھی چلو آؤ بیٹا شاباش ناشتہ کر لو"
ان کے بہت اصرار پر وہ بیٹھ تو گئی تھی لیکن اس کا دل کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔
ثمین بیگم نے بریڈ سلائس پر مکھن لگا کر اس کی پلیٹ میں رکھا تھا اسے بٹر بلکل بھی نہیں پسند تھا،
لیکن زبردستی ایک چھوٹا پیس اس نے اپنے منہ میں ڈالا تھا لیکن اس کا ٹیسٹ خلافِ معمول اسے اچھا لگنے لگا تھا،
مرحہ خود خیران ہو رہی تھی ایک کے بعد اس نے دوسرا بریڈ سلائس بھی کھا لیا تھا اسے کچھ بہتر محسوس ہونے لگا تھا پہلے سے۔
"بابا آپ کی طبیعت اب کیسی ہے"
چائے پیتے اس نے نمروز صاحب کو مخاطب کیا تھا جو کی چائے کے ساتھ ساتھ اخبار کی نظر ثانی میں مصروف تھے
اس سے پہلے کے نمروز صاحب جواب دیتے ثمین بیگم بول اٹھی تھیں۔
" بیٹا ان سے کیا پوچھتی ہو بلکل بچے بن جاتے ہیں تمھارے بابا صاحب دوا بھی بچوں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کے کھلانی پڑتی ہے"
ثمین بیگم کے ساتھ ہانیہ اور انعم بھی مسکرائی تھیں۔
"واقعی یہ بات بلکل سچ ہے پتہ مرحہ ہم میں سے کسی نے امی کو تنگ نہیں کیا جتنا بابا نے کیا ہے طبعیت خراب ہونے کے معاملے میں،
بابا کو زرا کچھ ہوا نہیں کے شور اٹھا نہیں۔۔۔۔ ثمین ثمین ارے بیگم تم بس کہیں مت جایا کرو میرا دل گھبرانے لگتا ہے"
ہانیہ نے باقاعدہ نمروز صاحب کی ایکٹنگ کی تھی جس پر نمروز صاحب خود بھی ہنس رہے تھے۔
بہت اچھے ماحول میں ناشتہ کیا گیا تھا ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد مرحہ اپنے کمرے میں آگئی تھی
یوں تو گھر میں سارے کاموں کے لیے ملازم موجود تھے لیکن زارم کے زیادہ تر کام مرحہ خود ہی کرتی تھی۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now