رنگِ دنیا قسط نمبر_ 1

63 5 0
                                    



اس وقت آسمان کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔ کالا اور سفید رنگ ملا ہوا ۔ سرمئی سا رنگ آنکھوں میں ٹھنڈک کا باعث بن رہا تھا۔ فجر کا وقت تھا۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھیں موند لی۔وہ اکثر فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ٹیرس، پر بیٹھ جاتا اور قرآن کی تلاوت کرتا تھا اور اس کے بعد یونہی آسمان کو دیکھتا، اسے یہ کرنے میں بہت سکون ملتا تھا ۔ چرند پرند کی آوازجو اس وقت اللّٰہ کی حمد و ثناء کررہی ہوتی ، آسمان کا سرمئی رنگ اور وقت گزرتے ہوئے طلوع ہوتے سورج کی امید بھری کرنیں اسے بہت راحت بخشتی تھی۔
ادیب علی ایسا ہی تھا اللّٰہ کی قدرت کی قدر کرنے والا۔ کالی آنکھیں، لمبی خوبصورت پلکیں، ہلکی بیرڈ اور گوری رنگت وہ خود بھی اللّٰہ کی تخلیق کردہ خوبصورت چیزوں میں سے تھا۔
"ادیب بیٹا یہ لو چاۓ "
ٹیبل پر چاۓ کا کپ رکھتے ہوئے رشید بیگم (ادیب کی والدہ) اس کے مقابل بیٹھ گئی اپنا چاۓ کا مگ ان کے ہاتھ میں تھا۔
"آئیۓ مسسز نصیر علی آج دیر کردی آپ نے آنے میں"۔
ادیب اپنی والدہ کو مسز نصیر علی کہہ کر پکارتا تھا اسے یہ عادت بچپن سے ہی تھی۔وہ دونوں ماں بیٹے فجر کی نماز پڑھ کر اس طرح ٹیرس پر بیٹھ جاتے اور مل کا چاۓ کا کپ پیتے ان کے ساتھ مسٹر نصیر علی بھی شامل ہوتے۔ لیکن وہ کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے۔
"آ تو گئی نا بیٹا جی دیر آۓ درست آۓ"۔
مسسز نصیر نے چاۓ کا مگ میز پر رکھتے ہوئے ادیب کی گود سے قرآن پاک اُٹھایا اور اسے چومتے ہوئے کمرے میں رکھ آئی۔
" بابا کی واپسی کب ہے؟ "اس نے چاۓ کا مگ اٹھاتے ہوۓ سوال کیا۔
" رات میں کال آئی تھی تو کہہ رہے تھے دو تین لگ جائنگے "۔
" چلے اللّٰہ خیر و آفیت سے گھر لے آئیں۔ "
ادیب کے کہنے پر رشید بیگم نے آمین کہا اور پھر دونوں ماں بیٹے نے مل کر چاۓ پی؛ اور بہت سی باتیں کی۔
ادیب مسٹر اینڈ مسسز نصیر علی کی واحد اولاد تھا اور اس میں کوئی خک نہیں تھا کیہ اس کی تربیت میں انہوں نے کوئی کثر نہ چھوڑی تھی۔ اللّٰہ سب ماں باپ کو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کی صلاحیت دے۔(آمین)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اسے یونی جلدی پہنچنا تھا رات کو سوتے وقت اس نے امی کو کہا تھا کہ اسے جلدی اٹھائیں اور صائمہ بیگم نے تو اسے آذان کے وقت بھی اٹھانے کی کوشش کی ۔
لیکن آہ ہ ہ !!! اس کی پکی نیند 8 بج چکے تھے اور اسے 9 بجے یونی پہنچنا تھا ۔ لیکن وہ ابھی بھی گہری نیند میں سو رہی تھی۔
"عمیزہ بیٹا اٹھ جاؤ دیر ہو رہی ہے".
صائمہ بیگم نے کہتے ہوۓ پردے پیچھے کیۓ تو سورج کی چمکدار روشنی سے اس کی گندمی رنگت اور سیاہ بال اور نمایاں ہوۓ ۔ عمیزہ نے آہستہ سے آنکھیں کھولی۔اس کی آنکھوں کا رنگ ڈارک براؤن تھا اور سورج کی روشنی میں مزید نمایاں ہورہا تھا ۔ عمیزہ نے مشکل سے آنکھیں کھولتے ہوۓ گھڑی کی طرف دیکھا اور ایک جھٹکے سے اُٹھتے ہوۓ واش روم بھاگ گئی کیونکہ تھوڑی دیر ہوتی تو زرک بھائی اسے چھوڑ کر آفس چلے جاتے اور وہاں یونی میں دیر ہونے پر سیماب اس کے قتل کا ارادہ کررہی ہوگی۔
عمیزہ بلال گھر میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔ بلال علی اور صائمہ بیگم کی دو اولادیں تھی اور دونوں ایک سے بڑھ کر ایک۔
"ماما عمیزہ کو کہیں جلدی کرے ادیب آفس میں ویٹ کررہا ہوگا نصیر چاچو بھی نہیں ہیں"
زرک جو کہ کب سے عمیزہ کا انتظار کررہا تھا اب اُٹھ کھڑا ہوا۔
" آرہی ہے بیٹا بس ایک منٹ صائمہ بیگم نے بلال صاحب کے سامنے چاۓ کا کپ رکھتے ہوئے کہا
" یہ لڑکی روز کھانے کی ٹیبل پر لیٹ ہوتی ہے"۔
زرک نے سر جھٹکتے ہوۓ گاڑی کی چابی اُٹھائ۔ زرک بلال کو اپنا ہر کام وقت پر کرنے کی عادت تھی ۔ وقت کی پابندی نہ کرنا زرک بلال کو اپنی توین لگتا تھا۔

رنگِ دنیا از قلم منال احمد Место, где живут истории. Откройте их для себя