چیپٹر نمبر 1: آ غازِ سفر

88 5 12
                                    

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيم°
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم°

ساری ہدایت مسجد یا اللہ کے گھر میں نہیں ملتی، کچھ ہدایت کافروں کی عبادت گاہ میں بھی مل جایا کرتی ہے۔ ساری ہدایت مفتی، مولانا یا عالم کی باتیں سن کر نہیں ملتی، کچھ ہدایت کسی کافر کے ایک جملے سے بھی مل جایا کرتی ہے۔ اور ساری جنگ دنیا سے نہیں ہوتی، کچھ جنگ خود سے بھی ہوتی ہے، جو سب سے مشکل جنگ ہوتی ہے۔ جس کو جیت جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، لیکن جو یہ جنگ جیت لیتا ہے، وہ دنیا کے ساتھ آخرت بھی فتح کر لیتا ہے۔

یہ کہانی ہے ایک بہت ہی عام سی لڑکی کی جسے فیشن کا بہت شوق تھا۔ بالکل دوسری عام لڑکیوں کی طرح۔ جسے اپنے بال کھلے رکھنا بہت پسند تھا۔ وہ ہر فنکشن، ہر جگہ اپنے بال کھلے رکھ کر جایا کرتی تھی۔ جسے تقریباً سارے ہی ٹرینڈنگ ہیئر اسٹائل بنانے آتے تھے۔ وہ کپڑے پہننے میں بھی بالکل عام تھی جیسے سب ہوتے ہیں۔ ہالف سلیوز(چھوٹی آستین) پہن لیا کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، بال کھلے رکھ لیے کیا فرق پڑتا ہے، دوپٹہ کبھی گلے میں کبھی کندھے پر کبھی تو دوپٹہ ہو یا نہ ہو کسے فرق پڑتا ہے۔ اس کے گھر والے بھی بالکل دوسرے عام گھر والوں کی طرح تھے۔ جو کہتے تھے جیسا دیش ویسا بھیس اپناؤ... جہاں لگے لوگ نام رکھیں گے حجاب کرلو جب دل چاہے اُتار لو، اگر یونیفارم کا حصہ ہو تو پہن لو اور اگر اسکول میں، کالجوں میں یا فیملی میں کچھ پروگرام ہو تو اُتار لو، کبھی بال بنانے کا دل نہ چاہے تو پہن لو۔ سیٹوئیشن(ماحول )دیکھ کر حجاب کرو... اپنی مرضی چلاؤ جیسے کپڑے پہننے ہیں پہنو کوئی روک ٹوک نہیں۔

کہتے ہیں کہ آپ کو ہزاروں کتابیں بھی وہ سبق نہیں سیکھا سکتی جو آپ کو ایک سفر سیکھا جاتا ہے۔ اس عام سی لڑکی کا ایک بارجانا ہوا سفر پر ۔
___________________________________________

کشمیر جانے کے لیے وہ بہت اکساٹیڈ تھی اُس نے اپنے سارے کپڑے ڈیسائٹ کر لئے تھے۔
کشمیر پہنچ کر اُس کے سر پر دھماکا ہوا جب اُسے پتہ چلا کہ وہ ہوٹل پر نہیں بلکہ اُن کے ایک رشتے دار کے گھر پر رکنے والے ہے ۔.. اُس کا موڈ آف ہو گیا۔
اُس نے تعجب سے اپنی ماں سے پوچھا: "ایک منٹ، ہم کس کے گھر پر رکے نگے؟
"وہی لڑکی جو ہمارے شہر میں عالمیت مطلب اسلامی تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں، ان کے گھر" اسکی ماں نےاسے جواب دیا تھا-
اس نے منہ بنا کر سوال کیا: "ہاں، لیکن آخر کیوں ہم ان کے گھر جارہے ہیں؟"
"کیونکہ انہوں نے ہمیں بہت زیادہ فورس کیا ہے، نہیں جائیں گے تو انہیں برا لگے گا" اس کی ماں نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
"تو ٹھیک ہے پھر ہم ان کے گھر زیادہ دن نہیں رکیں گے" وہ بضد ہوئی تھی-
"وہ آگے دیکھا جائے گا" اس کی ماں نے بات ٹالی تھی۔
"میں نے کتنے سارے کپڑے لائے ہیں، وہ میں پہن ہی نہیں پاؤں گی، آپ کو تو پتا ہے نہ وہ جماعت سے جُڑے ہوئے لوگ ہیں" اسے اب غصہ آ رہا تھا، ایسے کیسے کسی انجان کے گھر رکیں گے، وہ بھی اتنے نیرو مائنڈیڈ لوگوں کے گھر۔
"فکر مت کرو، ہم زیادہ دن نہیں رہیں گے ان کے گھر" اس کی ماں نے اسے تسلی دی۔
"میں صاف صاف بتا رہی ہوں، میں کوئی حجاب وغیرہ نہیں کروں گی۔ ان کے سامنے جو کپڑے لائے ہیں، وہی پہنوں گی۔ پھرچاہے کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے۔" اس نے جیسے فیصلہ سنایا اور اپنا رخ کھڑکی کی طرف موڑ دیا۔
"ٹھیک ہے، میں کیوں لوگوں کی مرضی کے حساب کے کپڑے پہنوں گی، مجھے جو اچھا لگے گا میں وہی پہنوں گی۔ پھرچاہے وہ میرے بارے میں کچھ بھی سوچیں، ایسے لوگ ویسے بھی بہت دقیانوسی ہوتے ہیں..."
اس لڑکی نے کار کی کھڑکی سے بھاگتے ہوئے منظر کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
اسے دینی لوگوں سے وحشت ہوتی تھی کیونکہ اُسے لگتا تھا کہ جو دین پڑھ لیتے ہیں وہ نارو مائنڈڈ ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنا دین سب پر فورس کرنے لگتے ہیں۔ لیکن وہ تو اُس کے حساب سے ایک آزاد خیال لڑکی تھی جسے اپنے فیشن کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اُس کے دماغ میں عجیب چڑ بیٹھی تھی دینی لوگوں کو لیکر، شاید یہ چڑ بھی انہی لوگوں نے بٹھائی تھی اُسے یاد آیا جب اُسے پہلی بار زبردستی حجاب کرنا پڑا تھا وہ کتنا روئی تھی کیونکہ اُس کے اسکول کے یونیفارم کا حصہ تھا اُس کے یہ نہیں پہننا تھا لیکن اُسے فورس کیا گیا تھا پہننے کیلئے مجبور کیا گیا تھا اور زور زبردستی کی چیزوں کو انسان ناپسند ہی کرتا ہے۔ انسان بہت آزاد خیال ہوتا ہے جو وجہ جانے بغیر کچھ نہیں کرتا ہے۔ اُس وقت کسی نے اُسے وجہ نہیں بتائی بس کہا کہ یونیفارم کا حصہ تو تمہیں پہننا ہی ہوگا۔
ہم تو کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنا سکتے، تو لوگوں نے یہ فیصلہ کیوں کر لیا کہ ہم کسی لڑکی کو زبردستی حجاب پہنا سکتے ہیں یا تو اسے تنقید کا نشانہ بنا کر یا لوگ کیا کہیں گے کے ڈر سے یا اسے احساس دلا کر کے وہ کتنی بڑی کافر ہے اگر وہ پردہ نہیں کرے گی۔ سب ملکر اسکے اندر ڈر پیدا کرتے ہیں اللہ سے محبت کوئی نہیں سکھاتا۔ زبردستی سے اپنائی ہوئی چیز بوجھ لگتی ہے اور اس بوجھ کو اُٹھاتے اُٹھاتے انسان ناکام ہوہی جاتا ہے، اُس بوجھ سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اور اللہ کے حکم سے تو محبت کی جاتی ہے لیکن اتنی پیاری چیزوں کو لوگ سمجھانے کی بجائے زبردستی ایک دوسرے پر مسلط کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسلئے ایسے لوگوں کو عام طور پر ایکسٹریمسٹ کہتے ہیں جو اپنی بات کو منوانے کیلئے ایکسٹریم پر پہنچ جائے جنکا مقصد دین کی بھلائی نہیں بلکہ اپنے حساب کی دین کو پھیلانا ہوتا ہے۔ منافق ہوتے ہیں جو خود سود کا کاروبار کرتے ہیں اور ممبر پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر آفت اس لئے آرہی ہے کہ عورتیں بے حیائی کر رہی ہیں۔ ایسے منافقوں پر اللہ کی لعنت ہے جو دین کو اپنے حساب سے اپناتے ہیں اور اپنے حساب سے پھیلاتے ہیں۔
___________________________________________

ابھی تو اُس لڑکی کے سفر کا آغاز ہوا تھا اور آغازِ سفر پر انسان اپنی خامیوں سمیت ہی سفر کی شروعات کرتا ہے لیکن اختتام پر پہنچ کر وہ بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔ اگر آپ سفر کے آغاز اور اختتام پر ایک جیسے ہی رہتے ہو اور آپ میں کچھ بھی تبد یلی نہیں آتی تو پھر آپ نے کیا خاک سفر کیا...

----جاری ہے۔۔۔۔۔۔

حجاب نامہ Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ