چیپٹر نمبر 2: پہچان

54 5 9
                                    

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيم°
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم°

کشمیر جسے ہندوستان کی جنت کہتے ہیں، ہاں وہی جنت جس نے دوزخ دیکھی ہے ۔ کشمیر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے بعد جب باری واپسی کی آئی تو انہیں ڈائیریکٹ جہاز کی فلائٹ نہیں مل رہی تھی۔ انہوں نے پھر اِسٹے سے فلائٹ(بیچ میں کسی جگہ رکتے ہوئے جانا ) بک کر والی ۔

امرتسرجو پنجاب کا ایک بہت ہی خوبصورت شہر ہے جہاں ہندوستان اور پاکستان کی سرحد ملتی ہے اس شہر میں انہیں ایک دن رہائش کرتے ہوئے جانا تھا۔ ہمیں کب کہاں پہنچنا ہے یہ سب پہلے سے ہی لکھا ہوا ہوتا ہے۔ کس جگہ سے کونسی سیکھ ملنی ہے یہ بھی ہمارے سفر کا حصہ ہوتا ہے۔ ہر جگہ اپنے اندر ایک کہانی سمیٹے ہوئے ہوتی ہے جہاں سے گزرنے پر اُس کہانی کا سبق ہمیں مل ہی جاتا ہے۔ لیکن یہ سبق ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ان کے لئے ہوتا ہے جو غور و فکر کرتے ہیں، جو سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور پھر ہدایت بھی انہیں ملتی ہے جو خود ہدایت لینا چاہتے ہیں۔

انکا امرتسر کی سیر کرنے کا آغاز ہوا، وقت کم تھا تو انہوں نے بس دو جگہ گھومنے کا فیصلہ کیا، واہگہ بارڈر اور گولڈن ٹیمپل۔ سب سے پہلی منزل تھی واہگہ بارڈرجسے اٹاری بارڈر بھی کہتے ہے،یہ سرحد جو ہندوستان اور پاکستان کی سرحد ہے جہاں دونوں ممالک کی فوج مل کر پریڈ دکھاتی ہے کون کہتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدیں صرف خون آلود ہی ہوتی ہے کیا انہوں نے اٹاری-واہگہ کی سرحد نہیں دیکھی جہاں دو ملکوں کے درمیان کیسے جشن کا سماں ہوتا ہے ۔

اٹاری - واہگہ بارڈر پہنچ کر تو اُف! اُس لڑکی کے پسینے ہی چھوٹ گئے تھے، کشمیر کی ٹھنڈ سے وہ امرتسر کی دھوپ میں آ گئی تھی۔زندگی کے کچھ سبق حاصل کرنے کے لیئے ہمیں آرامی سے بے آرامی میں آنا پڑتا ہے ،کچھ تکلیفیں نعمت ہوتی ہے جو ہمیں بہت کچھ سکھا کر جاتی ہے۔
امرتسر کی گرمی اور وہ بھی مئی کی گرمی اف، اُوپر سے اتنی بھیڑ تھی کہ توبہ۔ انہیں واہگہ بارڈر پہنچتے پہنچتے دیر ہوگئی ‌تھی۔ گیٹ بند ہو چکا تھا انہیں انتظار کرنا پڑا وہ گیٹ کے باہر‌ قریب ہی بیٹھ گئے۔ اُنہیں لگا شاید بعد میں اندر داخل ہونے کی اجازت مل جائےگی پر ایسا نہیں ہوا انکا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا اور اُوپر سے گرمی، وہ واہگہ بارڈر کی لمبی سی دیوار کے پاس ہی روڑ کے کنارے فٹ پاتھ پر نیچے بیٹھی ہوئی تھی، رومال سے اپنا پسینہ پوچھتے ہوئے۔اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا "اُف، کتنی گرمی ہے۔"
"قبر میں اِس سے زیادہ گرمی ہوگی" یہ اُس کے بھائی کی آواز تھی۔
اُسے تو غصہ ہی آ گیا، پہلے ہی گرمی اور انتظار نے دماغ خراب کردیا تھا اور اب اِس کے بھائی کی دل جلانے والی باتیں۔ اسنے غصہ میں اپنے بھائی کو کہا "تم ابھی کی باتیں کرو، ٹھیک ہے نا قبر میں مرنے کے بعد دیکھی جائیں گی۔"

وہ پاگل لڑکی تھی۔ اسے کوئی بتاتا تو سہی کہ قبر کی فکر دنیا میں ہی دیکھی جاتی ہے تاکہ ہمیں مرنے کے بعد آسانی ہو، ہم ہر چیز کو بعد میں دھکیل دیتے ہیں۔ حجاب شادی کے بعد کریں گے... حج اپنے بچوں کی شادی کے بعد کریں گے۔نماز اور قرآن کے لئے یار، ابھی تو وقت نہیں ملتا، ریٹائرمنٹ کے بعد پڑھیں گے۔ اور عبادت اس کے لئے تو زندگی پڑی ہے، ابھی تو زندگی کے مزے لو۔ جب بڑھاپا آئے، اس کے بعد کریں گے۔ ابھی جتنے گناہ کرنے ہیں کر لو، جیسی زندگی گزارنی ہے گزار لو، زندگی کے آخری حصے میں تو ہم معافی مانگ ہی لیں گے، مرنے سے پہلے سارے گناہ معاف کروا کر جنت میں ہی جائیں گے۔
ہم اِس سب چیزوں میں ایک چیز بھول جاتے ہیں، اگر بعد تک مہلت نہ ملیں تو؟ اگر بعد تک زندگی نہ رہی تو؟ اگر وہ بعد کبھی آئے ہی نہ تو؟اگر ہم ایک لمحے کے بعد مر جائیں اور پھر اللہ کو جواب دینا پڑا تو؟ کیا جواب ہونگا ہمارے پاس؟ ہم اُس وقت افسوس کرینگے کہ کیوں ہم نے اپنے سارے کام بعد میں ڈال دیے تھے۔ اور اُس وقت ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔جیسا قرآن میں اللہ کہتے ہے
"اور آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیں جب ان پر عذاب آپہنچے گا تو وہ لوگ جو ظلم کرتے رہے ہوں گے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی دیر کے لئے مہلت دے دے کہ ہم تیری دعوت کو قبول کر لیں اور رسولوں کی پیروی کر لیں۔ (ان سے کہا جائے گا) کہ کیا تم ہی لوگ پہلے قسمیں نہیں کھاتے رہے کہ تمہیں کبھی زوال نہیں آئے گا"(سورۃ ابراہیم آیت ٤٤)
لیکن ہم انسان وقت سے پہلے نہیں سیکھتے، کسی نہ کسی ایک ٹھوکر، کسی نہ کسی ایک دھکّے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں سیدھے منہ کے بل گراتا ہے اور ہم اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں ہدایت پہلے مل جاتی ہے اور کچھ لوگ اتنے بدقسمت ہوتے ہیں کہ وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہدایت کی چاہ ہی نہیں کرتے تو انہیں ہدایت ملتی بھی نہیں۔
___________________________________________

واہگہ بارڈر سے تھک کر وہ ٹیکسی پکڑ کر اب ایک ریستوران کے سامنے کھڑے تھے۔ کڑکتی دھوپ، اور اوپر سے لمبا انتظار ان کی بھوک کے مارے بُری حالت ہوگئی تھی۔

"سر، سر، آپ کہاں جا رہے ہیں،مسلمانوں کی ہوٹل ہے یہاں نان ویج ملتا ہے " ریستوران کے اندر جانے سے پہلے اُس ریستوران سے باہر نکلتے ہوئے کسی آدمی نے انہیں کہا۔
"ہاں، ہمیں پتا ہے یہاں نان ویج ملتا ہے ہم مسلمان ہی ہے"، اس لڑکی کے والد نے انہیں مسکرا کر جواب دیا۔

"اوہ،اچھا ہمیں لگا آپ ہندو ہو معاف کرنا" اس آدمی نے معازرت والے انداز میں کہا،ایک پل کو انکے درمیان خاموشی چھا گئی عجیب خاموشی
"کوئی بات نہیں"،اس لڑکی کے والد نے انہیں جواب دے کر ریستوران کی سیڑھیاں چڑھنے لگے اور وہ آدمی مسکرا کر اپنی بیوی کے سا تھ آگے بڑھ گیا۔
"یہ لوگ مسلمان لگتے تو نہیں انکی عورتیں وہ سر پر اور منہ پر وہ کیا کہتے ہیں پلو لیتی ہے نا" یہ ان کی اپس کی گفتگو تھی جو وہ آدمی اپنی بیوی سے کر رہا تھا۔ جو اس لڑکی کے بازو سے گزر رہے تھے، ان کی یہ بات اس لڑکی کے علاوہ کسی نے نہیں سنی تھی۔ اُسے عجیب لگا تھا بہت عجیب ،اُس لڑکی نے سوچا "کیا ہم انہیں مسلمان نہیں لگ رہےہیں ؟" پھر اگلے پل اُس نے اپنے ذہن سے باتیں جھٹک کر ریستوران کے اندر بڑھ گئی۔

اگر کوئی اسکے سامنے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ پڑھتا تو یقیناً وہ شرم کے مارے مر جاتی "اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے"

تاکہ وہ پہچان لی جاتی کہ وہ مسلمان ہے لیکن یہ پہچان بنانے کیلئے بہت سی قربانی دینی پڑتی ہے اللہ کیلئے اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے تاکہ اسکا شمار مومنوں میں ہوجائے۔ تاکہ اس مسلمان کی پہچان فرشتوں میں ہو جائے۔ لیکن دنیا میں ایک معمولی آدمی اسے مسلمان نہیں سمجھ رہا ہے اسکے کپڑوں کی وجہ سے تو کیا فرشتے اسکی پہچان مسلمانوں میں کرینگے؟

‌‌ ----جاری ہے----

حجاب نامہ Donde viven las historias. Descúbrelo ahora