أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيم°
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم°کچھ دن گزرے تھے اور ان دنوں اس کے رشتہ دار میں شادی نکلی تھی۔ وہ اپنے خاندان میں فیشن آئیکن کے نام سے مشہور تھی۔ اس کے کزنز اس سے پوچھنے لگے کہ وہ اس بار شادی میں کیا پہنے گی، اس نے ابھی کون سے کپڑے پہننے ہے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اس نے سوچا کہ "کیوں نہ اس بار حجاب والا لُک لیا جائے"، پھر اُسے خود ہی اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ کیسے وہ حجاب کو فیشن سمجھ کے کر رہی ہے۔
اُسکے اسکول کے ایک استاد اکثر پڑھاتے پڑھاتے اچھی باتیں بتا دیا کرتے تھے، کھیل کھیل میں بہت گہرے سبق سکھا جاتے تھے، لیکن اسے اُس وقت یہ ساری باتیں بورنگ لیکچرز لگتے تھے۔ اگر کسی کی زندگی میں کوئی نصیحت کرنے والا ہو تو اُسے خوش ہونا چاہیے کیونکہ اس زمانے میں ہر کوئی آپکا بھلا نہیں چاہتا۔ اُسکے استاد ایک بار نصیحت کرنے لگے کہ "اگر ہم کوئی کام کریں جو ہمارا کرنا ضروری ہے، جیسے سیدھے ہاتھ سے کھانا اور اس کی یہ نیت کرلو کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر رہا ہوں تو ہمیں اُس روٹین کے کام کا بھی ثواب مل جائے گا" اُسکے ذہن میں یہ خیال اللہ نے ڈالا تھا۔ کچھ نصیحتوں کے معنی ہمیں بعد میں سمجھ آتے ہیں لیکن آجاتے ہیں۔
وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی، اُسکی تیاری مکمل تھی۔ اُس نے گلابی رنگ کی خوبصورت گاؤن پہن رکھی تھی جس پر گولڈن کلر کا ورک تھا۔ اپنے ہاتھوں میں اُس نے گلابی رنگ کا ہی حجاب پکڑا ہوا تھا اُس نے گہری سانس خارج کی۔ اور حجاب پہننے لگی۔ وہ آج کسی فنکشن میں پہلی بار حجاب پہن کر جا رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اُس نے اس سے پہلے حجاب نہیں پہنا تھا، اُس نے کئی جگہوں پر کئی بار حجاب پہنا تھا، کبھی یونیفارم سمجھ کر، کبھی وقت کا تقاضا سمجھ کر، تو کبھی بال بنانے کا دل نہ کرے تو پہن لیتی تھی۔ لیکن اس بار اُسکے احساسات الگ تھے، اُسکی دھڑکن الگ رو میں چل رہی تھی۔ اس بار اُس نے دنیا کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے لئے حجاب پہنا تھا۔ اُس نے قرآن کی ایک آیت اپنے اوپر پہنی تھی۔ اُسے پتا تھا کئی لوگ اُسے عجیب نظروں سے دیکھیں گے، کچھ اُسکا مذاق اُڑائیں گے، کچھ ہنسیں گے، کچھ اُسکے حجاب کو دکھاوا کہیں گے۔
اُسے یاد ہے جب اُس نے حجاب خریدا تو اُسکی ماں کا ردعمل کیا تھا اسکی ماں نے اس سے حیرانی سے پوچھا تھا "کیا تم فنکشن میں حجاب پہنونگی؟"
اُس نے اپنی گردن ہاں میں ہلائی تھی۔
اُسکی ماں نے اُسے غصے میں کہا تھا "اور جو ابھی پارلر سے بال سیٹ کر کے آئے ہو، اسکا کیا؟ کوئی ضرورت نہیں حجاب پہننے کی، ابھی تمہاری عمر ہی کیا، شادی کے بعد پہن لینا، ابھی پہنوگی پھر اُتار دونگی، مجھے پتا ہے تمہارے کچھ دن کے شوق ہیں بس...اس سے بہتر ہے پہنو ہی نہ مت۔"
اُسے اپنی ماں کی بات سن کر حیرت نہیں ہوئی تھی، اُسے پتا تھا اُسے اب کیا کیا آگے سننا تھا۔ کتنے لوگوں کی عجیب نظریں سہنی تھیں، کتنوں کے طنز برداشت کرنے تھے... لیکن اُسے اب ان چیزوں کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اب وہ اللہ کی محبت میں عمل کر رہی تھی۔
BINABASA MO ANG
حجاب نامہ
Spiritualیہ کوئی ناول نہیں ہے، بس ایک قصہ ہے دل سے نکلی ہوئی ایک تحریر... جس کو آپ حجابیز سیلف-ہیلپ کتاب بھی کہہ سکتے ہیں، جو آپکو بہت کچھ بتائے گی۔ اس میں شاید آپکو اپنی کہانی کا عکس نظر آئے یا پھر آپ کو اس کہانی میں کوئی اور نظر آئے، لیکن آپ انشاءاللہ کچھ...