چیپٹر نمبر 3:ہدایت

38 3 6
                                    

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيم°
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم°

اگلی منزل تھی گولڈن ٹمپل جہاں پہنچتے ہوئے انہیں شام ہوگئی تھی ،گولڈن ٹمپل جسے ھرمیندر صاحب بھی کہتے ہے یہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگو کے لیئے بہت اہم گردوارا ہے جہاں سارے مذاہب کے لوگوں کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ ایک مصنوعی پول(تالاب) کے درمیان بناہوا گردوارا ہے جو دو منزلہ عمارت پر مبنی ہے۔ نیچے کی منزل کا ایلویشن(باہری دیوار)پوری طرح سے ماربل سے ڈھکی ہوئی ہے اور اُوپری منزل پر اور اس کے گُمبد پر خالص سونے کی پرت چڑھی ہوئی ہے جو لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔اسی وجہ سے اسکا نام گولڈ ٹمپل مشہور ہوا۔ رات میں یہ عمارت اور زیادہ خوبصورت نظر آتی ہے جو پانی کے بیچ میں اپنے اوپر سونے کی چادر لپیٹے ہوئے کھڑی ہوتی ہے۔ اسی لئے لوگ گولڈن ٹمپل کے معماری کو دیکھنے کے لئے
دور دراز سے آتے ہیں جو واقعی سرھانے لائق ہے۔

اندر داخل ہونے سے پہلے ایک چھوٹی نالی نما جگہ بنی ہوئی تھی جہاں سے لوگو کو اپنے پیروں کو صاف کرکے اندر قدم رکھنا ہوتا ہے جو purification کا ایک طریقہ ہوتا ہے جیسے نماز سے پہلے مسلمان وضو کرتے ہیں، اُسی طرح سِکھ بھی گُرُودوارے میں قدم رکھنے سے پہلے اپنے پاؤں کو پانی سے صاف کرتے ہیں۔

لیکن ہر جگہ کی انٹری(داخلے)کا ایک یونیفارم ہوتا ہے اور گولڈن ٹمپل کی انٹری کا یونیفارم اپنے سر کو کسی کپڑے سے کوور (ڈھانپ)کر کے رکھنا تھا ۔ اس لڑکی نے اسے بھی فالو کیا۔ اسنے کالے رنگ کے ایک چھوٹے سے دوپٹہ اپنے سر پر رکھ لیا ویسٹرن کپڑوں پر سر پر ڈپٹہ رکھنا اسے عجیب لگا لیکن اسکے پاس دوسرا کوئی چارا نہیں تھا مجبوری میں اسے یہ بھی فالو کرنا پڑا۔ مجبوری انسان سے وہ ساری چیزیں کرا لیتی ہے جو انسان کرنا نہیں چاہتا۔لیکن اسے کرنا پڑتا ہے تاکہ اسے اپنی اوقات کی خبر رہے۔تاکہ وہ حد سے نا گزر جائے ایسی مجبوریاں بھی مقدر والوں کو ملتی ہے جو انہیں آگے آنے والے بڑے نقصان سے بچاتی ہے ۔اور جہنم سے بڑا نقصان کونسا ہو سکتا ہے۔

وہ لڑکی اور اُسکا بھائی فوٹو نکالنے کے شوقین تھے۔ جتنے فوٹو نکالو انھیں کم لگتا تھا۔ کبھی اس جگہ کھڑے ہوکر کبھی اس جگہ بیٹھ کر، کبھی یہ پوز، تو کبھی وہ پوز۔ سب ان سے تنگ تھے۔

وہ لڑکی DSLR کیمرہ پکڑے اپنے بھائی کی تصویریں نکال رہی تھی، بلکہ یوں کہو کہ خود کو پروفیشنل فوٹو گرافر کی طرح کبھی نیچے بیٹھ کر، کبھی کھڑے ہوکر، کبھی اس پوزیشن میں تو کبھی دوسری پوزیشن میں تصویریں نکالتی ہی جارہی تھی۔۔۔ نکالتی ہی جارہی تھی، اُسی وقت اچانک اُسے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنائی دی، یہ آواز کسی سکھ کی تھی جو ٹمپل کا والنٹیئر تھا جسے خادم بھی کہتے ہے، وہ تھوڑے فاصلے پر کھڑا تھا اور اپنے پنجابی لہجے میں غصے میں چیخ کر اس لڑکی کو کہ رہا تھا، "او بہن جی، اپنا پلّہ سنبھالو"۔
اُس لڑکی کی زندگی بس اُسی پل تھم گئی۔ جیسے اُس کے کان میں کسی نے سور پھونک دیا ہو۔ کون کیا بول رہا تھا اور کیوں بول رہا، اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔جیسے اسکے سر پر آسمان کسی نے گرا دیا ہو جیسے کسی نے اسے آئنہ دکھا دیا ہو ۔ لکن اس آئنہ میں کم سے کم اسے اپنا عکس پسند نہیں آیا ایسا عکس جس سے ہر انسان آنکھ چراتا ہے۔
وہ سوچنے لگی کہ "میرا دوپٹا کیسے سر سے نیچے گرا؟ مجھے تو دھیان ہی نہیں رہا۔شاید جس چیز کی اہمیت نہ ہو، وہ گر بھی جائے تو دھیان نہیں رہتا ہے۔"
اُس بے شرم لڑکی کو جسے کبھی کسی کی ڈانٹ سن کر بھی شرم نہیں آتی تھی، اُس وقت اتنی شرم آئی کہ اُس
کا من کرنے لگا کہ زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے۔

وہ سوچنے لگی کہ "میں تو اُس مذہب سے تعلق رکھتی ہوں جہاں پردے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے اور ایک کافر مجھے؟ مطلب ایک مسلمان لڑکی کو اُس کا دوپٹہ سنبھالنے کا بول رہا ہے۔ پلّہ(دوپٹہ)سنبھالنے!!! پلّے کو تو عزت سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ مطلب مجھے اپنی عزت سنبھالنے کا کہہ رہا ہے۔"
شاید اِس سے زیادہ شرم اُس نے زندگی میں کبھی محسوس ہی نہیں کی ہونگی۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔جیسے زندگی اس ایک جملہ پر پلٹ گئی ہو۔
اُسے صبح کا واقعہ بھی دوبارہ یاد آنے لگا جب اُس ہندو آدمی نے اُنہیں کیسے ہندو سمجھ لیا تھا۔
اُس نے لا شعوری طور پر اپنے کپڑوں کا جائزہ لیا اور سوچا "شاید یہ سِکھ بھی مجھے سب سمجھ رہا ہوگا شاید ہندو، شاید کرسچن لیکن مسلمان نہیں"

تبھی اُس کے بازو سے ایک لڑکی گزری جس نے عبایہ کے اوپر حجاب کر رکھا تھا، اُس ہجاب والی لڑکی کو دیکھ کر اُس نے دل میں سوچا "ہاں یہ مسلمان لگ رہی ہے لیکن کیا میں میرے حلیے سے مسلمان بھی لگ رہی ہوں؟"

ہاں اس پاگل لڑکی نے صحیح سوچا تھا ۔کیا اللہ نے ایسے کپڑے پہننے سے مسلمانوں کو منع نہیں کیا جس میں آپ بھی کافر لگو؟ جس میں آپکی مشابہت کافرو سے ہو ۔لوگ مسلمان اور کافر میں فرق نہ پہچان پائے۔۔۔ جب لوگ ملیں تو آپ سے آپ کا مذہب پوچھیں۔۔۔ اور جب انہیں آپ کہو کہ آپ مسلمان ہو تو وہ حیران ہوجائیں۔۔۔ یہ شرمندہ ہونے والی باتیں ہیں لیکن افسوس ہم اس پر شرمندہ نہیں ہوتے۔

پورے سفر میں اس لڑکی کے دماغ میں بس ایک ہی جملہ گھوم رہا تھا "او بہن جی، اپنا پلّہ سنبھالو"۔ شاید اسے زندگی بھر یہ جملہ یاد رہے۔

گولڈن ٹمپل سے اسکی گھر واپسی ہوئی اور وہ جملہ جیسے اسکے دل میں چھاپ کے رہ گیا۔ اللہ کی طرف سے شاید ایسی ہی ہدایت ملتی ہے۔۔۔ لیکن یہ کوئی ناول تو نہیں ہے کہ all over sudden (اچانک سے)کسی کو ہدایت مل جائے تو وہ انسان ایک دم سے بہت نیک بن جائے۔حقیقت تھوڑی الگ ہوتی ہے، بیشک اللہ کے بس میں ہدایت دینا ہے، جسے جیسے چاہے ہدایت دے، کسی کو ایک ساتھ اور کسی کو تھوڑا تھوڑا کرکے۔

۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

حجاب نامہ Where stories live. Discover now