قسط نمبر 10

3 0 0
                                    

خار زندگی
تحریر __عائش ملک

رکیہ بیگم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے آج ساتواں دن تھا۔
نکاح کے بعد مبین ثوم کو اس کے کہنے پر گھر کے بجائے واپس یونیورسٹی چھوڑ آیا تھا۔
ابھی وہ واپس ہسپتال کے راستے میں ہی تھا کہ اسے ڈاکٹر یاور کی کال آگئی۔
وہ جتنا بھی خود کو ذہنی طور پر تیار رکھتا پھر بھی ماں کی وفات کی خبر اس کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی ۔۔
اس سب میں وہ ثوم کو یکسر بھول بیھٹا تھا۔
اسے اپنا ہوش نہیں تھا۔
نہ کھانے پینے کا نہ کسی کے آنے جانے کا۔
آخر محلے والے بھی کب تک اس کو حوصلہ دیتے۔
سب اپنی زندگی میں مگن ہو گئے تھے۔
وہ اب وہاں کا وہاں ہی تھا۔
گھنٹوں بیھٹا یا لیٹا خالی چھت یا دیواروں کو گھورتا رہتا۔
اور اپنی ماں اور باپ کے ساتھ بیتے وقت کو سوچتا رہتا۔
اب بھی بے سود لیٹے چھت کو خالی نظروں سے گھورتے نجانے اسے کتنی دیر گزر گئی تھی۔
اب تو صبح سے دوپہر ہونے کو تھی۔
اس نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا تھا ۔۔۔
اسے بھوک کا شدید احساس ہواا
انسان کتنا بھی غمگین ہو کر دنیا سے کنارہ کر لے مگر اسکا جسم بنیادی چیزوں کے بغیر کب رہ سکتا ہے۔
سات دن مسلسل ہمسائے کھانا اسے تین وقت کا پہنچا رہے تھے۔
وہ بھی زہر مار کر چند نوالے لے لیتا تھا مگر آج صبح سے ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔
اسکا مطلب اب اسے خود ہی اپنا پیٹ بھرنا تھا ۔۔

وہ اٹھا تو اس کا ذہن اپنے موبائل کی طرف گیا۔۔

یکدم اسے احساس ہوا کہ وہ پچھے سات دن سے موبائل کے بغیر رہا ہے۔
او خدایا ثوم کو تو امی کا بتایا تک نہیں ۔
شیٹ شیٹ،،
اتنی بڑی بھول
وہ پتا نہیں کیا وسوسہ پال کر بیٹھی ہو گی۔

اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔
اس نے جب اسکو یونیورسٹی چھوڑا تھا تو سختی سے کسی کو  نکاح کے بارے میں بتانے سے منع کیا تھا۔

وہ اس سب پے پہلے آرام سے  خود سوچ بچار کرنا چاہتا تھا پھر کوئی قدم اٹھانا چاہتا تھا
مگر
یہ کیا اسے تو ثوم کا ان دونوں میں اک بار بھی خیال نہیں آیا تھا۔
اس کا دل چاہا اپنے بال نوچ لے۔
وہ اب اسکی محبوبہ نہیں بیوی تھی۔
کوئی بھی غم کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔
وہ اسکو کیسے بھول سکتا تھا۔
اسے یاد تھا کیسے ثوم کو دو دن جواب نہ دینے پر اس نے اپنی آنکھوں کی جو حالت کر لی تھی۔

اب ان سات دنوں میں اس نے کیا کیا ہو گا۔
فورا سے وہ اٹھا اور موبائل کی تلاش میں سامان ادھر ادھر پھنکنے لگا۔

آخر اسے چارپائی پر ہی اپنے تکیہ کے نیچے موبائل نظر آگیا۔
یہ تو بند ہے ۔۔۔۔اوو خدا۔۔اسکا سر چکرا گیا تھا۔
وہ کیا سوچ رہی ہو گی۔
کیا قاہر ہو میں جو اسکو چھوڑ کر پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔
وہ بھول گیا تھا کہ وہ بھوک کی شدت کی احساس سے غم سے تھوڑی دیر باہر نکلا تھا۔
مگر کہاں کی بھوک کہاں کی پیاس۔
اسے بس خیال تھا اس وقت تو بس ثوم ۔۔۔
اس کی ثوم ۔۔۔
اسکو دنیا میں بچا واحد رشتہ
اس کی محبت
اس کا جنوں
وہ دیوانہ وار چارجر ڈھونڈنے لگا۔
چارجر لگا کے بعد موبائل آن کرنے کے کوششوں میں لگ گیا۔
شیٹ شیٹ
موبائل آن کیوں نہیں ہو رہا ۔
اسکا بے صبری سے برا حال تھا۔
آخر اللہ اللہ کر کے دس منٹ بعد کچھ چارج کے بعد موبائل آن ہوا تھا۔
موبائل آن ہونے کی دیر تھی کہ ان گنت میسج کالز کے نوٹیفیکشن آنا شروع ہو گئے تھے۔
اسکی بے چین روح کو جیسے سکون ملا تھا۔
خود جو چاہے جانے کا احساس اس دنیا میں سب سے خوبصورت احساس ہوتا ہے۔
اس کو ان میسیجز سے ہی سامنے والے کی بے چینی محسوس ہو گئی تھی ۔

Khaar e Zindagi ____ خار زندگیWhere stories live. Discover now