پارٹ-۲

1.4K 112 25
                                    

اللہ ہی جانتا ہے ان ناول، فلموں اور ڈراموں کی ہیروئینوں کو۔۔ مطلب کہ وہ کون لڑکیاں ہوتی ہیں جو سو کر اٹھیں تو ان کی زلفیں آبشار کی طرح شانوں پر پھیل کر حسین منظر پیش کرتی ہیں؟
یار میرا تو "چاٹا" پھٹ جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے رات کو میرے بالوں میں خودکش دھماکہ رونما ہوگیا ہو۔
مطلب کہ وہ کون سی عوام ہے جب سرہانے پر سر رکھ کر سوئے تو اس کے خوبصورت و ملائم چہری پر ایک آدھی لٹ جھک کر رخسار چوم لیتی ہے؟
مجھے تو سوتے ہوئے بال منہ پر آکر یوں تنگ کرتے ہیں گویا میرے جانی دشمن ہیں اور مجھے گُد گدا کر تب تک تنگ کرینگے جب تک انہیں کان کے پیچھے 'چپکا' نا لوں۔۔۔ حد ہے، یہ حسین زلفوں سے اسیر کرنے والا 'سین' میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا؟
ہونہہ! چھڈو پرے۔
"تم نے سوٹ لانا ہے یا عید کے دن ماں کو مہمانوں کے سامنے ذلیل کروانا ہے پرانے کپڑے پہن کر؟" امی مجھے لتاڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں نے اپنے "گھونسلے" کو پونی میں جکڑنے کی کوشش کی۔
چونکہ پچھلی عید درزی میرا سوٹ وقت پر نا سی سکا تو میں نے پرانا جوڑا پہن لیا۔
بس پھر رشتہ داروں کے سامنے یونہی منہ اٹھا کر بیٹھ گئی۔ اور آپ کو پتہ تو ہے کہ کسی کو "پوائینٹ آؤٹ" کیے بنا لوگوں کو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
"جا رہی ہوں۔۔۔ اس دفعہ سوٹ نا دیا اس درزی نے تو چمڑی ادھیڑ دوں گی اسکی"۔
غضب کے جلال کے ساتھ میں اٹھی اور فون اٹھا کر درزی کو ملایا کہ میرا سوٹ سی کر رکھے ورنہ۔۔۔۔
ورنہ آپ جانتے تو ہیں ماہی کیا چیز ہے۔
"ہاں چمڑی ادھیڑنے والے کاموں کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے تم نے۔۔ اللہ کی پناہ! لڑکیوں کی طرف ادب سے بیٹھ نہیں سکتی یہ لڑکی۔۔"
ان کی بڑبڑاہٹ مجھے سنائی دی جسے میں بہت آرام سے اگنور کر گئی۔ ارے ہم لڑکیاں اگنور کرنے میں بھی ماہر ہیں۔
-------------
"یار بھائی تیرا سوٹ سِلنا باقی تھا میں اپنا لے آیا ہوں۔ یہ رکھو پرچی کل جاکر لے آنا"۔ فراز دھُپ کرکے صوفے ہر بیٹھا اور پرچی مجھے تھمائی۔ پرچی پر ایک نمبر لکھا تھا۔ اپنے سوٹ تینوں لے آئے اور ایک میں معصوم رہ گیا؟
"یار رش بہت تھا۔۔ کل شام کو جاکر لے آنا مل جائے گا۔۔"
علی نے میری "بھولی صورت" دیکھ کر فوراً کہا تو رُخ پھیر کر (منہ بنا کر) ٹی وی پر نظر ڈال لی۔
باہر تین بکرے 'میں میں' کر رہے تھے۔ ان کی 'میں میں' سن کر مجھے اپنی اس دن ہونی والی 'ٹیں ٹیں' (مطلب عزت) یاد آجاتی۔ میرا منہ مزید بن گیا۔
---------
"دیکھو بھائی، اب میں دستیاب نہیں ہوں۔ چلے جاؤ کہیں اور۔۔"
مجھے اندر داخل ہوتا دیکھ کر دکاندار وہی سے ہانکا۔ لو بھلا وہ کتاب ہے جسے میں لینے جاؤں اور وہ دستیاب نہیں ہے۔
"اپنا سوٹ لینے آیا ہوں۔۔" میں نے وہی سے منمنا کر کہا۔ اور دروازے میں ہی کھڑا ہوگیا کہ اندر جانے پر مزید عزت سے 'استقبال' نا ہوجائے۔ ویسے ہی لوگ میری 'عزت' بہت کرتے ہیں۔
"اچھا اچھا۔ آؤ۔۔ کیا نام ہے، پرچی دکھاؤ"۔ وہ مشین کے آگے سے ہٹ کر کھڑا ہوا اور ہاتھ سے آنے کا اشارہ کیا۔ عید میں بس ایک دن باقی تھا۔
میں نے چپ چاپ پرچی تھما دی۔ ظاہر ہے اب میں تھوڑا نکھرا تو دکھاؤں گا نا؟
پرچی دیکھ کر اس نے میرا چہرہ تکا۔
"اوہ سفینہ بیگم۔۔۔ آپ کا ہی سوٹ سی کر اٹھا ہوں۔۔۔۔" وہ ذرا مسکرا کر بولے۔
مجھے تو مانو آگ ہی لگ گئی۔ اچھا بھلا نام ہے میرا سفیان! پھر بھی اسے بگاڑ کر سفینہ کر دیتے ہیں۔ (ہاں لیکن میں بھی تو فراز کو فرزانہ اور علی کو عالیہ کہتا ہوں۔۔ اچھا معاف کیا)
"آپ ایک دفعہ سوٹ دیکھ لیں۔ کوئی مسئلہ ہو تو بتا دیں۔۔۔ آپ کے فون سننے سے پہلے ہی میں نے سوٹ سی دیا تھا۔۔۔" وہ تابعداری سے بتا رہا تھا۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ میں نے اسے فون کب کیا؟
خیر میں چونکہ نکھرے دکھا رہا تھا اس لیے چپ کرکے شاپر کھول لیا۔ اور سوٹ باہر نکالا اور۔۔۔
لا حولا ولا قوہ۔۔۔
میں نے غصیلے چہرے سے مُڑ کر دکاندار کو دیکھا۔ تبھی میری سماعتوں سے ایک چینخ ٹکرائی۔
-------
"ہائے اللہ جی۔۔۔۔ اف اللہ۔۔۔ بیڑہ غرق کر دیا ۔۔۔" وہ چینختی ہوئی دروازے سے اندر آئی اور سیدھا میرے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔
میں نے ہاتھ بلند کیے ایک نسوانی جوڑا اٹھا رکھا تھا۔ وہ بھی گلابی۔۔۔
"توبہ توبہ!" اس نے جھٹکے سے میرے ہاتھ سے سوٹ کھینچا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
اس کے ایسے چلانے پر میں تھوڑا سا ڈر گیا۔ (کسی ڈائین سے کم تو نہیں تھی وہ۔۔۔ اور میں تو ہوں ہی معصوم ۔۔۔)
"ہائے۔۔۔۔" اس کی صدمے سے بھرپور چینخ سنائی دی۔
لمحہ بھر کے لیے تو میری جان ہی چلی گئی (یہیں چکر وکر لگانے، یار اصل میں تھوڑی جائے گی)
"او بھائی یہ کیا کیا ہے؟" وہ سوٹ پر نظریں جمائی دھاڑی۔
اور ہم دونوں ڈر گیے۔ یار یہ بھائی اس نے درزی کو بولا ہوگا۔ میں نے خود کو حوصلہ دیا۔
"ستیاناس کردیا میرے سوٹ کا۔۔" وہ اب براہِ راست مجھے گھور رہی تھی۔ جیسے ابھی کچا چبا جائےگی۔ یا ثابت نگل جائے گی۔
"اتنا کھُلا؟ ٹھیک سے سینا نہیں آتا؟ اور یہ کیا ڈیزائین بنایا ہے؟"
"میں۔۔م۔۔" میں منمنایا۔ اب یہ کیا نیا بھانڈا پھوڑ رہی تھی۔ میں نے تو کچھ نہیں کیا یار۔۔ میں معصوم!
"ہاتھ ٹوٹ گئے تھے میرا سوٹ سلائی کرتے ہوئے؟ شکل سے تو درزی نہیں لگتے؟ کیا میرے ہی سوٹ پر پہلا تجربہ کیا ہے؟" وہ مسلسل بولتی جارہی تھی۔
ہائے شکل بہت پیاری لگتی ہے میری کیا؟ مجھے ذرا سی خوش فہمی ہوئی۔۔میں مسکرایا،
"شکل سے تو قصائی لگتے ہو،۔۔"
یہ ہوئی میری مسکراہٹ غائب۔۔۔ اور لب بھیجتے ہوئے میں ہاتھ اٹھا کر کچھ بولنا چاہا۔۔
تبھی درزی بولا۔
"باجی معاف کردیں۔۔۔ میں ابھی ٹھیک کردیتا ہوں۔" وہ فورا آگے بڑھ آیا۔
"یہ کسٹمر ہیں۔۔۔" مجھے دیکھ کر اسنے اشارہ کیا تو میرا منہ مزید بن گیا۔
اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا (گھورا) اور کندھے اچکا کر پلٹی۔
"منہ میں گھُگھیاں ڈالی ہوئی تھی کیا۔۔" وہ بڑبڑائی لیکن میں ٹھیک سے سمجھ نا سکا۔
اور درزی کو ہداہت دینے لگی اور کھڑے کھڑے سوٹ سلوانے لگی۔
"بھائی جان ، معذرت آپ اپنا سوٹ لے جائیں میں نے سی سکتا۔۔" اسنے ذرا دے نظر اٹھا کر مجھے کہا اور شاپر کیچ کروایا۔
"آپ میرا سوٹ سیے بس۔۔۔ لڑکوں نے کیا کرنا ہے نئے کپڑے پہن کر۔۔۔ بننا تو قصائی ہی ہوتا ہے۔۔" ہلکا سا رخ موڑ کر وہ مسکرائی اور سوٹ سیکھنے لگی۔
میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میرے منہ میں کوئی 'کرارہ' سا جواب نہیں آیا۔ ایک تو میں معصوم، اوپر سے عورتوں کی عزت کرتا ہوں۔ (اور پیاری لڑکیوں کی کچھ زیادہ ہی) اس لیے میں چپ رہا۔
اتنی عزت افزائی اور بے بسی پر مجھے رونا آنے لگا۔ اپنا 'ان سِلا' سوٹ وہیں چھوڑ کر میں پیر پٹختا ہوا دکان سے باہر شدید غصے میں (آنسو پیتے ہوئے) نکلا۔
اور پلٹ کر نظر بھی نا ڈالی کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے ہا نہیں۔
گھنگریالے بالوں والی ڈائن رُخ موڑ کر ذرا سا مسکرائی تھی اور رعب سے دوبارہ درزی کو ہدایت دینے لگی۔
-------

عید مِلَن Where stories live. Discover now