"چلو جی ایک اور رشتہ؟" وہ ہاتھ اٹھا کر مُڑی اور چڑ کر انہیں دیکھا۔
"ہاں بیچارا۔۔۔" وہ زیرِلب بڑبڑائے تو انکی بیگم فوراً بولیں
"اس کا بس نا چلے یہ تو بندوقوں سے اڑا دے ہر کسی کو۔ لو بھلا دیکھو ان آج کل کی لڑکیوں کو۔۔۔"
"یار ماں۔۔۔۔ " وہ جنجھلاتے ہوئے پیر پٹخ کر باپ کی طرف مڑی تو انہوں نے لبوں پر زبان پھیری۔
"ایک دفعہ مل لو، دیکھ لو۔۔۔ پھر اس کے بعد جو تمہارا فیصلہ ہو وہ ہمیں قبول ہوگا۔۔" انہوں نے آرام سے کہا تو وہ تھوڑی دھیمی پڑی اور صوفے پر بیٹھ گئی۔
"اس نے کیا ملنا ہے کسی سے۔۔ اس نے الٹا ہر آنے والے کو بھگا دینا ہے۔۔"
ماہا نے ماں کو دیکھا اور امڈ آنے والی مسکراہٹ چھپائی۔
"اب یہ تو اسکی قسمت ہوئی نا۔۔۔ ماہا عقیل کے آگے جو جم کر کھڑا رہے گا ، اس کا دل جیتے گا ٹیکٹ اسے ہی ملے گا جی۔۔۔" ماہا نے ماں کو دیکھ کر آنکھ دبائی تو عقیل صاحب اس بیچارے کے لیے دعا کرنے لگے۔
"تیرا اللہ ہی بھلا کرے پتر۔۔۔ "
-----------
جینز پر سیاہ ٹی شرٹ پہن کر، بالوں میں برش پھیرا اور ہاتھ سے انہیں درست کیا، پھر پرفیوم کی شیشی اٹھا کر اپنے اوپر 'برسائی' ، ایک طرف پڑے سن گلاسس اٹھا کر پہنے اور شیشے میں پوز بنا بنا کر تھوڑی شوخیاں ماریں۔۔۔
"بھائی تیری شادی نہیں ہے آج۔۔۔ بس لڑکی سے ملنے جا رہا ہے۔" علی اور فراز بیڈ پر بیٹھے اس کی حرکتیں نوٹ کر رہے تھے۔ اسے اتنا اہتمام کرتے دیکھ کر چھیڑ ہی اٹھے۔
"تم لوگوں سے دیکھا نہیں جارہا اپنا پیارا بھائی۔ اس لیے جل رہے ہو"۔ وہ ایک دفعہ پھر بال درست کرنے لگا۔ وہ دونوں کانوں میں کھسر پھسر کرکے کھی کھی کرنے لگے تو وہ نظر انداز کرتا باہر نکل گیا۔
سیاہ رنگ اس پر سوٹ بھی بہت کرتا تھا۔ شکل وکل بھی اچھی تھی۔ واحد چیز جس کی کمی تھی وہ عقل تھی ( بقول اسکے کزنز) اور جو اس میں کوٹ کوٹ کی بھری تھی وہ معصومیت اور وجاہت تھی (بقول خود)۔
ایویں آپ سب اپنے ہیرو کو ہلکا لے رہے ہیں وہ تو بس میں بولتا نہیں ہوں اور نا ہی تیز طرار مرچی ہوں اس لیے آپ لوگ میری بارے میں ایویں ایویں کمنٹس کر رہے ہیں ۔ ہونہہ! (اب میں ریڈرز کو تھوڑا نکھرا تو دیکھا سکتا ہوں نا؟)
-----
"تم نے مجھے ضرور ساتھ گھسیٹنا ہوتا ہے ہر جگہ؟" اس سے پچھلی ٹیبل پر بیٹھی وہ مڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔
"یار ایک تو تمہیں مفت کی انٹرٹینمنٹ کرواتی ہوں، اور تم ہو کہ ۔۔۔" ماہا نے اسے گھور کر دیکھا۔ وہ دونوں ایک کیفے میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔
"نہیں آنے والا وہ لگتا ہے، چل اٹھ چلیں۔۔۔" ماہا کی دوست حرا اکتا کر بولی تو اس نے پکڑ کر سیٹ کے ساتھ اسے چپکایا۔
"چپ کرکے ٹِکی رہو۔۔ ایویں ہاتھ سے موقع جانے دوں چھترول کا؟ میں بھی تو دیکھوں کس کی اتنی ہمت ہے ماہا کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہنے کی۔۔"
"اوئے ماہی ایک لڑکا اس طرف آرہا ہے۔۔" حرا نے کہتے ساتھ ہی کرسی کا رخ موڑا اور چہرہ دوسری طرف کرلیا۔ ماہا سیدھی ہوئی۔ "کیسا ہے؟"
"یار لگ تو اچھا رہا ہے"۔ حرا نے رائے دی۔
"اچھا جی۔ ابھی حشر کرتی ہوں۔۔۔"
وہ ماہا کی سامنے والی کرسی پر آ بیٹھا اور سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔۔۔ ارے بھئی کون ہو؟ یہ جگہ کسی اور کے لیے رکھی ہے"۔ ماہا اسے دیکھ کر چونکی اور فوراً بولی۔
وہ بیچارا بیٹھتے بیٹھتے کھڑا ہوگیا۔ "ایکچوئیلی میں ہی آپ سے ملنے آیا تھا"۔ اسنے وضاحت دی۔
"اوہ۔۔۔ تم آپ ہیں وہ عظیم شخصیت۔۔۔" اف اس کا لہجہ۔ سفیان تو شش و پنج میں مبتلا کھڑا رہ گیا۔
"بیٹھیں جی بیٹھیں۔۔ تشریف کا ٹوکرا رکھیے۔۔" وہ اطمینان سے ٹیک لگا کر بیٹھی۔
اب تو مزہ آنے والا ہے بہت ماہا ڈئیر۔۔۔
"تو آپ نے بھجوایا رشتہ؟" ماہا نے ڈائیرکٹ سوال کیا۔
"ج۔۔جی۔۔۔"
"اوکے۔ لیکن آپ کو کچھ ٹیسٹ دینے ہونگے۔ پھر ہی 'کوئی' فیصلہ ہوگا "۔
"کونسا ٹیسٹ؟" لو یار مشکل سے تو سکولوں کے ٹیسٹ دے کر نکلا ہوں اب یہ پھر ٹیسٹ لینے بیٹھ گئی ہے۔ ہا اللہ فارمولا نا پوچھے کوئی، مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں۔۔
میں اپنے آپ سے سوچوں میں مخاطب تھا کہ وہ بولی
"ویٹر چائے لانا۔۔۔"
میں چپ بیٹھا دماغ میں دہرائی کر رہا تھا کہ یک دم چونکا۔ ارے کہیں blood test کی بات تو نہیں کر رہی۔۔۔ یہ سوچ کر میں ذرا مطمئین ہوا۔ اس ٹیسٹ میں تو میرا ہمیشہ A+ آتا ہے۔ میں ذرا مسکرایا۔
ماہا نے گھور کر مجھے دیکھا۔ "خیر ہے؟ بڑی بانچھیں پھیل رہی ہیں۔۔"
"ج۔۔جی نہیں۔۔۔ وہ بس آپ کو دیکھ کر۔۔ اچھی لگ رہی ہیں آپ"۔ میرے منہ میں جو آیا وہ بول گیا۔ گھنگھریالے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اسنے میں غور سے دیکھا (گھورا)۔
'ابھی بتاتی ہوں بچووو۔۔۔۔'
ویٹر نے چائے سرو کی جو ایک ہی کپ تھا ، ماہا نے سفیان کے آگے کپ کیا۔
"میں پی چکی ہوں چائے۔۔۔ لیکن آپ کا ٹیسٹ ہوگا اب۔۔۔ آپ کو یہ ساری چائے ایک ہی گھونٹ میں ختم کرنی ہے۔۔" وہ مزے سے بولی۔
او تیرا بھلا ہوئے۔۔۔
اوکے سفیان ، بہادر بنو ، بس اتنی سی بات ہے کرلو گے۔
وہ ٹیبل پر کہنیاں جمائے ٹھوڑی پر چہرہ ٹکائے اسے دیکھ رہی تھی۔
"اوکے منظور ہے"۔ میں اس ساری ملاقات میں اعتماد سے بولا۔
"گُڈ۔۔۔ تھوڑی ٹھنڈی ہو لینے دو پھر پینا"۔
چلو شکر تھوڑا تو بھلا ہوا۔ "اوکے"۔
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد ماہا نے چائے کے کپ کی طرف اشارہ کیا۔
بسم اللہ پڑھتے ہوئے اسنے کپ اٹھایا اور لبوں تک لے کر گیا، ایک نظر ماہا کو دیکھا
کیا یہ بدلے کے لیے کر رہا ہوں یا اپنا آپ منوانے کے لیے یا۔۔۔؟
تیسرے آپشن کو وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس ڈائن سے لگاؤ توبہ توبہ۔
اس نے فوراً کپ لبوں سے لگایا اور ایک ہی گھونٹ میں ساری چائے اندر انڈیل دی۔
اگلے ہی لمحے اس کی زبان تو کیا اندر تک جاتی ساری آنتڑیاں جلنے لگیں۔
جلتے ہوئے منہ پر اسنے اپنے دونوں ہاتھ جمائے ، اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا جس کے لب مسکرا رہے تھے۔
وہ ضبط سے بیٹھا ہوا تھا، لیکن جلن تھی کہ اسے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔
"ایکسکیوز می۔۔۔" وہ یک دم اٹھا اور پچھلی طرف گیا۔
اس کے ہٹتے ہی ماہا اور حرا کا قہقہہ گونجا۔
اور واشروم میں بار بار کلیاں کرتے ہوئے بھی اسکے منہ کی حالت ٹھیک نہیں ہورہی تھی۔
اسے علی اور فراز کی بات یاد آئی جب انہوں نے اسے تنبیہ کی تھی۔
اسے اب محسوس ہوا کہ وہ شیرنی کی کچھار میں ہاتھ کیا ڈال چکا ہے بلکہ خود پلیٹ میں بیٹھ کر اسکے آگے پیش ہوگیا ہے۔
سرخ مرچوں سے بھری ہوئی چائے کون پلاتا ہے یار ؟ سرچ مرچیں۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے پانی اور کانوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ منہ سے آگ بھی نکل رہی تھے لیکن وہ نظر نہیں آرہی تھی۔
کچھ دیر کلیاں اور منہ پر چھینٹے مارنے کے بعد خود کو شیشے میں دیکھا تو سر جھٹک کر رہ گیا۔ تم کچھ نہیں کر سکتے کسی کے ساتھ سفیان۔ اتنا کہ واپس جاکر اس لڑکی کو دو کھری کھری بھی نہیں سنا سکتے۔
کیونکہ سفیان عزت کرتا ہے دوسروں کی ، پیاری لڑکیوں کی کچھ زیادہ ہی۔
لیکن اس دفعہ وہ تپا نہیں بس سر جھٹک کر مسکرا دیا۔
"آزما لو۔۔۔ مجھے بھی تو پتہ چلے سفیان کا ظرف کتنا ہے۔۔"
-------
"کیسی رہی پھر مس سفینہ؟" اسے کرسی سنبھالتا دیکھ کر ماہا نے سنجیدگی سے سوال پوچھا۔
"سفیان نام ہے میرا۔۔۔" میں نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا۔
"رہی تو بہت اچھی۔۔۔ تو کیا میں پاس ہوا؟" میں نے مسکرا کر کہا تو میری مسکراہٹ دیکھ کر وہ ہنسی۔
"ابھی بھی ہمت باقی ہے؟"
"ہمت تو بہت ہے۔ "
"آؤ ذرا پھر۔۔۔ چلو حرا اٹھو۔۔ باغ کی سیر کو چلیں۔۔" وہ اپنا فون اور پرس اٹھا کر کھڑی ہوئی۔ تو میں بھی کھڑا ہوگیا اور ان کے پیچھے چل پڑا۔
اس نے ویٹر کو آواز دی ۔
"پی لو۔۔۔ " پھر مڑ کر مجھے پانی کی بوٹل تھمائی۔ جسے تھامنے کے لیے میں نے ہاتھ نا بڑھایا۔
"چپ کرکے پی لو۔۔ آرام سے کہہ رہی ہوں ورنہ۔۔" اسنے دانت کچکچائے تو میں نے مسکرا کر بوٹل تھامی۔
"بولتے بولتے بھلا کون پانی پی سکتا ہے۔۔" میری زبان پھسلی تو وہ مجھے گھورتی ہوئی پاؤں پٹخ کر مڑ گئی۔
---------
یہ کوئی باغ تھا جہاں جگہ جگہ بڑے بڑے پھل دار درخت لگے تھے۔
"وہ اوپر آم لگے ہیں۔ دیکھ رہے ہو؟" اسنے مجھے دیکھ کر کہا
"دیکھ رہا ہوں۔۔۔" وہ ایک گھنے پیڑ کی برف اشارہ کرکے کہہ رہی تھی۔
"گُڈ ، اوپر چڑھو اور دس آم توڑ کر لاؤ۔۔۔"
"کیا؟"
"درخت پر چڑھو اور دس آم توڑ کو لاؤ۔۔۔" وہ ذرا تیز آواز میں بولی تو میں نظر اٹھا کر درخت کو دیکھا۔ اس کی ٹہنیاں اتنی بلندی پر تھیں کہ مجھے بے اختیار خیال آیا کہ سفینہ تو تو گئی۔۔۔
بہرحال میں کسی بندر کی طرح درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کوئی دو تین میٹر لمبا تو اس کا تنا ہوگا۔ میرے ہاتھ تو چھِل گیے لیکن میں نے دھیان نا دیا ۔ ایک میٹر اوپر چڑھا تو ان کی کھسر پھسر سنائی دی۔
"اتنے تم نے لڑکے بھگائے ہیں۔ سمجھو یہ بھی گیا۔۔" حرا آہستہ سے بولی۔
ماہا ہنسی ۔
"سیدھا منہ پر عزت کرتی تو چلے جاتا یہ۔ کونسا شادی کرنی ہے اس سے جو لحاظ کر رہی ہو، بھاگا دو بونگا سا تو ہے۔۔۔" حرا کی آواز اس تک صاف سنائی دے رہی تھی۔
'بونگا سا تو ہے'
'سمجھو یہ بھی گیا۔۔'
میں سنی ان سنی کرکے اوپر مضبوط ٹہنی پر کھڑا ہوگیا۔ آگے ماہا نے کیا کہا مجھے سنائی نا دیا۔
لیکن اس کے جملے میرے کانوں میں پیپ پیپ کر رہے تھے۔ کیا وجہ تھی جو وہ یہاں رُل رہا تھا؟ کیا وہ اس سے واقعی شادی کرنا چاہتا تھا؟
ہمت تو بہت ہوتی ہے۔ بس ہمیں وجہ درکار ہوتی ہے اس ہمت کو استعمال کرنے کے لیے۔
اور اوپر کھڑے سفیان کو اس وقت کوئی وجہ نا ملی۔
وہ کیوں کسی کی زندگی میں زبردستی مداخلت کرے؟ صرف تنگ کرنے کے لیے۔۔ صرف اس لیے کہ اس لڑکی نے اسے ہمیشہ تنگ کیا؟
وہی کھڑے کھڑے سفیان نے فیصلہ کرلیا ، کیونکہ یہی تو وہ کرتا آیا ہے۔۔۔ درگزر۔۔
لیکن لوگ سمجھتے تھے وہ بونگا ہے۔ نہیں وہ بس صاف دل تھا۔ اسے دوسروں سے باز پرسی نہیں کرنی آتی تھی اور نا ہی وہ لفظوں کے تیر چلایا کرتا تھا۔
یہاں سے اتر کر وہ واپس چلا جائے گا جیسے کبھی آیا ہی نہیں۔ ماہا کے چہرے پر ایک نظر ڈال کر اسنے فیصلہ کرلیا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ، اور اس کے سنجیدہ چہرے پر نظر جمائے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی۔
اچھی تھی وہ۔۔۔ لیکن اس دنیا میں سب کچھ نہیں ہوجاتا سفیان۔ وہ آم توڑنے لگا اور ساتھ ہی فون نکال کر میسج کیا۔
"اس جگہ پہنچ جاؤ۔ ورنہ ہماری یاری ختم۔۔۔ " لوکیشن کے ساتھ اسنے میسج بھیجا اور مسکرایا، اسے اس وقت اپنے بھائیوں کی ضرورت تھی۔
آم توڑ کر اسنے نیچے کیچ کروائے۔ اور اترنے لگا کہ ماہا اوپر چڑھنے لگی۔
اس سے کچھ فاصلے پر رک کر اسنے ہاتھ بڑھایا جسے سفیان نے تھاما۔ اگلے ہی لمحے بلندی سے سفیان اُلٹ کر نیچے گرا۔
حرا کا قہقہہ گونج اٹھا۔ "اوئے تو نے اس کی ہڈی پسلی توڑنی ہے کیا جو نیچے ہی گرا دیا۔۔"
حیرت سے منہ کھولے ماہا اپنا پیر پھسلنے کے باعث لڑکھڑائی تھی لیکن سنبھل گئی جبکہ وہ اتر رہا تھا اور اسکا ہاتھ کھینچے جانے کے باعث گر پڑا۔
وہ زمین پر بیٹھا کراہ رہا تھا۔
"آئی ایم سوری۔۔۔ میرا پاؤں پھسل گیا تھا۔۔ آپ کو لگی تو نہیں۔۔" وہ فورا اسکے پاس نیچے بیٹھی۔
سفیان نے نظر اٹھا کر دیکھنا گوارا نہ کیا کہ اس وقت سارا دھیان اپنے مڑے ہوئے پاؤں اور کندھے ہر تھا جہاں سے درد کی تیز لہریں اٹھ رہی تھیں۔
دور سے آتے علی اور فراز کو دیکھ کر اسنے گہرا سانس لیا اور ماہا کی طرف رخ کیا۔
"آپ صاف لفظوں میں کہتی چلے جاؤ۔۔۔ تو میں آرام سے پیچھے ہٹ جاتا مس ماہا۔ اس سب کی ضرورت نہیں تھی، بونگا سا لڑکا ہوں میں۔ چپ کرکے چلا جاتا۔"
اس نے انتہائی نرم لہجے میں کہا تو وہ چپ کی چپ رہ گئی۔
ناجانے کیا بات ہے اسکے لہجے میں
جب بولتا ہے تو دنیا خرید لیتا ہے
علی اور فراز خاموشی سے اسے سہارا دے کر لے گئے۔ وہ دونوں خاموشی سے انہیں جاتا دیکھ رہی تھیں۔
"ہوگیا کام تمام۔۔" حرا نے ہاتھ جھاڑے۔
"ہوگیا کام تمام۔۔" ماہا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
"صحیح پٹخا ہے تو نے اسے۔ مان گئے تمجھے ماہی۔۔" حرا نے داد دی۔
"میں نے اسے نہیں گرایا۔۔" وہ آہستہ سے بولی۔ حرا آم اکھٹے کر رہی تھی اس نے سنا ہی نہیں۔ "چل گھر چلیں اب۔۔ مینگو شیک بنائیں گے"۔
------