ناچ نا جانے آنگن ٹیڑھا تو آپ لوگوں نے سنا ہی ہوگا لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔ "ناچ نا جانے پھر بھی آنگن توڑے"۔ سمجھے کیا؟ نہیں؟ اچھا میں بتاتا ہوں۔
تو یہ دو تین خبیث اور ساتھ میں کچھ میرے بُسے ہوئے دوست جو ناچ کے 'ن' سے بھی 'ناواقف' ہیں لیکن پھر بھی میری مہندی کی خوشی میں ہمارے گھر کے آنگن میں 'ٹرک سے بھاگی ہوئی قربانی کے لیے لائی جانے والی گائے' کی طرح یہاں وہاں ادھم مچا رہے ہیں۔ عنقریب مجھے یہ خدشہ لاحق ہورہا ہے کہ اپنی شادی کے بعد دوسرا خرچہ اس صحن کے فرش کی مرمت کا ہوگا۔
"خبیث نا ہوں تو، بندہ بیٹھ ہی جاتا ہے"۔ لیکن نہیں۔ مجھے 'تیل' کے سائے تلے بٹھایا ہوا ہے اور خود 'ہلا لا' مچائی ہوئی ہے۔ (تیل تلے سے شاعر کی مراد اپنے تیل میں ڈوبے سر اور تیل سے بھیگے بال ہیں)
اور ناظرین بالوں تک تو ٹھیک تھا لیکن یہ جو میرے منہ سے شیرا ٹپک رہا ہے۔ مطلب کہ آپ لوگ ان آنٹیوں کو سمجھاتے کیوں نہیں ہیں؟ (اب میرے دل میں پھر سے سر درد جاگ رہا ہے کہ میرے ریڈرز کو اپنے ہیرو کا کوئی خیال ہی نہیں ہونہہ ۔۔ جائیں میں ناراض ہوں اب)
ہاں تو یہ آنٹیاں ایک رس گُلّا ڈال دیں منہ میں، جسے میں تھوڑا سا چھک لوں اور وہ واپس رکھ دیں۔ لیکن نہیں، ایک نہیں دو نہیں یہ تین تین رس گُلّے منہ میں ٹھونسنا کہاں کا انصاف ہے۔
(اتنا میٹھا کھا کر کل میں اپنی شیروانی میں فٹ نہیں آ سکوں گا۔ ہائے میری شیروانی۔۔ ایک اور دکھ یاد آگیا، وہ ڈائین میری شیروانی ہتھیا کر بیٹھی ہوئی ہے)
نا بندہ اگل سکے نا نگل سکے۔ اور دوسری نا انصافی یہ دیکھ رہے ہیں آپ لوگ، یہ آنٹی دھڑم کرکے ساتھ والی کرسی پر آبیٹھی ہیں۔ اپنی ہتھیلے تیل میں ڈبو رہی ہیں اور یہ تیل زدہ تھپڑ میرے سر پر رسید کر چکی ہیں۔
ہائے یوں محسوس ہورہا ہے کہ میری کھوپڑی کے اندر میرا دماغ بریک ڈانس کر رہا ہے۔
اب میرے پہلے ڈھائی رس گلے والے منہ میں (آدھا میں بمشکل کھا چکا ہوں) وہ ایک گلاب جامن ڈالنے کی سعی کر رہی ہیں اور میرا پھولا ہوا کُپّے جیسا منہ دیکھ کر منہ بناتے ہوئے اپنے منہ میں دو گلاب جامن ڈال کر دھڑم دھڑم کرتی جا چکی ہیں۔
(مصنف کی کتاب دلہا اور اس کے مسائل کے پہلے صفحے سے اقتباس)
اور اب اگر میں یہ کہوں کہ اپنی چینی پینی بھیگی بلّی جیسی شکل شیشے میں دیکھ کر میرا 'ہانسا' نکل گیا ہے تو پلیز آپ سب ہنسئے گا مت۔
اور اگر میں یہ بھی اب بتادوں کے باتھروم میں جانے کے بعد اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے کے بعد مجھے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ میرا سر سعودی عرب کا باشندہ معلوم ہورہا ہے جہاں سے بے تحاشہ تیل برآمد ہورہا ہے۔ (اب پلیز آپ بالٹیاں لے کر مت آجانا کہ سفیان بھائی ایک لیٹر تیل دے دیں بائک میں ڈالنا ہے ہونہہ، مذاق بھی نہیں سمجھتے)
------
"سفینہ! ارے او ری سفینہ۔۔۔"
ان دونوں کی آواز سن کر میرے منہ سے 'خبیث' سلِپ ہوتے ہوتے رکا۔
"کیا ہے؟" میں نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا جو میری بارات لے جانے کے لیے فُل تیار کھڑے تھے۔ اور میں گھر کے کپڑوں میں بیٹھا پتا نہیں کس کس کو کوس چکا تھا۔
"بھابھی کا حکم آیا ہے"۔ فراز نے کہا تو میں فوراً اچھلا۔
"ہاں تو میرا بھائی بھاگ کر جا اور میری شیروانی پکڑ لا۔۔"
ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور نفی میں سر ہلایا۔
"وہ کہہ رہی ہیں اپنے بھائی سے کہو فوراً سے پہلے اٹھ کر نہائے اور وہ عید والا کرتا پہن کر میرج ہال تشریف لے آئے ورنہ۔۔۔۔" ورنہ کہتے ہوئے علی نے وہشت ناک بیک گراؤنڈ میوزک دے کر مجھے ڈرایا۔
"ورنہ؟" میں نے روہانسا ہوکر پوچھا۔
"شادی کینسل"۔ اس نے ہاتھ جھاڑے اور ادھر میں دل پر ہاتھ رکھ کر بیڈ پر گر پڑا۔ "ہائے میں مر گیا۔۔"
---------
کبھی دیکھا ہے آپ نے دلہا اپنی ہی شادی میں چھپ چھپ کے گھوم رہا ہو تاکہ کسی کی نظر اس کے حسین و جمیل 'حلیے' پر نا پڑ جائے۔ یہاں تک میں جیسے 'منہ چھپا' کر پہنچا ہوں نا یہ صرف مجھے ہی معلوم ہے۔
"سفینہ۔۔ سفینہ۔۔۔" دونوں خب۔۔۔ میرا مطلب دونوں بھائی پھر نازل ہوگئے۔
"اب کیا تکلیف ہے، یہ کرتا بھی اتار کر دھوتی پہن لوں؟" میں نے بگڑ کر کہا۔
"نہیں"۔
"تو کیا لہنگا پہنوں اب؟" یہ کہتے ہوئے میرے خود کے چودہ پندرہ طبق روشن ہوگئے۔
"نہیں وہ۔۔۔"
"وہ بھابھی اوپر چھت پر پہنچ گئی ہیں۔ کہتی ہیں شادی نہیں کروں گی خودکشی کر لوں گی"۔ فراز نے دھماکہ کیا۔
چلو جی مطلب میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ یہ لڑکی جب سے آئی ہے طوفان ہی مچا رہی ہے، اب پتا نہیں میرا کیا بننے والا ہے۔
"ہائے ربّا۔۔۔" میں بھاگا بھاگا پچھلی طرف بنی سیڑھیوں سے اوپر گیا۔
وہ چھت کی منڈیر کی طرف چڑھنے کو تھی۔ گئرے سرخ رنگ کے لہنگے میں ملبوس، میک اپ کیے ، بالوں کے ہئر سٹائل پر ڈوپٹہ نفاست سے سیٹ کئے وہ کودنے کو بے تاب تھی۔
ایک لمحے کہ لیے تو میں اس ڈائن کے سحر میں کھو گیا لیکن اگلے ہی لمحے باہر نکل آیا۔
سر پکڑ کر مایوں کی طرح بیٹھنے کی کسر رہ گئی تھی۔ جی چاہ رہا تھا اپنا سر دیوار میں پٹخ پٹخ کر دیوار کو زمین بوس کردوں۔ ہائے!
"ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔تین۔۔۔" اس ڈائن کی آواز مجھے ہوش میں لائی تو لپک کر آگے گیا۔
"دیکھیں یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ نیچے اتریں۔۔ پیچھے ہٹیں۔۔۔"
میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر روکنا چاہا تو وہ پھنکاری۔
"ایک لفظ بھی بولا تو مجھ سے پہلے تم یہاں سے نیچے گِر کر فاصلہ ناپو گے"۔
امی جی میں تو مر گیا۔۔
"د۔۔دیکھیں، بات سنیں۔۔۔ " میں نے ہمت کرکے کہا۔ اب اپنی وجہ سے حسین دوشیزہ کو مرنے تو نہیں دے سکتا نا۔ کتابوں میں لکھا آئے گا سفیان کی خاطر ایک لڑکی اپنی جان دے بیٹھی (اب حقیقت تھوڑی معلوم ہے سب کو۔۔ )
"آپ کو نہیں کرنی شادی تو منع کردیں۔ لیکن اس طرح اپنی جان جھونکے میں ڈال رہی ہیں (اور ہماری جان عذاب میں۔۔)"
"تم سے مطلب؟" اس نے ابرو اٹھا کر پوچھا تو مجھے لگا گویا کہہ رہی ہو 'عزت کروانی ہے؟'
"پلیز۔ آپ نیچے اتریں میں خود جاکر نیچے سب کو منع کردوں گا سب خود ہی ہینڈل کرلوں گا۔۔۔۔"
'اس بدھو سے کون شادی کرےگا۔۔' مجھے حرو کی بات یاد آئی تو میں نے تقریر میں آخری کیل ٹھونک دی۔
"ظاہر ہے ایک بدھو سے کوئی کیوں شادی کرنا پسند کرےگا۔ میں ابھی جاکر بات کرتا ہوں سب سے۔۔" انتہائی تاسف سے کہتے ہوئے میں نے قدم واپسی کے لیے موڑے تو وہ غصے سے پیر پٹخ کر کر نیچے اتری۔
"بدھو تو ہو تم۔۔" اسکی بڑبڑاہٹ صاف واضح تھی۔
"اچھا میں ایک شرط پر شادی کروں گی تم سے۔۔" وہ نیچے اتر کر میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"ک۔کیا!" میں بے ساختہ پوچھ اٹھا۔ ابا کی جوتی اور شدید قسم کی ہونے والی ذلالت سے بچنے کا ایک راستی یہی تھا کہ چپ کرکے ہیپی اینڈنگ کروالوں۔
"تمہیں بھاگ کر شادی کرنی ہوگی"۔ وہ مزے سے سر ہلا کر بولی تو اسکے کانوں کے جھمکے ہلنے لگے۔
"کس سے؟" حیرت سے میرا منہ کھُل گیا۔
"مجھ سے اور کس سے"۔ اس کے تیور بگڑے۔
"لیکن آپ سے تو میں بغیر بھاگے بھی شادی کر سکتا ہوں۔ تو بھاگ کر کیوں کروں۔؟"
عجیب الجھن تھی میں سمجھ نہیں پایا۔
دوسری طرف وہ اپنا سر نوچنے کو بے تاب ہورہی تھی۔
پھر ادھر سے ادھر چکر کاٹنے لگی۔ "سوچا تھا اپنی شادی میں بھی فُل ایڈوینچر کروں گی۔ ادھر دلہا صاحب کے پلّے ہی نہیں پڑھ رہا کچھ۔۔۔ اف ماہی۔۔۔ کنٹرول"۔
بات تو وہ خود سے کر رہی تھی لیکن مجھے صاف سنائی سے رہا تھا۔
اپنے ایڈونچر کے چکر میں میرا جو قیمہ بننے والا تھا وہ نہیں نظر آیا میڈم کو؟ ہونہہ۔۔ خیال ہی نہیں کسی کو میرا۔
"تو میں منع کردوں نیچے جاکر؟" اسے خاموش دیکھ کر میں نے پوچھا تو وہ رکی اور مجھے گھورنے لگی۔
"شادی نہیں کرنی؟"
"میں اتنا بھاگ نہیں سکتا ۔ ریس میں بھی ہار جاتا تھا سکول میں اور تو اور۔۔۔"
"اف بس۔۔۔ چپ کرو۔ مت بھاگو۔۔"
میں فرماں برادی سے چپ کرکے کھڑا ہوگیا تو وہ مجھے دیکھتی رہی۔ اس کے اعصاب قدرے ڈھیلے پڑے تو میں نے سوال کرلیا
"اب کیا سوچ رہی ہیں؟ " وہ مسلسل گھوری گئی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں۔۔۔؟" مجھے خطرے کی بو آئی۔
"سوچ رہی ہوں تمہاری ٹیوننگ کرنی ہوگی اور بادام کھلانے پڑینگے، تب ہی تھوڑا تیز ہوگے
لیکن
ماہی کے لیے تم پرفیکٹ ہو، شغل لگا رہے گا تمہیں تنگ کر کرکے۔ کوئی اور ہوگا تو الٹا سنائے گا۔۔ تم تو اتنے ڈیسنٹ ہو کچھ نہیں کہوگے۔ لایف اچھی گزرے گی"۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی تو میں گرتے گرتے بچا۔ پھر خود کو دھیرے سے چٹکی کاٹی۔
اف ہائے۔۔ یہ تو خواب نہیں ہے۔
"اب کچھ بولنا مت"۔ حکم آیا۔
"اب یہ پکڑو شیروانی پہن لو۔۔" وہ ایک طرف گئی اور واپس آکر شیروانی پکڑائی۔
"ایک ہی تو دلہا ہے میرا۔"
میں نے چپ چاپ شیروانی پہن لی تو وہ سیڑھیوں کے طرف بڑھی۔
"چلو۔۔ نیچے مہمانوں کو روٹی کھلنے کا انتظار ہوگا۔ انہیں گھر بھی جانا ہے"۔
میں اس کے قریب آکر کھڑا ہوا۔
"آپ راضی ہیں؟" مجھے ڈر تھا ، خدشہ تھا لیکن میں سنجیدہ تھا۔
وہ بھی مجھے دیکھ کر سنجیدہ ہوئی پھر مسکرائی۔
"راضی نا ہوتی تو کبھی ہاں نا کرتی سفیان۔ یہ تو بس تمہیں تنگ کرنے کے لیے تھوڑا فن کر رہی تھی۔ یہ دن یادگار رہے گا۔ اور اس جیسے کئی دن بعد میں ہمیں یاد رہیں گے۔
مجھے تم پسند ، اسی لیے اس وقت میرے ساتھ کھڑے ہو"۔
اس ڈائین کی بات پر میں ذرا ہلکا پھلکا ہوگیا۔
اور ایک ساتھ سیڑھیاں اترتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ آنے والی زندگی کیسی ہوگی۔
ایک بندھن سا بندھنے والا ہے۔
وہ مجھے سنائے گی ، میں سن لوں گا
وہ میرے ان سِلے کپڑے سلوادے گی، میری چائے میں مرچے ڈال دے گی تو پانی بھی لا ہی دے گی۔ روز ان بن ہوگی، روز عزت افزائی ہوگی، روز ایڈونچر ہوگا۔۔
ایک مزے دار قسم کی طوفانی زندگی میری منتظر کھڑی تھی۔
ماہا کو دیکھ کر میں بے ساختہ مسکرایا۔
آکری زینے ہر رک کر وہ فراز اور علی کی طرف مڑی جو کھی کھی کر رہے تھے۔
"خبیث کہیں کے۔۔"
"میری خدمتیں کر کر کے جب تک جوتیاں نا گھِس جائے نا تم لوگوں کی، تب تک دیورانی نہیں لاؤں گی سمجھے؟ کھی کھی بند کرو اب"۔ انہیں لتاڑتے ہوئے ہم دونوں ہال میں داخل ہوئے تو وہ رک گئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
"کیا ہوا؟" میری پوچھنے پر جواب دینے کی بجائے وہ مجھے دروازے کی طرف کھینچنے لگی۔
"بولیں تو کیا ہوا؟"
"ہم بھاگ رہے ہیں۔۔۔ ہل بھی چکو"۔ وہ مزے سے بولی تو میں پورا زور لگا کر رکا۔
"کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ تو مان گئی تھیں"۔ میں روہانسا ہوگیا۔ بھئی یہ کیا فلم چل رہی ہے میرے ساتھ۔
وہ رک گئی اور قہقہہ لگا کر ہنسی۔ "ڈرپھوک۔۔" وہ سٹیج کی طرف چل پڑی۔
تو محترمہ شادی والے دن نئے نویلے دلہے اور ہونے والے شوہر کو "ڈرا" رہی تھیں۔
میں نے اپنا ماتھا پیٹا اور ہنس پڑا۔ تو یہ طے ہوا کہ اب ساری زندگی یہ 'فلم' میرے ساتھ چلنے والی ہے۔(اب آپ سب فوراً جانے کی تیاری نا کریں، پہلے سلامی نکالیں جیب ڈھیلی کریں، کھانا کھائیں اور دھیان سے جائیے گا۔ اور ہاں اس معصوم سے ہیرو کو دعاؤں میں یاد رکھیے گا، ویسے تو خیال ہی نہیں آپ کو میرا۔ ہونہہ۔
اچھا سنیں! جانے سے پہلے ایک دفعہ مسکرا دیں یا اگر دانت سلامت ہیں تو ہنس بھی دیں۔۔۔۔
ہائے شکریہ۔ اوکے بھاگ جائیں سب اب)------ختم شد-------
So the story is completed. Please share with your friends
Or jany se pehle mujhe ap sab ka Honest , acha sa , lamba sa review chahya.. Warna Maha k hawaly kardugi apku. ;) :P