جب کسی کی بہت یاد آئے تو کیا کرنا چاہئیے؟
میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ اور میرے "عقلمند" (بقلم خود) دماغ نے فوراً جواب دیا۔
جب کہ دوسرے لوگ (میرے کزن) یہ فرماتے ہیں کہ تم "ڈھکن" ہو۔
اب بھلا بندہ پوچھے کہ ایک انسان ڈھکن کیسے ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تو میرا دماغ نا دے سکا اس لیے میں نے ڈھکن والی بات کو دفعہ کردیا۔(اور کر بھی کیا سکتا تھا)
"جب کسی کی یاد آئے تو اسے یاد کرلینا چاہئیے!"
آنے والے جواب پر مجھے مزید اپنا دماغ خرچ کرنا پڑا۔
بھلا اب وہ کوئی سبق ہے جسے یاد کرلیا جائے؟ بتاؤ بھلا۔۔
جواب دل نے دیا۔ اصل میں میرا دماغ تھک جاتا ہے تو اسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
"اسے سوچو، اس کی باتیں دہراؤ، اسے ڈھونڈو۔۔۔ اور اس سے دوبارہ مل لو۔۔"
اس جواب پر میں مسکرایا۔ ہاں یہ اچھا ہے۔ چلو کرکے دیکھتے ہیں۔
"اسے سوچو"
دو منٹ کے لیے ذہن پر (سر دائیں بائیں اوپر نیچے ہلا کر) زور دیا۔ ہمم۔۔۔
سوچ لیا۔۔ (میں ذرا دیر کو اسکی یادوں میں کھو گیا)وہ آفت تھی۔۔ ارے نہیں میں اُس سینس میں آفت نہیں کہہ رہا۔ (گھورنا بند کریں، میں عورتوں کی عزت کرتا ہوں۔۔ پیاری لڑکیوں کی تو کچھ زیادہ ہی۔۔)
آفت یعنی دھماکہ۔۔ پٹاخہ۔۔ پھُلجھڑی ۔۔ آتش بازی۔۔۔ سب کچھ تھی وہ۔
ارے مبالغہ آرائی نہیں کر رہا میں سچی!
وہ میری زندگی میں تن فن ٹھاء ٹھاء ڈُھز ڈُھز کرکے داخل ہوئی، اور جب بھی مجھ سے ملی طوفان ہی مچا کر گئی۔
زندگی میں طوفان مچاتے مچاتے وہ تو دل میں سیلاب پھیلا گئی۔ (اف توبہ! کیا اول فول بول رہا ہوں میں بھی۔۔)
اچھا تو میں آپ کو سناتا ہوں واقعہ کہ پہلی بار ہم کیسے ملے۔۔ (اپنی ٹھوڑی بند مٹھی پر جما کر میں خلا میں گھورنے لگا۔۔۔ اف کتنا ڈیشنگ لگ رہا ہوں میں۔۔۔ بقول خود)وہ ایک گرم سی دوپہر کا اختتام تھا جو اب پرسکون شام میں بدل رہی تھی۔۔
---------
عیدالاضحٰی کے لیے "اچھا اور معیاری" جانور ڈھونڈ کر لانے کی ذمہ داری میرے اور فراز کے کمزور سے کندھوں پر ڈال دی گئی۔
بقول چچا "گھوڑوں سے لمبا قد نکل آیا ہے، اب سارے کام خود سمبھالا کرو۔ ہمیں بھی تو آرام کرنے کا موقع ملے۔" انہوں نے اپنے بڑے بھائی ( میرے ابو) کی طرف دیکھ کر تائید چاہی تو وہ فوراً سر ہلا کر بولے۔
"اچھے خاصے 'اُگ' گئے ہیں۔۔ یہ نہیں کرتے کے باپ کا ہاتھ بٹا دیں۔۔۔
اونگی بونگی حرکتیں ان 'ویلے' گدھوں سے جتنی مرضی کروالو"۔
اور ہم 'ویلے گدھوں' نے سر کھجاتے ہوئے وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی۔شام ڈھل رہی تھی ، گرمی پرزور تھی۔ منڈی رش سے بھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے ماحول کچھ زیادہ گرم محسوس ہورہا تھا۔
ہم پچھلے ایک گھنٹے سے منڈی میں ادھر سے ادھر "ٹہل" رہے تھے۔ علی ، وجی ، فراز اور میں ہر جانور کو بغور دیکھ (گھور) کر گزرتے جا رہے تھے۔ لیکن ابو کے بتائیے ہوئے معیار پر کوئی جانور اترتا نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
بھلا بندہ پوچھے ہم لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں جو لسٹ تھما دی کہ ایسی ہو ورنہ نا ہو۔
گھنٹہ بھر منڈی گھومنے کے بعد ہم سے جتنی "خوشبوئیں" آرہی تھیں ، ہمیں اپنا آپ کسی منڈی کے جانور سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
"یار میرے پاؤں تھک گئے ہیں۔۔ بھائی پلیز جلدی کرو تاکہ ہم منڈی سے دفع ہوئیں"۔ چاچوں کے چھوٹے بیٹے وجی نے منہ کے زاویے انتہائی بری طرح بگاڑ کر کہا تو ہم ایک جگہ رک کر کھڑے ہوگئے۔
"عالیہ بیگم اور فرزانہ بیگم۔۔۔" میں نے علی اور فراز کو مخاطب کیا۔
"جی سفینہ بہن؟" انہوں نے مجھے "چھیڑنا" ضروری سمجھا۔
"آہم۔۔ ذرا لِسٹ دہرانا"۔
"کیونکہ گھر میں افراد زیادہ ہیں۔ اس لیے گائے دیکھ لینا یا دو تین بکرے۔۔
قیمت مناسب ہو (جس کا مطلب تھا جتنے پیسے تھمائے گئے ہیں ہمیں اسی میں 'خریداری' کرنی ہے)
جانور صحت مند ہو۔۔۔"
وہ رٹا رٹایا سبق دہرانے لگے۔
"گائے ہو تو وہ سیاہ رنگ میں دیکھنا۔ لو بھلا یہ کیا بات ہوئی؟" فراز نے سیاہ گائے والی بات پر پچاسویں دفعہ منہ بنایا۔
"گائے اور سیاہ رنگ میں۔۔" میں نے سامنے دیکھتے ہوئے زیرِ لب دہرایا۔
"ہاں اور صحت مند ہو، کھاتے پیتے گھر کی لگے۔۔" فراز نے منہ بسور کر لسٹ سے پڑھ کر کہا۔
"صحت مند۔۔۔" میں اب تھوڑا مطمئین ہوا ، نظریں اب بھی سامنے جمی تھیں۔
"پیسے جتنے دیے ہیں اتنے میں ہی آنا چاہئے جانور۔۔۔" وہ لسٹ پڑھتا جا رہا تھا۔
"ارے گولا مارو لسٹ کو۔۔۔ وہ دیکھو سامنے۔۔۔" میں نے سامنے اشارہ کیا اور تینوں نے ایک ساتھ اس جانب دیکھا۔
"اوئے اوئے بھاگ کر پکڑو اسکو ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور لے جائے۔ " علی یک دم چلایا اور سب کو "دھکے" مارنے لگا۔ یوں معلوم ہورہا تھا کہ کوئی جانور "ٹھُڈے" مار رہا ہے۔
"چل مٹکلّو! تو بھی ہل لے"۔ فراز نے وجی کو کھینچا جس کی بیٹری بالکل مُک (ختم) چکی تھی۔
"ہاں بھائی کتنے کا دے رہے ہو؟" ایک گھنٹے میں کوئی سو دفعہ کا دہرایا جانے والا میں دوبارہ بولا۔ اور دل ہی دل میں دعا کی 'ریٹ اچھا لگ جائے یار۔۔ بس ہوگئی ہے میری تو مگر میں کہوں گا نہیں، واٹ لگ جائے گی میری'
"بھائی جی! دو لکھ کا بس"۔ آدمی نے گائے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
"دو لاکھ؟" ہم چاروں کے منہ یوں کھُل گئے جیسے نیچے والا جبڑا کسی نے کھینچ کر گردن سے چپکا دیا ہو۔
"بھائی یہ تو بہت زیادہ ریٹ بتا رہے ہو آپ"۔ فراز نے مسکین سی شکل بنا کر کہا۔ اور میری جیب کی طرف دیکھ جس میں فقط ایک لاکھ روپے تھے۔
ہم چاروں لفنٹر گھر سے یہ سوچ کر نکلے تھے بچ جانے والے پیسوں سے "پارٹی" کھا کر گھر جائینگے لیکن یہاں تو۔۔۔
"بھائی جی! آپ دیکھیں تو صحیح کتنا زبردست جانور ہے۔
یہ گبرو بدن، یہ کالے نین، یہ مٹکتی چال۔۔۔ ہائے ہائے۔۔"
وہ یوں کہہ رہا تھا جیسے گویا کسی دوشیزہ کی شان میں قصیدہ پڑھ رہا ہو۔
"بھولی سی صورت، آنکھوں میں مستی، دور کھڑی شرمائے،
آئے ہائے۔۔۔ میری گائے۔۔۔" علی نے "بیک گراؤنڈ میوزک" دینا ضروری سمجھا۔
فراز نے فوراً باپ کو فون کھڑکایا۔
پھر فون پر تھوڑی اس کی 'کھڑکائی' گئی۔
"تم نکموں کو ریٹ کرنا نہیں آتا، نالائقوں، گدھوں۔۔۔ اسی کا ریٹ لاگاؤ صحیح سے اور گھر پہنچو، ورنہ اُلٹا لٹکا دوں گا"۔ چاچوں کی آواز فون سے باہر تک آرہی تھی ۔ لیکن ساری سمجھ ہمیں فراز کی 'بوتھی' دیکھ کر لگ گئی کہ اصل معاملہ کیا ہے۔
علی اس کا منہ دیکھ کر فوراً بولا۔ "بھائی ۸۰ ہزار میں طے کرلو بس۔۔"
"او بھائی جا کام کر اپنا۔ تو بہنوئی لگتا ہے میرا جو اسی ہزار میں دوں؟ ایک روپیہ کم نہیں کروں گا"۔ وہ اچھا خاصا برا منا کر بولا۔
اب علی کی بوتھی (شکل) دیکھنے والی تھی قسمے!
"اپنی اپنی جیبوں میں جھانکو۔۔۔" فراز کے دماغ کا گھنٹا بجا۔
سب کی جیبوں سے پیسے برآمد کرکے ہمارے پاس کل پیسے جمع ہوئے۔۔۔۔
"بھائی ایک لاکھ پچیس سو میں ہاں کردو بس"۔ فراز نے پیسے گن کر اس آدمی سے کہا۔
"کیوں تم رشتہ لائے ہو میرے لیے جو میں ہاں کروں۔؟"
اور یہ ہوئی تھی کلاسک عزت!
ہم چاروں ہی کے منہ بن گئے۔ اب وجی کے بتائے گئے پلین پر عمل کرنا ہمارے پاس آخری راستہ تھا۔
"تھوڑی سی مسکین شکل بناؤ۔۔۔
تھوڑی سی مٹھاس لاؤ۔۔
تھوڑا سا بھائی چارا ڈالو۔۔۔
اور ۔۔۔"
اور اب ہم چاروں مل کر اسکی منتیں کر رہے تھے۔ میری ایکٹنگ تو دیکھنے والی تھی۔ ہائے۔۔!
آخرکار وہ مان گیا۔
بتایا تھا نا میں نے کہ میری ایکٹنگ کمال کی تھی۔ (فرضی کالر جھاڑتے ہوئے۔۔)
معلوم نہیں اسے کس کس چیز کو واسطہ دے چکا تھا۔
(اصل میں تو اس کے پاؤں پکڑنے کی کسر رہ گئی تھی)
اب ہم گائے کا "معائینہ" کر رہے تھے کہ کہیں کوئی خامی تو نہیں۔
وجی اس کی آنکھوں میں ڈوب چکا تھا۔ علی اسکی کمر ناپ رہا تھا، فراز اس کے کان دیکھ رہا تھا اور میں 'رکوع' میں گرا اس کی ٹانگیں دیکھ رہا تھا۔
میری سماعتوں سے چھن چھن کی آواز ٹکرائی اور پھر اپنے قریب کسی کے قدم رکتے دیکھے۔
"بھیا یہ کتنے کا ہے؟" بڑی ٹھہری ہوئی خوبصورت آواز میں دریافت کیا گیا۔
"یہ دو لاکھ 'کی' ہے"۔ آدمی کی بانچھیں ضرورت سے زیادہ پھیل گئیں۔
"کیا؟ یہ اتنا سا کالا دُنبہ آپ دو لکھ میں دے رہے ہیں؟ خدا کا خوف ہے کہ نہیں؟" اس کی آواز میں غصہ تھا۔
"بہن جی! یہ گائے ہے دُنبہ نہیں۔۔"
"میں اس کالے دُنبے کی بات کر رہی ہوں۔۔" اس نے گائے کے ساتھ اشارہ کیا۔
علی، فراز اور وجی نے اس "کالے دُنبے" کو حیرت سے دیکھا۔ اور کالا دُنبہ رکوع میں ہی "فریز" ہوگیا۔
"بہن جی یہ انسان ہے"۔ آدمی نے کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہا۔
میں سرخ چہرے کے ساتھ فوراً سیدھا ہوا۔ اور مُڑ کر اسے دیکھا۔
پہلے اسکے چہرے پر حیرت پھیلی ، پھر اطمینان سے بولی
"لگ تو دُنبہ ہی رہا ہے۔۔" اور شانے اچکا کر مُڑ گئی۔
میری کالی شلوار قمیض جس میں انتہائی ہینڈسم لگتا ہوں۔۔ (بقول خود نا۔۔) اسے میں اتنے حسین روپ میں دُنبہ نظر آتا ہوں؟ اف میں تو تپ ہی گیا۔
"اے لڑکی۔۔۔" میں نے انگلی اٹھا کر آواز دی اور وہ فوراً پلٹی۔ ہائے اللہ! نا پلٹتی ، میرا اتنا نقصان تو نا ہوتا بعد میں۔۔
گھنگریالے بالوں کو ہائی پونی ٹیل میں باندھے، شلوار قمیض پر اطراف میں چادر لپیٹے، پاؤں میں کھُسّہ پہنے وہ مجھے گھور کر دیکھ رہی تھی۔
(قسم سے میں نے اتنا غور سے نہیں دیکھا تا، یہ تو مجھے بعد میں ان لفنٹروں نے بتایا، جو میرے پیچھے کھڑے اس سارے 'سین' سے لطف اندوز ہورہے تھے)
"فرمائیے۔۔۔" وہ عجلت میں بولی۔
"آپ کو میں کوئی جانور نظر آتا ہوں؟" میں نے غصے پر قابو پانے کی کوشش کی۔
اس نے ایک نظر مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
"اگر اسکا میں نے جواب دیا تو آپ اور تپ جائنگے مِسٹر۔۔" اس نے اطمینان سے کہا۔
کیا یہ میری عزت ہوئی ہے؟
"اور آپ بھی کسی بھوری بھیڑ بکری سے کم نہیں لگ رہیں۔۔۔" میں نے چبا چبا کر اس کے بالوں کا رنگ دیکھتے ہوئے کہا۔
اسکا منہ حیرت سے کھُلا اور پھر وہ بولی
"مطلب آپ نے مان لیا کہ آپ دنبے ہیں؟ ویری نائیس۔۔۔"
اب کہ وہ ذرا مسکرائی اور آگے آئی۔۔
"اس کا سودا ڈَن کریں۔۔۔ یہ لیں دو لاکھ۔۔۔" اس نے پرس میں سے پیسے نکال کر آدمی کو دیے اور ہم سب کے چہروں کو دیکھا جو فق ہوگئے تھے۔
"یہ آپ کی ہوئی۔۔۔ آئیے باہر تک چھوڑ آؤں۔۔۔" آدمی مسکرایا ہوا گائے کی رسی کھولنے لگا۔
اس بھوری بھیڑ بکری نے ہمیں دیکھا ، مسکرا کر کچھ جتایا اور پلٹی۔
"ایکسکیوز میں یہ ہماری ہے۔۔۔" علی کو فوراً ہوش آیا اور گائے کے پیچھے لپکا۔
"اب میری ہوگئی۔۔۔" اطمینان بھرا جواب آیا۔
"ہم نے اسکا سودا کرلیا تھا۔۔۔" فراز بھی لپکا۔
"میں نے بھی کرلیا۔۔" وہ چلتی جارہی تھی۔
"اب ہم قربان کیا کریں گے۔۔۔ ابو جی تو جان لے لیں گے۔۔۔" وجی نے رونی صورت بنائی۔
اور رُکی اور ہلکا سا مُڑی۔ مجھے لگا اس نے میری طرف نظر ڈالی ۔
" اس کالے دُنبے کو قربان کر دینا۔"
وہ مسکراہٹ چھپاتی مُڑ گئی اور ہم وہی کھڑے رہ گئے۔
میں کچھ بول ہی نہیں سکا۔ عورتوں کی عزت کرتا ہوں نا ، اور پیاری لڑکیوں کی کچھ زیادہ ہی۔ لیکن وہ تو ڈائین تھی۔
میرا چہرہ خفت سے لال پیلا نیلا ہوگیا۔۔ (اصل بات تو یہ تھی کہ مجھے کائی ڈائیلاگ ہی نہیں ملا مارنے کو۔۔۔ چلو فرض کرو مار بھی لیتا تو ؟ اویویں اپنے کسی بکرے چھترے ، بھیڑ بھائی کو بُلا کر میری کلاس لگواتی پھر؟ میری تو عید خراب ہوجاتی۔ ہاں نہیں تو)
میں نے خود کو تسلی دی۔ اور لفنٹروں نے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
خالی ہاتھ گھر پہنچنے پر جو ہماری 'حسین' لفظوں اور جملوں سے 'چھترول' ہوئی الامان۔۔۔۔
عید میں دس دن باقی تھے اور جانور نا لائے جانے پر ہماری اگلے دو دن 'کلاس' لگتی رہی۔
تیسرے دن ہمیں دوبارہ بہت مان سے (دھکے دے کر) منڈی بھیجا گیا۔
--------