تو جی ناظرین اس وقت ہم سب قطار میں کھڑے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔
عید مبارک عید مبارک کہتے ہوئے کبھی کوئی ایک بار گلے ملتا ہے، تو میں دوسری بار ملنے لگوں تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ پھر اگر میں دوسری بار نا ملوں تو اگلا بندہ تین دفعہ گلے لگانے کے چکروں میں ہوتا ہے اور جواباً 'ٹاکرا' ہوجاتا ہے۔ ارے یہ کیا کھیل ہے؟ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہم 'چونچیں لڑا رہے ہیں' اور ناکام ہورہے ہیں۔
خیر اب میرے سامنے یہ دونوں میری اعلیٰ درجے کے خبیث قسم کے کزن بھرپور شوخیاں مارتے ہوئے لش پش کلف لگے کرتوں میں ملبوس کھڑے ہیں۔ اور میں۔۔۔
ایک نظر اپنے پچھلی عید پر پہنے جانے والے کرتے کو دیکھا جو آج دوبارہ زیب تن کر لیا تھا۔ دماغ میں ایک شعلہ سا جلا اور اس ڈائین پر سخت قسم کا غصہ آیا جس کی وجہ سے میں نئے جوڑے سے محروم رہا ۔ ہائے اب عید کی سیلفی لے کر کیسے اپلوڈ کروں گا؟
تو جی عید ہو اور عید کے دن آپ کی بے عزتی نا ہو ، خاص طور ہم جیسے نکموں (بقول ابا اور چچا) کی تعریف نا ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔
"عید کی نماز پڑھلی ہے، قصائی کدھر رہ گیا؟" چچا نے بے حد نرم لہجے میں پوچھا۔ شاید عید کے باعث۔ انہوں مجھے دیکھا۔ (گھورا)
"قصائی کی 'اپوائینٹمنٹ' تو میں چار دن پہلے سے لے کر رکھی ہوئی ہے"۔ میں نے کالر درست کرتے ہوئے فخر سے سر اٹھا کر بتایا۔ اب وصول کروں گا میں داد۔۔۔
"تو برخوردار۔۔۔ اپنے آپ کو ذبح کروانے کے لیے خود تشریف لے جاؤ گے یا وہ آئینگے ؟" ہائے اتنا میٹھا لہجہ۔ میری امڈ آنے والی مسکراہٹ غائب ہوئی۔ پاس کھڑے علی کو میں نے کہنی ماری۔
"یار اس بات کا کیا مطلب ہے؟"
"الّو۔۔ تعریف ہوئی ہے تیری تھینکس بول"۔ علی نے معصومیت سے کہا۔ تو میں فوراً چچا کی طرف مُڑ کر مسکرایا۔
"شکریہ"۔
"شکریہ کے کچھ لگتے۔۔۔ نالائق قصائی کدھر ہے؟" بس اتنی ہی مٹھاس تھی ان کے اندر۔۔ اور وہ فوراً دھاڑے۔
"مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ وہ نالائق ہے یا لائق؟" میں منمنایا۔ بھلا میں کوئی اس کا استاد تھا جو مجھے پتا ہوتا۔
"نالائیقوں ناہجاروں ، ایک کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے یا تیل لینے؟" یا اللہ وہ اتنے پیار سے کیوں دیکھ رہے تھے ہمیں۔ میں سمجھ نا سکا۔ اور عقل ؟ کہاں گئی مجھے کیا پتا؟
"چچا جان آپ مجھ سے گھما پھرا کر بات نا کریں۔۔ حقیقت پر سے پردہ اٹھائیں پلیز۔۔" میں نے ہمت کرکے اپنی الجھن دور کرنے کے لیے کہا۔
اور پھر پردہ اٹھتے اٹھتے جو 'سنہری اقوال' ہمیں سننے کو ملے تو معلوم ہوگیا کہ کون کہا گیا ہے اور نالائق۔۔۔
"ایک گھنٹے کے اندر اندر قصائی یہاں موجود ہو۔۔ ورنہ تم تینوں کے ذمے ہوگا سب۔ چھریاں گھر میں موجود ہیں۔۔" وہ آدھی ادھوری بات کہہ کر مزے سے ابا کے ساتھ براجمان ہوگئے۔ اور ہمیں شش و پنج میں مبتلا چھوڑ گئے۔
باہر لان میں آتے ہی فون نکال کر میں نے قصائی کو کال کی۔
"یار بھائی آپ نے کہا تھا نماز پڑھتے ہی آجاؤں گا، ابھی تک نہیں آئے"۔ میں نے ناراض لہجے میں کہا تو علی نے ٹہوکا دیا۔
"بیگم نہیں ہے تمہاری جو روٹھ رہے ہو۔ سختی سے پوچھو"۔
"جلدی پہنچیں آپ ہمارے گھر۔۔" میں نے غصہ دکھایا۔
"او بھائی جی! میں ایک جگہ پھنسا ہوا ہوں۔ آپ مجھے لینے آجاؤ "۔ اس کی بات سن کر میں علی اور فراز کو بتایا تو وہ بولے
"بے عزتی کروانے اور خود قصائی بننے سے بہتر ہے ، جاکر قصائی کو لے آؤ تم"۔
"اوکے آپ جگہ بتائیں میں آرہا ہوں۔"
ان کی بتائی ہوئی جگہ ہمارے گھر سے پانچ دس منٹ کے فاصلے پر تھی۔ ابّا کی گاڑی کی چابی اٹھائی (اُڑائی) اور سن گلاسس لگا کر نکل پڑا۔
ایک تو پچھلی عید کا سیاہ کرتا اور سن گلاسس، اوپر سے میں نے آستینیں کہنیوں تک فولڈ کرلیں۔۔۔ اف مر گئی لڑکیاں تو۔۔
خوش فہمی میں مبتلا ہوکر میں اس گھر کے قریب پہنچا۔
"اتنے بڑے گھر میں رہتا ہے قصائی؟" خوبصورت مکان پر نظر ڈال کر کھُلے گیٹ سے اندر آیا تو دائیں جانب ہی گوشت سے لڑائی کرتا قصائی نظر آگیا تو میں اسکی طرف بڑھا۔
"چلو بھائی۔۔ چلیں!" اپنی طرف سے میں نے کھڑے کھڑے آرڈر دے دیا۔ وہ ٹس سے مس نا ہوا۔
"اچھا تو ٹھیک سے بوٹیاں نہیں بن رہی تھیں تو اپنے 'ساتھی قصائی' کو بھی بلوا لیا؟ گریٹ!" نسوانی آواز پر ایڑیوں کے بل گھوما۔ اور 'ساتھی قصائی' کا لقب ملنے پر میرا جی چاہا زمیں پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں۔
"اب جلدی جلدی گوشت ٹھیک سے بناؤ۔۔" وہ سختی سے بولی۔
"جی بی بی جی"۔ قصائی فرمانبرداری سے کہتا بوٹیاں کرنے لگا تو مجھے اس کی بات سمجھ آئی کہ وہ کس جلاد کے چنگل میں 'پھنس' چکا تھا۔
"آستینیں تو فولڈ کی ہی ہوئی ہیں، عینک اتارو اور کام پر لگو"۔ وہ مجھے دیکھ کر بولی تو مجھے تپ چڑھ گئی۔
اتنا ہینڈسم لڑکا اسے قصائی نظر آرہا تھا۔
"محترمہ۔۔ میں کوئی۔۔" میں نے اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہی تو اسنے ہاتھ اٹھایا۔
"پہلے یہ کلہجی کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنادو۔۔ ناشتہ اسی کا کرنا ہے ہم نے۔۔"
لان کے سادہ سے جوڑے میں ملبوس، بالوں کو پونی میں مقید کئے ، دھوپ کے باعث وہ گھور کر دیکھ رہی تھی۔
"بی بی جی! بنا رہا ہوں ۔ آپ اندر جائیں۔۔"قصائی نے سر اٹھا کر کہا۔
"بھائی جی! معذرت میں آپ کی قربانی نہیں کرسکتا "۔ اسنے مجھے دیکھ کر کہا۔
میرے بولنے سے پہلے وہ بولی۔ "یہ کوئی ویڑا ہے جس کی آپ قربانی کرینگے؟" میری طرف دیکھ کر اسنے مسکراہٹ چھپائی۔
اف! میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے کو تھا۔ ان پر 'فٹے منہ' بھیجتا میں تن فن کرتا وہاں سے نکلنے لگا تو اس ڈائین کا قہقہہ سنائی دیا۔
"ارے رکیں تو۔۔۔ بوٹیاں تو بنا جاؤ چھوٹی چھوٹی۔۔۔"
میں سنی ان سنی کرتا ، سرخ چہرہ لیے باہر نکل گیا۔