جب میں چھوٹا تھا تو لگتا تھا میٹرک کرلو بس آگے مستقبل روشن ہی روشن ہے۔
لو کر لیا میٹرک، پھر پتہ چلا کہ آگے انٹر نامی سوگات آپ کا سواگت کرے گی۔ لو اب وہ بھی کرلیا پھر آگے گریجوئشن ہمارا منہ تکنے کو بیٹھی ہے کہ مجھے تو کرلو پھر نوکری بھی مل جائے گی۔
لو وہ بھی کرلیا۔ اب نوکری ڈھونڈنے نکلو تو سننے کو ملتا ہے بس ایک ڈگری ؟ ایکسپیرئینس ہے؟ یہاں کس کے ریفرنس سے آئے ہو؟
ماسٹرز کرلیا کہ پھر تو نوکریاں خود آکر کہیں گی مجھے کرلو مجھے کرلو۔۔۔ لیکن اب بھی خواری؟
ارے بھئی تھوڑی جیب ڈھیلی کرو، تھوڑا صبر کرو، تھوڑی بے عزتی سہو۔۔۔۔ بس پھر آپ کامیاب ہیں، آپ سرخرو ہوگئے۔
ان سارے مرحلوں سے گزر کر ابا نے مجھے اپنے ہی کاروبار میں کام کرنے کے لیے 'رکھ' لیا۔ پچھلے ایک ہفتے سے میں کام تو کر رہا تھا لیکن جب کوئی نا ہوتا تو ابا رعب سے کہتے ایک کپ چائے کا تو بنا کر لاؤ۔ تو میں چپ کرکے دو کپ چائے بنا کر بسکٹ کا پیکٹ لے کر آبیٹھتا۔ (اپنی بھی تو خدمت کروں نا)
"یہ فائل عقیل کو خود جاکر دے آؤ۔۔" ابا نے حکم صادر کیا۔
"کون عقیل؟" میرا دھیان اپنے بسکٹ کی طرف تھا جو چائے میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ اور دوسرا بسکٹ تھامے میں اسے 'ریسکیو' کر رہا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن رک سی گئی۔۔۔ میرا دوسرا بسکٹ بھی پہلے کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
ابا مجھے کڑے تیوروں سے گھور رہے تھے۔
"ک۔۔کون عقیل۔۔۔؟" میں نے غم سے ڈوبی آواز میں پوچھا۔
"تمہارا سُسر۔۔۔" وہ غصے سے دھاڑے تو میرا چہرہ کھل اٹھا۔
"ہائے ابا میرا سسر بھی ہے کوئی۔۔۔ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟" میں خوشی سے جھوم اٹھا۔
"الّو کے۔۔۔۔ منہ بند رکھو۔۔۔ عقیل میرا دوست۔۔ اس کے آفس جاکر یہ ڈیل والی فائل دے کر آؤ ورنہ میرا گیارہ نمبر کا جوتا تماری طرف اڑتا ہوا آئے گا۔۔۔" ۔
میں کھسیانا سا ہوکر فوراً اٹھا۔ "ابا آپ بھی نا۔۔۔ پیار سے کہہ دیتے تو بھی دے آتا۔۔"
"بیوی ہوں میں تماری؟" وہ پھر دھاڑے۔ "پیار سے کہہ دیتا۔۔" بڑبڑاتے ہوئے وہ چائے کا گھونٹ بھرنے لگے۔ میں فائل اٹھاتا شرافت سے نو دو گیارہ ہوگیا۔
----------
"او تھینکیو بیٹا۔۔" میں نے انہیں فائل پکڑے تو وہ مسکرائے اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے مسکراتے ہوئی رسمی سا انکار کیا اور کھڑا ہی رہا۔ انہوں نے نظر اٹھا کر مجھے بغور دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ کون سا عیدی دے رہے تھے جسے میں "نہیں آنٹی رہنے دیں" کہہ کر منع کردیتا اور دل ہی دل میں دعا کرتا کہ آنٹی پلیز زبردستی میرے ہاتھوں سے نوٹ چپکا دیں بس۔۔
اپنے بالوں کو درست کرتا میں کُرسی پر ڈھیر ہوگیا تو ان کا بے ساختہ قہقہہ سنتے ہی میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ کیسا ڈراؤنا قہقہہ تھا ان کا بالکل اپنی بیٹی کی طرح۔
(اف سفیان۔۔۔ ووٹ کو عزت دو۔۔ گو سفیان گو۔۔ اف یہ کیا بک رہا ہوں۔۔ آئی مین عزت دو، عزت لو) بہت خوبصورت قہقہہ تھا ان کا، جس طرح بریک لےلے کر وہ ہنس رہے تھے ٹیبل سے زلزلہ میری کرسی تک ٹرانسفر ہوا اور میں اچھل پڑا۔
"یار بڑی آئیٹم ہو تم تو۔۔" انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا تو میں ساکت و جامد ہوگیا۔
کیا مطلب کونسی آئیٹم ہوں میں؟ کیا یہ مجھ سے آئیٹم نمبر کروانا چاہتے ہیں؟ یا یہ مجھے کوئی کیمیسٹری والا ایٹم کہہ رہے ہیں؟ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بولے
"بیٹھو یار۔۔ اچھے بندے لگ رہے ہو"۔
لو اب انہوں نے مجھے اپنا بندہ بنا لیا؟ شٹ اپ سفینہ! (خود سے مفروضے گھڑنے والے صرف اپنے ہی دماغ کا نقصان کرتے ہیں۔ ) خود کو گھُرک کر میں نے چپ کروایا۔
ہم 'گپے' لگا رہے تھے کہ کوئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
"سر یہ فائل چیک کرلیں۔۔" وہ شائستگی سے بولا۔ چشماٹو لڑکا تھا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو پوری بانچھیں پھیلا کر اسنے میری طرف دیکھ کر اپنی بتیسی کی نمائش کی۔
"لنگور۔۔" اسے باہر جاتا دیکھ کر میرے منہ سے سلِپ ہوگیا۔ اور عقیل صاحب کو زلزلہ- زدہ قہقہہ ایک دفعہ پھر گونج اٹھا۔ میں اچھلنے کی بجائے کرسی پر مضبوطی سے جم گیا کہ کہیں "لُڑک" کر گر نا جاؤں۔
"اس کا رشتہ آیا تھا میری بیٹی کے لیے۔۔ بیچارے کی بہت چھترول ہوئی ماہا سے۔ اس کے منہ سے سنو تو ایسے ایسے القابات استعمال کرےگی کہ بندہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے"۔ وہ کہہ رہے تھے اور میں تصور کر رہا تھا کہ ان کے قہقہوں سے تو اسکے گھنگیالے بال ہوا میں یوں کھڑے ہوجاتے ہونگے جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ اپنی ایمیجینیشن پر میں مسکرایا تو عقیل صاحب مزید واقعات سنانے لگ گئے اور میں مزے سے کرسی ہر چپکے بیٹھا سنتا رہا۔ وہی بیٹھے بیٹھے میرے دماغ میں ایک شیطانی خیال آیا۔
(اوئے سفینہ! تیرے پاس دماغ بھی ہے؟) ارے یہ سوال شیطان پوچھ رہا تھا کیا مجھ سے؟
----
لکھوالیں آپ سب میرے سے۔ بندے کو کبھی غلطی سے بھی اپنی زبان دوستوں یاروں کے سامنے پھسلنے نہیں دینی چاہئے۔ یہ ڈیش لوگ آپ کی لسی میں سے جب تک مکھن نہیں نکال لینگے یہ آپ کو بچشنے والے نہیں ہیں۔
کچھ منٹوں قبل مووی دیکھنے کے دوران میں جذباتوں میں بہہ کر فرزانہ اور عالیہ (فراز اور علی) کو اس ڈائین کی کہانی بتا چکا تھا۔ چلو کہانی بتانے کا مسئلہ نہیں۔۔ لیکن مجھ بے وقوف نے اس کے حسین الفاظ سینسر کئے بغیر ان کے گوش گزار دیے۔
پہلے تو یہ خبیث مجھ پر اتنا ہنسے، اتنا ہنسے کہ ان کے چہرے سرخ ہوگئے اور آنکھیں یوں پانی سے بھر آئیں جیسے ان کے رخسار پر دو چماٹ لگا کر آنکھوں میں پیاز ڈال دیا ہو۔
میں ہتھیلی پر اپنا بسورا ہوا منہ رکھے ترچھی آنکھوں سے ان کے کرتوت دیکھ رہا ، مجال ہے جو ان کی ہنسی کو بریک لگ جائے۔
"اوئے الو۔۔۔ تو نے ناک کٹوا دی ہماری۔ اتنی بے عزتی کروا آیا اپنی۔۔۔ "
"ابے یار! گھونچو۔۔ بے وقوف۔۔۔ آگے سے جواب دینا تھا۔۔"
وہ کہتے جا رہے تھے اور میرا منہ مزید بنتا جا رہا تھا۔ اب میں کیا بار بار بولوں کہ میں معصوم و شریف سا لڑکا ہوں۔۔ عزت کرتا ہوں سب کی۔۔۔
"یار تو بدلہ تو لیتا جاکر۔۔" علی نے میری بگڑی ہوئی شکل دیکھ کر ہنسی روک لی۔ میں چپ رہا۔
"بات سن سہیلے۔۔ ابھی بھی موقع ہاتھ سے نہیں گیا۔۔۔ کچھ پلان کرتے ہیں۔۔" فراز میرے قریب بیٹھا اور کچھ سوچنے لگا۔
"ہاں یار۔۔ کچھ ہم بھی مستی کرلیں۔۔۔ ہمارے بھائی کی اتنی عزت افزائی کا کچھ تو بدلہ لینا چاہئے۔۔"
وہ مجھے الٹے پلٹے آئڈیا دے رہے تھے کیسا خرافاتی دماغ تھا انکا۔
"ویسے مجھے صبح بیٹھے بیٹھے ایک خیال آیا تھا۔۔ " ان کی باتوں سے میں تنگ آگیا۔ میرے منہ سے پھِسلا۔
"کیا؟" بیک وقت دونوں بولے۔
"کہ کیوں نا میں اسی ڈائین سے شادی کرلوں اور زندگی بھر اسے ستاؤں۔۔۔ اسکے ڈائیلاگ اسی کے اوپر پھینکوں؟" میں نے اپنی طرف سے دھماکے دار پلان بتایا۔
اب وہ ہنسنے کیوں لگے میں سمجھ نہیں سکا۔
"الو ہی رہنا ۔۔۔ بے وقوف ۔ ایک بے عزتی کے بدلے کیا ساری عمر کی ذلالت گلے ڈالنا چاہ رہا ہے؟" علی نے گویا حقیقت دکھانا چاہی۔
"بس میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔ اب تو بدلہ لے کر رہوں گا۔۔۔" میں انکی سنے بغیر کمرے سے نکلا اور ابا کے کمرے کی طرف بڑھا۔
------
"ابا پلیز۔۔۔۔ گھر میں رونق لگے گی۔۔ اب میں سب سے بڑا ہوں گھر میں منوارا بھی ہوں۔۔ پلیز شادی کروادیں میری۔۔۔" میں نے رونی سی صورت بنائی۔
ابا کڑے تیوروں سے مجھے گھور رہے تھے۔
لیکن جب میں نے لڑکی کا نام بتایا تو وہ تھوڑے دھیمے پڑے۔
"ابا آپ کی دوستی ، رشتہ داری میں بدل جائے گی۔۔۔ اف گہری دوستی۔۔۔!" میں اب انہیں للچا رہا تھا۔ کاش کہ اس وقت ذہن میں یہ بات رکھ لیتا کہ اس سب کے بدلے میں ڈائین کیا کرے گی میرے ساتھ۔۔۔