ارے ارے ارے! آپ سب تو ذرا سے سنجیدہ ہی ہوگئے۔ دھیرج رکھئیے آپ کے ہیرہ (بقول خود) کو کچھ نہیں ہوا۔ ایویں آپ لوگ آخرہ صفحے کو پڑھ کر میرے لیے رو پڑے(کیسی خوش فہمی لاحق ہے مجھے۔۔ آپ کو تو ذرا پرواہ نہیں میری۔ بندہ پوچھ ہی لیتا ہے پلٹ کر، سفیان آپ کو زیادہ تو نہیں لگی؟ لیکن قائرین ہونہہ۔۔ آپ کو پرواہ ہے اتنے اچھے ہیرو کی؟)
علی بام اور پیسٹ لگا کر ہٹ چکا تھا جبکہ فراز میری ٹانگیں دبا رہا تھا اور وجی بیچارا روہانسی سی شکل بنائے میرا سر دبا رہا تھا۔ (ساری باتیں ایک طرف۔۔ ان خبیثوں سے خد مت کروانے کا مزہ ایک طرف)
گھر والوں کو فالحال اپنی شکل مبارک دکھانے سے گریز کیا کہ مبادہ جو تھوڑی بہت ہڈی پسلی سلامت ہے ، وہ بھی تباہ نا ہوجائے۔
علی اور فراز مکمل سنجیدگی سے مجھے لیکچر دے رہے تھے کہ "ہم نے کہا بھی تھا یوں نا کرنا۔۔"
"تم کیوں گائے کے پاس گئے تھے اور جاکر کہا کہ 'آ گائے مجھے مار'؟"
نا جانے کیا کیا بولتے جا رہے تھے وہ لیکن درد کے باعث میں آنکھیں موندیں لیٹا اور اس وقت کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ دو پین کِلر دودھ کے ساتھ نگل کر میں سو گیا۔
سو کر اٹھا تو خود کو بہتر محسوس کیا، اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تبھی علی اور فراز کمرے میں داخل ہوئے اور مجھے جوس کا گلاس تھمایا۔
میں نے ان کی سڑی ہوئی شکلیں دیکھیں۔ (کچھ گڑ بڑ ہے۔۔)
"منہ دھو کر پینا، اویویں ہمارا گلاس گندا کروگے"۔ فراز نروٹھے پن سے بولا ۔
"اور بھائی بس اب اور خدمتیں نہیں کرنی ہم نے، اپنی تشریف اٹھا لے۔۔۔ " فراز نے بھی اسی لہجے میں ہاتھ اٹھا کر جھلایا۔
"بڑا ہوں میں تم لوگوں سے۔۔۔ تمیز سے بات کرو"۔ میں نے ان کی بوتھیوں کو گھورا تو وہ تیزی سے بولے
"کچھ مہینے بڑا ہونے سے تم اتنے بڑے نہیں ہوگئے کہ عزت کریں تمہاری۔۔۔"
"ناک کٹوا تو نے ہماری۔۔"
"ایک لڑکی سے کٹ کھا آیا"۔
تو اب سمجھا میں معاملہ۔۔۔ اتر گیا سارا ہمدردی کا بخار، اور شروع ہوگئے ان کے آنٹیوں والے طعنے۔
"تو ہمیں پہلے بُلا لیتا۔۔۔ ایسی کی تیسی کر دیتے ہم اس چڑیل کی۔۔"
میں نے خاموشی سے انہیں گھورا۔
"ہاں اس کی اتنی مجال کے ہمارے بھائی کو کچھ کہا۔۔"
وہ بولتے جارہے لیکن تبھی میں نے اکتا کر ہاتھ اٹھایا
"اینف! اب اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ نا یہ تذکرہ دوبارہ چھیڑا جائے گا۔ اگر تم لوگوں کو میں واقعی عزیز ہوں تو بس اس بات پر مٹی ڈال دو!" میں نے دوٹوک بات کی تو وہ چپ ہوگئے۔
جوس کا گلاس اٹھا کر ایک ہی سانس میں ختم کیا اور فراز کو پکڑایا۔
"دھو لینا اسے۔ میں کوئی فراز تھوڑی ہوں جو بغیر منہ دھوئے کوئی برتن استعمال کرے تو بعد میں اسے تیزاب سے دھونا پڑے"۔ میں نے بشاشت سے جواب دیا تو علی مسکرایا۔
جبکہ فراز نے صوفے پر پڑا کشن اٹھا کر مجھے مارنا چاہا پھر میرا لحاظ کرتے ہوئے میرے حصے کی مار اور جھاڑ علی کو پلا دی۔
خبیث کہیں کے۔۔۔ (پیار سے بولتا ہوں میں ان کو خبیث۔ بسورے ہوئی شکلیں ہیں نا ان کی اس لیے)
--------
آفس کی طرف سے ہر سال کی طرح عید گزرنے کے ایک ڈیڈ مہینے بعد "عید ملن" تقریب رکھی جاتی تھی۔ اس دفعہ بھی سفیان ، علی اور فراز کے ذمے سارے انتظامات تھے جنہیں وہ بخوبی نبھاہ رہے تھے۔ فراز اور علی اس وقت تمام مہمانوں کو دیکھ رہے تھے جو خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سفیان کیٹرنگ والوں کو خود لینے گیا ہوا تھا جو ابھی تک پوہنچے ہی نہیں تھے۔
"اوئے یہ چڑیل بھی آئی ہے؟" فراز نے سرگوشی کی تو علی نے بھی مڑ کر دیکھا۔
"چلو جی! اب یہ کس کا خون چوسنے آئی ہے؟ سفینہ کدھر ہے؟"
" دو منٹ میں آنے والی ہے۔ اس چڑیل سے بچا کر رکھنا ہے اپنی باجی کو ہم نے"۔ فراز نے عزم سے کہا تو علی نے ہاں میں ہاں ملائی۔
"سوہنے لوگوں کو ویسے بھی چڑیلیں چمٹ جاتی ہیں"۔ فراز سنجیدگی سے بولا تو علی نے اسے رکھ کر ایک دھپ لگائی۔
--------
سیاہ جینز، سفید شرٹ پر سیاہ جیکٹ پہنے وہ اس وقت مصروف سا لوگوں کو کھانا سرو کرنے میں مدد کر رہا تھا۔ چونکہ دیر ہوچکی تھی اسی لیے سب نے "روٹی کھُل گئی" کا نارہ سنتے ہی دھاوا بول دیا۔
عمر رسیدہ لوگوں کے پاس وہ خود جاکر پوچھ رہا تھا کہ آپ کے لیے کیا لاؤں؟ وہ جواباً کچھ کہتے تو وہ مسکرا کر پلٹ جاتا اور کچھ دیر بعد پلیٹ لاکر ان کے سامنے رکھ دیتا۔
وہ پلٹ کر میز کی طرف جارہا تھا ، تقریباً ہر کوئی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا تو وہ اپنے لیے بھی کچھ لینے کے لیے اٹھا، پلیٹ میں کباب رکھ کر اسنے ٹیبل پر پڑی آخری کوک اٹھائی اور جانے لگا کہ پیچھے سے ایک چار سال بچے نے اسکی پینٹ کھینچ کر متوجہ کیا۔
اور اس نے اس سے جو مانگا ، سفیان کی آنکھیں بھر آئیں۔
اپنی محبوب ، اپنی زندگی وہ کیسے کسی اور کو دے سکتا تھا۔۔؟
لیکن دو ساتھیوں کو جدا کرنے کا اسنے فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔
اور جھک کر بچے کو اسنے اپنی کوک تھما دی اور دوسرا ہاتھ دل پر گیا۔
کباب ادھورے رہ گئے۔۔۔
"تھینک یو"۔ اس کے اتنے پیار سے کہنے پر وہ ہنس پڑا اور چلا گیا۔
-------
اس کی مسکراہٹ ایک چڑیل اپنی نظروں میں جذب کر چکی تھی۔
بریانی سے مکمل انصاف کرنے کے بعد وہ اٹھی اور کھیر ڈال لائی اور اس پر بھی اپنا ہاتھ صاف کیا۔
پھر ذرا کھنکار کر اپنے باپ کو متوجہ کیا۔
"ابو۔۔۔"
"جی بیٹا جی؟" تکا بوٹی پر سے نظریں ہٹائے بغیر وہ بولے۔
"ابو۔۔ آپ ہاں کردیں"۔ وہ دھیمی آواز میں بولی۔
"کھیر کو؟ ہاں ہاں لے آؤ۔۔۔" ایسی مواقعوں پر کھانے کے علاوہ کسی کو سوجھتا ہی کیا ہے۔
"لڑکے والوں کو۔۔۔ مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں"۔ وہ مضبوط لہجے میں بولی تو عقیل صاحب کا تکا بوٹی سے بھرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
پھر اسے چباتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھا تو اسنے اثبات میں سر ہلایا تو وہ خوشی سے اٹھتے ہوئے متلاشی نظروں سے اپنے دوست کو ڈھونڈنے لگے۔
-------
"اوئے۔۔۔۔۔۔۔" فراز اتنی زور سے چینخا ہوا آیا کہ ان دونوں نے چونک کر دیکھا۔
"کیا ہوا؟"
"س۔۔سسس۔۔۔۔" وہ ہکلایا۔
"کیا؟؟" علی اور سفیان ایک ساتھ بولے۔
"سس۔۔سس۔۔۔۔" اس سے بولا نہ گیا۔
"بے وقوف ، واشروم جاؤ یہاں غلاظت مت پھیلانا۔۔۔" علی نے بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"شٹ اپ۔۔۔ اس کا سسر۔۔" اسنے سفیان کی طرف اشارہ کیا تو وہ جم گیا۔
"اسکا سسر رشتہ پکا کرگیا ہے۔۔۔" اس نے بم ، دھماکہ ، پٹاخہ، پھُلجڑی سب چھوڑ دیا۔
"واٹ؟" سفیان حیرت کے مارے اٹھ کھڑا ہوا۔
"ہاں وہاں عقیل انکل اور تایا ابو دونوں آپس میں تمہارے شادی کے کپڑوں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔۔"
"واٹ؟؟ نو وے۔۔ مجھے یہ منظور نہیں۔۔۔ نو نو نو۔ میں ابھی منع کرتا ہوں"۔
"مجھے نہیں کرنی یہ شادی۔۔ مجھے اعتراض ہے"۔
وہ فوراً اٹھا اور اپنی محبت کباب کو وہی چھوڑ کر بھاگا۔
-------
اف یہ ابا کہاں آنٹیوں کی طرح گپوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اٹھ ہی نہیں رہے۔
ابا کی ٹیبل کے گرد بلی کی طرح چکر لگاتے ہوئے جو میں نے ایک آدھا کباب کھایا تو وہ بھی ہضم ہوگیا۔
کچھ لمحوں بعد ابا اٹھے اور کھیڑ ڈالنے کے لیے آگے بڑھے تو میں ان کے پیچھے گیا۔
"ابا۔۔۔"
"کیا ہے؟" لٹھ مار انداز۔۔
"ابا آپ عقیل انکل کو 'ناں' کردیں۔۔" میں منمنایا۔
"کھیر کے لیے؟" کھیر والا بڑا سا چمچ ہوا میں ہی رک گیا۔
"نہیں اس رشتے کے لیے آپ ناں کردیں۔ مجھے اعتراض ہے"۔ میں نے بڑی ہمت جمع کرکے کہا۔ الفاظ ویسی ہی تھی مگر کچھ تبدیلی کے ساتھ۔
" نکمے، الو کے۔۔۔۔، ناہجار۔۔۔۔ خود ہی مجھے پٹی پڑھائی تھی اس رشتے کی ۔۔۔۔ " وہ غیض و غضب کے باوجود جگہ کے خیال سے آہستہ دھاڑے۔ لیکن ہھر بھی میری جیب میں پڑا فون اور چاپیاں وائیبریٹ کرنے لگیں۔
"ابا وہ۔۔۔"
"ایک لفظ نا کہنا۔۔۔۔ یہی چمچہ اٹھا کر تمہارے سر میں دے ماروں گا۔۔۔" انہوں نے چمچہ دکھایا ۔ "کیا خناس بھرا ہے تمہارے دماغ میں؟ کیا تکلیف ہورہی ہے بتاؤ مجھے؟" وہ پوچھ رہے تھے۔
"ابا۔۔۔" میں نے کچھ کہنا چاہا
"ایک لفظ نا بولنا۔۔۔" ابھی تو پوچھ رہے تھے اور اب چپ کروا رہے ہیں۔
"مذاق سمجھا ہوا ہے رشتوں کو، باتوں کو۔۔ باپ تمہارا رشتہ لے کر گیا اور اب دوبارہ جائے اور جاکر کہے معاف کردو ہمارے بیٹے کے رنگ بدل گئے۔ معاف کرنا جی۔
اولاد نے بے عزت کروا کر رکھ دیا۔ احساس نہیں ہے باپ کا؟ رول دو گے باپ کو سب کے سامنے کیا؟" ان کی جذباتی تقریر پر میں چپ سا ہوگیا۔ یہی تو میں کرتا ہوں۔
ان کا چہرہ غصے اور دکھ سے لال ہورہا تھا۔
"ابا سنیں تو۔۔۔"
"بکو بھی اب!" میرا گلا دبانا باقی رہ گیا تھا بس۔
"میں۔۔۔میں مذاق کر رہا تھا۔ اپریل فول۔۔۔" میں نے ان کی طرف دیکھ کر بات ہی پلٹ دی اور ہلکا سا ہنسا۔
ابا خاموش کھڑے شاید گالیاں ضبط کر رہے تھے۔
"ستمبر میں کونسا تمہارے باپ کا اپریل فول آتا ہے؟"
"اچھا نا ابا۔۔۔۔ چِل کریں۔۔۔ لائیں آپ کو کھیر ڈال دوں۔۔" انہیں نے کندھوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگا کر ، پیچھے ہٹ کر وہ کھیر ڈالنے لگا۔
ابا تھوڑے دھیمے ہوئے لیکن گھر جاکر اسکے مذاق پر دو سو پچیس جوتے مارنے کا ارادہ باندھ چکے تھے۔
اور میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب میرے ساتھ مزید کیا کیا ہونے والا ہے؟ شادی؟ اس چڑیل سے؟ اب تو وہ سیدھا گردن ہی اڑا دے گی شاید۔۔۔ میں کھیر ڈالتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
-------