قسط نمبر 1

9.9K 224 73
                                    

لندن کی وسیع و عریض کنگز روڈ پر رات کے اس پہر لوگوں کا سیلاب امنڈ آیا تھا۔ وہ بھی رات کے اس پہر اپنے کچھ قریبی دوستوں کے ساتھ لوگوں کے رش کو چیرتا ہوا تیزی سے شاپنگ مال کی طرف بڑھ رہا تھا۔اسے ہر حال میں آج شاپنگ مکمل کرنی تھی۔ لسٹ تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اسے اس شاپنگ سے تو خاصا بیر تھا اس لیے وہ تین دن سے جھنجھلایا ہوا پھر رہا تھا۔آج بھی ارسل اور ڈیوڈ کی بھر پور منت کرنے کے بعد وہ دونوں اس کے ساتھ آنے پر راضی ہوئے تھے ورنہ مائیکل،جون اور مہمد نے تو صاف انکا کردیا تھا کہ وہ اس کے ایسے کسی فضول کام میں اس کا ساتھ نہیں دیں گئے۔ یہ لسٹ بھی اس کی چھوٹی اکلوتی بہن کی تھی جو وہ پوری کرنے پر مجبور تھا ورنہ تو کوئی مائی کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا تھا جو درار سنان خان کو کوئی کام کرنے پر مجبور کردیتا۔ اکڑ،اڑیل پن اور غیرت اس میں کوٹ کوٹ کر بھرئی ہوئی تھی۔ پندرہ سال سے لندن جیسے ملک میں رہنے کے باوجود بھی اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا پھٹانوں کا خون ہمشہ جوش مارتا تھا۔اسی وجہ سے پندرہ سال سے کو ایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی اور یہ اس کے دوستوں کے نز دیک انتہائی شرمندگی کی بات تھی۔وہ شاپنگ مکمل کرکے کنگز روڈ پر موجود شاپنگ مال سے باہر نکل آیا تھا۔ ارسل اور ڈیورڈ بھی اس کے ساتھ ہی تھے۔
"خان! مجھے تو بھوک لگ گئی ہے یار۔ "
ارسل نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک لمحے کے لئے پُرسوچ دکھائی دیا۔
"ہاں ارسل! بھوک تو مجھے بھی لگ رہی ہے۔"
ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے ارسل سے کہا تو ڈیوڈ نے اس کی جانب دیکھا۔
"But khan! don't  you think its already too late?"
ڈیوڈ کو ہمشہ کی طرح اپنے دیر سے گھر جانے کی فکر تھی۔ اسی معلوم تھا اس کی نئی گرل فرینڈ اس کا حشر کردے گی۔
"yes i know David its too late ۔۔ok lets go to my appartment i will cook my special traditional dish of chapal kabab for both of you."
اس نے لمحوں میں فیصلہ کرتے ہوئے ان دونوں سے کہا تھا۔
"But khan what is chapal kabab?"
وہ ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"اف چھوڑ اسے خان اگر اسے یہاں بتانے بیٹھ گئے نا کہ یہ چپل کباب کیا ہوتے ہیں تو یہی پوری رات نکل جائے گی اور سمجھ اسے پھر بھی نہیں آنی۔"
ارسل نے آنکھ دباتے ہوئے کہا تو اس کا جاندار قہقہہ پڑا۔
" ہاہا صحیح کہہ رہا ہے تو ارسل چلو پھر تم دونوں میرے ساتھ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوات کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات کی برف باری کے بعد اب آسمان صاف تھا۔چوٹیوں کے اوپر کچھ فاصلے پر سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نکل رہا تھا۔ جوں جوں سورج کی کرنیں زمین پر اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل رہی تھیں۔ چرند پرند جوکہ سردی کی وجہ سے رات کو چھپ کر بیٹھے تھے اب اپنے روزگار کی تلاش میں اڑتے پھر رہے تھے۔سوات میں پہاڑوں کے درمیان خان حویلی اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ کھڑی تھی اور اس حویلی کے مکین بھی اسی شان سے اس میں رہتے تھے۔
"انبہاج بچے! اٹھ جاؤ تمہاری بی بی جان کافی غصہ کررہی تھیں کہ تم آج صبح ان کے کمرے میں انہیں قہوہ دینے نہیں آئی۔ " راحمہ بانو نے اس کے کمرے کی کھڑکی کے پردے سرکاتے ہوئے اسے کہا تھا۔
"مورے! آج میرا پیپر ہے میں پوری رات تیاری کرتی رہی تھی اس لیے صبح نماز پڑھ کر بی بی جان کو قہوا دینے کا خیال ہی نہیں رہا۔"مندی ہوئی آواز سے اس نے انہیں وضاحت دی تھی۔
"ٹھیک ہے کوئی بات نہیں جانے سے پہلے اپنے دار جی اور بی بی جان سے مل کر دعائیں لے کر جانا تمہارا پیپر اچھا ہوگا۔ " کمرے سے نکلتے ہوئے وہ اسے نصیحت کرنا نہیں بھولی تھیں۔
"جی مورے لے کر جاؤں گئی ابھی میں ذرا فریش ہوجاؤں۔ " بستر چھوڑتے ہوئے اس نے ان سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئیں۔
"ٹھیک ہے بچے! میں ذرا باورچی خانہ دیکھ لو پتہ نہیں درخنے نے ناشتہ بنایا کہ نہیں۔ " یہ کہہ کر وہ اس کے کمرے سے باہر نکل گئی  اس نے ایک نظر اپنے ساتھ سوئی ہوئی انتسارہ پر ڈالی اور سر جھٹک کر واش روم میں چلی گئی۔
خان حویلی اشمل علی خان کی جاگیر تھی جن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بڑا بیٹا سنان اشمل خان ،چھوٹا بیٹا صالک اشمل خان اور بیٹی ردوا اشمل خان تھی۔ اشمل خان کو علاقے کے سب لوگ دارجی کہتے تھے اور سنان اشمل خان کو پیر خان جبکہ صالک اشمل کو چھوٹے خان کہتے تھے۔ اشمل خان کی اہلیہ زرنور بانو بی بی جان کے نام سے جانی جاتی تھیں اور سنان خان کی اہلیہ جہارا بیگم اور صالک خان کی اہلیہ راحمہ بانو تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنان اشمل خان کے تین بیٹے ادھام سنان خان،درار سنان خان اور مہجب سنان خان تھے جبکہ ان کی ایک بیٹی میسہ سنان خان تھی۔جبکہ صالک اشمل خان کی دو بیٹیاں انبہاج صالک خان،انتسارہ صالک خان اور ایک بیٹا صبیح صالک خان تھا۔ ردوا اشمل خان کی شادی ان کے چچا زاد شیر خان سے ہوئی تھی اور وہ بھی ادھر سوات میں ہی اپنے دو بچوں زکوان خان اور یمامہ خان کے ساتھ رہتی تھیں اور اکثر ہی خان حویلی آتی رہتی تھیں۔
"سلام بی بی جان!" اس نے سیڑھیاں اترتے ہی انہیں سلام کیا تھا۔
"پاخیراغلے بچے! تم صبح ہمارے پاس کیوں نہیں آیا تھا ہم تمہارا انتظار کرتا رہا۔"وہ مسکراتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھیں۔
"سو سوری بی بی جان آج میرا پیپر ہے میں وہی جارہی ہوں۔ مورے نے کہا تھا جانے سے پہلے آپ کی اور دا جی کی دعائیں لے کر جاوں۔ "سر ان کے سامنے جھکاتے اس نے کہا تو بی بی جان مسکرا دیں۔
"جیتی رہو ہمارا بچہ خوب ترقی کرو۔ " لہجے میں ازلی شفقت نمایاں تھی۔
"شکریہ بی بی جان دار جی کہاں ہیں؟ "
"بچے وہ تو صبح سے مہمان خانے میں بیٹھے ہیں کوئی ان سے ملنے کے واسطے آیا ہے۔"
"ٹھیک ہے بی بی جان میں ان سے وہی مل لیتی ہوں۔"
ان سے دعائیں لے کر وہ بی بی جان کے کمرے سے باہر نکل آئی۔
"درخنے! او درخنے! "
"جی بی بی!"
"جاؤ اندر سے میری چادر لے کر آو اور گل خان بابا کو کہو کہ گاڑی نکالے میں دار جی سے مل کر آتی ہوں۔"
"جی بی بی!" درخنے اندر کی جانب بڑھ گئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس کی سیاہ چادر اسے لاکر تھما دی۔ اس نے چادر اچھے سے سر پر اوڑھی اور مہمان خانے کی جانب بڑھ گئی۔ مہمان خانے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دستک دی اندر سے گل بانو باہر آئی تھی۔ "جی بی بی حکم؟ "دار جی کو کہو کہ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ " "جی بی بی!" گل بانو اندر کی جانب بڑھی تھی اور کچھ ہی دیر میں واپس لوٹ آئی۔ "دار جی بلا رہے ہیں بی بی آپ کو۔ " وہ مہمان خانے کا دروازہ عبور کر کے سیدھا دار جی کے سامنے آئی تھی۔ "پاخیراغلے دار جی! "ان کے سامنے سر جھکاتے اس نے کہا تو داجی مسکرا دیے۔ "پاخیر راغلے بچے کیسا ہے تم؟ "
"جی دار جی ٹھیک میں پیپر دینے جارہی ہوں دعا کیجیے گا۔ " اس نے ادب سے ان سے دعا کی درخواست کی تھی۔
"اللہ تم کو کامیاب کرے بچے خوش رہو۔"
"شکریہ دا جی چلتی ہوں " "سلام! " باہر نکلتے ہوئے اس نے سلام کیا تو دارجی اثبات میں سر ہلاگئے۔
"وعلیکم اسلام۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج بہت خوش تھا کیونکہ آج اسے اس کی پندرہ سال کی محنت کا ثمر ملنے والا تھا۔ آج لندن سکول اف بزنس کا فائنل کنوکیشن تھا اور وہ اس میں ہی جانے کی تیاری کررہا تھا۔ دسمبر کا وسط چل رہا تھا اور کرسمیس کی چھٹیاں بھی آنے والی تھیں اور اسے بزنس کی ڈگری لے کر واپس اپنے وطن پاکستان جانا تھا۔ اس وقت وہ اپنے اپارٹمنٹ میں موجود تھا اور اپنے کمرے میں پوری وارڈ روب کے کپڑے پھیلائے سوچ رہا تھا کہ کنوکیشن میں کیسی ڈریسنگ کرکے جائے۔ ارسل،ڈیورڈ،مائیکل،جون اور مہمد اسے وہی جوائن کرنے والے تھے اس کے بعد ان سب کا آخری بار پارٹی کا ارادہ تھا۔ اس نے بڑی سوچ بیچار کے بعد گہرے نیلے رنگ کی شرٹ نیلے ہی رنگ کی جینز کے ساتھ پہنی۔ باہر برف باری اپنے جوبن پر تھی پر اس کے بنائے گئے امریکن طرز کے اپارٹمنٹ کو بنایا ہی اس طریقے سے تھا کہ وہاں سردی نہیں آسکتی تھی۔اس نے ڈریس اپ ہوکر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔ وہ پھٹان تھا اس کا نام درار سنان خان تھا اور وہ بلا کا وجیہہ مرد تھا۔ اس کے بھورے بال ہمیشہ ماتھے پر بکھرے رہتے تھے اور وہ انہیں وقتاً فوقتاً ہاتھ سے ماتھے سے پیچھے ہٹاتا رہتا تھا۔ وہ سرخ و سپید رنگت کا مالک تھا اس کی گہری کتھئی آنکھیں تھیں۔جو اس کی آنکھوں میں ایک بار دیکھ لیتا وہ نظر نہیں چرا سکتا تھا۔ بالوں کے ہی ہم رنگ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی۔وہ مضبوط اور توانا مردانہ جسامت کا مالک تھا بے انتہا لڑکیاں اس کی وجاہت پر مرتی تھیں اور اس کی ایک نظر کے لیے ترستی تھیں پر وہ اتنا اکڑو اور مغرور تھا کہ ایک نگاہ غلط بھی وہ کسی پر نہیں ڈالتا تھا۔اسے اپنی وجاہت،اپنی قابلیت پر بہت ناز تھا اس لیے وہ ہمیشہ سٹینڈر کی چیزیں خریدتا اور اپنے لیول کے لوگوں کو ہی دوست بناتا تھا۔ اپنے بال ماتھے پر سے ہاتھوں سے ہٹا کر اس نے خود پر ایول اوربٹ اچھے سے اسپرے کیا  پیروں کو جوتوں میں قید کرکے اس نے اپنا آخری جائزہ لیا اپنا بلیک اورکوٹ اٹھا کر پہنا اور اپارٹمنٹ لاک کرکے لفٹ کی جانب بڑھ گیا اس نے گاڑی سٹارٹ کر کے لندن سکول اف بزنس کی روڈ پر ڈال دی۔
اور پھر وہ آخر لندن سکول اف بزنس کے گیٹ پر پہنچ گیا ۔ اپنی گاڑی ایک طرف پارک کرکے وہ گیٹ عبور کرتا ہوا سکول میں داخل ہوا۔ اسے اس کے پانچوں دوست اوڈیٹوریم کے گیٹ کے باہر ہی اس کا انتظار کرتے ہوئے مل گئے تھے  وہ چھ لوگ اڈیٹوریم میں داخل ہوگئے جہاں کنوکیشن کا فنکشن رکھا گیا تھا۔ وہ اپنی اپنی ریزروڈ سیٹس پر براجمان ہوچکے تھے۔ سٹیج پر موجود ڈارئیکٹر اپنے اس بیج کے سٹوڈنٹس کی تعریف کررہا تھا اور ان کی محنت کو خوب سرا رہا تھا۔ آج اس جگہ وہ اتنی بے نیازی سے بیٹھا ہوا تھا جیسے آج کے فنکشن میں اس کی دلچسپی کا کوئی سامان ہی نہ ہو اور پھر وہ گھڑی بھی آگئی جب ڈارئیکٹر نے گولڈ میڈل لینے والوں میں سب سے پہلا نام اس کا بولا تھا اور اسے تو جیسے پہلے سے ہی پتہ تھا کہ لندن سکول اف بزنس کا یہ تمغہ اس کا ہی تھا۔ اس کے تاثرات میں رتی بھر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی وہ بہت ہی عام سے انداز میں اپنی نشست سے اٹھا تھا اور متواتر اور مناسب چال چلتا ہوا سٹیج پر پہنج گیا اور اسی بے نیازی سے اپنا تمغہ اپنے گلے میں سجا لیا اور بغیر کچھ کہے سٹیج سے نیچے اتر آیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ ڈگری لے کر لندن سکول اف بزنس کو ہمشہ کے لیے خیرباد کہہ کر باہر آگیا۔ تب بھی اس کے دوست اس کے ساتھ تھے اور گولڈ میڈل پر اس سے ہیوی ٹریٹ کا مطالبہ بھی کررہے تھے۔ آج لندن میں اس کی آخری رات تھی صبح چھ بجے کی فلائیٹ سے وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان جا رہا تھا اسے مزید یہاں رکنے کی اجازت دار جی سے نہیں مل سکی تھی۔ وہاں سے سیدھا وہ لندن کے ایک بہت ہی مہنگے اور خوبصورت ریسٹورینٹ میں آگئے  رات کا ڈنر کیا اور پھر وہاں سے باہر نکل کر وہ چھ لوگ بے مقصد سڑکوں پر چہل قدمی کرنے لگے۔ آج اس کا موڈ بہت خراب تھا وہ بہت ہی زیادہ خاموش تھا شاید اس کی وجہ اس کا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان جانا تھی۔ جب وہ تھک گیا تو ایک طرف سڑک پر رکھے ہوئے بینچ پر بیٹھ گیا۔پندرہ سالوں میں اس نے چھ دوست بنائے ضرور تھے پر وہ کبھی ان سے اپنے دل کی بات نہیں کہتا تھا اور نہ کبھی اس نے انہیں اپنے گھر کی سخت روایات کا بتایا تھا ان میں سے صرف ارسل تھا جس کے ساتھ وہ کبھی کبھی اپنی کوئی دل کی بات کر لیتا تھا وہ بھی تب جب وہ بہت تھک جاتا۔اب بھی وہی اس کے ساتھ بیٹھا تھا باقی اس سے مل کر اور صبح ائیرپورٹ پر چھوڑنے آنے کا وعدہ لے کر جا چکے تھے پر وہ نہیں گیا تھا وہ وہی اس کے برابر میں بیٹھا رہا تھا۔
"کیا مسئلہ ہے تم کیوں نہیں جارہے ہو؟" اس نے جھنجھلا کر ارسل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ "کیونکہ تم نہیں جارہے ہو خان!" اس نے بغیر اس کی طرف دیکھے بڑی رسانیت سے جواب دیا تھا۔ "ابھی میرا دل نہیں کررہا اس لیے نہیں جا رہا لیکن تم تو جاو۔" وہ جان چھڑوانے والے انداز میں گویا ہوا تو ارسل گہرا ہنکارا بھر کر رہ گیا۔
"کیا بات ہے خان! آج تو تمہارے لیے بہت خوشی کا دن ہونا چائیے پھر تم اتنے بجھے بجھے کیوں ہو؟"
آہ ارسل! اس سوال کا کیا جواب دوں میں تمہیں؟" پیشانی مسلتے ہوئے اس نے کہا تو ارسل اس کے قریب کھسک آیا۔
"کیوں خان آخر بات کیا ہے؟" ارسل کا چہرہ متجسس تھا۔
"میں پاکستان نہیں جانا چاہتا ارسل! " سڑک کو گھورتے جیسے اس نے اپنا مسئلہ بیان کیا تھا۔
"لیکن کیوں خان پندرہ سال ہوگئے تمہیں پاکستان سے آئے ہوئے اور تم ان پندرہ سالوں میں ایک بار پاکستان گئے تھے بس کیا سکائیپ پر بات کرلینا کافی ہے؟  کیا تمہارا دل نہیں کرتا کہ تمہاری ماں تمہیں گلے لگائے تم اپنے باپ کے سینے سے لگو بھائیوں سے ہنسی مذاق کرو بہن کو غرور بخشو اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرو اپنے دادا کو پوتے کا مان دو اپنی دادی کے سینے کو ٹھنڈک بخشو۔ " ارسل روانی میں بولتا ہوا اس کا مسلسل امتحان لے رہا تھا۔
"ارسل !یہ سب جو تم کہہ رہے ہو نا کرتا ہے میرا دل پر جس خاندان سے میرا تعلق ہے وہاں سب رشتے روایات میں اتنے زیادہ الجھے ہوئے ہیں کہ کسی کو کسی کی خوشی سے کوئی سروکار کوئی غرض نہیں ہے۔ جانتے ہو جب میں پاکستان جاؤں گا تو کیا ہوگا؟" ارسل اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے لبوں پر ایک طنز بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔
"جب میں پاکستان جاؤں گا نا تو میری شادی کردی جائے گی وہ بھی ایک ایسی لڑکی کے ساتھ جسے میں جانتا بھی نہیں ہو بس بچپن سے اسے میرے نام پر بھٹایا ہوا ہے اور اب میری یا اس کی مرضی ہو یا نہ ہو ہمیں ایک رشتے میں باندھ دیا جائے گا اور تم جانتے ہو ارسل میں کوئی معمولی چیز بھی اپنے پاس برداشت نہیں کرتا تو ایک معمولی لڑکی کس طرح اپنی زندگی میں برداشت کرلوں حویلی کی چار دیواری میں پلی بڑی لڑکی جسے میں نے پندرہ سال پہلے دیکھا تھا اور اب تک تو شکل بھی یاد نہیں اور جاکر بھی میں اسے ایک بار بھی نہیں دیکھ سکتا کیونکہ ہماری روایات اور پردہ اجازت نہیں دیتا کہ ہم کزن ایک دوسرے سے ملیں،بات چیت کریں یا دیکھیں۔ حویلی کی ساری عورتیں غیر محرموں سے پردہ کرتی ہیں اور وہ لڑکی ان پڑھ گنوار مجھ جیسے بزنس پڑھے ہوئے ایجوکیٹڈ لڑکے کی منگ ہے وہ بھی بچپن کی اور مجھے ہر حالت میں اس سے شادی کرنی ہے اور میں انکار نہیں کرسکتا ورنہ مجھے حویلی اور پوری جاگیر جائیداد اور اپنے حسب نسب سے عاق کر دیا جائے گا۔" وہ کہہ کر خاموش ہو چکا تھا اور ارسل حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"خان! کیا پتہ وہ لڑکی جاہل گنوار نہ ہو؟" ارسل نے کچھ دیر بعد اس سے کہا تو وہ طنزیہ مسکرایا۔ "ہونہہ"
ایک بار پھر وہ تمسخر سے ہنسا تھا۔
" حویلی کی لڑکیاں اور باہر جائیں گی پڑھنے نہیں ارسل یہ روایات کے خلاف ہے۔ " ارسل
بس خاموش ہو کر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ پیپر دے کر ابھی حویلی پہنچی تھی کہ حویلی میں عجیب قسم کی گہما گہمی دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ اتنی سجاوٹ اور اتنا اہتمام آخر کیوں کیا جارہا ہے وہ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہی گھری ہوئی حویلی کے مین دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی۔وہ وسیع کاریڈور عبور کرتے ہوئے زنان خانے سے ہوتے ہوئے بالائی منزل پر بنے ہوئے اپنے اور انتسارہ کے کمرے میں آگئی تھی۔وہ آج کافی تھکی ہوئی تھی شکر تھا کہ پیپر اچھا ہوگیا تھا اس کا سر ہلکے ہلکے دکھ رہا تھا مگر حویلی کی گہما گہمی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے سر سے اپنی سیاہ چادر اتار کر بیڈ پر ایک طرف رکھی اور آئینے کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی۔ انبہاج صالک خان پے پناہ حسن کی مالک تھی جس قدر وہ حسین تھی اتنی ہی اپنے حسن سے بے پرواہ تھی۔ اس کی سنہری لمبی زلفیں اس کے کولہوں تک آتی تھیں۔ خوبصورت بڑی بڑی گہری سمندری آنکھیں جن سے ہمہ وقت ذہانت جھلکتی تھی۔ سرخ دودھیہ رنگت سے سجا پرکشش چہرہ کھڑی خوبصورت ناک اور دلکش عنابی ہونٹوں کے نیچے ٹھوڑی پر سیاہ تل جو ہمہ وقت اس کی ٹھوڑی پر نمایاں رہتا تھا۔ ہونٹوں پر ہمیشہ خوبصورت اور دلکش مسکراہٹ اس کے چہرے کا احاطہ کیے رہتی تھی۔بلاشبہ وہ حسین تھی اور بے پناہ حسین تھی۔وہ خوش قسمت تھی کہ اس کے حسن کو اس کے محرموں کے سوا کسی نے نہیں دیکھا تھا۔اگر وہ حسین تھی تو بے پناہ پاکیزہ بھی تھی اپنے حسن کو سنبھال کر رکھنے والی۔ باہر شور کی آواز اسے متواتر آرہی تھی۔ وہ سر جھٹک کر واش روم میں فریش ہونے چلی گئی۔ حویلی کا غیر معمولی شور اسے تشویش میں مبتلا کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فریش ہوکر نیچے زنان خانے میں چلی آئی تھی جہاں رنگ برنگے پکوانوں کی تیاری چل رہی تھی۔ جہارا بیگم حد سے زیادہ خوش نظر آرہی تھی وجہ وہ نہیں جانتی تھی وہ بس پیر بیگم کی خوشی دیکھ رہی تھی۔ وہ ابھی ان کی خوشی کے بارے میں ان سے دریافت کرنے ہی والی تھی جب اسے زنان خانے کے دروازے پر ردوا بیگم اور یمامہ نظر آئی تھیں۔
"پھوپھی جان!" انتسارہ پیچھے سے چلاتی ہوئی آئی اور ردوا بیگم کے گلے لگی تھی۔وہ بھی اسے دیکھ کر بے پناہ خوش ہوئی تھیں۔
"پاخیراغلے پھوپھی جان!"
"پاخیراغلے بچے!"
جس شائستگی سے اس نے انہیں سلام کیا تھا اسی شائستگی سے انہوں نے اسے جواب دیا تھا۔
" آج بہت دنوں بعد چکر لگایا آپ نے پھوپھی جان!" اس نے نرمی سے ان سے پوچھا تو وہ مسکرا دیں۔
" بس بچے گھر کے کام ہی ختم نہیں ہوتے اوپر سے زکوان کے نت نئے بکھیڑے ایسے میں وقت ہی نہیں ملتا۔" چادر اتارتے ہوئے انہوں نے اس سے کہا تھا۔
"آیے نہ ردوا بیٹھیں آپ اور یمامہ آپ بھی آئیں۔"
راحمہ بیگم نے دونوں کو بیٹھنے کو کہا۔
وہ وہاں سے چل کر جہارا بیگم کے پیچھے باورچی خانے میں آگئی۔
" پیر بیگم!
"جی بچے بولیے"
"یہ سب کیا ہے؟"
"کیا سب؟"
انہوں نے مصروف سے انداز میں اسے جواب دیا۔
" پیر بیگم! میں اس سب کے بارے میں پوچھ رہی ہوں یہ سجاوٹ یہ تیاری کس لیے ہے یہ سب؟" اردگرد ایک نظر ڈالتے ہوئے اس نے کہا تو پیر بیگم سمجھ گئیں کہ وہ کس بارے میں بات کررہی ہے۔
" او اچھا معاف کیجیے گا بچے ہم نے دھیان نہیں دیا یہ سب تو آج ہمارے لختِ جگر کے آنے کی خوشی میں ہے۔" پیر بیگم کی خوشی دیدنی تھی۔
" کو۔۔کون آرہا ہے؟ " اس کی آواز خودبخود لڑکھڑا گئی تھی۔
"درار سنان خان آج واپس آرہے ہیں اپنی حویلی میں اپنوں میں اپنی روایات میں اپنے حسب نسب میں۔"
وہ کہہ کر خاموش ہوگئی تھیں وہ اب ان کے چہرے کی رونق سمجھی تھی کہ یہ کس کا اثر ہے۔ اس کے آنے پر اس کے دل میں بھی کہیں نہ کہیں خوشی کی ہلکی سی رمق جاگی تھی۔ جانتی تو وہ بھی تھی کہ بچپن سے اس سے منسوب ہے۔ وہ سوچوں کے تانے بانے بن رہی تھی جب اسے اپنے کاندھے پر کسی کے دباؤ کا احساس ہوا وہ بری طرح ڈر گئی تھی۔
" کیا ہوا بی بی آپ ڈر گئی"؟ پلوشے نے مسکرا کر اس سے پوچھا تو اس نے پُرسکون سانس خارج کی۔
"او پلوشے بھابھی آپ ! نہیں میں تو بس ایسے ہی کھڑی تھی دھیان نہیں تھا نا اس لیے بس۔"
"دھیان کہاں تھا آپ کا؟"
وہ بھی مکمل تشویش کے موڈ میں تھیں۔
" او کہیں نہیں چلیں باہر چلتے ہیں۔"
وہ ان کا ہاتھ تھام کر باورچی خانے سے واپس زنان خانے میں لے آئی۔
تمام کام مکمل ہوچکے تھے حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا کیونکہ آج کوئی معمولی دن نہیں تھا آج پندرہ سال بعد درار سنان خان اپنے اصل میں واپس آرہا تھا۔سب سے زیادہ خوش بی بی جان اور دار جی تھے جنہوں نے نجانے کب سے یہ آس لگائی ہوئی تھی کہ وہ واپس آئے گا اور اب آخر کار ان کی آس پوری ہورہی تھی۔ پندرہ سال کے دوران صرف وہ ایک بار پاکستان آیا تھا وہ بھی تب جب اس کے بڑے بھائی ادھام سنان خان کی شادی تھی اور دارجی نے اسے بہت مشکل سے آنے پر راضی کیا تھا۔ وہ صرف ایک ہفتے کے لیے آیا تھا اور ٹھیک ایک ہفتے بعد وہ واپس لندن چلا گیا تھا۔ اب وہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لیتا آخر کو آنا اس نے یہاں ہی تھا تو سو وہ آرہا تھا ہمشہ کے لیے لندن کو خیرباد کہہ کر پاکستانی ہونے کے لیےاپنے وطن اپنے ملک کی مٹی میں۔ اس کی ماں آج واقعی ہی بے پناہ خوش تھی۔اگلی صبح چھ بجے اس کی پرواز کی لینڈنگ تھی اور ابھی شام کے چھ بج رہے تھے یعنی کہ اس کے آنے میں ابھی کافی گھنٹے باقی تھے اور یہ کافی گھنٹے گزارنا گھر کے ہر فرد کو بھاری لگ رہا تھا۔ خان حویلی کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی حویلی کو تین بڑے گیٹ لگتے تھے ہر گیٹ پر کم از کم دو چوکیدار رکھے گئے تھے۔حویلی کے مین گیٹ سے اندر سیدھی سڑک جاتی تھی۔اسی طرح ہر گیٹ کے اندر کی جانب سڑکیں بنائی گئی تھی جو سیدھی پورچ تک جاتی تھیں۔ سڑکوں کے دونوں جانب خوبصورت لان بنائے گئے تھے۔مین گیٹ سے اند آتی سڑک کو اس کے دونوں جانب لگے درختوں نے ڈھانپ رکھا تھا اور درختوں کے پار خوبصورت گھاس لگا کر اور مختلف پودے درخت اور پھول لگا کر ایک حسین باغ کی شکل دی گئی تھی۔ دوسری جانب سویمنگ پول بنایا گیا تھا اور بیٹھنے کے لیے درخت کی لکڑی کاٹ کر خوبصورت کرسیاں اور صوفوں کی شکل دی گئی تھی۔وہ سڑک پورچ پر ختم ہوتی تھی جہاں قطار در قطار گھر کے ہر فرد کی گاڑی کھڑی تھی اور پورچ کراس کر کے حویلی کا اندرونی وسیع دروازہ دکھتا تھا جو روایتی طرز کا بنایا گیا تھا۔دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی وسیع کاریڈور شروع ہوتا تھا جس کے دونوں جانب مہنگی اور خوبصورت پینٹنگز لگائی گئی تھیں کاریڈور عبور کرتے ہی دو راستے ہو جاتے تھے ایک زنان خانے کی طرف جاتا تھا اور دوسرا مردان خانے کی طرف دونوں کے درمیان لکڑی کی خوبصورت جالیاں لگائی گئی تھیں جن میں بڑے بڑے سوراخ تھے۔ دونوں مردان اور زنان خانوں میں سے سیڑھیاں اوپر کی جانب چڑھتی تھی۔ نیچے کاریڈور ختم ہوتے ہی بائیں جانب دار جی اور بی بی جان کا کمرہ تھا جو کہ حویلی کا ایک وسیع کمرہ تھا۔ حویلی کے اندرونی حصے کے شروع میں کاریڈور کے دائیں جانب وسیع مہمان خانہ بنایا گیا تھا جو ایک کمرے ایک دالان ایک باورچی خانے اور باتھ روم پر مشتعمل تھا۔ سیڑھیوں سے اوپر بائیں جانب سنان خان کا پورشن تھا تین چار سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانب صالک اشمل خان کا پورشن آتا تھا۔ سنان اشمل خان کے پورشن میں ایک کمرہ پیر خان اور پیر بیگم کا تھا۔ اور باقی لائن میں تین کمرے بنائے گئے تھے اور ایک کمرہ سامنے کی جانب تھا جو میسہ کے پاس تھا باقی کے تین میں سے پہلا والا کمرہ ادھام خان اور پلوشے کا تھا دوسرا درار کا اور تیسرا مہجب کے پاس تھا۔اسی طرح صالک خان کے پورشن میں بھی ایک کمرہ چھوٹے خان اور راحمہ بانو کے پاس تھا۔ دائیں جانب والا انبہاج اور انتسارہ کا اور بائیں جانب والا صبیح کے استعمال میں تھا۔ سامنے کا پورشن ردوا بیگم کا تھا وہ جب آتیں خود استعمال کرتی تھیں۔ حویلی کا خوبصورت اور روایتی فرنیچر تھا۔خان حویلی دیکھنے والوں کے لیے ایک انمول اور روایتی شاہکار تھی۔
وہ تمام کام نمٹا کر رات کو اپنے کمرے میں سونے کے لیے آئی تھی دیکھا تو انتسارہ بیڈ پر بیٹھی ہاتھوں پر کریم لگا رہی تھی وہ بھی دوبٹہ اتار کر ایک طرف رکھ کر واش روم میں چلی گئی اور جب نکلی تو کافی فریش تھی۔ وہ آکر انتسارہ کے ساتھ بیڈ پر لحاف اوڑھ کر لیٹ گئی باہر برف باری شروع ہوچکی تھی۔ وہ آنکھوں پر بازو رکھ کر سونے کی کوشش کر رہی تھی پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
"بی بی!
اسے اپنے قریب انتسارہ کے پکارنے کی آواز آئی تھی۔
" ہوں! " اس نے بھی آنکھوں پر بازوں رکھے سرسری سا جواب دیا تھا۔
"آپ کو کیا لگ رہا ہے؟"انتسارہ کی مدہم آواز اسے اپنے نزدیک سے سنائی دی تھی۔
" کس بارے میں؟ "
اس نے بھی اسی انداز میں سوال کیا تھا۔
"درار لالہ کے واپس آنے کے بارے میں؟" انتسارہ کے سوال نے اسے چند لمحوں کے لیے خاموش کروایا تھا۔
" انتسارہ پلیز سو جاؤ مجھے بہت نیند آرہی ہے۔"
اس نے کافی درشت لہجے میں اسے جواب دیا تھا۔
" بی بی! آپ کو کیا لگتا ہے وہ پندرہ سال بعد واپس آکر یہاں کے ماحول اور روایات میں ایڈجسٹ ہو جائیں گئے؟ انتسارہ اپنے سوالات کے جواب لیے بغیر نہیں سونے والی تھی۔
" میں کیا کہہ سکتی ہوں انتسارہ یہی تو برائی ہے ہمارے خاندان میں کہ یہاں شادی ،شادی کم لگتی ہے اور قربانی زیادہ لگتی ہے۔" وہ گہرا ہنکارا بھر کر مدہم لہجے میں بولی تھی۔
" بی بی میں نے سنا ہے وہ کافی اکڑو اور سخت مزاج ہیں۔" انتسارہ اس کی جانب کروٹ لیتے ہوئے بول رہی تھی۔
"ہوں بھی تو کیا فرق پڑتا ہے زندگی انہی کے ساتھ گزارنی ہے۔"
اس کے لہجے سے کافی لاپرواہی جھلک رہی تھی جبکہ انتسارہ اپنی بڑی بہن جسے سب بی بی کہہ کر مخاطب کرتے تھے کے لیے کافی پریشان تھی حالاکہ اس کا اپنا رشتہ بھی مہجب سے بچپن سے طے تھا پر انتسارہ کو اس کی فکر نہیں تھی کیونکہ وہ اس سے کبھی نہ ملنے کے باوجود بھی اس کی طبیعت سے کافی حد تک واقف تھی اور وجہ میسہ تھی جو ہر وقت انتسارہ کے ساتھ چپکی رہتی تھی اور پیغام رسانی کا سلسلہ بھی اسی کی بدولت چلتا تھا اور وہ اچھے سے جانتی تھی کہ مہجب اس سے محبت کرتا ہے اور وہ خوش رہے گی اس کے ساتھ پر وہ اپنی بہن کے لیے کافی پریشان تھی۔  کیونکہ درار اپنے دونوں بھائیوں سے مختلف طبعیت کا مالک تھا وہ کافی اکڑو تھا۔ اس نے مڑ کر اپنی بی بی کی جانب دیکھا تھا جو کہ کروٹ بدل چکی تھی اسے یہ طے کرنا مشکل لگ رہا تھا کہ وہ سو رہی ہیں یا جاگ رہی ہیں وہ بھی اپنی بی بی کی دائمی خوشیوں کی سچے دل سے دعا کرکے کروٹ بدل کر آنکھیں بند کرکے سونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھ تہجد کے وقت کھلی تھی وہ اٹھی اور واش روم کی جانب بڑھ گئی۔ کچھ دیر بعد جب باہر نکلی تو باوضو تھی اس نے جانماز بچھا کر دو رکعت تہجد نماز کے نوافل کی نیت باندھی۔اس نے دو رکعت تہجد نماز ادا کی اور پھر سلام پھیر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے وہ ہمشہ جب بھی دعا مانگتی تھی اس کی مخصوص دعا میں اپنے سے جڑے ہر رشتے کی سلامتی ہوتی ان کی دائمی خوشیوں کی دعا ہوتی وہ اپنے لیے کم ہی کچھ مانگا کرتی تھی وہ بس اپنے لیے ایک دعا کرتی تھی کہ اللہ اسے نیکی کے راستے پر ہمشہ چلنے کی توفیق دے اور اسے ڈھیر سارا صبر دے تاکہ وہ کبھی بھی تھکے نہ پر آج اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اللہ سے رحم اور اس کا فضل بھی مانگے اور اس نے مانگا تھا کہ اللہ اس پر ہمشہ رحم فرمائیں اور جو بھی آزمائشیں اس پر ڈالے اسے ان میں ثابت قدم رہنے کی توفیق دیں کیونکہ کسی حد تک وہ جانتی تھی کہ اب آگے اس کی زندگی میں کیا ہونے والا ہے کیونکہ ان پندرہ سالوں میں اس نے درار سنان خان کے ہر اتار چڑھاؤ کو بہت گہرائی سے محسوس کیا تھا لیکن وہ ہمشہ ہر بار نئے سرے سے خود کو باور کراتی تھی کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی ہے کیونکہ اس کے خیال میں جس دن اسے یہ بات یاد آگئی کہ وہ درار سنان خان کی محبت میں بچپن سے گرفتار ہے اس دن وہ ہار جائے گی۔ اس لیے وہ  خود کو یہ بات سختی سے یاد نہیں آنے دیتی تھی اپنی زندگی میں وہ جس بات کی نفی کرتی اور جھٹلاتی آرہی تھی وہ تھی وہ محبت جو وہ اس سے کرتی آرہی تھی۔ باہر ایک بار پھر سے شور بلند ہوچکا تھا وہ جانتی تھی کہ یہ شور کس لیے بلند ہورہا ہے وہ باہر کے شور میں اپنے اندر کے شور کو سختی سے دبانے کی کوشش کررہی تھی ایک بار پھر اس نے بڑی دلجعمی سے خود کے لیے صبر مانگا تھا اور منہ پر ہاتھ پھیر کر جانماز طے کرکے کھڑی ہوگئی تھی۔
وہ باہر کا شور سن کر بھی اپنی جگہ جامد رہی اس نے باہر جاکر اس کی وجہ دریافت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اسے یکے بعد دیگر تین گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی وہ اپنا سر پر لپیٹا ہوا دوپٹہ ڈھیلا کر کے اپنے کمرے کی کھڑکی کی جانب بڑھ گئی جہاں سے پورچ کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ آگے والی گاڑی کالے رنگ کی لینڈ کروزر تھی جس میں ڈرائیور کے ساتھ ادھام اور مہجب تھے اور اس کے پیچھے کھڑی ہوئی سفید کرولا کو صبیح ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ تیسری گاڑی زکوان خان کی تھی جو ابھی ابھی خان حویلی داخل ہوئی تھی وہ کھڑکی میں کھڑی اچھے سے جانتی تھی کہ یہ تین گاڑیاں کہاں جارہی ہیں اور ان کو واپس آنے میں کتنا وقت لگے گا۔ وہ تب تک وہی کھڑی رہی جب تک وہ تینوں گاڑیاں حویلی کے گیٹ سے باہر نہیں نکل گئیں۔ اس نے آنکھیں بند کرکے سکون کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کی تھی۔
وہ پلٹ کر واپس اپنے بستر کے پاس آئی اور انتسارہ کو جگانے لگی۔
" انتسارہ! اٹھو جلدی " انتسارہ کے چہرے سے لحاف ہٹا کر اس نے اسے جگایا تھا۔
" کیا ہو گیا بی بی اتنی صبح صبح کیوں اٹھا رہی ہیں آپ؟" وہ آنکھیں ملتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"درار سنان خان کو ائیر پورٹ لینے کے لیے گاڑیاں جا چکی ہیں اٹھو تم بھی جلدی اب۔ میں نیچے جارہی ہوں پانچ منٹ میں فریش ہوکر پہنچو۔" باہر نکلتے ہوئے اس نے اسے آخری تنبیہہ کی تھی۔
" فائن بی بی میں آتی ہوں"
لحاف دور ہٹاتے ہوئے اس نے کہا تو انبہاج سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئی۔
وہ سیڑھیاں اتر کر زنان خانے کے ایک طرف بنے باورچی خانے میں آگئی جہاں مورے اور پیر بیگم مصروف دکھائی دے رہی تھیں۔
" پاخیراغلے! اس نے دونوں کو سلام کیا تھا۔
" پاخیراغلے بچے " دونوں نے بہت محبت سے جواب دیا تھا۔
" پھوبھی جان نہیں آئی کیا ابھی؟ اطراف میں نگاہ دوڑاتے اس نے ردوا بیگم کی بابت پوچھا تھا۔
" آگئی ہیں دار جی اور بی بی جان کے ساتھ ان کے کمرے میں ہیں۔" انہوں نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
" ٹھیک ہے میں ان سے ادھر ہی مل لیتی ہوں۔" وہ مسکراتے ہوئے باورچی خانے سے نکل کر کاریڈور کے بائیں جانب بنے دار جی اور بی بی جان کے کمرے میں آگئی تھی۔
"پاخیراغلے !"کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوتے اس نے سب کو سلام کیا تھا۔
"پاخیراغلے بچے کیسا ہے تم؟ " اسے دیکھ کر دار جی کے چہرے پر ہمشہ شفقت در آتی۔
"ٹھیک دار جی"
"بچے تم ایسا کرو ہمارے واسطے قہوہ لے آؤ" اسے دیکھ کر ہی دار جی کے قہوے کی طلب جاگی تھی۔
" جی دار جی میں بس ابھی لے کر آتی ہوں۔" وہ ان سے کہہ کر دروازے کی جانب بڑھ گئی اور کچن کی جانب چل دی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا وقت تھم گیا ہوں وہ چاہتی تھی وقت کا سرا تھام کر اسے خود اپنے ہاتھوں سے آگے دھکیل دے پر وہ بے بس تھی بالکل ایسے ہی  جیسے ایک چیونٹی ہاتھی کو دیکھ کر بے بس ہوجاتی ہے۔ حالاکہ وہ جانتی ہے کہ اگر وہ ہاتھی کی سونڈ میں گھس گئی تو وہ بچ جائے گی پر ہر چیز وقت مانگتی ہے جیسے ہاتھی کی سونڈ میں گھسنے کے لیے چونٹی کو وقت درکار ہوتا ہے اسی طرح زندگی کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے کے لیے بھی وقت چاہئیے ہوتا ہے۔ اور اس کے پاس وقت ہی تو نہیں تھا۔ وہ صبر کا چلتا پھرتا مجسمہ تھی جس نے زبان پر قفل لگا لیے تھے کہ اسے بند رکھے گی اسے بھروسہ تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ اسے اتنا ہی آزمائیں گئے جتنی اس میں سکت ہو گی۔
وہ قہوہ دے کر دار جی اور بی بی جان کے کمرے سے نکل رہی تھی جب باہر عجیب سا شور بلند ہوا اندھا دھند فائرنگ کی آواز اور ڈھول کی تھاپ یہ ثابت کررہی تھی کہ وہ آچکا ہے۔ اس کے خالی ڈش تھامے ہوئے ہاتھ ساکت رہ گئے تھے دل تھا کہ بس زور سے دھڑک رہا تھا اور آنکھیں تھی کہ بس دیدار کی پیاسی تھیں یہ اس کے دل میں آنے والی وہ خواہشات تھیں جنہیں وہ اپنے دل میں ایسے دباتی جیسے اگر یہ دل میں بھی ابھریں تو شرمندگی ہوگی وہ خود سے بھی نظر ملانے کے قابل نہیں رہ پائے گی۔
قرار تو کب کا کر لیا تھا کہ محبت ہے تجھ سے
                                خانم
بس بتانے سے ڈرتا تھا دل کہ کہیں رسوائی نہ ہوجائے
وہ ڈش رکھنے باورچی خانے میں آگئی۔ سلیپ پر ڈش پٹخنے کے انداز میں رکھی اور وہی ہاتھوں سے سلیپ پر دباؤ ڈال کر لمبے لمبے سانس بھر کر خود کو قابو میں کرنے لگی وہ جانتی تھی کہ وہ ایک ان دیکھے سراب کی تلاش کررہی ہے ایک ان دیکھی آگ میں جھلسنے کی چاہ کر رہی ہے وہ جو اب تک یہ کہتی تھی کہ محبت نہیں ہے اسے عجیب کیفیات کا شکار ہورہی تھی۔ باہر ڈھول کی تھاپ اور فائرنگ کی آواز ہنوز آرہی تھی۔
باہر سے حکم آچکا تھا کہ تمام لڑکیاں زنان خانے میں چلی جائیں تو وہ بھی زنان خانے میں ہی آگئی تھی۔زنان خانے کی جالیاں مردان خانے کا منظر کچھ اس طرح سے دکھاتی تھیں کہ وہاں پر موجود لوگوں کی پشت زنان خانے کی جالیوں کی طرف ہوتی اور تمام تر صوفے اسی سمت لگے ہوئے تھے تو زنان خانے سے عورتیں اکثر مردان خانے میں ہونے والے فیصلوں کو انہی جالیوں کی اوٹ میں کھڑی ہو کر سنا کرتی تھیں۔ آج  درار سنان خان کو مردان خانے میں موجود ہونا تھا قبیلے کے لوگوں کے ساتھ۔۔ اس کے آنے کی خبر دار جی نے پورے سوات کو دے دی تھی وہ اپنے پوتے کے پندرہ سال بعد واپس آنے پر بہت پرجوش تھے اس لیے جونہی حویلی میں گاڑی داخل ہوئی تھی لوگوں کی آمدورفت بھی شروع ہوگئی تھی اس لیے وہ ابھی اپنی ماں سے بی بی جان سے نہیں مل سکتا تھا تو اسے سیدھا مردان خانے ہی جانا تھا۔
زنان خانے میں گھر کی سب عورتیں جمع ہوگئی تھی اور کچھ آس پاس کی بھی گھر کی ملازمائیں بھی سب کام کاج چھوڑ کر درار سنان خان کی آمد کے منظر سے لطف اندوز ہورہی تھی۔
وہ ابھی گاڑی میں ہی بیٹھا ہوا تھا وہ سیاہ لینڈ کروزر میں ادھام کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا بھورے بال ہنوز ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جنہیں وہ وقتاً فوقتاً ہاتھ سے پیچھے ہٹا کر سیٹ کر رہا تھا آنکھوں پر براون شیڈز لگا رکھے تھے اور براون کاٹرائیڈ کی پینٹ کے ساتھ اوف وائٹ شرٹ کے اوپر براون کوٹ پہنے وہ اپنی تنی ہوئی گردن اور تنے ہوئے اعصاب لے کر بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے سے خوشی کی ایک رمق بھی نہیں پھوٹ رہی تھی وہ سنجیدہ تھا جیسے وہ ہمشہ رہتا۔ ان کی گاڑی کے آگے بھنگڑے ڈالے جارہے تھے اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ لندن سے آرہا ہے یا دلہن بیاہ کر لارہا ہے۔ ادھام اس کی سنجیدہ صورت دیکھ رہا تھا اور اس کے کوفت زدہ چہرے کو بھی اسے ایسے کوفت زدہ دیکھ کر بے ساختہ اسے ہنسی آئی تھی جسے اس نے دبا لیا تھا۔
" یار لالہ کیا ہے یہ سب میں لندن سے آرہا ہوں کوئی شادی سے دلہن لے کر نہیں جو یہ سب ایسے کررہے ہیں۔" اس نے جھنجھلائے ہوئے چہرے سے کہا تو ادھام نے اس کی جانب دیکھا۔
" درار تمہارے آنے کی خوشی منا رہے ہیں یہ سب لوگ تم مسکرا کر ان کا شکریہ کرو۔" اس کا ہاتھ دبا کر ادھام نے کہا تھا۔
" لیکن عجیب نہیں لگتا کیا ڈھول بھنگڑا مجھے تو بہت عجیب لگ رہا یہ سب۔"
"وہ اس لیے خان کہ تم کافی دیر بعد آئے ہو یہاں واپس تو جب کوئی کہیں جا کر واپس آتا ہے تو ہمارے ہاں اس کا ایسے ہی خیر مقدم کیا جاتا ہے۔" ادھام نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ بس تاسف سے سر ہلاتا ہوا رہ گیا۔
" اوکے لالہ واٹ ایور میں کیا کہہ سکتا ہوں بٹ دس آل از سیریسلی رئیلی رٹیکولث۔" آنکھیں اوپر چڑھا کر اس نے کہا تو ادھام ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔
"او کام اون درار کیپ کالم اٹس جسٹ آ ٹریڈیشن ناتھینگ مور یو جسٹ رلیکس اینڈ سمائیل۔" نرمی سے کہتے ہوئے اس نے اسے پرسکون رہنے کو کہا تھا۔
" ہوں اوکے"
زکوان خان کی گاڑی سب سے آگے تھی اس لیے وہ سب سے پہلے پورچ میں رکی تھی۔ پھر ادھام سنان خان کی گاڑی تھی جس میں درار سنان خان بھی موجود تھا اور سب سے پیچھے صبیح کی گاڑی تھی تینوں گاڑیاں پورچ میں رک چکی تھیں۔ ڈھول کی تھاپ ایسے ہی جاری و ساری تھی۔ سامنے حویلی کے مین دروازے پر دارجی کے دائیں بائیں سنان اشمل خان اور صالک اشمل خان گلاب کے پھولوں کے ہار کے ساتھ کھڑے تھے۔ آج تو اسے واقعی ہی لگ رہا تھا کہ شادی کرکے آرہا ہے پر چہرے پر ادھام کے کہنے پر مسکراہٹ سجائی ہوئی تھی کیونکہ وہ بھی جانتا تھا کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ ادھام اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل کر ایک طرف کھڑا ہوگیا تھا۔ ایک ملازم نے آگے بڑھ کر درار کی طرف کا دروازہ کھولا اور اسے ہاتھ ماتھے تک لے جاکر سلام جھاڑا تھا جسے اس نے فقط گردن ہلا کر قبول کیا تھا۔ ادھام اپنی جگہ چھوڑ کر درار کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا اسی طرج مہجب اور صبیح بھی ساتھ آگئے تھے جب کہ زکوان خان گاڑی کھڑی کر کے اندر جا چکا تھا جیسے بہت حصہ لے لیا تماشے میں اب اپنی جگہ پر چلو۔ درار قدم بڑھاتا ہوا حویلی کے مین دروازے کے سامنے کھڑے دار جی کے سامنے آکر رک گیا تھا۔ سردار اشمل خان ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے۔سر پر سفید شملہ کلف لگا ہوا کرتا شلوار سفید داڑھی والا پُر نور چہرہ وہ اس عمر میں بھی تازہ دم دکھتے تھے ان کی شخصیت میں الگ قسم کا رعب اور جلال تھا جو مقابل کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا۔ درار سنان خان بھی غور سے اپنے دار جی کے خدوخال کا معائنہ کر رہا تھا  ان کی بارعب شخصیت سے بے حد متاثر تو وہ پہلے سے ہی تھا۔
" پاخیراغلے دار جی! " اس نے آگے بڑھ کر دار جی کو سلام کیا تھا۔
" پاخیراغلے مارا بچہ!" انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کا ماتھا چوما تھا۔
" سنگائے؟( کیسے ہو؟) دار جی نے مسکرا کر اس کا حال پوچھا تو وہ بھی مسکرا دیا۔
" ہیمہ دار جی! توسوں سنگائے؟"( میں ٹھیک ہوں دار جی آپ کیسے ہیں؟"
" ہیمہ بچے ہیمہ( ہم ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔)
انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے سینے سے لگایا تھا اور بہت دیر تک خود میں بینچے رکھا تھا وہ پندرہ سال بعد اپنے پوتے کو گلے لگا رہے تھے ان کی خوشی دیدنی تھی۔
وہ یہ سوچ کر آیا تھا کہ پتہ نہیں اسے کیسا لگے گا پاکستان آکر وہ اپنی روایات سے کبھی خوش نہیں تھا وہ پندرہ سال سے یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کبھی پاکستان نہیں جائے گا پر وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ انسان اپنے اصل سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا اسے کبھی نہ کبھی واپس اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی روایات میں آنا ہوتا ہے جیسےدرار سنان خان لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے ملک میں تھا اپنوں میں اسے کچھ بھی برا نہیں لگ رہا تھا اسے اپنے دار جی سے گلے مل کر سکون محسوس ہوا تھا وہ ابھی بھی ان کے سینے سے لگا ہوا تھا۔ اس کا دل بے اختیار بھر آیا تھا۔ دارجی کی آنکھ سے بھی دو موتی ٹوٹ کر گرے تھے۔ وہ دار جی سے کافی دیر بعد الگ ہوا تھا اس نے اطراف میں نظر اٹھا کر دیکھا اس کے بابا جان بھی آنکھوں میں آنسو لیے کمال ضبط سے کھڑے تھے وہ دار جی سے الگ ہوکر اپنے بابا جان کی جانب بڑھ گیا اور ان کے سامنے جاکر ٹھہر گیا۔
" پاخیراغلے بابا جان! " نگاہیں جھکاتے اس نے انہیں سلام کیا تھا۔
"پاخیراغلے بچے!" انہوں نے اس کے سلام کا جواب دیا تو دل نجانے کیوں دکھی سا ہوگیا۔
"سنگائے بابا جان!"( کیسے ہیں آپ بابا جان!؟)
" ہیمہ بچے" ( میں ٹھیک ہوں) تو سنگائے؟( تم کیسے ہو؟)"
" یہمہ" (ٹھیک) جواب بہت مختصر آیا تھا۔
سنان اشمل خان نے اسے بازو سے کھنچ کر اپنے مقابل کیا اور اسے زور سے خود میں بینچ لیا ۔ "اتنی دیر کیوں کی تم نے پندرہ سال سے میں اور تمہاری مورے تمہارے آنے کا انتظار کررہے تھے اور تم اب آرہے ہو؟ " اسے خود سے لگائے وہ شدتِ جذبات سے بول رہے تھے۔
" سوری بابا جان اب کبھی نہیں جاؤں گا واپس ہمشہ آپ کے پاس رہوں گا۔ میں نے شاید آپ کو بہت تکلیف دی ہے مجھے معاف کردیں بابا جان" ان سے الگ ہوتے ہوئے اس نے ہاتھ جوڑے تھے۔
"نہیں بچے بس کافی ہے کہ تم واپس آگئے ہو۔" اسے شانوں سے تھام کر انہوں نے کہا تو وہ مسکرا دیا۔
پھر وہ اسی طرح اپنے چچا سےبھی ملا  وہ ان کا لاڈلا بھتیجا تھا اور وجہ اس کا ان سے دور رہنا تھا۔
وہ حویلی کے مین دروازے سے ہوکر اب کاریڈور میں سے گزر کر مردان خانے کی جانب چل پڑا۔ کاریڈور میں سے گزرتے ہوئے جالیوں میں سے زنان خانے کا منظر بھی نظر آرہا تھا جہاں جالیوں کے پار ایک قطار کی صورت میں حویلی کی خواتین کھڑی تھیں۔ بی بی جان بس زنان خانے میں پڑے ہوئے بڑے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ قطار میں پیر بیگم سب سے پہلے کھڑی تھیں ان کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ ان کے آنسو کوئی صاف نہیں کر رہا تھا یہ وہ غبار تھا جس کا اب نکلنا ہی بہتر تھا ورنہ ساری زندگی کوئی نہ کوئی کسک ان کے دل میں رہ جاتی۔ ان کے ساتھ راحمہ بانو کھڑی تھیں اور ان کے ساتھ ردوا بیگم  پھر میسہ جس کی آنکھیں بھی اپنی مورے کی طرح بہہ رہی تھیں اس کے ساتھ یمامہ  پھر انتسارہ تھی اور بالکل آخر میں انبہاج جالیوں کے سہارے کھڑی تھی۔ اس کی نظریں متواتر جھکی ہوئی تھیں اور بس وہی لمحہ تھا جب وہ دار جی اور سنان اشمل خان کے درمیان جالیوں کے پار کاریڈور میں سے گزرا تھا وہ جوں جوں قدم اٹھا رہا تھا توں توں انبہاج کی نظر اٹھ رہی تھی وہ پیر بیگم کے سامنے سے گزرتے ہوئے اب اس تک آرہا تھا اور بس یہی لمحہ تھا جب اس نے اپنی جھکی ہوئی نگاہیں اٹھائی تھیں وہ اسے کس قدر خوبرو لگا تھا۔ تنے ہوئے نقوش اور ستے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ سیدھا انبہاج صالک خان کے دل میں اتر رہا تھا۔ اس کے دل سے بے اختیار آواز ابھری تھی۔
" زو با ستا نہ باغیر مر شہ ماہ"( میں مر جاؤں گی تمہارے بغیر")
اور بس یہ ایک لمحے کی پکا ر تھی اس کے دل کی جوں ہی وہ اس کے سامنے سے گزرا وہ واپس اپنے گزشتہ خول میں آگئی۔ چہرہ ویسا ہی بے تاثر بنا لیا جیسا اس کے کاریڈور میں قدم رکھنے سے پہلے تھا۔ "یہ شخص کبھی میرا نہیں ہوسکتا۔" اس نے بے اختیار سوچا تھا۔ اور اس کی سوچ کتنی صحیح تھی یہ اسے اپنی آنے والی زندگی میں معلوم ہونے والا تھا۔
اس نے جالیوں کے پار سے گزرتے ہوئے کچھ پل کے لیے نگاہیں اٹھا کر جالیوں کے پار دیکھا تھا اسے اپنی مورے کا آنسوؤں والا چہرہ دیکھ کر واقعی ہی بہت تکلیف ہوئی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی جاکر اپنی مورے کے گلے لگ جائے اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹے اور انہیں اپنے گزرے ہوئے پندرہ سال کے بارے میں ہر بات بتائے کہ کیسے اس نے ہر لمحہ ہر پل گزارا تھا نگاہیں اس نے صرف میسہ تک جالیوں کے پار رکھی تھیں جب وہ میسہ کے سامنے سے گزرا اس نے نگاہوں کا زاویہ سامنے واپس کر لیا۔ محرم عورتوں کو وہ دیکھ چکا تھا۔ نامحرموں کو وہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ وہ سیدھ میں چلتا ہوا مردان خانے کے اندر داخل ہوگیا۔ اس کے گزرنے کے بعد ساری خواتین واپس زنان خانے کے بیچ میں لگے صوفوں پر بیٹھ گئیں۔
وہ کافی دیر مردان خانے میں بیٹھا مختلف لوگوں سے ملتا رہا اور واپس آنے پر بہت سی مبارک بادیں بھی وصول کرتا رہا وہ اب حقیقتاً تھک چکا تھا ایک تو اتنی دور سے فلائیٹ میں آنا اور دوسرا وہ ان لوگوں میں سے تھا جو سفر کے دوران سو نہیں سکتے تھے۔ اس لیے  وہ کافی تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔اسے بی بی جان اور مورے سے ملنے کی جلدی بھی تھی اسے آئے ہوئے گھنٹہ ہو چکا تھا صبح چھ بجے کی اس کی فلائیٹ تھی تقریباً سات بجے وہ حویلی پہنچا تھا اور تب سے مردان خانے میں بیٹھا ہوا تھا اب آٹھ بج رہے تھے کسی نے بھی حویلی میں ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تھا۔ مردان خانے میں ابھی بھی لوگوں کا رش اور چہل پہل ویسے ہی تھی بہت سے جاننے والے اس سے ملنے آرہے تھے جو کہ سب کے سب دار جی کے جاننے والے تھے وہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا پر پھر بھی چہرے پر مصنوئی سی مسکراہٹ سجائی ہوئی تھی اب تو اسے ایسا لگ رہا تھا کہ مسکرا مسکرا کر اس کے جبڑے ٹوٹ جائیں گئے۔ مردان خانے میں اس کے علاوہ ادھام،مہجب،زکوان اور صبیح بھی موجود تھے۔ زکوان خان بہت مجبور ہوکر بیٹھا ہوا تھا اسے درار سنان خان کے پاکستان آنے نہ آنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ ہمشہ سے ہی اس سے خار کھاتا آیا تھا  وجہ اس کا اپنا باپ تھا جس نے اسے اتنا بگاڑ رکھا تھا کہ رشتوں کی نازکی کا احساس اور لحاظ دونوں اسے بھول چکے تھے۔
وہ ہمشہ خود کو سب سے اونچا سمجھتا تھا اب بھی درار کا واپس پاکستان آنا اسے کوئی خاص اچھا نہیں لگ رہا تھا۔دار جی کا اس سے محبت جتانا اسے شدید حسد اور جلن میں مبتلا کر رہا تھا پر وہ اس بات سے انجان تھا کہ جس طرح کی فطرت وہ رکھتا ہے درار بھی ویسی ہی فطرت کا مالک تھا خود کو اونچا سمجھنے والا اور دوسروں کو حقیر پر اس میں اور درار میں فرق صرف اتنا تھا کہ زکوان خود پرست ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اچھی باتوں کو بھی نہیں سراہتا تھا اور ان سے بھی دل میں حسد اور جلن رکھتا تھا  جو اس کے مقابل آنے کی کوشش کرتا وہ اسے راستے سے ہٹانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتا تھا وہ اس کی ذات کا سفایا اس طرح سے کرتا کہ مقابل کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ برباد بھی ہوجاتا جبکہ درار سنان خان اس سے تھوڑا مختلف تھا وہ لوگوں سے حسد اور جلن رکھنے والا انسان نہیں تھا پر وہ ہمشہ اپنے برابر کے لوگوں سے راہو رسم بڑھاتا اسے اپنی ذات سے محبت تھی پر صرف اتنی کہ وہ اس کی ذات تک رہتی اور ان لوگوں تک جو اس کی ذات سے منسلک ہیں وہ کبھی نا حق دوسروں کے نقصان کا زمہ دار نہیں ہوتا تھا وہ صرف اپنے معاملے میں خود پرست تھا اور بے پناہ تھا۔
ادھام اور مہجب دونوں ساتھ بیٹھے آپس میں درار کو دیکھ کر کھسر پھسر کررہے تھے جو درار تک بالکل بھی نہیں پہنچ رہی تھی پر وہ دار جی کے برابر میں بیٹھا دونوں کو دیکھ رہا تھا وہ شدید کوفت کا شکار ہورہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا اب وہ دو منٹ بھی یہاں بیٹھا تو پاگل ہوجائے گا اسے اتنے سارے لوگوں سے ملنے کی عادت نہیں تھی اور ساتھ میں وہ فریش بھی نہیں ہوا تھا۔ اس لیے تھک کر اس نے دار جی کے کان میں سرگوشی کی تھی۔
" دار جی! اگر آپ برا نہ مانیں تو پلیز میں بی بی جان اور مورے سے بھی مل لوں اندر میں بہت تھک گیا ہوں فلائیٹ میں سویا بھی نہیں تھا۔"
وہ بہت بے چارگی سے ان سے کہ رہا تھا دار جی اس کی شکل دیکھ کر واقعی ہی سوچ میں پڑ گئے۔ وہ کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
" ٹھیک ہے تم جاؤ اپنا مورے اور بی بی جان سے ملو پھر تازہ دم ہوکر کچھ کھا لینا جاؤ بچے!" انہوں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے وہاں سے بھیج دیا تھا۔
" شکریہ دار جی!"
وہ کہہ کر خاموشی سے اٹھ کر مردان خانے سے باہر آگیا اور کاریڈور عبور کرتے ہوئے زنان خانے کی جانب چل دیا۔
زنان خانے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے اندر آواز لگائی تھی۔
" مورے! بی بی جان! "
اس وقت بی بی جان اپنے کمرے میں ناشتہ کرنے جا چکی تھیں اور پیر بیگم بھی انہی کے پاس تھیں باقی خواتین کچن میں اور اس وقت زنان خانے میں صرف لڑکیاں بیٹھی ناشتے سے بھر پور انصاف کرنے میں مصروف تھیں جب اس کی آواز سن کر انبہاج کے گلاس میں پانی ڈالتے ہاتھ ٹھٹک کر رک گئے۔ پندرہ سال بعد آواز سنی تھی اس کی ایسا لگ رہا تھا کسی نے اس کے بے جان جسم میں جان ڈال دی ہو اس کا دل بھر پور انداز میں شور مچارہا تھا پر اس کا چہرہ ایسا تھا جیسے باہر کھڑا ہوا شخص کوئی اور ہے وہ اسے جانتی ہی نہیں اسی لمحے انتسارہ،میسہ اور یمامہ نے اس کی جانب دیکھا تھا پلوشے باورچی خانے میں ابھی ابھی گئی تھی۔ پر وہ تینوں اس کا چہرہ دیکھ کر حیرت سے گنگ رہ گئی جہاں جذبات تو دور کوئی تاثر بھی نہیں تھا۔ اس کی آواز ایک بار پھر سے آئی تھی۔ انبہاج نے اسی لمحے میسہ کو دیکھا تھا۔
" میسہ !جاؤ سنو تمہارا بھائی آواز دے رہا ہے اور شاید تم ملی بھی نہیں اس سے مل بھی لو جاکر۔ " یہ کہتے ہوئے بھی میسہ نے غور سے اس کی جانب دیکھا تھا جہاں لا تعلقی ظاہر تھی۔ وہ اٹھی اور زنان خانے کے دروازے کے پاس چلی گئی۔
" پاخیراغلے لالہ!" دروازہ کھولتے ہی اس نے مسرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سلام کیا تھا۔
"پاخیراغلے میری گڑیا! کیسی ہو تم؟" درار نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا تھا۔
" میں ٹھیک ہوں لالہ میں نے آپ کو بہت مس کیا۔" وہ اس کے سینے سے لگی اسے بتا رہی تھی۔
" میں نے بھی ہر لمحہ ہر پل تمہیں بہت مس کیا گڑیا!" اس کی پیشانی چومتے ہوئے اس نے کہا تو وہ مسکرا دی۔
" لالہ واپس تو نہیں جاہیں گئے نا اب؟" اس نے اس سے الگ ہوتے ہوئے سوال کیا تھا۔
" نہیں کبھی نہیں اب ادھر ہی رہوں گا۔ اچھا یہ بتاؤ بی بی جان اور مورے کہاں ہیں؟" اسے جواب دے کر اس نے اپنا مطلوبہ سوال کیا تھا۔
" وہ بی بی جان کے کمرے میں ہی ہیں اور پھوپھی جان بھی وہی ہیں۔"
" اچھا ٹھیک ہے تم سے بعد میں ملتا ہوں میں ذرا مورے اور بی بی جان سے مل لوں۔" اس کا سر تھپکتے ہوئے اس نے کہا تو میسہ اثبات میں سر ہلا گئی۔
" اوکے لالہ!"
وہ کہہ کر وہاں سے مڑ کر سیدھا بی بی جان کے کمرے میں آیا تھا۔ دروازے پر کھڑے ہوکر اس نے دستک دی تھی۔ بی بی جان نے نگاہیں اوپر اٹھا کر دیکھیں تو جھکنا ہی بھول گئیں۔ پیر بیگم کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں تھی ردوا بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ دروازے پر ہی کھڑا تھا۔
" بی بی جان میں اند آجاوں کیا؟ " دروازے پر کھڑے کھڑے ہی اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی۔
" زو تو اہپل یورو کہ صدقے( میں اپنے بچے کے صرقے)" بی بی جان جوش سے بولی تھیں۔
"پاخیراغلے بی بی جان! سنگائے ؟ ان کے نزدیک بیٹھتے ہوئے اس نے کہا تو بی بی جان اثبات میں سر ہلاگئیں۔
"پاخیراغلے بچے! تو سنگائے؟ " اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر انہوں نے کہا تو وہ سر ہلا گیا۔
"جی بی بی جان! ہیمہ"
"بہت دیر کر دی بچے تم نے آتے آتے ہمارا آنکھیں ترس گیا تھا تم کو دیکھنے کو۔" بھیگی ہوئی آنکھوں سے انہوں نے کہا تو وہ ان کا ہاتھ چوم کر مسکرا دیا۔
" بس بی بی جان اب رونا بند اب آگیا ہوں نا پلیز۔۔" وہ ان سے التجائیہ لہجے میں کہہ رہا تھا جو مسلسل رو رہی تھیں۔
بی بی جان سے مل کر اس نے اپنی مورے کی جانب نظریں اٹھا کر دیکھا تھا جن کی آنکھیں خشک ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ پندرہ سال میں آج پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ اس نے اپنی وجہ سے کتنے لوگوں کو تکلیف دی ہے دار جی ،بی بی جان ،مورے، بابا جان ،چچا جان ،چچی ،پھوپھی جان یہ سب ہی تو اصل میں اس کے اپنے تھے اس کے خونی رشتے اس کے بہن بھائی جن کے ساتھ اسے اپنی زندگی کے لمحات گزارنے چاہئیے تھے اپنی جوانی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم اپنے ماں باپ کی نظروں کے سامنے بیتانے چاہئیے تھے وہ ہر پل ہر لمحہ اس نے اکیلے تنہا گھر میں اپنوں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر گزارا تھا اپنی ہر کامیابی کو تنہا سلیبریٹ کیا تھا اور آج اتنے عرصے بعد اپنوں کے بیچ آکر ساری کمیاں پوری ہوگئی تھیں اس کا دل مسکرا رہا تھا اپنی مورے کے چہرے پر خوشی کے آنسو دیکھ کر پر اس کے دل میں کہیں ڈر تھا اپنی آنے والی زندگی کو لے کر اپنے مستقبل کو لے کر کیونکہ لاکھ وہ اپنوں کے بیچ آگیا تھا پر وہ پندرہ سال سے اپنے سارے فیصلے خود کرتا آرہا تھا اور اب اپنوں میں آکر اسے اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنے بڑوں کے ہاتھ میں دینا تھا جس کے لیے درار سنان خان قطعی تیار نہیں تھا۔
وہ اپنی مورے کی جانب بڑھا تھا اور بغیر کچھ دیکھے ان کے سینے سے لگ گیا تھا آج وہ ایک مرد ہوتے ہوئے بھی بے پناہ رویا تھا اپنی ماں کی آغوش میں آکر وہ اپنی ساری ڈگریاں اور غرور بھول چکا تھا اس وقت وہ، وہ ننھا بچہ تھا جو بھیڑ میں کھونے کے بعد اپنی ماں کو ڈھونڈ کر اس کی آغوش پا کر پر سکون ہوا تھا۔ پیر بیگم ایک دم اس کے سینے سے لگنے پر سٹپٹا گئی تھیں پھر کچھ دیر بعد جب دونوں ماں بیٹا رو کر ہلکے ہوئے تو انہوں نے اس کی پیشانی چومی۔
" زمہ شہزادہ را غے( میرا شہزادہ آگیا ہے) "
اس نے بھی اپنی سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں کو ہاتھوں سے رگڑ کر صاف کیا اور مسکرایا۔
"کیسی ہیں آپ مورے؟ " مسکراتے چہرے سے ان کی جانب دیکھتے اس نے پوچھا تو وہ تو جیسے اس پر نہال ہی ہوگئیں۔
" پہلے ٹھیک نہیں تھی پر اب آپ کو دیکھ لیا ہےاب بالکل ٹھیک ہوں" وہ مسکرائی تھیں۔
" مورے بہت بھوک لگی ہے پلیز کچھ کھانے کو دے دیں میں فریش ہو لوں" صوفے سے اٹھتے ہوئے اس نے کہا تو جہارا بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔
" ہاں میں ابھی اپنے بچے کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں تم فریش ہو جاؤ تب تک میسہ سے کہتی ہوں تمہیں کمرہ دکھا دے۔" دروازے کی جانب جاتے ہوئے انہوں نے کہا تو اس نے ہاتھ تھام کر انہیں روک لیا۔
"نہیں آپ بس بتا دیں میں خود چلا جاؤں گا۔"
" اچھا سیڑھیاں چڑھ کر دائیں طرف بیچ والا کمرہ۔"
" اوکے کچھ دیر میں ملتا ہوں ابھی کچھ کھا کر سونا چاہتا ہوں بہت تھکا ہوا ہوں"
" ٹھیک ہے میں ناشتہ تمہارے کمرے میں ہی بھجوا دیتی ہوں درخنے سے کہہ کر"
" اوکے جلدی پلیز"
وہ کہہ کر بی بی جان کے کمرے سے باہر نکل گیا ردوا بیگم سے وہ پہلے ہی مل چکا تھا۔
وہ شام تک سوتا رہا تھا شاید فلائیٹ کی تھکن بہت زیادہ تھی اسے اس لیے جو وہ صبح ناشتہ کر کے سویا تھا اب جاکر اس کی آنکھ کھلی تھی۔ اٹھ کر حسب عادت اس نے اپنے بھورے بال ہاتھ سے ماتھے پر سے پیچھے ہٹائے تھے اور بستر چھوڑ کر واش روم میں چلا گیا باہر آیا تو بال گیلے تھے جس کا مطلب تھا کہ وہ شاور لے کر آرہا ہے۔ جنوری کا وسط تھا اور سوات میں بھر پور قسم کی برف باری جاری تھی۔ اس وقت بھی شام کے چار بج رہے تھے اور سردی بڑھ رہی تھی اس نے ہلکا پھلکا سا ٹراوزر پورے بازو والی ٹی شرٹ کے ساتھ پہن رکھا تھا سردی کی زیادتی کی وجہ سے اس نے ٹی شرٹ کے اوپر براون لیدر کی جیکٹ پہن لی خود پر اچھے سے ایول اربٹ اسپرے کرنے کے بعد وہ باہر جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک نے اس کی توجہ اپنی جانب کی۔
" یس کم ان" آنے والی میسہ تھی۔
" لالہ! آپ کو باہر دار جی بلا رہے ہیں چائے پر" وہ پیغام دے کر جاچکی تھی۔
" اوکے تم چلو میں بس آرہا ہوں"
وہ کہہ کر باہر نکل گئی تھی۔اس نے اپنی سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھا کر ایک ٹیکسٹ ارسل کے نام چھوڑا تھا کہ وہ خیرت سے پاکستان پہنچ گیا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ فون جیکٹ کی جیب میں ڈال کر وہ کمرے سے باہر آگیا۔ باہر آکر اس نے غور سے اپنے پورشن کا جائزہ لیا تھا کیونکہ جب وہ ادھام کی شادی پر پانچ سال پہلے آیا تھا تب وہ ایک ہفتے کے لیے آیا تھا اور مردان خانے میں ہی رہا تھا سب کزنز اور دوستوں نے مل کر وہی ڈیرا جمایا تھا اور ساتھ بنا ہوا مہمان خانہ استعمال کیا تھا اس لیے اب وہ اپنے پورشن کا جائزہ لے رہا تھا جہاں پر کل پانچ کمرے تھے اسے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی کہ یہ پانچ کمرے کس کس کے ہیں۔ وہ اپنے پورشن سے باہر نکل کر سیڑھیاں اتر کر نیچے جانے کی بجائے سیدھا آگیا تھا جہاں اسے درخنے سامنے کی جانب جو دو تین سیڑھیاں تھیں وہاں جاتی دکھائی دی۔
" سنو!" اس نے پیچھے سے درخنے کو پکارا تھا۔
" جی خان!" وہ فوری سے بیشتر پلٹی تھی۔
"یہ سامنے کا پورشن اور اس طرف کے پورشن میں کون ہوتا ہے۔" اس نے انگلی سے اشارہ کر کے ردوا بیگم کے پورشن کے متعلق پوچھا تھا۔
"یہ سامنے والا پورشن چھوٹے خان کا ہے جی سامنے والا کمرہ بی بی اور انتسارہ بی بی کا ہے اور باقی دونوں میں سے ایک میں خان صبیح صاحب اور راحمہ بیگم اور چھوٹے خان ہوتے ہیں اور یہ سامنے والے میں ردوا بی بی جب آتی ہیں تو وہ ٹھہرتی ہیں۔"
اس نے بھی ساری تفصیل بغیر رکے سنا دی تھا۔ وہ سر ہلاتا ہوا سیڑھیاں اتر کر دار جی کے کمرے کی جانب چل پڑا۔
دار جی کے کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے دستک دی اندر سے مسلسل ہنسنے اور باتوں کی آواز آرہی تھی۔  دار جی کے بلانے پر وہ دروازہ کھول کر اندر بڑھ گیا۔
"پاخیراغلے ایوری ون!"
اس نے اندر بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو مشترکہ سلام کیا تھا۔
" یہ زیادہ انگریزی نہ جھاڑو تم ہمارے ساتھ پتہ ہے ہم کو تم باہر سے پڑھ کے آیا ہے"
دارجی منہ بگاڑ کر اس کو سرزش کررہے تھے۔ جس پر اس کے بابا اور چچا جان کا مشترکہ قہقہہ لگا تھا۔ وہ سب اس کے واپس آنے پر واقعی ہی میں بہت خوش تھے۔
" اوکے سوری دار جی! اس نے پھر زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔
" معاف کردیں " آج وہ خلاف مزاج مسکرا رہا تھا ورنہ درار سنان خان شازر و ناذر ہی مسکراتا تھا۔
درخنے دروازے سے اندر چائے کی ٹرے لے کر آئی تھی۔اس نے سلام کر کے چائے کی ٹرے صوفوں کے درمیان رکھی ہوئی ٹیبل پر رکھ دی۔
" تم جاؤ درخنے درار چائے بنائے گا۔" پیر خان نے درخنے کو ٹرے رکھ کر جانے کا کہا تھا۔
درار حیرت سے اپنے بابا جان کو مسکراتےہوئےدیکھ رہا تھا۔
" ایسے کیا دیکھ رہے ہو چائے بناؤ نا تم تو لندن میں رہ کر آئے ہو وہاں تو سارے کام خود کرتے ہیں" انہوں نے چائے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو اس نے سر جھٹکا۔
"جی بناتا ہوں۔"
وہ پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا اور ٹیبل پر دھری  ہوئی ٹرے سے چائے کی کیتلی اٹھا کر چائے کپ میں ڈال کر کپ دار جی کی طرف بڑھایا اور اسی طرح اپنے بابا جان اور چچا جان کو دینے کے بعد وہ واپس صوفے پر بٹھ گیا تھا۔
" تم چائے نہیں پیو گئے بچے؟"
صالک اشمل خان نے پیار سے درار سے پوچھا تھا۔
" نہیں چچا جان میں چائے نہیں پیتا درخنے کو کافی کا کہہ دیا ہے میں نے۔"اس نے ٹانگ پر ٹانگ جماتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئے۔
"بابا جان! لالہ اور مہجب کہاں ہیں اور صبیح بھی نظر نہیں آرہا۔" اس نے سنان خان سے پوچھتے ہوئے کہا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"وہ بچے ادھام آفس گیا ہوا ہے اور مہجب یونیورسٹی سے نہیں آیا ابھی تک آج اس کی ایکسٹرا کلاس تھی کوئی اور صبیح ابھی ابھی باہر گیا ہے۔"
کچھ ہی دیر میں درخنے کافی سے بھرا ہوا مگ اس کے ہاتھ میں تھما کر جا چکی تھی۔ ابھی اس نے کافی کا ایک گھونٹ ہی لیا تھا جب دار جی نے اسے مخاطب کیا
" تمہیں ایک بات بتانی تھی درار بچے!" دار جی کا لہجہ ہمشہ کی طرح بے لچک تھا۔
"جی دار جی حکم۔۔" وہ مکمل طور پر ہمہ تن گوش تھا۔
"کل اتوار ہے تو کل ہم نے حویلی میں ایک دعوت کا اہتمام کیا ہے جس میں ہم نے قبیلے کے سارے لوگوں کو دعوت دی ہے اور اس میں ہم ایک اہم بات کرنے والے ہیں۔"اسے ایک پل کو اندازہ لگانا مشکل لگا تھا کہ دار جی کیا بات کرنے والے ہیں پر پھر اگلے ہی پل میں ایک زور دار جھماکہ اس کی سماعتوں میں ہوا تھا ایک پل کو اس کی تیوری چڑھی تھی اس کے ماتھے پر دو تین گہرے بل بھی پڑے تھے پر پھر اس نے خود کو کمپوز کیا تھا۔ " کیوں سوچ رہا ہے تو ایسا درار کیا پتہ کوئی اور ہی بات کرنی ہو ایسے میں فضول سوچ کر اپنا موڈ کیوں خراب کرنا ہے." وہ بس ان کی بات پر ہلکا سا مسکرایا تھا۔
" ٹھیک ہے دار جی!"
" خوش رہو بچے!"
وہ دار جی سے اجازت لے کر ان کے کمرے سے باہر نکل کر حویلی کے مین دروازے کے باہر بنے لان میں آگیا اسے یہ چیز ان تھک تنگ کررہی تھی کہ آخر کونسی بات ہے جو کل دار جی کو دعوت میں کرنی ہے سوچ سوچ کر اس کا سر دکھ رہا تھا۔ اس بات سے وہ بالکل انجان تھا کہ جس چیز سے وہ بھاگ رہا ہے اور جس کی ذات کی وہ نفی کر رہا ہےوہ ہستی تو بہت پہلے ہی اس کے نام کردی گئی تھی۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
آج صبح درار کے آنے کے بعد وہ سکون سے پڑھ بھی نہیں پائی تھی آج ہفتہ تھا اور پرسوں اس کا پیپر تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح پڑھے وہ لاکھ اپنا دھیان پڑھائی کی طرف لگا رہی تھی پر پھر بھی ذہن بھٹک بھٹک کر اس کی جانب ہی جا رہا تھا۔
" اف کیا مصیبت ہے کیوں پاگل ہوگئی ہوں میں آخر جب تک یہاں نہیں تھا تب بھی تو صبر کیا ہوا تھا نا میں نے پھر اب کیا تکلیف ہورہی ہے مجھے جو میں ڈفروں کی طرح اس شخص کے بارے میں سوچی جارہی ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ مغرور شخص کبھی میرا ہو نہیں سکتا پھر بھی مری جارہی ہوں میں اس کے لیے انبہاج صالک خان! اس نے خود کو پکارا تھا تم کوئی عام لڑکی نہیں ہوں جو یوں محبت سر پر سوار کررہی ہو۔ یاد کرو انبہاج تم نے دعا میں خود کے لیے اسے نہیں مانگا تھا صرف صبر مانگا تھا اس کی ذات پر صبر تو پھر کیوں صبر کا دامن چھوڑ رہی ہو اللہ ثابت قدم رہنے والوں کو ہمشہ پسند کرتا ہے اور پھر تم تو ہمشہ اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونے والی ہو تو پھر اب کیوں؟"
یہ سارے وہ دلائل تھے جو اس وقت اس کا ذہن اسے دے رہا تھا پر سارے دلائل اور ساری وضاحتیں اس وقت جھوٹی پڑھ جاتی ہے جب معاملہ دل کا بن جاتا۔ بے شک وہ بے انتہا صابر اور مضبوط تھی پر تھی تو ایک لڑکی نا جو عام لڑکیوں کی طرح محبت کرتی اور اسے حاصل کرنے کی خواہش کرتی پر شاید محبت کچھ لوگوں کا مقدر نہیں ہوتی یہ صرف اس کی سوچ تھی جس کو اس کی آنے والی زندگی مسترد کرنے والی تھی۔
وہ یونہی اپنی سوچوں کو جھٹکتی اٹھ کر اپنے کمرے میں بنی کھڑکی میں آگئی وہ عام سے حلیے میں تھی اس نے سادہ پرپل کلر کی شلوار قمیض زیب تن کی ہوئی تھی اپنے کولہوں تک آتے بال اس نے ڈھیلی ڈھالی چٹیا کی شکل میں باندھ رکھے تھے دوپٹہ اس نے کاندھے پر ڈال رکھا تھا۔ کھڑکی بند تھی اس نے کھولنے کی زحمت نہیں کی تھی بند کھڑکی میں سے وہ نیچے کا منظر صاف دیکھ سکتی تھی پر بند کھڑکی میں سے نیچے والا اوپر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جونہی اس کی نظر کھڑکی سے نیچے لان پر پڑی وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی وہ لان میں پڑی ہوئی لکڑی کی کرسی پر بیٹھا ہوا کسی سے فون پر محو گفتگو تھا۔ وہ آج پہلی بار اسے ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی وہ تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں وہ تو درار سنان خان کی ذات کے سحر میں ایسی کھوئی تھی کہ اسے یہ تک اندازہ نہیں ہوا کہ نیچے بیٹھا ہوا شخص بھی اسی سمت اوپر دیکھ رہا ہے پر کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے اس کے ہلکے ہلکے عکس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آیا تھا اور وہ تو تھا ہی صدا کا لاپرواہ جسے کسی کی ذات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تب چونکی جب پیچھے سے انتسارہ ، میسہ اور پلوشے کی باتوں کی آوازیں آئی وہ بے ساختہ پلٹی تھی۔
" بی بی کھڑکی میں کیا کررہی ہیں آپ؟"
میسہ اچھے سے جانتی تھی کہ نیچے لان میں درار لالہ بیٹھے ہوئے ہیں اس لیے ہی انبہاج کو تنگ کررہی تھی۔
" آہ۔۔ہاں۔۔وہ کچھ نہیں بس یوہی وہ یک دم حواس میں آئی اور اس کے یوں پوچھنے پر پریشان ہوئی تھی۔ تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟ "
انتسارہ اور پلوشے تو سامنے لگے صوفے پر آرام دہ انداز میں بیٹھ گئی تھیں جبکہ میسہ بیڈ پر پڑی ہوئی اس کی کتابیں دیکھ رہی تھی۔
"بی بی! آپ کے پیپر کب ختم ہونے؟" میسہ نے سرسری انداز میں اس سے پوچھا تھا۔
"منگل کو آخری ہے کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟" وہ کھڑکی مکمل طور پر بند کرچکی تھی۔
" نہیں وہ بس ایسے ہی ہم آپ کو کچھ بتانے آئے تھے بلکہ یہ کہہ لیں کہ ایک تازہ تازہ خبر دینے آئے تھے۔" انتسارہ کے ہاتھ مسلتے ہوئے چٹخارہ لیا تو وہ دلچسپی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔
" اچھا جی اور وہ کیا خبر ہے جسے آپ لوگ دینے کے لیے یہاں آئے ہیں؟" صوفے پر آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا تو پلوشے اس کے قریب آگئی۔
" بی بی !دار جی نے کل ایک دعوت رکھی ہے حویلی میں۔"
اب کی بار پلوشے نے اسے بتایا تھا۔
" اچھا کس قسم کی دعوت؟" وہ آنکھیں چھوٹی کیے اس سے پوچھ رہی تھی۔
" پتہ نہیں یہ تو بس ایک اہم دعوت ہے دار جی نے کہا ہے کہ وہ کچھ بتانے والے ہیں اس دعوت میں۔"
اب کے اس کے اوپر انتسارہ نے بم پھوڑا تھا۔
وہ جانتی تھی اچھے سے کہ یہ دعوت کس لیے ہے اور کیوں قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا جارہا ہے۔
وہ ساکت تھی اس بات پر کہ کل کیا ہونے والا ہے پر وہ بے بس تھی جیسے وہ شروع سے تھی ویسے ہی وہ اب بھی تھی چپ رہنے اور تماشہ دیکھنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا سو وہ چپ تھی۔وہ جانتی تھی کہ روایات اور جذبات کی جنگ میں جیت ہمشہ روایات کی ہی ہوتی ہے اور جذبات چاہے جتنے مرضی قیمتی ہوں روایات ہمشہ ان پر بازی لے جاتی ہیں۔ لیکن یہاں تو وہ جذبات میں بھی کھری تھی لیکن اس کی محبت مقابل کے لیے اتنی زیادہ تھی کہ وہ اسے روایات کی جنگ میں پستا ہوا نظر آرہا تھا۔ آج انبہاج صالک خان کو تکلیف ہوئی تھی اور بے پناہ ہوئی تھی لیکن اس کی یہ تکلیف اس کے اپنے لیے نہیں بلکہ درار سنان خان کے لیے تھی وہ روایات پر اپنی خوشیاں اور جذبات قربان کرنے جارہا تھا یہ بات اسے تکلیف میں مبتلا کررہی تھی۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
وہ ابھی ابھی آفس سے گھر آیا تھا گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے چابی ڈرائیور کی طرف اچھال کر وہ متوازن چال چلتا ہوا مین ڈور کھول کر اندر آیا تھا۔  گرے شرٹ پر بلیک کوٹ پہنے ہوئے وہ آج شکل سے ہی کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
" پاخیراغلے مورے!" اندر داخل ہوتے ہی اسے سب سے پہلے ردوا بیگم دکھائی دی تھیں۔
" جیتے رہو بچے!
"کیا بات ہے کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو؟"
ردوا بیگم نے بڑے پیار سے اپنے بیٹے سے پوچھا تھا۔ جو آج کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
" بس مورے آفس میں آج کافی کام تھا بہت تھک گیا ہوں میں۔" صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے کہا تو ردوا بیگم نے کچن میں جاتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
" چلو تم فریش ہوکر آجاؤ تمہارے بابا جان کھانے کی ٹیبل پر تمہارا انتظار کررہے ہیں آج تم کو ایک اہم بات بھی بتانی ہے۔" انہوں نے تفصیلاً اسے بتایا تو وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔
" اوکے آپ چلیں میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں۔"
وہ کہہ کر لمبے لمبے ڈنگ بھرتا ہوا سیڑھیاں عبور کر گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ ڈھیلے ڈھالے بلیک ٹراوزر کے ساتھ اوف وائٹ شرٹ میں ملبوث ڈائینگ ٹیبل پر آگیا جہاں پر شیر خان،ردوا بیگم اور یمامہ پہلے سے موجود تھے۔ وہ بھی اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے لیے کھانا پلیٹ میں نکالنے لگا۔
" زکوان بچے!" شیر خان نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے ہوئے کہا تو وہ ان کی جانب متوجہ ہوگیا۔
"جی بابا جان!"
"کل خان حویلی میں دار جی نے دعوت رکھی ہے درار کے آنے کی خوشی میں اور انہوں نے سارے قبیلےکے لوگوں کو بھی بلایا ہے وہ کوئی اہم اعلان بھی کرنے والے ہیں۔" شیر خان نے اسے تفصیل سے بتایا تو اس کا اچھا خاصا منہ بن گیا۔
" حد ہے بئھی ہر وقت دار جی کی زبان پر اس درار کا نام ہی رہتا ہے اور اب دعوت کیا مطلب کیا ہے ان سب باتوں کا کرنا کیا چاہ رہے آخر دار جی؟" وہ پلیٹ پرے کھسکا کر غصے سے گویا ہوا تو ردوا بیگم نے ملامت سے اپنے بیٹے کو دیکھا جسے ان کا بھتیجا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
" کام ڈاون بچے کیا ہوگیا ہے ایزی ہو جاؤ" شیر خان نے اسے پُرسکون رہنے کو کہا تو وہ اپنی پیشانی مسلتا رہ گیا۔
" بابا جان! آپ کو نہیں پتہ وہ جب سے آیا ہے ہر کوئی اس کے آگے پیچھے پھر رہا ہے مطلب کے یار حد ہے۔" وہ پلیٹ کھسکا کر رومال سے منہ تھپک کر دور پھینک چکا تھا۔ چہرے پر غصے کے شدید تاثرات تھے۔ یمامہ جو کہ ابھی تک خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی آخر کو اپنے لالہ کی حالت دیکھ کر بول ہی پڑی۔
" لالہ! آخر مسئلہ کیا ہے آپ کو درار لالہ سے کیوں اتنے غصے میں آجاتے آپ ان کے نام پر؟" اس سے مزید برداشت نہ ہوا تو وہ بول پڑی۔
"گڑیا یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے سو تم اس میں مت بولو میں خود ہینڈل کر لوں گا اسے یو جسٹ ڈونٹ وری تو بابا جان ایسا کیا خاص ہے اس دعوت میں؟"وہ یمامہ کو خاموش کروا کر واپس اپنے باپ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" پتہ نہیں پر دار جی نے کوئی خاص اعلان کرنا ہے یہی بات پتہ چلی ہے مجھے اس کے علاوہ تو کچھ نہیں اور یہ کہ ہم سب کو جانا پڑے گا۔" انہوں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
" چلیں تو ہم جائیں گئے بابا جان! پر مجھے تجسس ہورہا کہ ایسی کونسی خاص بات ہے جس کا اعلان دار جی نے قبیلے والوں کے سامنے کرنا ہے۔"
وہ پُرسوچ نظر آرہا تھا۔
"مورے! آپ کو پتہ ہے کچھ کہ کیا بات ہے؟"
یمامہ نے اچانک ردوا بیگم کو مخاطب کیا تھا جو مسلسل کسی گہری سوچ میں نظر آرہی تھیں تو اس کی بات پر ایک دم ہوش میں آئی تھیں۔
" ردوا کیا سوچ رہی ہیں آپ؟"
" آہاں کچھ نہیں بس میں یہ سوچ رہی تھی کہ دار جی کیا کہنے والے خیر کل پتہ چل جائے گا"
زکوان خان تو کھانا کھا کر کرسی چھوڑ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ وہ گہری سوچ میں تھا  کل کا اعلان اور دعوت اسے الجھا رہی تھی۔
               ***********************
رات بھر وہ سکون سے نہیں سو سکا تھا ایک عجیب سی بے چینی تھی اسے نہیں پتہ تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے۔کہیں نہ کہیں اس کی بھی چھٹی حس اسے کہہ رہی تھی کہ کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے اس نے بستر پر لیٹے لیٹے ہی ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا فون اٹھایا تھا اور ارسل کا نمبر پریس کیا تھا بیل جارہی تھی تقریباً تیسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔
" خان! کیسا ہے یار تو دو دن سے کہاں تھا میں نے انتظار کیا تیرے فون کا پر کوئی خیر خبر ہی نہیں آئی تیری۔" فون اٹھاتے ہی ارسل شروع ہوچکا تھا۔
" ہاں بس یار تھوڑا مصروف تھا تو بتا کیسا ہے سب ٹھیک ہے نا؟ اس نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا تھا۔
" ہاں شکر سب ٹھیک ہے۔ تو ٹھیک ہے کیا"؟
اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے سوال کا کیا جواب دے۔
" پتہ نہیں یار ارسل آج دار جی نے حویلی میں کوئی دعوت رکھی ہے جس میں انہوں نے قبیلے کے سارے لوگوں کو بلایا ہے اور کوئی اہم اعلان بھی کرنے والے ہیں۔" درار نے اسے من و عن ساری بات بتائی تھی۔
" واہ یار کہیں تیرے دار جی اپنی گدی تجھے تو نہیں سونپنے والے۔" اس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو درار نے دانت پیسے۔
" بکواس نہ کر یار مجھے لگ رہا میری شادی کا اعلان ہی کرنا انہوں نے میں بتا رہا ہوں اگر ایسا کچھ ہوا نا تو صاف منع کر دینا میں نے شادی سے پھر چاہے جو مرضی ہو۔" جھنجھلاتے ہوئے اس نے کہا تو ارسل نے گہری سانس بھری۔
" پرابلم کیا ہے تیری آخر کبھی تو شادی کرنی ہی ہے تو پھر اب کیا مسئلہ ہے؟" ارسل نے شدید ضبط سے کہا تھا ورنہ اسے درار پر سخت غصہ آرہا تھا۔
" مسئلہ شادی سے نہیں لڑکی سے ہے مجھے اینڈ یو نو ڈیٹ۔" وہ ایک بار پھر سے گویا ہوا تو ارسل نے اپنا ماتھا پیٹا۔
" اف تیرے اس پرابلم کا کوئی بھی حل نہیں ہے میرے پاس سوائے اس کے کہ صبر کر کیوں کہ تیرا کچھ نہیں ہوسکتا۔"
وہ ہنس رہا تھا۔
" دفع ہو ایک بھی کام کا مشورہ نہیں ہے تیرے پاس میں خود کچھ کرلوں گا بائے۔"
اس نے کہہ کر غصے سے فون بند کردیا اور خود اٹھ کر فریش ہونے چل دیا۔
شاید پوری حویلی میں دار جی کے علاوہ وہ واحد تھی جو یہ جانتی تھی کہ کل کیا ہونے والا ہے رات کے اس پہر وہ بیڈ کے پاس نیچے بیٹھی اپنے آخری پیپر کی تیاری میں مصروف تھی جو دو دن بعد ہونا تھا انتسارہ بستر پر لحاف اوڑھے بے خبر سورہی تھی وہ سوتے ہوئے بے پناہ معصوم لگ رہی تھی حالاکہ جب جاگ رہی ہوتی تو اس کی زبان رکنے کا نام نہیں لیتی پر اس وقت وہ خاموش تھی۔ وہ بے اختیار نیچے سے اٹھی تھی اور بستر پر انتسارہ کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ اس نے اس کے منہ پر آئے ہوئے بالوں کو اپنے نرم ہاتھوں سے پیچھے ہٹایا اور اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی۔
" اللہ تعالی کبھی بھی تمہیں کسی امتحان میں نہ ڈالے جانتی ہو انتسارہ! امتحانات کتنے مشکل ہوتے ہیں صبر کا امتحان ، جبر کا امتحان ، جنون کا امتحان اور محبت کا امتحان اللہ تمہیں ان سب میں سے کسی سے بھی نہ گزارے میں نہیں چاہتی جس آگ میں میں کودنے والی ہوں جس کھائی میں میرا وجود جھلسنے والا ہے اس کے پاس بھی تم کبھی جاؤ۔"
وہ اس کے پاس بیٹھی خود کلامی کے سے انداز میں بول رہی تھی۔
" اللہ تعالی نے اپنے ہر بندے کا نصیب الگ لکھا ہے تم بہت خوش نصیب ہو انتسارہ جو تمہاری زندگی مہجب جیسے انسان سے جڑے گی۔یمامہ بھی خوش قسمت ہے جو اسے صبیح کا ساتھ نصیب ہوگا تم خوش نصیب ہو کہ تمہاری زندگی میں کوئی درار سنان خان نہیں آئے گا کوئی نہیں ہوگا جو تمہاری محبت کی توہین کرے گا میرے صبر کا امتحان چل رہا ہے دعا کرنا میں اس امتحان میں کھری اتروں۔"
اسے اندازہ بھی نہیں ہوا کب بولتے بولتے اس کے آنسو ٹوٹ کے موتیوں کی مانند اس کے ہاتھ پر گرے تھے جو اس نے انتسارہ کا تھام رکھا تھا۔ وہ بے بسی سے آنکھیں بند کر گئی تھی اسے اللہ پر بھروسہ تھا کیونکہ وہ بندے کو اس کی اسطاعت سے بڑھ کر نہیں آزماتا ہے یہ اس کی مورے اسے اکثر سمجھایا کرتی تھیں اور یہ ایک جملہ اس کے اندر سکون بھر دیتا تھا۔
وہ وہاں سے اٹھ کر اپنی جگہ پر اس کے برابر میں آکر لیٹ گئی اور گہرا سانس لے کر آنکھیں موند گئی۔
حویلی میں دعوت کی تیاریاں عروج پر تھیں سب لوگ کسی نہ کسی کام میں مصروف نظر آرہے تھے۔ آج شام کو قبیلے کے بڑے بڑے لوگوں نے مردان خانے میں اکھٹا ہونا تھا اور ان کی بیگمات اور گھر والیوں نے زنان خانے میں جہاں سے مردان خانے میں ہونے والی بات صاف سنائی دیتی تھی اور مقصد بھی سب کو بتانا ہی تھا۔ مردان خانے میں ایک طرف وسیع پیمانے پر کھانے کا انتظام کیا گیا تھا اور بیٹھنے کے لیے بے تحاشہ صوفے لگائے گئے تھے اور یہی حال زنان خانے کا بھی تھا سب تیاریاں ہو چکی تھیں۔حویلی کے باہر لان میں کھانا پکانے کا بھی وسیع پیمانے پر انتظام کیا گیا تھا۔ ابھی دوپہر کے دو بج رہے تھے سردی آج خلاف معمول کافی زیادہ تھی اور آسمان پر سورج کا کوئی نشان بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ پہاڑوں کے اوپر گہرے بادلوں نے اپنا بسیرا کیا ہوا تھا پورا سوات ٹھنڈ سے ٹھٹر رہا تھا ایسے میں خان حویلی میں چہل پہل جاری تھی کچھ ہی دیر میں لوگ آنا شروع ہو جانے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں جھنجھلایا ہوا پھر رہا تھا اس کا دماغ مسلسل ایک ہی نقطے پر جما ہوا تھا کہ آخر آج کیا ہونے والا ہے وہ اپنے کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہا تھا جب دروازہ کھٹکا اور پیر بیگم مسکراتی ہوئی اندر آئی تھیں۔
" ارے مورے! آپ آیے نا پلیز اندر آئیں۔"
وہ مسکراتی ہوئی اندر آگئیں اور انہوں نے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا جو کچھ پریشان لگ رہا تھا۔
" کیا بات ہے بچے! کوئی ٹینشن ہے کیا کچھ پریشان لگ رہے ہو؟" جانچتی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا تو وہ بامشکل مسکرا دیا۔
" نہیں مورے ایسی بات نہیں ہے بس سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہونے والا ہے۔" سر تھام کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے گہری سانس بھر کر کہا تھا۔
" کچھ نہیں ہوتا جو بھی ہوگا تمہارے حق میں بہتر ہی ہوگا۔" انہوں نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دی تھی۔
" لیکن مورے میں بتا رہا ہوں آپ کو مجھے کسی بھی ایسے کام کے لیے مجبور مت کیجئیے گا جو میں کرنا نہ چاہوں تو پھر معاف کیجئیے گا مورے! میں روایات اور خاندان سے ٹکرا جاؤں گا لیکن میں اپنی مرضی سے سارے فیصلے کروں گا یاد رکھیے گا آپ۔" انگلی اٹھاتے ہوئے اس کا لہجہ دو ٹوک تھا۔
"اف بس کردو بچے تم تو میرا دل ہولا رہے ہو کیا پتہ ایسی کوئی بات ہو ہی نہ؟" جہارا بیگم نے نگاہیں چراتے ہوئے اس سے کہا تو وہ ایک لمحے کے لیے پُرسکون ہوگیا۔
" نہ ہی ہو تو سب کے لیے بہتر ہے کیونکہ اگر ہوئی نہ تو پھر اچھا نہیں ہوگا۔"
وہ شدید جھنجھلایا ہوا لگ رہا تھا۔ پیر بیگم کہیں نہ کہیں جانتی تھیں کہ آج کیا ہونے والا ہے اس لیے وہ اپنے بیٹے کی باتیں سن کر خاصی پریشان ہوئی تھیں انہیں اس سے بغاوت کی بو آرہی تھی جو پورے خاندان کو تباہ کرسکتی تھی۔
*******************
انتسارہ اپنے کمرے میں کپڑوں کا ڈھیر لگا کر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ دعوت میں کونسا ڈریس پہنے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ نت نئے کپڑے الماری سے نکال کر بستر پر پھینک رہی تھی جب میسہ اندر داخل ہوئی تھی ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ بھی تھا جس پر انتسارہ کی نظر ابھی نہیں پڑی تھی۔
" کیا کر رہی ہو تم یہ کیا اتنا گند پھیلایا ہوا ہے تم نے؟" میسہ نے بستر پر آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا تو انتسارہ اس کی جانب آگئی۔
" یار میسہ میں پاگل ہو جاؤں گی یہ سوچ سوچ کر کہ میں کیا پہنوں اتنے سارے میں مجھے سمجھ نہیں آرہا۔"
وہ شدید جھنجھلائی ہوئی لگ رہی تھی میسہ کو اسے دیکھ کر بہت ہنسی آرہی تھی جو اس نے منہ نیچے کر کے چھپائی ہوئی تھی۔
" کیوں تم نے کیا اُدھر بن سنور کے مہمان عورتوں میں جانا ہے کونسا کوئی لڑکے ہوں گے وہاں جنہیں تم نے امپریس کرنا ہے۔" مسکراہٹ دانتوں تلے دبا کر اس نے کہا تو انتسارہ نے اسے صدمے سے گھورا۔
" شرم کرلو میسہ تمہاری ہونے والی بھابھی ہوں کیسے تم منہ پھاڑ کے مجھے کہہ رہی ہو لڑکوں کو امپریس کرنے جانا یہی تمہارے لالہ نے سن لی نہ تو پھر گلہ دبا دیں گئے میرا بھی اور تمہارا بھی۔" آنکھیں بڑی کرتے ہوئے اس نے کہا تو میسہ نے منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا۔
"ہائے میری ہونے والی بھابھی ابھی ہوئی نہیں ہو اچھا ابھی ہونے والی تو بی بی ہیں تو تم تو ذرا کم ہی پھیلو کیسے اچھل رہی ہو ہونے والی بھابھی میرے بیچارے لالہ کو کیسے شادی سے پہلے ہی قابو میں کیا ہوا ہے تم نے ہر وقت تمہارے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں بس آفر کرو انتسارہ سے ملنا ہے یا بات کرنی ہو کوئی بھی رشوت لگانے کو تیار رہتے ہیں۔" میسہ بیچارگی سے منہ بناتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ انتسارہ مکمل طور پر اس کی گفتگو سے لطف اندوز ہورہی تھی۔
انتسارہ اس کی باتوں پر خوب کھلکھلا رہی تھی۔ "دیکھ لو کم از کم قابو میں تو ہے نا تمہاری طرح نہیں کہ کبھی دیکھا بھی نہیں ہر وقت ڈرتی رہتی محبت بھی کرتی اور کبھی بتاتی بھی نہیں۔" انتسارہ نے اس سے کہا تو میسہ نے فٹ سے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کرایا۔
" شادی کے بعد کروں گی سارے اظہار ان سے محبت کرتی ہوں بتاؤں گی لیکن ابھی نہیں۔" کسے معلوم تھا شادی کے بعد وہ اسے اس قابل چھوڑے گا ہی نہیں کہ پیچاری اظہار کر سکے۔
"خیر یہ لو مہجب لالہ نے مسئلہ حل کر دیا ہے بھابھی صاحبہ آپ کا یہ ڈریس بھیجا ہے انہوں نے اور ساتھ میں یہ محبت نامہ بھی اور تاکید کی ہے کہ یہ ان کی میسز ٹو بی پہن لیں دعوت میں۔" شاپر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے میسہ نے کہا تو اس نے اچک کر شاپر تھام لیا۔
" اچھا دکھاؤ ذرا پڑھوں تو سہی کہ کیا لکھا ہے انہوں نے۔"
اس نے مہجب کا دیا ہوا خط کھولا اور پڑھنا شروع کردیا۔
" انتسارہ!
مجھے بہت بے چینی سے انتظار ہے ان لمحوں کا جب تم میری ہوجاؤ گی اور میں تم پر وثوق سے سارے اختیارات استعمال کرسکوں گا اور حق سے تمہارے لیے تحفے بھی لا سکوں گا۔ باقی سب کی طرح مجھے بھی علم تھا کہ تم میرے ساتھ بچپن سے جڑی ہوئی ہو ۔ بچپن کی منگنی بے شک ایک برائی ہے پر ایک اچھی بات ہے کہ یہ رشتے پوشیدہ نہیں رکھے جاتے بتا دیا جاتا ہے کہ خاندان کی کونسی لڑکی کس کی منگ ہے جیسے مجھے پتہ چلا کہ میری منگنی میری پیاری سی بچپن کی دوست سے ہی ہوئی ہوئی ہے اور پھر سوچ محبت میں بدل گئی اور شکر کہ میسہ تھی جس نے رابطہ کرا دیا میرا تم سے ورنہ میں کیا کرتا خیر بہت سے اظہار بچا کر رکھے ہوئے ہیں جو شادی کے بعد کروں گا تم سے ابھی کے لیے صرف تمہاری ایک جھلک دیکھوں گا جالیوں کے پار سے نقاب مت لگانا پلیز اور یہ ڈریس پہن لینا میں نے بہت شوق سے لیا ہے تمہارے لیے۔
مہجب سنان خان"
وہ خط پڑھ چکی تھی وہ ابھی بھی مہجب کے لفظوں کے سحر میں جکڑی ہوئی تھی وہ ساکن تھی میسہ اس کی حالت دیکھ رہی تھی۔
" اوئے بھابھی ٹو بی بس بہت کر لی سیر خیالوں میں میرے لالہ کے ساتھ آجاؤ اب واپس۔"
وہ اس کے منہ کے آگے چٹکی بجا کر بول رہی تھی۔
" آہاں ۔۔۔وہ کچھ نہیں۔ "
اس نے میسہ کے ہاتھ سے شاپنگ بیگ لے کر کھولا۔ اندر ایک انتہائی خوبصورت گلابی رنگ کی فراک تھی جس پر بہت نفیس کڑھائی ہوئی ہوئی تھی انتسارہ کو مہجب کا دیا ہوا پہلا تحفہ انتہا سے زیادہ پسند آیا تھا۔ نیچے مردان اور زنان خانے میں مہمان رفتہ رفتہ آرہے تھے اب تو وہ بھی سارے کام ختم کرچکی تھی صرف ایک کام باقی تھا اور وہ تھا اس کا تیار ہونا اس نے الماری کھولی اور اندر سے انتہائی خوبصورت بلیک شیفون کی شرٹ نکالی جس پر وائٹ کڑھائی ہوئی ہوئی تھی اس نے وہ شرٹ بلیک ٹراوزر کے ساتھ پہن لی۔ اس نے اپنی کولہوں تک آتی ہوئی سنہری زلفوں کو ہلکے سے کیچر میں قید کر کے پیچھے چھوڑ دیا اس کا چہرہ بغیر کسی زیبائش و آرائش کے تھا پر پھر بھی سیاہ رنگ اس کے دودھیہ سپید رنگ پر اتنا غضب ناک لگ رہا تھا کہ کوئی ایک ہی بار دیکھ کر اپنا دل ہار سکتا تھا شیفون کا دوپٹہ اس نے سر پر ٹکایا اور سردی کی شدت دیکھتے ہوئے سیاہ شال کاندھوں پر ڈال لی وہ مکمل تیار ہوچکی تھی۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
انتسارہ نے مہجب کی دی ہوئی گلابی فراک پہن لی تھی وہ گلابی رنگ میں بہت کھل رہی تھی اس نے بھی اپنا دوپٹہ سر پر ٹکا کر شال شانوں پر ڈالی ہوئی تھی کانوں میں خوبصورت چھوٹے سے ٹاپس پہن رکھے تھے جو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہے تھے ہونٹوں پر ہلکا پنک لپ گلوز لگا رکھا تھا جو اسے ایک دم فریش لک دے رہا تھا اب اسے میسہ کا انتظار تھا کہ کب وہ مہجب کا پیغام لے کر آئے گی اور کب وہ زنان خانے سے اٹھ کر باہر جالیوں کے پاس سے گزرے گی۔ وہ اسی انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی جب اسے میسہ زنان خانے میں آتی ہوئی نظر آئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگ کر میسہ کی جانب لپکی تھی جو اس کے ایسے بھاگ کر آنے پر پہلے ہی اپنی ہنسی روک رہی تھی۔ اس نے اس کے پاس پہنچ کر آنکھوں سےاس سے پوچھا تھا کہ کہاں ہے وہ؟ جس کے جواب میں اس نے اسے اشارے سے ہی کہا تھا کہ جاؤ آنے والے ہیں۔ وہ اونچی نہیں بول سکتی تھی کیونکہ زنان خانے میں مہمانوں کی بھرمار تھی اس لیے وہ چپ چاپ انتسارہ کی جگہ پر آکر بٹھ گئی اور انتسارہ باہر کی جانب بڑھ گئی۔
انتسارہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی زنان خانے سے باہر کی جانب بنی جالیوں کی طرف آرہی تھی۔ کاریڈور شروع ہوچکا تھا اور جالیاں بھی۔ اس نے اپنے چہرے کو اپنے گلابی دوپٹے سے ڈھانپا ہوا تھا جوں ہی جالیاں شروع ہوئیں اسے باہر سے مہجب آتا دکھائی دیا وہ گرے شلوار قمیض کے اوپر بلیک کوٹ پہنے ہوئے تھا پیروں کو پشاوری چپل میں قید کیے۔چہرے پر ہلکی سی روایتی مسکراہٹ سجائے وہ سیدھا انتسارہ صالک خان کے دل میں اتر رہا تھا۔ آج اسے پہلی بار یہ احساس ہورہا تھا کہ یہ سامنے سے آتا ہوا شخص اس کے لیے کتنا ضروری ہے۔ وہ دونوں اب آمنے سامنے تھے مہجب جالیوں کے اُس پار اور انتسارہ جالیوں کے اِس پار ۔ انتسارہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے گلابی انچل کو پیچھے کیا تھا اور بس وہی لمحہ تھا جب مہجب سنان خان ایک بار پھر سے اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا۔ اگر میسہ یہ کہتی تھی کہ وہ اس کے لالہ کو اپنے اشاروں پر چلاتی ہے تو وہ کوئی غلط نہیں کہتی تھی مہجب سنان خان واقعی ہی انتسارہ صالک خان کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ ہونہی اس کے سامنے سے گزر گئی۔ وہ بس وہی کھڑا رہ گیا وہ چاہتا تھا کہ وقت رک جائے اور وہ بس اسے دیکھتا ہی رہے پر وہ کب کی جا چکی تھی۔ اسے بھی مردان خانے میں بلایا جارہا تھا۔ وہ سر جھٹکتا ہوا مردان خانے کی جانب چل دیا۔ ابھی وہ مردان خانے کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ اسے درار سیڑھیوں سے آتا دکھائی دیا۔ وہ بلیک شلوار قمیض میں ملبوس تھا بھورے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کریم کلر کی شال کاندھوں پر ڈالے ہوئے وہ کوئی مغرور شہزادہ ہی لگ رہا تھا چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی وہ متوازن چال چلتا ہوا مردان خانے میں آیا تھا جہاں دار جی بڑے صوفے پر اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور باقی سب بھی تقریباً تمام مہمان آچکے تھے اور ایسا ہی حال زنان خانے کا بھی تھا بی بی جان اپنی دونوں بہووں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں اور باقی سب بھی آچکے تھے انبہاج نے بی بی جان کے کان میں کھانا لگنے کا بتایا تھا انہوں نے سب کو کھانا کھانے کا کہا تھا اور اس طرح دونوں طرف بہت ہی پر تکلف ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا۔
کھانے کے بعد درخنے اور گل نے سب کو قہوہ پیش کیا تھا۔ سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ انبہاج ایک طرف چپ چاپ بی بی جان کے پاس بیٹھ کر قہوہ پینے لگی۔کچھ ہی دیر میں دار جی کی رعب دار آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ اتنی دیر میں گل بھی بی بی جان کو دار جی کے فیصلے کے بارے میں آگاہ کرنے پہنچ چکی تھی کہ مردان خانے میں دار جی وہ بات کرنے والے ہیں جو انہوں نے کرنی تھی۔
بی بی جان نے ہاتھ کے اشارے سے زنان خانے میں موجود خواتین کو خاموش رہنے کے لیے کہا اب وہاں فضا میں صرف دار جی کی بھاری آواز گونج رہی تھی اور انبہاج کے قہوہ پکڑے ہوئے ہاتھ لرز رہے تھے شاید وہ بے مول ہونے والی تھی۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

junoon se ishq ki rah completed✔Where stories live. Discover now