قسط نمبر 9

3.6K 151 28
                                    

" جہارا بیٹی نے ماشاءاللہ سے اتنا اچھا خبر سنایا ہے تم اسکا گھر نہیں جائے گا کیا؟" بی بی جان نے تسبح کرتے ہوئے کہا تو جہارا بیگم پرسوچ ہوئیں۔
" صحیح کہہ رہی ہیں بی بی جان جانا تو میں نے ہے سوچ رہی ہوں راحمہ کو بھی ساتھ لے جاؤں بلکہ آپ بھی ساتھ چلیں مبارک باد کے ساتھ نکاح کی تاریخ بھی لے آئیں گے ردوا سے۔"
انہوں نے اپنے طور پر بڑی ہی درست بات کی تھی۔
" ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہا ہے تمہارا دار جی بھی ہم کو رات کہہ رہا تھا کہ تاریخ رکھ لو۔" بی بی جان نے کہا تو جہارا بیگم کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا۔
" لیکن بی بی جان مہجب اور انتسارہ کے نکاح کا کیا ہوگا؟"
انہوں نے فکرمندی سے وہ بات کہی جو انہیں پریشان کررہی تھی۔
" کی تھی ہم نے اس سلسلہ میں بھی بات تمہارا دار جی سے۔۔۔ انہوں نے کہا پہلے ابھی فی الحال صبیح کے نکاح سے فارغ ہوجائیں پھر مہجب کے بارے میں سوچیں گے ۔"
بی بی جان کیسے انہیں بتاتی کہ مہجب اور انتسارہ کے رشتے سے منسلک گفتگو میں کیا گڑبڑ چل رہی ہے اس لیے تو سب کا دھیان وہاں سے ہٹانے کے لیے ہی تو صبیح اور یمامہ کے نکاح کا سوچا گیا تھا۔
*******************
وہ یونیورسٹی سے آئی تو کافی تھکی ہوئی تھی۔ آتے ہی اپنے کمرے میں آرام کے لیے چلی گئی۔ ردوا بیگم کچھ دیر بعد دروازہ ناک کر کے اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
" کیا بات ہے بچے کھانا نہیں کھاؤ گی آج؟"
انہوں نے نرمی سے اس سے پوچھا تھا۔
" نہیں مورے بس بھوک ہی نہیں تھی۔"
وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
" مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
انہوں نے جیسے تمہید باندھی تھی۔
" جی مورے بولیں سب خیر تو ہے نا؟" اس نے حیرت سے پوچھا تو انہوں نے اس کی جانب دیکھا۔
" ہاں وہ آج پیر بیگم راحمہ اور بی بی جان آرہی ہیں تمہارے نکاح کی تاریخ طے کرنے۔"
انہوں نے وہ بات کہہ ہی دی جو وہ اس سے کہنا چاہتی تھیں۔
" میرے نکاح کی تاریخ مگر اتنی جلدی بھی کیا ہے ابھی تو میری سٹیڈیز بھی کمپلیٹ نہیں ہوئیں ہیں تو پھر ایسے میں شادی میں سمجھ نہیں پارہی۔" اس کے چہرے پر الجھن واضح تھی۔
" دیکھو بچے بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں نا اتنا ہی بہتر ہوتا ہے اور پھر تم کونسا کسی غیر کے ہاں جارہی ہو اپنا ہی گھر ہے۔ بی بی،انتسارہ،پلوشے سب ہونگے وہاں تم فکر مت کرو۔" ردوا بیگم نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" لیکن مورے پھر بھی؟" ایک موہوم سی کوشش ایک بار پھر سے کی گئی تھی۔
" کوئی پھر ور نہیں بس ڈیٹ فکس کررہی ہوں میں آج ۔"
وہ اس سے قطعی لہجے میں کہہ کر وہاں سے باہر آگئی تھیں۔ وہ اب حقیقی معنوں میں چاہتی تھیں کہ یمامہ اپنے گھر کی ہوجائے۔
**********************
درار آج شام کو ہی حویلی آگیا تھا آفس میں کام کم تھا تو اسے بہتر یہی لگا کہ گھر چل کر کچھ دیر آرام کیا جائے۔ وہ پورچ سے ہوکر سیدھا مردان خانے میں آیا تھا جہاں دار جی بیٹھے ہوئے تھے۔
" پاخیراغلے دار جی!" انداز میں ازلی احترام تھا۔
"پاخیراغلے بچے!"
وہ انہیں سلام کرکے گزرنے والا تھا جب پھر سے دار جی کی آواز سنائی دی۔
" کدھر جارہا ہے تم یہاں ابھی قبیلہ سے لوگ آنے والا ہے تم کو ادھر ہی بیٹھنا ہے۔"
اس کا دل تو کیا تھا کہ کچھ الٹا سیدھا بول دے لیکن کیا کرتا احترام بیچ میں آگیا تھا پھر خود کو قدرے کمپوز کر کے بولا۔
" سوری دار جی پر فی الحال میں بہت تھکا ہوا ہوں آج کے دن میری جگہ آپ لوگوں کو ڈیل کرلیں پلیز۔"
وہ کہہ کر ان کا جواب سننے کے لیے رکا نہیں تھا۔ جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ پیچھے دار جی بس اس کی حرکتوں پر ضبط کرکے رہ گئے تھے۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو کمرہ خالی تھا اسے خالی کمرہ دیکھ کر ایک عجیب سی جھرجھری آئی تھی۔
" پتہ نہیں یہ ہر وقت کہاں گھومتی رہتی ہے ایک جگہ سکون سے بیٹھا نہیں جاتا اس سے ابھی بھی پتہ نہیں کہا گئی ہے۔"
وہ خود سے کہہ رہا تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ کہیں سے بھی آئے اسے سب سے پہلے اس کا چہرہ نظر آئے۔ وہ ایسا کیوں چاہتا تھا وہ اس بات سے یکسر انجان تھا۔ اسے اپنا دل دھیرے دھیرے بے بس ہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا لیکن وہ یہ بات ماننے سے انکاری تھا۔ درار سنان خان اپنی ہار کیسے برداشت کرتا یا کیسے مانتا اس لیے وہ اپنے آپ کو ہارا ہوا تصور ہی نہیں کرتا تھا۔
وہ واڈروب کی طرف جانے لگا تھا جب اس کی نظر نیچے پچھلے لان کی کھڑکی کی طرف پڑی اور اسے نیچے لان میں وہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ نیوی بلو پلین کرتا وائٹ ٹراوزر کے ساتھ پہنے سر پر نیوی بلو دوپٹہ جمائے وہ چائے سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ ساتھ میں ٹائم پاس کے لیے کوئی میگزین بھی پکڑا ہوا تھا نیوی بلو دوپٹے میں اس کی سرخ و سپید دودھیہ رنگت اور بھی نکھر رہی تھی۔ سنہرے بال دوپٹے کے حالے سے جھانک رہے تھے گہری سمندری آنکھیں میگزین کے مطالعے میں غرق تھیں۔
مخروطی انگلیوں نے چائے کے مگ کو تھام رکھا تھا اور وہ بار بار مگ اپنے خوبصورت عنابی ہونٹوں تک لے کر جارہی تھی۔ درار سنان خان کو اس ہستی پر اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہوا تھا اتنا حسن اس نے واقعی ہی کہیں بھی کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اتنی دیر لندن رہا تھا ایک سے بڑھ کر ایک حیسن لڑکی دیکھی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی انبہاج جیسی نہیں تھی یا شاید ان میں سے کوئی بھی درار سنان خان کی بیوی کے عہدے پر فائز نہیں تھی اور کسی اور لڑکی کو اس نے کبھی اس نظر سے دیکھا بھی نہیں تھا جس سے وہ انبہاج کو اس لمحے دیکھ رہا تھا وہ اس کی ہے یہ استحقاق ہی اس کا سیروں خون بڑھا رہا تھا اسے دیکھ کر ایک دلکش مسکراہٹ نے درار سنان خان کے چہرے کا احاطہ کیا تھا وہ چینج کرنے واش روم کی جانب بڑھ گیا۔چینج کرکے وہ باہر آیا تو اس کا رخ بھی پچھلے لان کی جانب تھا وہ مردان خانے سے گزرنے کی بجائے اب کی بار اوپر سے ہی پچھلی سیڑھیوں سے ہی لان میں آگیا تھا وہ اوف وائٹ شلوار قمیض میں ملبوس تھا بھورے بال ہنوز ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جنہیں وہ ہاتھوں سے پیچھے ہٹا رہا تھا وہ لان میں داخل ہوا تو وہ ابھی بھی اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی۔
" پاخیراغلے!"
درار نے آج اسے سلام کیا تھا انبہاج نے چونک کر آواز کے تعاقب میں دیکھا اور حیران ہوئی تھی پھر خود کو سنبھالتے ہوئے مسکرائی تھی۔
" پاخیراغلے آپ کب آئے؟"
اس نے سلام کر کے سوال بھی پوچھ لیا تھا۔
" جب آپ میگزین پڑھ رہی تھیں تب ویسے کیا ہے اس میگزین میں جو اتنے زور و شور سے پڑھا جارہا ہے اسے؟"
درار کو اب میگزین میں لکھے ہوئے اوراق میں دلچسپی محسوس ہورہی تھی۔
" ارے کچھ بھی نہیں یہ تو بس ایسے ہی ٹائم پاس بور ہورہی تھی اور موسم اچھا تھا تو میں یہاں آکر بیٹھ گئی۔" انبہاج نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے ایک نظر اطراف پر ڈالی۔
" ہاں موسم تو واقعی ہی بہت اچھا ہے فضا میں ہلکی ہلکی ڈھنڈ بھی ہوگئی ہے۔" درار نے ایک نگاہ اطراف میں ڈالنے کے بعد اس سے کہا تھا۔
" اچھا یہ بتائیں کافی پیں گے آپ؟"
اس نے اس سے کافی کا پوچھا تھا۔
" ہاں یار پلوا دو بہت تھکا ہوا ہوں میں۔"
" اچھا میں بنا کر لاتی ہوں۔"
وہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب اس نے پیچھے سے اس کی کلائی تھامی تھی انبہاج نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" کسی سے کہہ کر بنوا لو تم ادھر بیٹھو میرے پاس۔" درار نے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو اس نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔
" لیکن کس سے کہوں خود ہی جانا پڑے گا مجھے۔" انبہاج نے بے چارگی سے کہا تو درار نے کچھ لمحے سوچا تھا۔
" تم رکو میں خود ہی کہہ کر آتا ہوں۔"
" لیکن میں بنا لاتی ہوں نا۔"
شیش!
اس نے انگلی سے اسے خاموش کرایا اور خود اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا کچھ ہی دیر میں وہ واپس آگیا تھا۔
" اچھا تو تم یہ بتاؤ تمہیں کیا کیا پسند ہے؟"
یہ درار اتنا نرم کیسے ہوگیا انبہاج تو یہ سوچ سوچ کر ہی پاگل ہورہی تھی۔ مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ جب سے دونوں کے درمیان روح کا رشتہ بنا تھا تب سے وہ اسے چاہ کر بھی سخت رویہ نہیں رکھ پارہا تھا اس لیے اس نے اپنی کوشش ہی ترک کردی تھی وہ اس کے ساتھ پیار اور نرمی سے ہی پیش آرہا تھ۔
" مجھے ایسا کچھ خاص تو نہیں جو بھی مل جائے۔"
انبہاج نے بڑے ہی آرام سے کندھے اچکائے تھے۔
" یار تم کیسی لڑکی ہو جسے کچھ پسند ہی نہیں ہے۔اچھا سنو باہر چلیں؟"
اس نے ایک دم ہی بڑے راز دارانہ انداز میں اس سے کہا تھا۔
" کیا باہر نہ بھئی میں نہیں جارہی۔" انبہاج نے گھبرا کر کہا تو درار نے منہ بنالیا۔
" چلو نا کچھ نہیں ہوتا سوات گھومتے ہیں تھوڑا سا۔" اس کے لہجے میں منت تھی۔
" ہاں تاکہ پچھلی بار کی طرح پھر سے کوئی نئی سزا ملے آپ کو مجھ سے تو ابھی آپ کی پرانی ہضم نہیں ہورہی ہے آپ نئی کی بات کررہے ہیں۔" انبہاج نے ٹانگ پر ٹانگ جما کر کہا تھا۔
" پچھلی بار میں سردار نہیں تھا لیکن اب کی بار میں سردار ہوں اور سردار درار سنان خان کو اپنی سردارنی کو باہر لے کر جانے سے قبیلے کا کوئی بندہ نہیں روک سکتا ٹرسٹ می۔" انداز صلح جو سا تھا۔
" مجھے ڈر لگ رہا۔" وہ ابھی بھی خوفزدہ تھی۔
" یار اف کتنا ڈرتی ہو کچھ نہیں ہوتا چلو نا؟" اس نے اس کا بازو کھینچ کر اسے کرسی سے اٹھایا تھا۔
" اچھا لیکن چادر لینے تو اوپر جانا پڑے گا۔" انبہاج نے کہا تو درار نے منہ بنالیا۔
" اف یہ بھی مسئلہ ہی ہے تم کیا دوپٹے میں نہیں چل سکتی یہ دو ڈھائی گز کی چادر لٹکانا ضروری ہے؟"
" ہاں"
انبہاج نے اسے اچھی خاصی گھوری سے نوازا تھا۔
" اچھا بھئی سوری پر اب یہ چادر لینے تم اوپر گئی تو سب کو پتہ چل جائے گا نیا عذاب کھڑا ہوجائے گا۔"
وہ ایک پل میں جھنجھلا گیا تھا۔
" خان جی آپ کی کافی!"
درخنے کافی لے کر اس کے سامنے آچکی تھی اور اب واپس مڑ کر جانے لگی تھی جب درار نے اسے مخاطب کیا تھا۔
" سنو درخنے جاکر نا ہمارے روم سے اپنی بی بی کی شال لے کر آؤ جلدی اور اپنا یہ جو منہ ہے نا اسے بند رکھنا۔" اس نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔
" جی خان جی جو حکم۔"
وہ چلی گئی اور انبہاج حیرت سے اس دھوپ چھاؤں سے بندے کو دیکھ رہی تھی کچھ ہی دیر میں درخنے اس کی سیاہ شال لے کر آگئی انبہاج نے شال اوڑھی اور دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے درار کی ہیلکس تک آگئے۔ درار نے چوکیدار سے گیٹ کھولنے کا کہا اور ساتھ میں کسی کو نہ بتانے کی تلقین بھی کی پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا انبہاج پہلےسے ہی پسنجر سیٹ پر بیٹھ چکی تھی درار نے ہیلکس سٹارٹ کی اور حویلی کا آہنی گیٹ عبور کرگیا۔
تیرا ساتھ مجھے تو ہمشہ درکار تھا
ان راہوں پر تو مجھے چلنا ہی تھا
تجھ بن کیسے کٹی تھی زندگی
تیرے سنگ بیٹھ کر تجھے یہ بتانا تھا
میری چاہتوں کا سلسلہ بہت وسیع ہے
اب بس یہ یقین تجھے دلانا تھا
میں تیرے بن رہ نہیں پاونگی
اپنے لفظوں کو ثابت کرکے تجھے دکھانا تھا
ایمن خان
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
زکوان ہاوس میں گویا خوشی نے اپنے پر پھیلا لیے تھے ہر طرف خوشی ہی خوشی تھی وہ اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جب وہ فارغ ہوکر اندر داخل ہوا تھا اس نے اس کو لیٹے ہوئے دیکھا تو مسکرا اٹھا اسے آج میسہ بے حد خوبصورت لگی تھی وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بیڈ پر بیٹھ گیا اس نے میسہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما۔
" کیسی طبیعت ہے اب تمہاری؟"
اس نے اس سے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھا تھا لیکن میسہ نے کوئی جواب دینے کی بجائے منہ ادھر ہی رکھا تھا اسے زکوان سے اس صورتحال میں سخت شرم آرہی تھی۔
" یار اب کیا تم میری طرف دیکھو گی بھی نہیں؟"
وہ اس کا منہ اپنی طرف کرکے کہہ رہا تھا میسہ نے نظریں نیچے جھکا لی تھیں۔
" او مئی گوڈ آر یو بلشنگ مسز زکوان؟"
وہ اب ہنستے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
" پلیز تنگ مت کریں مجھے آپ۔"
وہ جھنجھلا کر اس سے کہہ رہی تھی۔
" اچھا سوری نہیں کرتا اٹھ کر بیٹھو مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔"
اس نے اسے سہارا دے کر اٹھنے میں مدد دی۔
" کیا بتانا ہے آپ نے؟"میسہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
" سب سے پہلے تو آئی ایم رئیلی سوری میرے اٹیٹیوڈ کے لیے میں کبھی کبھی تم سے روڈ ہوگیا لیکن موسٹلی میں چاہ کر بھی تم سے روڈ نہیں ہو پایا۔" میسہ خاموشی سے اس کو سن رہی تھی اسے اس لمحے اسے سننا اچھا لگ رہا تھا۔
" میں نہیں جانتا تھا کہ میں اتنی جلدی تمہارے آگے ہار جاؤں گا زکوان شیر خان نے زندگی میں کبھی ہارنا نہیں سیکھا ہے لیکن زندگی میں پہلی بار میں نے خود کو بے بس اور ہارا ہوا محسوس کیا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ تم تھی۔"
"تم میری زندگی میں آنے والی وہ نعمت تھی جس کی میں اپنی زندگی میں ہی ناشکری کرتا رہا لیکن مجھے یہ کہنے میں آج نہ تو کوئی عار ہے اور نہ ہی شرم کہ بلاشبہ زکوان شیر خان پورا کا پورا تمہارا ہے اس کا ظاہر بھی تمہارا ہے اور اس کا باطن بھی تمہارا ہے اس میں اب کوئی نہیں آسکتا۔"
وہ اپنی بات ختم کرچکا تھا اب اس نے جواب میں میسہ کی جانب دیکھا تھا جو بالکل خاموش تھی بس اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
" تم رو رہی ہو میسہ لیکن کیوں میں نے کوئی ایسی بات تو نہیں کی جس سے تمہیں رونا آئے؟"
اس نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
" میں بس اس لیے رو رہی تھی کہ اللہ بھی کتنا مہربان ہے نا اپنے بندے پر کبھی کبھی وہ اس کے دل کی باتیں کیسے بغیر کہے ہی جان لیتا ہے کہ میرا یہ بندہ مجھ سے یہ چاہتا ہے اور پھر وہ وہی اس کو دے دیتا ہے جیسے اس نے آپ کو مجھے دیا۔" نم آنکھوں سے اس نے کہا تو زکوان نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
" تو تم کیا مجھے شروع سے چاہتی تھی؟"
زکوان کو اس سے سننے میں مزہ آرہا تھا۔
" ہاں شروع سے بہت محبت کرتی ہوں میں آپ سے جب آپ نے حویلی میں آکر بی بی کا رشتہ مانگا تھا نا تو میرا بہت برا حال تھا پھر بی بی میرے پاس آئی تھیں انہوں نے مجھے سمجھایا تھا۔" میسہ نے آہستگی سے کہا تو زکوان نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔
" کیا سمجھایا تھا؟"
" یہی کہ روایات آپ کو مجھ تک لے آئیں گی لیکن آپ کی زندگی میں اپنا مقام میں نے خود بننا ہے جس قبر میں، میں پاؤں رکھنے والی ہوں اس قبر کو جنت میں نے بنانا ہے آپ کا باطن جیت کر اور دیکھ لیں ابھی آپ نے خود کہا کہ میرا ظاہر اور میرا باطن صرف تمہارا ہے تو میں جیت گئی آج۔"
اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے سر زکوان کے شانے سے ٹکایا تھا۔ زکوان نے اس کا سر سہلاتے ہوئے لب اس کے بالوں پر رکھے تھے۔
" تھینک یو فار ایوری تھنگ یو ڈیڈ فار می تھینک یو فار میکنگ می فادر آئی جسٹ سے میسہ زکوان خان زکوان خان رئیلی لوز یو،یو کمپلیٹ زکوان خان۔"
وہ بول رہا تھا اور میسہ کو اپنے اندر سکون کی لہر اترتی ہوئی محسوس ہورہی تھی بے شک کسی کا صبر کبھی بھی رائیگا نہیں جاتا اور یہ میسہ کو آج اپنے سامنے سمجھ آگیا تھا۔
" اچھا تم ریڈی ہوجاؤ حویلی سے تمہاری مورے،بی بی جان آرہی ہیں صبیح اور یمامہ کے نکاح کی ڈیٹ لینے۔" اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
" اوکے میں تھوڑی دیر میں نیچے آتی ہوں ریڈی ہو کر۔" میسہ نے کہا تو زکوان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" ہاں لیکن آرام سے آنا۔"
" اوکے۔"
وہ باہر چلا گیا جبکہ وہ آئینے کے سامنے چلی گئی اور خود کا عکس آئینے میں دیکھا جہاں زکوان کی محبت کے جگنو چمک رہے تھے۔
" مائی زکوان خان۔"
اس نے اترا کر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر کہا۔ کیونکہ وہ مغرور اور پرکشش مرد اس کا تھا۔ اس لمحے میسہ کو اس کے چہرے پر غرور کی ایک رمق بھی نظر نہیں آئی سب جیسے کہیں پیچھے رہ گیا تھا یہ تو دنیا ہی الگ تھی جس میں وہ تھی زکوان تھا اور ان کی آنے والی خوبصورت زندگی۔
" وہ کپڑے لے کر چینج کرنے چلی گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
" رکو میری بات سنو؟"
مہجب نے لان میں جاتی انتسارہ کو پیچھے سے پکارا تھا۔
" جی بولیں کیا بات ہے؟"
اس نے ابرو اچکا کر اس سے پوچھا تھا۔
" یار کتنی غلط بات ہے کہ اب تم مجھ سے ملتی نہیں ہو۔"
وہ عارضی منہ پھلا کر اس سے کہہ رہا تھا۔
" کیونکہ اب ہماری شادی ہونے والی ہے نا تو ایک ہی دفعہ ملوں گی آپ سے ۔" انتسارہ نے تڑخ کر کہا تھا۔
" کتنی بری ہوگئی ہو تم؟"
مہجب نے اسے مصنوعی غصے سے کہا تھا۔
" آپ بات سمجھیں تو سہی میں کیسے ملوں اب جب گھر میں لالہ اور یمامہ کی شادی کی تیاریاں شروع ہونے والی ہیں۔" انتسارہ نے جھنجھلا کر کہا تو مہجب نے مصنوعی آہ بھری۔
" ان دونوں کی شادی کرارہے ہیں ہم معصوموں کا تو کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔" رونانسے لہجے میں اس نے کہا تو انتسارہ کو ہنسی آگئی۔
" ہمارا خیال بھی بس کرنے ہی والے ہیں آپ اتنی ٹینشن کیوں لیتے ہیں ہر بات کی؟" انتسارہ نے اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔
" بس پتہ نہیں میرا دل کررہا ہے جلدی سے شادی ہوجائے اور تم میری ہوجاؤ۔" دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے مہحب نے کہا تو انتسارہ مسکرا دی۔
" انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا آپ ٹینشن مت لیں اللہ سب بہتر کرے گا۔"
وہ اس سے کہتی پلٹ کر واپس اندر چلی گئی جبکہ وہ وہی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا اسے مسلسل کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا جسے وہ سمجھ نہیں پارہا تھا وہ بس اللہ سے سب بہتر ہونے کی دعا کررہا تھا اس بات سے انجان کہ سب بہتر ہونے کی دعا اس کی قبول کرلی گئی ہے لیکن سب بہتر اللہ نے اپنے انداز میں کرنا تھا۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
وہ سوات کی خوبصورت سڑک پر گاڑی دوڑا رہا تھا جہاں ایک طرف کھائی تھی تو دوسری طرف پہاڑ انبہاج اس کو بہت بار گاڑی ٹھیک طریقے سے چلانے کا کہہ چکی تھی کیونکہ کھائی اتنی گہری تھی کہ اسے خود خوف آرہا تھا۔
" پلیز دھیان سے چلائیں نا دیکھیں کتنا خراب راستہ ہے میں اسی لیے نہیں آرہی تھی لیکن آپ کو پتہ نہیں کونسا نیا نیا سردار بن کر جوش چڑا تھا۔" انبہاج نے خوف سے کہا تو درار نے گہری سانس بھری۔
" یار یہ بات تم پچھلے آدھے گھنٹے میں پندرویں بار کہہ چکی ہو۔ تمہارا شوہر کوئی اتنا کچا ڈرائیور نہیں ہے جو ایک ہیلکس صحیح سے نہ چلا سکے لندن میں لیمن گنی چلائی ہوئی ہے میں نے۔" اس نے فخریہ کالر اکڑائے تھے۔
" مسٹر سردار ویسے کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آپ کس حد تک خود پسند انسان ہیں؟"
وہ کھلے عام اس کی ذات پر بڑے ہی دھڑلے سے تبصرہ کررہی تھی۔
" خود پسند اور میں؟"
اس نے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی طرف اشارہ کیا تھا۔
" جی جی آپ اب آپ پوچھیں گے کہ وہ کیسے تو میں آپ کو بتا دوں کہ وہ ایسے کہ آپ کہتے ہیں لندن میں میرے شوہر کے پیچھے لڑکیاں پاگل تھیں اور وہ ایسے کہ آپ بڑے ہی اچھے ڈرائیور ہیں۔" انبہاج نے اس کی نقل اتارتے ہوئے کہا تو درار نے اسے گھور کر دیکھا۔
" مسز انبہاج آپ زیادہ ہی کچھ اپنے شوہر کے بارے میں نہیں بول رہیں؟"
اس نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے مصنوعی سنجیدگی سے اس سے کہا تھا انبہاج کی قیاس آرائی ایک منٹ میں سمٹی تھی۔
" آپ کو برا لگا ہے میرا آپ کے بارے میں بات کرنا اوکے سوری اب نہیں کروں گی میں۔"
انبہاج نے ایک منٹ میں خاموشی اختیار کی تھی۔
" ارے نہیں یار مجھے بالکل بھی برا نہیں لگا بلکہ مجھے اچھا لگا کہ کسی نے میری اصلاح کی۔"
یہ کیا ہورہا تھا درار سنان خان کو اچھا لگ رہا تھا کہ کوئی اس کی اصلاح کررہا ہے انبہاج تو جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
" اچھا یہ بتاؤ کہاں چلنا ہے تم نے پہلے؟" درار نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔
" سوات بازار۔۔۔ میں نے سنا ہے سوات بازار بہت خوبصورت ہے اور وہاں سے یہاں کے علاقائی کپڑے اور شالز بہت اچھی ملتی۔" اس کے لہجے سے دبا دبا جوش جھلکا تھا۔
" تو چلو پھر سوات بازار ہی چلتے ہیں۔"
اس نے جی پی ایس ان کیا اور سوات بازار کی لوکیشن ڈالی سچ تو یہ تھا کہ اسے بالکل بھی سوات کے راستوں کا اندازہ نہیں تھا۔
گاڑی سیدھی سوات بازار رکی تھی۔ درار اور انبہاج دونوں گاڑی سے اترے تھے اور اندر چلے گئے تھے بازار واقعی ہی از حد خوبصورت تھا رنگا رنگ سوات کے علاقائی ملبوسات کشمیری طرز کی جیولری ،پشمینہ کی بیش قیمتی اور خوبصورت شالز ، کڑھائی والے کرتے اور بیگ کتنا خوبصورت تھا یہ سب اسے بہت اچھا لگ رہا تھا یہاں آکر درار اسے لے کر ایک شاپ میں آیا تھا جہاں بیش قیمتی اور خوبصورت ہر رنگ میں ہر سٹائل میں شال موجود تھی۔
" ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟"
انبہاج نے الجھ کر درار کی جانب دیکھا تھا۔
" ایک منٹ رکو ذرا ابھی پتہ چل جائے گا۔"
اس نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور سیلز مین سے ایک میرون رنگ کی شال نکلوائی۔ شال بے انتہا خوبصورت تھی پلین میرون کلر کی شال جس کے چاروں طرف خوبصورت بلیک کڑھائی ہوئی ہوئی تھی درار کا ارادہ اسے ایک شال لے کر دینے کا تھا۔
" یہ آپ پیک کردیں۔" درار نے سیلز مین سے کہا تو انبہاج نے اس کی جانب دیکھا۔
" یہ لیڈیز شال آپ کس کے لیے لے رہے ہیں؟"
اب کی بار انبہاج نے دانت پیس کر کہا تھا۔
" یار کتنی لیڈیز ہیں جو میری بیوی ہیں تم پاگل ہو یا مجھے دیکھ کر ایکٹنگ کرتی ہو ابویس سی بات ہے تمہارے لیے لے رہا ہوں۔" درار نے جھنجھلا کر کہا تو انبہاج نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
" کیا میرے لیے؟"
انبہاج نے پوری آنکھیں کھول کر اس کو دیکھا تھا۔ بے ساختہ اس نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔ جسے اس کا صبر لگتا تھا پسند آگیا ہے وہ شکر گزار تھی اللہ کی جس نے اس شخص کو اس کے حق میں نرم کیا تھا اس کے دل میں رحم ڈالا تھا۔
" اچھا پھر میں بھی آپ کے لیے کچھ لیتی ہوں۔" انبہاج نے کہا تو درار نے مسکراہٹ دبائی۔
" او تو تم بدلہ چکا رہی ہو؟"
درار نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
" نہیں بدلہ نہیں چکا رہی دوستی کی شرواعت کررہی ہوں۔"
انبہاج نے ایسے ہی روانی میں کہہ دیا۔
" ہمم دوستی یہ دوستی ویسے کب ہوئی ہمارے درمیان؟"
اس نے اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بڑی ہی سنجیدگی سے اس سے پوچھا تھا۔
" چلو نہیں ہوتی تو اب کرلیتے ہیں تو مسٹر سردار درار سنان خان کیا آپ انبہاج صالک خان کے دوست بنیں گے ؟"
اس نے اس کے آگے ہاتھ کرتے ہوئے اس سے جھجھکتے ہوئے پوچھا تھا اس سارے عرصے میں اسے نئے سرے سے درار سے عشق ہوا تھا اور اسے کوئی غم کوئی پچھتاوا نہیں ہورہا تھا وہ پہلے بھی اس کی تھی جب وہ اس کی ذات کی نفی کرتا تھا اب اگر نفی نہیں بھی کرتا تو بھی اسی کی ہے۔
" ہوں مسز انبہاج درار میں سوچ کر جواب دوں گا ٹھیک ہے نا؟"
اسے اس کو تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا۔
" لے بھلا اس میں سوچنے کی کیا بات ہے ایک دوستی ہی کرنی ہے کوئی دنیا فتح نہیں کرنی آپ نے سردار صاحب۔" انبہاج نے چڑ کر کہا تو درار نے ٹھنڈی آہ بھری۔
" یہ میرے سردار بننے سے کیا چڑ ہے تمہیں جو اتنا کھنچ کر مجھے سردار صاحب کہتی ہو تم؟" آنکھیں پھیلا کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا گیا تو انبہاج نے سر جھٹکا۔
" کچھ نہیں ایسے ہی بتائیں دوستی کہ نہیں؟" ہاتھ ہنوز اس کے سامنے تھا۔
" اچھا بھئی ہاں پکی والی دوستی۔"
اس نے اس کا بڑھا ہوا نرم ہاتھ تھام لیا تھا۔
" او ہاں میں آپ کو ایک گڈ نیوز تو دینا بھول ہی گئی۔" انبہاج نے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا۔
" کونسی گڈ نیوز؟"
وہ دونوں اس دوکان سے نکل کر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جارہے تھے۔
" وہ نا اف کیسے بتاؤں؟"
انبہاج کو درار کو میسہ کی پریگننسی کا بتاتے ہوئے بہت شرم آرہی تھی۔
" ایسا کیا ہے جو تم اتنا سوچ رہی ہو۔" درار نے تجسس سے پوچھا تو انبہاج نے خود کو تیار کیا۔
وہ اصل میں میسہ از ایکسپیکٹنگ۔"
اس نے جلدی جلدی روانی میں جملہ بولا تھا۔
" واٹ۔"
" کیا ہوا؟"
" آں نہیں کچھ نہیں چلو چلتے ہیں آگے۔"
درار کو زکوان کے دوگلے پن پر ازحد غصہ آرہا تھا کیا تھا وہ انسان درار کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس خبر پر کس طرح کا ردِ عمل دکھائے۔ خیر وہ انبہاج کو کچھ بھی ظاہر نہیں کرانا چاہتا تھا انبہاج خوش تھی۔اور فی الحال یہ درار کے لیے کافی تھا اسے انبہاج کو جاننا اور سمجھنا اچھا لگ رہا تھا وہ اس کے بارے میں اور جاننا چاہتا تھا اس لیے وہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا اسے پتہ تھا آج مورے اور بی بی جان صبیح کی شادی کی ڈیٹ لینے گئے ہیں تو وہ انبہاج کو کچھ شاپنگ کرانا چاہتا تھا خود اپنی مرضی سے برائٹ کلرز کی درار کو اس پر برائٹ کلر اچھے لگتے تھے اس لیے اس نے اس کے لیے میرون شال لی تھی کیونکہ میرون کلر انبہاج کو بہت سوٹ کرتا تھا۔اس کے بعد بھی اس نے اس کو بہت سی شاپنگ کرائی اور پھر دونوں شام سے پہلے حویلی واپس آگئے تھے شکر تھا کہ کسی کو پتہ نہیں چلا تھا ورنہ ایک اور نئی مصیبت پڑ جانی تھی۔
***********************
وہ کچھ ہی دیر میں چینج کرکے نیچے آئی تو مورے،چھوٹی بیگم اور بی بی جان موجود تھیں۔
" پاخیراغلے بی بی جان!"
اس نے پہلے بی بی جان کو سلام کیا تھا۔
" جیتا رہ مارا بچہ سدا خوش رہ مبارک ہو تم کو اتنا اچھا خبر سنایا تم نے ہم کو۔"
بی بی جان نے اپنی پوٹلی سے ہزار ہزار کے چند نوٹ نکال کر اس پر سے وارے تھے اور پاس کھڑی ہوئی نوری کو پکڑا دیے تھے۔
" بہت شکریہ بی بی جان کیسی ہیں آپ؟"
میسہ نے بہت محبت سے ان سے حال پوچھا اور پھر وہ اپنی مورے اور چچی جان کو ملی تھی۔
" شکر ہے اللہ کا ہم بالکل ٹھیک ہے تم اپنا خیال رکھنا بہت اور احتیاط کرنا اے تم ہمارا بچی کا خیال رکھنا۔"
بی بی جان نے زکوان کو ایک دھپ رسید کرتے ہوئے کہا تھا۔
" جی بی بی جان جو حکم آپ کا پورا خیال رکھوں گا۔" زکوان نے اپنا شانہ سہلاتے ہوئے کہا تھا۔
" تمہارا مورے کہاں ہے اس کو ادھر بلاؤ ہم اس کو ملنے کے واسطے آیا ہے۔" بی بی جان کے کہنے پر اس نے ایک نظر نوری کی جانب دیکھا تھا۔
" جی آپ بیٹھیں نوری تم مورے کو دیکھو۔"
" جی خان جی۔"
وہ کہہ کر چلی گئی اور زکوان میسہ کے برابر بیٹھ گیا۔
" ہمارا پوتی کو کوئی تکلیف نہیں ہونا چاہئیے ورنہ تم پھر جانتا ہے ہم کو۔" بی بی جان کو نجانے زکوان سے کیا خطرہ تھا جو وہ بار بار ایک ہی بات کہے جارہی تھیں۔
" بی بی جان پلیز!!"
میسہ نے بی بی جان کو خاموش کرانے کی کوشش کی تھی مگر وہ تو زکوان پر برس ہی رہی تھیں۔ آج زکوان کو بی بی جان کے اتنی فکر کرنے پر ہنسی تو بہت آرہی تھی مگر ضبط سے بیٹھا رہا تھا۔
" بچے مبارک ہو تمہیں بہت بہت۔"
اب کی بار پیر بیگم نے نرمی سے اس سے کہا تھا۔
" بہت شکریہ پیر بیگم آپ کو بھی مبارک ہو۔"
اس نے بھی مسکرا کر کہا تھا پیر بیگم کو میسہ کو خوش دیکھ کر قدرے اطمینان ہوا تھا ورنہ وہ میسہ کی وجہ سے فکرمند ہی رہتی تھیں۔
کچھ ہی دیر میں ردوا بیگم آتی ہوئی دکھائی دیں سوجھی ہوئی آنکھ جس کے پاس نیل تھا ہونٹ کے پاس بھی زخم کا نشان سب انہیں دیکھ کر بے حد پریشان ہوئے تھے۔
" ردوا یہ کیا ہوا ہے آپ کو؟"
راحمہ بانو نے حیرت سے ان سے پوچھا تھا۔
" ارے کچھ نہیں چھوٹی بیگم میں سیڑھیوں سے گرگئی تھی۔"
ان کے جھوٹ پر زکوان نے اپنے لب بھینچے تھے جبکہ میسہ نے زکوان کا ہاتھ دبایا تھا جیسے اسے ریلیکس رہنے کا کہہ رہی ہو۔
" سنو ردوا ہم یہاں نکاح کا تاریخ لینے کے واسطے آیا ہے بولو پھر کیا سوچا تم نے؟"
بی بی جان نے ان کی چوٹیں یکسر نظرانداز کرکے سیدھا مدعے کی بات کی تھی کیونکہ اب ان کے پاس ان چوٹوں پر کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
" بی بی جان جیسے آپ کو مناسب لگے۔"
انہوں نے بات بی بی جان پر ہی ڈال دی تھی۔
" تم شیر خان سے پوچھ لینا۔" بی بی جان کے کہنء پر زکوان فوری سے بیشتر بولا تھا۔
" ان سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بی بی جان آپ ایک ہفتے بعد آکر یمامہ کو رخصت کرا کر لیجائیے گا۔"
جب وہ بولا تو اس کے لہجے میں بے پناہ سختی تھی اتنی کہ وہاں بیٹھے افراد میں سے کسی کی بھی جرات نہیں ہوئی تھی کہ اس سے وجہ پوچھ لے۔
" ٹھیک ہے پھر ہم ایک ہفتے بعد اپنا امانت لے جائے گا" بی بی جان جھٹ راضی ہوئی تھیں۔
" جی بہت بہتر بی بی جان۔"
زکوان نے نوری کو چائے لگانے کا کہا تو سب چائے پینے لگے مگر زکوان کے چہرے پر اس پورے وقت کے دوران از حد سنجیدگی تھی وہ خاموش بیٹھا رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں یمامہ بھی ان کے پاس آگئی تو بی بی جان نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر شگن کے پیسے رکھے۔ وہ حیران پریشان ہوکر یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی مگر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔
" بی بی جان یہ پیسے کیوں؟''
اس کی بات پر بی بی جان مسکرائی تھیں۔
" پگلی شگن کے پیسے ہیں ایک ہفتے بعد ہمارا پوتا آئے گا تیری بارات لے کر۔"
بی بی جان سب ایسے ہی کہہ دیتی تھیں اور یمامہ کو حویلی کی قید میں جانے کے نام سے ہی عجیب سی وحشت اور خوف محسوس ہورہا تھا۔
" چلو اب ہم چلتا ہے رات کو کوئی جرگے کا فیصلہ بھی ہونا تھا قبیلے کا پتہ نہیں اس درار نے کیا فیصلہ کیا ہوگا۔"
بی بی جان اپنی ہی دھن میں بولی جارہی تھیں جبکہ درار کے فیصلہ کرنے پر زکوان از حد حیران ہوا تھا۔
" ایک منٹ بی بی جان یہ درار نے جرگے کا فیصلہ کیوں کرنا تھا؟"
اس نے بڑے تحمل سے ان سے پوچھا تھا۔
" کیونکہ مارا وہ تمہارا دار جی نے سزا دے دیا اس کو سردار بنا دیا قبیلے کا وہ تو بیچارہ پاگل ہی ہوگیا۔"
بس زکوان پر تو حیرت کا پہاڑ ہی ٹوٹ گیا تھا۔ درار کو سردار بنا دیا دار جی نے پورے قبیلے کا سردار وہ بس سوچ کر ہی رہ گیا درار سنان خان اور پورے قبیلے کا مالک یہ کیسے ہوسکتا۔
" دار جی ناانصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ویسے اور آپ دن بدن ہر حد کو یونہی پار کیے جارہے ہیں وہ لندن پلٹ انگریز کی اولاد سردار بننے کے قابل تھا جو اسے سردار بنا ڈالا آپ نے یہ بس میسہ کی وجہ سے میں درار کا لحاظ کررہا ہوں کہ اسے کچھ برا نہ لگے لیکن اب تو معاملہ خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے کچھ سوچنا پڑے گا مجھے ورنہ یہ تو مجھے سڑک پر لے آئے گا کمینہ کہیں کا شٹ۔"
اس نے زور سے اپنی ہتھیلی پر مکا مارا تھا کیونکہ وہ اب وہاں سے نکل کر لان میں آچکا تھا اور شدید غصے میں بھی تھا۔ پر اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ خود کو کنٹرول کیسے کرے آخر صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی اور حالات اس کے ہاتھ سے نکلتے جارہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ درار کی دلائی ہوئی ساری چیزیں سمیٹ رہی تھی ایک عجیب سی تمانیت ایک عجیب سا سکون اس کے اندر رقص کررہا تھا جس انسان کی صرف تھوڑی سی توجہ وہ حاصل کرنا چاہتی تھی وہ انسان اس کی طرف توجہ کررہا تھا تو خوشی تو اسے ہونی ہی تھی وہ آج بے حد خوش تھی سارا سامان سمیٹ کر اس نے الماری میں رکھا وہ دل سے دعا گو تھی کہ آج جس جرگے کا فیصلہ درار نے کرنا تھا وہ انصاف پر مبنی ہو۔
**************************
وہ حویلی کے لان میں خاندانی پگڑی سر پر سجائے سردار کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے دونوں طرف کرسیاں لگی ہوئی تھیں اس کے ساتھ دار جی بیٹھے ہوئے تھے حویلی کے سب مرد اس وقت جرگے میں موجود تھے وہ سب بھی اس کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے اس کے دونوں طرف کرسیوں پر مختلف لوگ بیٹھے ہوئے تھے ایک طرف اس مظلوم لڑکی کے گھر والے تھے تو دوسری طرف اس لڑکے کے لواحقین تھے جس نے اس لڑکی کی عزت خراب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن لڑکی نے ہمت کرکے اس درندے سے خود کو بچا لیا تھا اور وہ پکڑا بھی گیا تھا اب وہ جرگے میں موجود تھا اور دار جی نے درار کو روایات کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا تھا آخر کو سردار بنایا تھا اسے آج اس نے سردار بن کر پہلا فیصلہ کرنا تھا وہ انتہائی نروس تھا اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر وہ کیا فیصلہ کرے آج اسے صحیح معنوں میں احساس ہورہا تھا کہ سردار بننا کس قدر اذیت ناک ہے۔ دار جی کی جگہ پر آج وہ خود تھا تو روایات کے بہت سے بھیانک روپ اس کے سامنے آرہے تھے۔
دونوں طرف سے بات کی جاچکی تھی اب صرف سب اس کی طرف متوجہ تھے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے ناچار اسے بولنا ہی پڑا۔
" ہم نے دونوں طرف کی بات سنی ہے صرف اس گھر کی ہی نہیں بلکہ ہر گھر کی بہو بیٹی ہماری یعنی قبیلے کی عزت ہے اور اگر میرے قبیلے کی عزت پر کوئی میلی نگاہ سے دیکھے تو میں اس کی آنکھیں نکالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کروں گا اس لیے اس جرگے اور قبیلے کا سردار ہونے کے ناطے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ اس بچی کا مجرم ہے اگر یہ آج اس کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے تو کل کو کسی کے ساتھ بھی کر سکتا ہے اس مجرم کی سزا کا فیصلہ یہ بچی خود کرے گی۔"
درار نے اپنی بات ختم کردی تھی لیکن دار جی نے الجھن اور غصے سے اس کی جانب دیکھا تھا لیکن وہ اس لمحے از حد سنجیدہ تھا اس نے بالکل بھی کسی کی جانب نہیں دیکھا تھا اس نے صرف وہی فیصلہ کیا جو اسے بہتر لگا۔
" ہاں تو بچے بولو تم کیا سزا دیتی ہو اسے؟"
درار نے از حد نرمی سے اس سے پوچھا تھا کیونکہ وہ بے حد ڈری ہوئی تھی۔
" می۔۔میں اسے سزا دوں گی۔"
لڑکی کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔
" ہاں اس کا فیصلہ یہاں میں کیا کوئی بھی ہو تو نہیں کرسکتا کیونکہ یہ نہ مجھ پر بیتی ہے اور نہ یہاں موجود کسی اور نفس پر اس لیے اس کی سزا کا تعین تم خود کرو گی اور مجھ پر بھروسہ رکھو تم کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہو یہاں موجود کوئی بھی نفس نہ تو تمہیں کچھ کہے گا اور نہ ہی اعتراض کرے گا تو تمہیں ڈرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ ازحد نرمی سے اس سے مخاطب تھا جس سے لڑکی کو ڈھارس ملی تھی۔
" اسے سنگسار کرنا چاہئیے ایک زانی کی یہی سزا ہوتی ہے تاکہ یہ آئیندہ کسی لڑکی کی طرف دیکھنے کی جرات نہ کرسکے۔"
لڑکی نے بڑی ہی بہادری اور نفرت سے اس کی جانب دیکھ کر کہا تھا۔
" ٹھیک ہے اسے یہی سزا دی جاتی ہے۔"
وہ کہہ کر اپنا فیصلہ سنا کر وہاں سے اٹھ کر چلاگیا تھا جبکہ وہاں بیٹھے ہر نفس کے لیے حیرت کا مقام تھا کہ اس قبیلے کے سردار نے ایک عورت کو مرد کو سزا سنانے کا حق دیا تھا کیوں آخر وہاں بیٹھے لوگوں میں مختلف چہم گوئیاں ہورہی تھی اور سردار اشمل خان کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔ انہیں صحیح معنوں میں تھوڑے سے پچھتاوے نے گھیرا تھا کیونکہ انہیں قبیلے میں اپنی عزت خطرے میں نظر آرہی تھی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اس لیے وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے سوائے اس کے کہ درار کے کیے گئے فیصلوں کے آگے سر جھکائیں اور نا چاہتے ہوئے بھی وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور ان کے بقول اشمل خان کبھی غلط فیصلے نہیں کرتا لیکن حقیقت ان پر جلد ہی کھلنے والی تھی اور انہیں اپنے ہر فیصلے کی حقیقت بھی پتہ چلنے والی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ فیصلہ کرکے اندر سیدھا اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ اپنے کیے گئے فیصلے سے ازحد مطمئن تھا۔ انبہاج بیڈ پر بیٹھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھی اسے دیکھ کر کتاب بند کرکے اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" کیسا رہا فیصلہ؟"
اس نے چھوٹتے ہی سوال پوچھ ڈالا تھا۔
" میں نے اپنے طور پر ایک بہترین فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے باقی میں نہیں جانتا کہ کیا صحیح تھا یا غلط۔"
اس نے اس کی بات کا سرسری سا جواب دیا تھا۔
" اگر آپ کو لگا ہے کہ آپ نے درست فیصلہ کیا ہے تو وہ بلاشبہ ایک درست فیصلہ ہوگا آپ اپنے ہر فیصلے میں مجھے اپنے ساتھ پائیں گئے۔"
انبہاج نے بے حد نرمی سے اس کے ہاتھ پر اپنا رکھا تھا۔
" ایک بات پوچھوں تم سے؟"
درار نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں نکالا تھا۔
" ہوں۔"
اس نے اسی دھن میں سامنے دیکھتے ہوئے اسے سوال پوچھنے کی اجازت دی تھی۔
" تم میرا ساتھ کیوں دو گی ؟"
اس نے پتہ نہیں کیوں اس سے یہ سوال کیا تھا۔
" کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرسکتے۔"
درار اس کے جواب پر ایک دم چونکا تھا۔
" کیوں ایسا کہتا ہے تمہارا دل؟" درار کے لہجے میں حیرت سی حیرت تھی۔
" کیونکہ اسے عادت ہے آپ کی ہر بات پر کن کہنے کی اس لیے یہ کبھی بھی آپ کی کہی بات کی نافرمانی نہیں کرے گا۔"
اس نے بہت ٹھہر ٹھہر کر یہ جملے ادا کیے تھے اور درار اس کے جواب پر سن تھا یہ کیا کہہ رہی تھی وہ تو کیا اس کے دل میں بھی درار کے لیے کوئی نرم جذبات تھے۔ درار کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ انبہاج کی ذات اسے دن بدن الجھا رہی تھی اور وہ اسکی ذات کے دھاگوں میں الجھتا جارہا تھا اس کا دل اس کی نیک نیتی کی گواہی ہر پل دیتا تھا لیکن دماغ کچھ اور کہتا تھا وہ دل و دماغ کی جنگ میں الجھ گیا تھا ایک طرف انبہاج تھی جس کی طرف اس کے قدم خودبخود اٹھ رہے تھے تو دوسری طرف دماغ میں پلنے والا وہ شک تھا جو اس کے ذہن میں پر پھیلا کر بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ اس بات سے انجان تھا کہ کبھی کبھی شک کے ساتھ رہنا اور انا میں رہنا کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
زکوان ہاوس اور خان حویلی دونوں میں ہی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں شادی کے قریب آتے دن یمامہ کی ذات کو اور بھی مرجھارہے تھے جس طرح کی شادیاں اور محبتیں اس نے دیکھ لی تھیں اپنے خاندان میں وہ اس کا دم گھوٹنے کے لیے کافی تھیں۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ نزدیک آتے دنوں کی مدت کو روکے کیسے اسے صبیح پسند تھا لیکن وہ اس سے محبت کرتی تھی یہ اسے معلوم نہیں تھا کیونکہ وہ یہ بات مانتی نہیں تھی اسے بس اس قید سے خوف آرہا تھا جو حویلی میں جانے کے بعد اس کا مقدر بننی تھی۔
********************
جیسے حویلی کی باقی عورتیں برداشت کررہی تھیں صرف انبہاج حویلی کی ایسی عورت تھی جو شاید قید میں نہیں تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ درار سنان خان کی بیوی تھی جسے خاندانی روایات سے ٹکر لینا آتی تھی فی الوقت حویلی کی ہر عورت کی خواہش تھی کہ اس کا شوہر درار جیسا ہو جو اس کے آگے ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑا ہوسکے اسے حویلی کے گھٹن ذدہ ماحول سے آزادی کی سانس تک لے کر جائے کیونکہ یہ سچ تھا کہ پچھلے پینتیس سال میں درار سنان خان جیسا مرد خان حویلی کو نصیب نہیں ہوا تھا جو عورت کو اس کا مقام دینا جانتا تھا وہ الگ بات تھی کہ وہ خود ابھی اپنی بیوی کے معاملے میں کچھ الجھنوں کا شکار تھا اور اس کی وہ الجھنیں بھی جلد ہی سلجھ جانی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
" ارے کیا بات ہے تو،تو سب سے صحیح رہ گیا ہے تیری شادی ہورہی ہے ایک ہفتے بعد اور ایک میں ہوں جسے سب سے زیادہ شادی کا شوق ہورہا تھا وہ ابھی بھی ویسے کا ویسے ہی بیٹھا ہوا ہے۔"
مہجب آہ وزاریاں کرتا ہوا صبیح کے کمرے میں آیا تھا۔
" ایک تو میں نے تیرے جیسا خود غرض بندہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہر وقت اپنے بارے میں ہی سوچنا تو۔"
اس نے گھور کر مہجب کی فرسودہ شکل دیکھی تھی۔
" تو کیا کروں کیا ہوجاتا اگر تیرے ساتھ ساتھ میرا بھی نکاح پڑھوا دیتے۔" اس کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔
" اپنی الگ شادی کروانا تو نے ضرور میری شادی میں کودنا ہے۔" صبیح نے اسے گھور کر کہا تو مہحب نے منہ کھول کر اس کی جانب دیکھا۔
" اب خود غرضی سے کون سوچ رہا ہے؟"
مہجب نے ایک ابرو اچکا کر صبیح کی جانب دیکھا تھا۔
" اچھا نا یار سوری مجھے آگے ہی بہت ٹینشن ہورہی ہے۔" اس کے کندھے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تو مہجب نے ایک اچپٹی نگاہ اس پر ڈالی۔
" ٹینشن کس بات کی ہورہی ہے خوش ہو بیٹا شادی ہے آپ کی۔"
مہجب اس کے پاس بیٹھ گیا۔
" یار میں ادھام لالہ جیسا شوہر نہیں بننا چاہتا۔"
اس نے بہت آہستہ سے اپنی ٹینشن بتائی تھی۔
" کیا مطلب ہے اس بات کا؟"
مہجب نے کچھ حیرت اور کچھ الجھ کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
" یار میں ایسا شوہر نہیں بننا چاہتا جو اپنی بیوی کے لیے کھڑا نہ ہوسکے اسے گھٹ گھٹ کر اس گھٹن ذدہ ماحول میں جینے کے لیے چھوڑ دے مجھے درار لالہ جیسا شوہر بننا ہے جو کبھی بھی ان فضول روایتوں سے ڈرتے نہیں ہیں بلکہ جب بھی بی بی کی بات آتی ہے وہ ان کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں میں بھی ہمشہ یمامہ کے آگے کھڑا رہنا چاہتا ہوں تاکہ وہ یہ نہ سوچے کہ وہ ایک قید خانے میں آگئی ہے۔"
وہ کہہ کر خاموش ہوگیا تھا۔
" تو،تو خود اس کے لیے درار لالہ جیسا شوہر بنے گا نا میں نہ بنا تو تیری بہن نے ویسے ہی مجھے بنا دینا ہے۔"
مہجب بہت آہستہ سے بولا تھا مگر چونکہ وہ صبیح کے قریب تھا اس لیے اس نے سن لیا تھا۔
" کیا مطلب؟" اس نے ناسمجھی سے دیکھا تو مہجب نے ہاتھ مارا۔
" ابے کچھ نہیں یار اب تیری شادی آرہی ہے مجھے شاپنگ کرنی پڑے گی تو چلو میرے ساتھ؟"
پھر دونوں ساتھ چلتے ہوئے اس کے کمرے سے باہر آگئے تھے ان کا ارادہ اب مارکیٹ جانے کا تھا۔
**************************

junoon se ishq ki rah completed✔Donde viven las historias. Descúbrelo ahora