قسط نمبر 7

3.7K 145 7
                                    


انتسارہ صبیح کے کمرے سے باہر نکلی تو اس نے بھی خط پڑھنا شروع کیا خط پڑھ کر اس نے ایک طرف رکھا اور مسکرایا اسے یہ جان کر بالکل بھی برا نہیں لگا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی۔ دو لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے محبت ضروری شرط تو نہیں ہوتی یہ صبیح کا ذاتی خیال تھا دو لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی عزت اور ساتھ کا مان اور قدر بہت ہوتی ہے اور جہاں تک بات رہی محبت کی تو جب ساتھ رہنا شروع کرو تو محبت ہو ہی جاتی ہے ابھی تو اس کے لیے یہی خوشی بہت تھی کہ اس نے اس کے علاوہ اور کسی کو اپنے ساتھ نہیں سوچا اسے انتظار تھا اس وقت کا جب وہ اس سے اسکی محبت کا اقرار کرے گی۔
*************************
زکوان نے کھانا کھایا اور باہر لان میں آگیا اسکا دل بہت بوجھل اور اداس تھا اور وجہ کوئی اور نہیں یمامہ تھی اس کی بہن کیوں اس سے بات نہیں کررہی یہ بات اسے پریشان کررہی تھی وہ جب چکر لگا کر تھک گیا تو لان میں ایک طرف رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
میسہ کافی کے دو مگ لے کر باہر ہی آگئی دیکھا تو وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندے بیٹھا تھا میسہ اس کے پاس چلی گئی۔
" کافی!!۔" اس نے کپ اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا تو زکوان نے آنکھیں کھول دیں۔
" ہوں تھینک یو۔"
اس نے مسکرا کر اس سے کافی کا مگ تھام لیا میسہ اپنا مگ لے کر اندر جانے ہی والی تھی جب اس نے اسے مخاطب کرلیا۔
"میسہ!" اس کا لہجہ بے حد مدہم تھا میسہ کے بڑھتے قدم تھمے تھے۔
" جی "
وہ مڑی اور اس نے جواب دیا تھا۔
" بیٹھ جاؤ میرے پاس۔"
اس نے ایسے ہی ٹیک لگائے اسے اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا۔
" وہ پھوپھی جان اکیلی بیٹھی ہیں اندر۔" میسہ نے اندر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
" کوئی بات نہیں تمہاری پھوپھی جان بالکل بھی برا نہیں مانیں گی اگر تم اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھو گی بلکہ انہیں خوشی ہی ہوگی۔"
آخر میں وہ ذرا شرارتی لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا میسہ ہلکا سا مسکرائی اور اس کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔ دونوں کے کافی کے بھاپ اڑاتے ہوئے مگ میز پر رکھے ہوئے تھے۔ میسہ میز پر پڑے پوئے کافی کے مگ کے منہ پر اپنی انگلی دائرے کی شکل میں گھما رہی تھی اور وہ اسے دیکھ رہا تھا کیا تھا وہ شخص کل تک کسی اور کی محبت کا دعوع کرنے والا آج اپنی بیوی کے لیے الگ جذبات محسوس کررہا تھا جس سے وہ خود بھی انجان تھا اسے بس اسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی اس کے ناک کی نوزپن زکوان کو پاگل کردیتی تھی اسکا دل چاہتا تھا وہ بس یک ٹک اس نوزپن والے چہرے کو دیکھے جسے دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا یہ بنی ہی اس چہرے کے لیے ہے۔
" ایک بات پوچھوں تم سے؟"
وہ کافی دیر اسے خاموشی سے دیکھتا رہا اور پھر کسی خیال کے تحت اسے مخاطب کرلیا۔
" جی پوچھیں۔" میسہ اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" جب آپ سے کوئی بہت اپنا ناراض ہوجائے کسی بات پر اور آپ کو اپنی غلطی بھی نہ پتہ ہو تو کیا کرنا چاہئیے؟"
میسہ نے اس کے سوال پر حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
" اسے منانے کی کوشش کرنی چاہئیے یا اسے کہنا چائیے کہ میری غلطی بتاؤ۔" میسہ نے سیدھا سا جواب دیا تھا۔
" کیا اس طرح کہنے سے وہ غلطی بتادے گا؟" زکوان کے چہرے پر معصومیت تھی۔
" ہاں بتا دے گا آپ کو پتہ ہے یہ جو ہمارے بہت اپنے اور بہت پیارے لوگ ہوتے ہیں نا یہ ہم سے کب ناراض ہوتے ہیں؟"
اس نے سوال پوچھ کر زکوان کی جانب دیکھا اور مگ سے ایک کافی کا گھونٹ بھرا۔
" نہیں۔" اس نے انتہائی معصومانہ طریقے سے نفی میں سر ہلایا۔
" تب جب ہماری کسی حرکت سے انہیں بے انتہا تکلیف ہوئی ہو اتنی کہ وہ ان کے لیے برداشت کرنا مشکل ہورہا ہو اور جب کوئی بات برداشت سے باہر ہوتی ہے نا تو پھر انسان منہ موڑنے والے دوراہے پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی آپ سے بات نہیں کرتا کیونکہ اسے آپ کی وہ غلطی آپ کو دیکھ کر بڑی شدت سے یاد آتی ہے۔" میسہ نے آہستہ آہستہ کہا تھا۔
" تو ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟" زکوان کا لہجہ بے چین تھا۔
" جا کر یمامہ سے ایکسکیوز کرنا چاہئیے۔"
اس نے یہ بات کرتے ہوئے بے اختیار اسکا گال کھنچا تھا کیونکہ وہ ساری گفتگو انتہائی معصومیت سے سن رہا تھا۔
" اف یہ کیا ہے تمیز نہیں ہے تمہیں؟" زکوان نے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
" نہیں ہے اصل میں آپ اتبے آرام سے بیٹھے ہوئے بڑے کیوٹ لگ رہے تھے مجھے ورنہ تو ہر وقت غصے سے منہ پھولا رہتا ہے۔"
وہ کہہ کر تیزی سے اندر کو بھاگی تھی کہ کہیں دوبارہ سے پرانے موڈ میں واپس نہ آجائے اس کے جانے کے بعد زکوان مسکرایا اور کافی پینے لگا۔
*************************
آج صبح سے ہی اس گھر میں تیاریاں چل رہی تھیں خوبصورت جوڑے، مٹھائیاں،پھل اور بھی بہت سے تھال تیار کروائے گئے تھے جس میں خشک میوہ جات بھی شامل تھے تمام تھال باہر لاونج میں رکھے گئے تھے زوہیب خان اپنی سڈی سے باہر آئے اور ان ساری تیاریوں کا جائزہ لیا فودیل ابھی تک آفس سے واپس نہیں آیا تھا۔
" ہاں تو بھئی ساری تیاریاں مکمل ہیں نا دیکھنا کسی چیز کی کوئی کمی نہیں رہنی چاہئیے۔" انہوں نے ساری چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے ملازم سے کہا تھا۔
" جی خان جی ہر چیز مکمل ہے میں نے خود ساری چیزیں اپنی زیر نگرانی مکمل کرائی ہیں۔"
ان کے ایک ملازم نے مودبانہ انداز میں ان سے کہا۔
" شاباش کریم مجھے تم سے یہی امید تھی اب تم دیکھنا اور آج کا دن یاد رکھ لینا سردار اشمل خان کو جھٹکا ملنے والا ہے بہت بڑا جھٹکا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔" ان کے چہرے پر ایک چمکدار مسکراہٹ تھی۔
" جی خان جی۔" ملازم نے سر ہلایا تھا۔
" یہ فودیل ابھی آیا نہیں ہے کیا؟" انہوں نے ماتھے پر تیوری لیے اس سے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
" نہیں خان جی ابھی تک نہیں آئے۔" ملازم تابعداری سے بولا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔
" ٹھیک ہے تم یہ سامان گاڑی میں رکھواؤ اور باحفاظت اس کے مقام تک پہنچا دو۔" اندر کی جانب بڑھتے ہوئے انہوں نے اپنا آخری حکم دیا تھا۔
" جی بہت بہتر۔"
وہ کہہ کر سامان گاڑی میں رکھوانے چلا گیا جبکہ وہ اندر آکر اپنا اگلا لاحہ عمل طے کرنے لگے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خان حویلی میں درار کے جانے اور زوہیب خان کے خط کے آنے کے بعد سے ایک سکوت کا عالم تھا وہ رونق، وہ چہل پہل کہیں غائب سی ہوگئی تھی ابھی بھی دار جی اپنے کمرے میں تھے بی بی جان اور باقی عورتیں زنان خانے میں پیر خان اور چھوٹے خان مردان خانے میں صبیح یونیورسٹی ادھام آفس اور مہجب اپنے کمرے میں تھا۔انتسارہ بھی میسہ کی طرف سے آنے کے بعد سوگئی تھی فی الحال وہ کچھ بھی ایسا نہیں سوچنا چاہتی تھی کیونکہ اس نے کافی حد تک خود کو دلاسہ دے لیا تھا کہ یہ کسی نے اس کے ساتھ انتہائی گھٹیا مذاق کیا ہے لیکن وہ بے وقوف تھی جو یہ سمجھ رہی تھی اسے نہیں معلوم تھا اس کی یہ غلط فہمی آج ہی ختم ہوجائے گی۔
*********************
گاڑی میں کافی دیر مکمل خاموشی چھائی رہی تو درار نے آگے بڑھ کر سڈی پلیر آن کردیا۔ گاڑی کی پرسوز خاموشی میں خاموشی گانا گونج اٹھا گانا اتفاق سے دونوں کی صورتحال کے مطابق ہی تھا۔ دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
" خاموشیاں آواز ہیں تم سننے تو آؤ کبھی
چھو کر تمہیں کھل جائی گی گھر ان کو بلاؤ کبھی
بے قرار ہیں بات کرنے کو کہنے دو انکو ذرا
خاموشیاں تیری میری خاموشیاں۔۔"
درار نے ہاتھ آگے بڑھا کر سڈی پیلر ہی آف کردیا وہ فیصل مسجد کے سامنے کھڑے تھے درار نے گاڑی پارک کی تو دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے۔ فیصل مسجد سے ہوکر درار اسے دامنِ کوہ لے کر گیا اور پھر اسلام آباد کے سارے چھوٹے بڑے مقامات اسے دکھانے کے بعد دونوں اس ٹھنڈ میں ایک خوبصورت مقام پر چائے پینے آگئے۔ موسم بہت اچھا تھا ٹھنڈی ہوا موڈ پر خوشگوار اثر کر رہی تھی۔
" تم واقعی ہی کبھی حویلی سے باہر نہیں نکلی تھی۔"
اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" نہیں بس حویلی سے یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے حویلی اس کے علاوہ میں کبھی کہیں نہیں گئی ہاں یونیورسٹی کے ساتھ ایک درگاہ ہے وہاں میں اکثر یونیورسٹی کے بعد دعا مانگنے جایا کرتی تھی بہت سکون ہوتا تھا وہاں۔" انبہاج نے روانی میں کہا تو درار نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
" واٹ؟ درگاہ آر یو سیریس یو ار گوئنگ ٹو درگاہ فار پرے آئی کانٹ بلیو۔"
وہ سر ادھر ادھر مارتے ہوئے بے انتہا حیرت سے اس سے پوچھ رہا تھا۔ اتنی دیر میں ویٹر چائے اور سنیکس رکھ کر جاچکا تھا وہ حیرت سے اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔
" ایکسکیوز می وائے یو کانٹ بلیو ؟
وہی فر فر انگریزی بولنے والا لب و لہجہ درار ایک بار پھر جالیوں کے پار والے ہیولے میں چلا گیا تھا جہاں سے اس نے وہ انگریزی بولنے والی پشت دیکھی تھی اور چہرہ دیکھنے کی خواہش نے سر اٹھایا تھا۔
" nothing iam just saying that you are educated why you believe in such type of dargas?"
اس کی بات پر انبہاج کا منہ حیرت سے کھل گیا اس نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
" Listen Mr Dirar Sinan you don't know any thing about dargas and that type of holy places so plz i don't want you to talk about that topic."
اس نے جیسے بات ختم کرنا چائی تھی اور حیرت کی بات تھی وہ بھی آگے سے کچھ نہیں بولا تھا اس موضوع پر گفتگو یہی پر ختم ہوگئی تھی۔
" اچھا یہ جلدی سے فنش کریں اس کے بعد ہمیں ارسل کی طرف جانا ہے اس نے ہمیں ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے۔" درار نے پکوڑا منہ سے توڑتے ہوئے کہا تو انبہاج نے پریشانی سے اس کی جانب دیکھا۔
" آپ پہلے بتا دیتے میں تھوڑا سا تیار ہولیتی۔" انبہاج نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو درار نے ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھا۔
" سوری میرے مائینڈ میں نہیں رہا۔"
وہ کندھے اچکا کر بڑے نارمل انداز میں بولا تھا۔
" لیکن بائی دا وئے یو لک پریٹی ان دس ڈریس اینڈ شال اٹ سوٹس یو الوٹ۔"
آج تو لگ رہا تھا انبہاج کے لیے حیرتوں کا دن تھا پہلے بغیر کسی بات کے بھیس ختم کردی اور اب تعریف بھی کررہا ہے۔
" لگتا ہے اس کی طبیعت خراب ہے آج۔"
اس نے دل میں سوچا تھا صرف ورنہ اگر کہہ دیتی تو پھر تو وہ بہتر جانتی تھی کہ کیا ہوسکتا تھا اس کے ساتھ۔
" اچھا ایک بات تو بتاؤ کبھی تمہارا دل نہیں کرتا تھا گھومنے کو؟" درار نے ہاتھ ٹھوڑی تلے رکھ کر پوچھا تو انبہاج مسکرا دی۔
" نہیں ایسا کچھ خاص تو نہیں میں حویلی میں خوش تھی اس لیے میرا دل نہیں کرتا تھا کہیں باہر جانے کو۔"
درار کو اس سے باتیں کرنا اچھا لگ رہا تھا مگر اس کے پاس کوئی اور بات تھی ہی نہیں کرنے کے لیے ایک بار خاموشی پھر دونوں کے درمیاں حائل ہوئی تھی۔
سنو اے ہمسفر میرے
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
مجھے تم سے محبت تھی
مجھے تم سے محبت ہے
میرے دن رات میں تم ہو
میری ہر بات میں تم ہو
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دار جی آج بہت دنوں بعد اپنے کمرے سے نکل کر باہر لان میں بیٹھے تھے کیونکہ باہر ہلکی ہلکی دھوپ تھی اور وہ ان کے تنے ہوئے اعثاب کو سکون پہنچا رہی تھی دھوپ کے ساتھ ملی ہوئی ہوا ان کے اندر سکون کا سانس بھر رہی تھی وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے لیٹے ساتھ میں تسبح کے دانے بھی ایک ایک کرکے کچھ پڑھ کر گرا رہے تھے کہ اچانک انہیں حویلی کا مین گیٹ کھلنے اور پھر باہر سے چوکیدار اندر آتا ہوا دکھائی دیا۔
" سلطان کیا بات ہے تم ڈیوٹی چھوڑ کر اندر کیوں آیا ہے؟"دار جی نے سیدھے ہوتے ہوئے پوچھا تو سلطان ان کے قریب آگیا۔
وہ دار جی باہر کوئی بندے آپ سے ملنے کے واسطے آئے ہیں ان کے پاس بہت سا سامان بھی ہے۔" سلطان کے بتانے پر ان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے تھے۔
" کون لوگ ہیں تم نے پوچھا نہیں ان سے؟" دار جی کے بتانے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
" جی پوچھا تھا پر انہوں نے بس اتنا کہا کہ آپ سے ملنا ہے۔" سلطان کی بات پر وہ پرسوچ دکھائی دیے تھے۔
" ٹھیک ہے بھیجو اندر۔"
وہ سر ہلاتا ہوا واپس گیٹ کھول کر باہر چلا گیا۔ تقریباً دو منٹ بعد اس نے گیٹ کھول دیا مختلف آدمی مختلف سامان کے ساتھ اندر آتے ہوئے دکھائی دیے ایک کے بعد ایک سامان لان میں رکھ دیا گیا حتی کہ آدھے سے تھوڑا کم لان سامان سے بھر گیا اوپر کھڑکی میں کھڑی انتسارہ نے آدمیوں کو اندر آتے اور سامان رکھتے دیکھ لیا تھا۔ وہ کھڑکی بند کر کے جلدی سے کمرے سے باہر نکلی اسے جاننے کا تجسس ہورہا تھا کہ یہ سب سامان کہاں سے آیا وہ اپنی ہی دھن میں تیزی سے جارہی تھی اتنی مگن کہ سامنے سے آرام سے مہجب کو نظرانداز کرکے نکلنے والی تھی جب اس نے اس کی کلائی تھامی تھی سپیڈ میں چلتے ہوئے اس کے قدموں کو بریک لگی تھی۔
" توبہ استغفار تم ایسے کر کیسے سکتی ہو میرے ساتھ؟" مہجب کے چہرے پر افسوس تھا۔
" کیا؟'
اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر اس سے پوچھا۔
" یہی جو ابھی کرکے جانے والی تھی۔" مہجب نے آنکھ سے اشارہ کیا تو انتسارہ نے ناسمجھی سے کندھے اچکائے۔
" کیا کرکے جانے والی تھی مجھے باتوں میں مت لگائیں آپ میں ایک ضروری کام سے جارہی ہو۔" انتسارہ نے سر جھٹکتے ہوئے کہا تھا۔
" ٹھہرو ذرا آج کل کونسے ضروری کام ہیں تمہیں؟"
اس نے اسکی کلائی اپنی جانب کھنچی تھی۔
" چھوڑیں مجھے بیچ چوراہے میں شروع ہوگئے ہیں۔" انتسارہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو مہحب نے مصنوعی ناسمجھی کا اظہار کیا۔
" کونسا چراہا اور تم مجھے دیکھے بغیر نظر انداز کر کے جارہی تھی پتہ بھی ہے تمہیں کتنی مشکل سے میرا گزارا ہوتا تمہیں دیکھے بغیر۔" مہجب نے معنی خیزی سے اس سے کہا تھا۔
" دیکھیے مسٹر مہجب آپ یہ ساری باتیں مجھ سے بعد میں کرنا ابھی میں ذرا جارہی ہوں ضروری کام سے۔" انتسارہ نے اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے جانے کی کوشش کی تھی۔
" ضروری کام کی نوعیت تو بتاؤ مجھے کیا مجھ سے بھی ضروری ہے؟" لہجے میں ایک مان تھا۔
" یہ کیا بات ہوئی لے آپ ایسے ہی کرتے ہمشہ میرے ساتھ۔" انتسارہ نے منہ پھلا لیا۔
" کیا کرتا ہوں؟" مہحب کی سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں
" چھوڑیں نا پلیز۔" اس نے کلائی آزار کرانے کی کوشش کی تھی۔
" مہجب!!"
پیچھے سے پیر بیگم کی غصے بھری آواز مہجب کے کان سے ٹکرائی تو انتسارہ اور مہجب دونوں اپنی جگہ اچھل کر رہ گئے ۔ مہجب نے جلدی سے انتسارہ کا ہاتھ چھوڑا تھا اور وہ تقریباً بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اتر گئی تھی لیکن مہجب کو اب اپنی فکر تھی کہ وہ کیسے پیر بیگم کے عتاب سے بچے گا ابھی تو وہ یہ بھی شکر ادا کررہا تھا کہ وہاں اس وقت پیر بیگم کی جگہ کوئی اور نہیں تھا ورنہ اس کی جو حالت اب ہونی تھی اس سے بھی بری ہوسکتی تھی۔
" کیا تھا یہ سب کچھ؟" تیکھی نگاہوں سے انہوں نے پوچھا تو مہجب نے ناسمجھی سے ان کی جانب دیکھا۔
" کیا؟"
وہ تو یکسر ہی انجان بن گیا۔
" تمہیں اچھے سے پتہ میں کس بارے میں بات کررہی ہوں۔" پیر بیگم نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔
" اچھا یہ تو کچھ نہیں مورے اچانک سامنا ہوگیا تو میرا چھیڑنے کا دل کیا تو میں نے تنگ کرلیا۔" کندھے اچکاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
" چھیڑنے کا دل کیا تمہارا دماغ خراب ہے کیا تم ایسا کیسے کرسکتے ہو تم جانتے بھی ہو اگر کوئی اور دیکھ لیتا تو کیا ہوسکتا تھا تمہارے ساتھ۔" پیر بیگم کا دل کیا اس کے منہ پر ایک تھپڑ لگادیں۔
" بھئی کیا ہے مورے ظلم کی انتہا یے وہ میری منگ ہے لیکن میں مل نہیں سکتا اس سے سو سٹوپڈ۔" چہرے پر جھنجھلاہٹ واضح تھی۔
" آنے دو تمہارے بابا کو بات کرتی ہوں ان سے کہ بہت آخر آئی ہے تمہیں شادی کی اس سے پہلے کوئی نیا چاند چڑھاؤ شادی کرتی ہو تمہاری۔" انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا تو اس کی باچھیں کھیل اٹھیں۔
" کیا سچ میں مورے ہائے قسم سے آپ دنیا کی بسٹ مورے ہیں آئی لو یو۔" وہ ان کے گلے لگتا ہوا بولا تھا۔
" ہیں ہیں کیا بولی جارہا ہے یہ لڑکا۔"
وہ سوچتی ہی رہ گئی جب کہ وہ وہاں سے نکل گیا۔
********************
دار جی حیرت سے کبھی بندوں کو دیکھ رہے تھے کبھی سامان کو۔
" یہ سب کیا ہے؟" ابہوں نے سخت لہجے میں پوچھا تھا۔
" یہ خان جی نے بھجوایا ہے۔" ملازم نے مودب بنتے ہوئے کہا تھا۔
" کونسے خان جی نے؟" وہ ان اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔
" زوہیب خان نے۔"
زوہیب خان کا نام سن کر دار جی کو دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
" یہ کیا بکواس کررہا ہے تم؟" ماتھے پر تیوری لیے انہوں نے پوچھا تھا۔
" یہ بکواس نہیں ہے یہ آپ کے لیے ہے۔"
اس نے ایک کاغذ ان کی جانب بڑھایا۔
" زبان کا میں بہت پکا ہوں سردار صاحب یہ آج تو بس ایک چھوٹا سا تحفہ ہے آپ کی پوتی کے لیے اور ہاں یہ اس تک پہنچ جانے چاہئیے ایسا نہ ہو کہ آپ پھینک دیں۔ یہ آپ کے لیے اچھا نہیں ہوگا اور ہاں ایک اور بات ٹھیک دو دن بعد روبرو ملاقات ہوگی یہ کاغذ پر گیم کھیلتے کھیلتے میں بھی تنگ آگیا ہوں اس لیے کچھ آپ کی سنیں گئے کچھ اپنی سنائیں گئے۔
تحریر ختم ہوچکی تھی پر اس دفعہ ان کے چہرے پر نہ تو غصہ آیا تھا اور نہ ہی اشتعال اس بار انہیں کچھ نئی فکریں ستا رہی تھیں اور وہ ڈر رہے تھے کیونکہ جو انہیں سمجھ آرہا تھا وہ ان کے خاندان کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔
انہوں نے سلطان کو آواز دی اور یہ ساری چیزیں پھینکنے کو کہہ کر خود اندر کی طرف بڑھ گئے۔
"دار جی!"
وہ جب بھاگتی ہوئی نیچے آئی تو اس کا سانس قدرے پھولا ہوا تھا دار جی بھی اس کو اس طرح بھاگ کر آتا ہوا دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئے پھر قدرے پریشان ہوگئے۔
" جی بچے کیا ہوگیا تم کو اتنا بھاگ کر کیوں آرہا ہے تم؟"
زوہیب خان کا لایا ہوا سامان ابھی بھی لان میں ہی تھا اس لیے دار جی اس سامان کو انتسارہ سے نہ چھپانے کی وجہ سے حقیقی معنوں میں پریشان ہوگئے تھے۔
" یہ سب کیا ہے دار جی؟''
اس نے آخر وہ سوال پوچھ ہی لیا جس سے دار جی بھاگ رہے تھے ان کے ذہن میں بیک وقت وہ بات گونجی تھی۔
" یہ سامان اپنی پوتی تک پہنچا دینا ایسا نہ ہو کہ تمہارے لیے اچھا نہ ہو۔"
وہ اپنے آپ کو فل فور کمپوز کرکے بولے تھے۔
" ارے کچھ نہیں بچے یہ کسی اور کا سامان ہے ہم نے کہیں بھجوانا تھا اس لیے اسے یہاں رکھوایا ہے۔
چہرہ ڈھانپو اور تم اپنا منہ ادھر کرو۔"
انہوں نے انتسارہ کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے کہا۔ انتسارہ نے فوری عمل کرتے ہوئے چہرہ ڈھانپ لیا اور چہرہ ادھر کرنے کی بجائے اندر ہی چلی گئی۔
" سلطان خان!"
انہوں نے غصے اور بے بسی سے سلطان خان کو آواز دی تھی۔
" جی خان جی۔"
وہ انتہائی مودب انداز میں ان کے سامنے پیش ہوا تھا۔
" یہ سامان پھینکواؤ باہر اب دوبارہ یہ ہم کو یہاں حویلی میں نظر نہ آئے سمجھا تم جلدی کرو۔" دار جی کے کہنے پر سلطان خان چوکنا ہوا تھا۔
" جی خان جی ٹھیک ہے۔"
وہ کہہ کر باری باری سامان اٹھا کر گیٹ سے باہر نکل گیا جبکہ انتسارہ حویلی کے مین دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوکر دار جی کو دیکھ رہی تھی۔ ان کے کہے گئے جملے بھی سن رہی تھی۔
" یہ سب کیا ہورہا ہے یہ سامان کہاں سے آیا اور اب دار جی نے کیوں کہا کہ اس سامان کو پھینک آؤ جاکر جبکہ مجھ سے تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ سامان کسی کا ہے اف آج کل سب الٹا ہورہا میرے ساتھ اچھی خاصی میری زندگی سکون سے گزر رہی تھی پتہ نہیں کیا نئی نئی چیزیں بیچ میں آرہی ہیں۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئی۔ پھر سے مہجب ڈھیٹوں کی طرح اس کے سامنے تھا۔
" اب کیا مسئلہ ہے؟"
وہ ایک آبرو اچکا کر رونی صورت بنا کر اس سے پوچھ رہی تھی۔
" تم ہو میرا مسئلہ۔"
اس نے اسے بازو سے تھام کر اپنے مقابل کیا تھا۔
" ہاں اور کریں ایسی حرکتیں تاکہ اب کی بار پیر بیگم کی جگہ پیر خان یا دار جی دیکھیں ہمیں تاکہ رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے کیوں صحیح کہہ رہی ہوں نا میں کیوں میری بدنامی کرانی ہے آپ نے؟" سر پر ہاتھ مارتے ہوئے اس نے کہا تو مہجب نے اس کی جانب دیکھا۔
" شیش۔"
اس نے اپنی انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھی تھی۔
" خاموش ہوجاؤ مورے ہماری شادی کے بارے میں بابا جان سے بات کریں گی انہوں نے مجھ سے خود کہا ہے۔"
اس نے اس کو بہت ہی بڑی اطلاع فراہم کی تھی جو انتسارہ کو خوشی سے پاگل کرنے کے لیے کافی تھی۔
" آپ سچ کہہ رہے ہیں میرے ساتھ مذاق تو نہیں کررہے کہیں؟"
وہ مشقوک انداز میں اس سے پوچھ رہی تھی۔
" نہیں بالکل بھی نہیں میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں اب تم مسز انتسارہ مہجب بننے کے لیے تیار ہوجاؤ میرا صبر ختم ہونے والا ہے۔"
انتسارہ اس کی بات سن کر مسکرائی تھی یک لخت اسے اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا تھا ایک دم سارے خدشے کہیں غائب سے ہوگئے تھے اسے مہجب کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آرہا تھا۔ زندگی ایک دم پھر سے پرسکون سی لگنے لگی تھی لیکن یہ سکون صرف چند لمحوں کا ہے وہ اس بات سے یکسر انجان تھی۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
دونوں دوبارہ گاڑی میں بیٹھے تو اب گاڑی میں پہلے جیسی خاموشی نہیں تھی دونوں ہی کوئی نہ کوئی بات ایک دوسرے سے کرلیتے تھے۔
"آپ لندن میں بور نہیں ہوتے تھے کیا؟"
اس نے ہمت کرکے دل میں مچلتا ہوا سوال آخر پوچھ ہی ڈالا تھا جس پر درار بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔
" نہیں بالکل بھی نہیں میں ہمشہ سے وہاں رہا ہوں میری اپنی ایک لائف تھی وہاں میرے دوست تھے میرا سرکل تھا اس لیے کبھی بھی بور نہیں ہوا سارے کام اپنی روٹین کے تحت کرتا تھا۔"
اس نے بغیر برا مانے اسے ساری بات بتا دی اسے اس کا ساتھ اتنا برا نہیں لگتا تھا لیکن تب تک جب تک اس کے ذہن سے زکوان خان نکلا ہوا ہوتا۔ جب وہ اسے یاد آتا تب وہ دوبارہ اپنے خول میں سمیٹنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتا تھا اس لیے فی الحال وہ زکوان خان کو بھولا ہوا تھا اس لیے اس کے ساتھ باتیں آسانی سے کررہا تھا اور حیران بھی تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ بڑے آرام سے گفتگو کررہی ہے اسے اچھا لگ رہا تھا۔
" کتنی گرل فرینڈز تھیں آپ کی لندن میں؟'
اس نے سوال کیا تو درار نے چونک کر اس کی جانب دیکھا جو سوال پوچھ کر اب سیدھا دیکھ رہی تھی درار کی ایک بیٹ مس ہوئی تھی اور وہ خود بھی حیران تھا۔
" اگر سوال پوچھا ہے تو میری طرف دیکھو تو سہی؟"
اس نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا لیکن اس نے اس کی جانب نہیں دیکھا۔
" او مائی گاڈ آر یو فیلٹ جیلس فرم مائی گرل فرینڈز؟"
وہ اس کی جانب دیکھ کر ذرا سا جھک کر اس سے پوچھ رہا تھا چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ بھی تھی۔
" نہیں جی میں کیوں جیلس ہوں گی میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔" انبہاج نے اپنی خفت مٹانے کو کہا تو درار مسکرا دیا۔
" اچھا جی تو سنیں میری لندن میں بے حدگرل فرینڈز تھیں آدھے لندن کی لڑکیاں آپ کے اس ہینڈسم شوہر پر مرتی تھیں آگے پیچھے پھرتی تھیں۔"
وہ اسے تنگ کرنے کے لیے شرارتاً کہہ رہا تھا لیکن انبہاج کے چہرے کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ وہ بالکل خاموش رہی تھی ایک لفظ بھی بولے بغیر۔
" کیا ہوا؟"
اس نے پھر اس کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
" کچھ نہیں ۔"
ہیلکس ارسل کے گھر کے باہر رک چکی تھی اس کا گھر اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں تھا اور کافی بڑا گھر تھا۔
" چلیں ہم پہنچ گئے۔"
اس نے گاڑی ایک طرف سائیڈ پر روکی اور ہیلکس ان لاک کی۔ وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ دوسری طرف سے درار بھی باہر نکل آیا۔ گاڑی لاک کرکے دونوں چلتے ہوئے گیٹ کے سامنے آگئے درار نے بیل دی تو کچھ ہی دیر میں چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ چوکیدار درار کو پہلے سے ہی جانتا تھا وہ ارسل کو چھوڑنے آیا تھا اور اس کے علاوہ بھی ملنے آتا رہتا تھا جب سے وہ اسلام آباد آیا تھا۔
گیٹ سے اندر داخل ہوکر لان شروع ہوتا تھا اور پھر پورچ سے ہوکر مین انٹرنس کا دروازہ۔۔۔ درار نے اس کے لیے دروازہ کھولا تو دونوں اندر آگئے ارسل انہیں دروازے پر ہی مل گیا تھا۔
" ہیلو بڈی کیسا ہے تو؟"
ارسل نے درار سے بغل گیر ہوتے ہوئے پوچھا تو درار نے بھی جواباً مسکرا کر جواب دیا تھا۔
" بالکل ٹھیک تو سنا کیسا ہے؟"
" میں بھی تیرے سامنے ہوں بالکل ٹھیک۔" ارسل نے بانہیں کھولتے ہوئے کہا تھا۔
" اسلام علیکم بھابھی!"
ارسل نے انبہاج کی جانب دیکھتے ہوئے اسے سلام کیا انبہاج نے گڑبڑا کر سر کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیا۔ ارسل اس کی آواز سننا چاہتا تھا پر انبہاج نہیں بولنا چاہتی تھی۔
" آئیں نا آپ دونوں پلیز میرے ساتھ میں باقی سب سے ملواتا ہوں آپ لوگوں کو۔"
درار اس کے پیچھے اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں لاونج تھا ارسل نے اپنی امی سے ملوایا وہ ایک بہت ہی سوبر خاتون تھیں انبہاج کو ان سے مل کر بہت اچھا لگا تھا اسے اپنی مورے یاد آرہی تھیں اتنے دن ہوگئے وہ ان سے نہیں ملی تھی۔انہوں نے بھی آگے بڑھ کر بے حد پیار سے انبہاج کو گلے لگایا اور اسے لیے اندر چلی گئیں۔ ارسل درار کو لے کر ڈرائینگ روم میں آگیا۔جہاں اس کے ابو اور بھائی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
انبہاج اس کی امی کے ساتھ اندر لاونج میں آگئی جہاں پر ارسل کی دو بہنیں اور ایک کزن موجود تھیں انبہاج کو سب بہت اچھے لگے تھے اسے بالکل بھی اجنبیت محسوس نہیں ہورہی تھی۔
" ارے انبہاج آپ؟"
ارسل کی کزن جو کہ انبہاج کو کافی دیر سے دیکھ رہی تھیی آخر کو پہچان کر بول پڑی۔
" ارے سیماب آپ کیسی ہیں آپ؟" انبہاج نے اسے پیچھانتے ہی کہا تو وہ مسکرا دی۔
" شکر اللہ کا تو درار بھائی کی مسز آپ ہیں شادی کب ہوئی آپ کی؟"
اس نے قدرے حیران ہوکر انبہاج سے پوچھا تھا۔
" ایک مہینہ ہوگیا ہے آپ بتائیں آپ کیسی ہیں؟"
" شکراللہ کا ارسل میرے کزن ہیں یہ میری خالہ ہیں۔۔" اس نے ارسل کی امی کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔
" تم دونوں جانتے ہو ایک دوسرے کو؟" ارسل کی بڑی بہن تانیہ نے پوچھا تھا۔
" جی یہ میری این جی او کی سب سے بڑی ڈونر ہیں میں بتا نہیں سکتی آپ لوگوں کو۔" سیماب بولی تو انبہاج نے پہلو بدلا۔
" سیماب پلیز!۔۔۔۔"
انبہاج نے اس کی بات درمیان میں سے ہی کاٹ کر اسے مزید بولنے سے روک دیا جس پر سیماب بھی خاموش ہوگئی۔ ارسل کی امی نے ملازمہ سے کھانا لگوانے کا کہا۔
" کیا کرتی ہیں آپ انبہاج آپی؟"
چھوٹی ثانیہ کو انبہاج بہت پسند آئی تھی آج تک کہیں بھی اس نے ایسا حسن نہیں دیکھا تھا۔
" اب تو کچھ بھی نہیں کرتی ریسنٹلی لٹریچر میں ماسٹرز کیا ہے۔"
اس نے بھی خوش مزاجی سے اس کے سوال کا جواب دیا تھا کیونکہ وہ بداخلاق کبھی بھی نہیں تھی۔
ملازمہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی تو ارسل کی امی نے اسے اور باقی سب کو ڈائینگ ہال چلنے کے لیے کہا مرد حضرات کا کھانا ڈرائینگ روم میں ہی لگایا گیا تھا کیونکہ وہ انبہاج کے پردے کے بارے میں جانتی تھیں۔کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور ہلکی پھلکی گپ شپ بھی ہوتی رہی ساتھ ساتھ چائے کے بعد درار کا پیغام آگیا کہ چلنا چاہئیے۔ انبہاج ان سب سے اجازت لے کر باہر نکلی پورچ میں کھڑا درار اس کا انتظار کررہا تھا پورچ میں سیماب اور ارسل کی بہنیں اسے چھوڑنے کے لیے آئی تھیں۔ انبہاج کو ان سے مل کر حقیقتاً خوشی ہورہی تھی۔ انہیں بھی انبہاج سے مل کر کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا تھا۔
" درار بھائی آپ بہت لکی ہیں۔"
سیماب کی زبان بھی کہاں بند رہنے والی تھی پورچ تک آتے ہوئے بھی اس نے اپنا شوشہ چھوڑ ہی دیا تھا۔
" اچھا وہ کیسے؟"
درار نے ایک ابرو اچکا کر سنجیدہ انداز میں اس سے پوچھا تھا۔
" وہ ایسے کہ ایک تو آپ کی مسز بے حد خوبصورت ہیں اور دوسرا یہ بہت کائینڈ ہارٹڈ ہیں۔"
اس نے بڑے تحمل سے اس کی شان میں قصیدہ پڑھا تھا۔
" خوبصورت تو یہ ہیں لیکن یہ کائینڈ ہارٹڈ والا جھوٹ کیوں بول رہی ہیں آپ بھابھی۔"
درار کے بھابھی کہنے کی دیر تھی جہاں ارسل نے اسے گھورا وہی سیماب نے بھی حیرت سے اسے دیکھا۔
" تو سیماب بتایا نہیں آپ نے کہ یہ کائینڈ ہارٹڈ والا جھوٹ کیوں بولا آخر آپ نے؟"
اس ایک لمحے میں ہی درار نے ساری بات سنبھالی تھی۔
" یہ میری این جی او کی سب سے بڑی ڈونر ہیں بہت سوفٹ نیچر کی ہیں یہ۔"
انبہاج کا بےساختہ اپنا سر پیٹ لینے کو دل کیا تھا اسے منع بھی کیا تھا پھر بھی بولی جارہی تھی۔
" او اچھا۔"
وہ بس اتنا ہی کہہ پایا تھا لیکن اسے ایک پل میں عجیب سے فخر کا احساس ہوا تھا۔ ان سب سے اجازت لے کر دونوں باہر آگئے۔ جہاں درار کی ہیلکس کھڑی تھی۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
رات کو پیر خان فارغ ہوکر کمرے میں داخل ہوئے تھے پیر بیگم نے واقعی ہی اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچا تھا کہ اب انتسارہ اور مہجب کی شادی کردینی چاہئیے۔ وہ جیسے ہی فریش ہوکر بیڈ پر آکر بیٹھے انہوں نے پیر بیگم کو کسی گہری سوچ میں پایا۔
" کیا بات ہے پیر بیگم آپ کیا سوچ رہی ہیں؟"
انہوں نے اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
" آ۔۔ہاں کچھ نہیں میں بس ایک بات سوچ رہی تھی۔"
انہوں نے اپنی سوچ سے نکل کر ان کی طرف منہ کرکے انہیں بتایا۔
" وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا سوچ رہی ہیں؟"
پیر خان نے اب کی بار مسکرا کر پیر بیگم کی جانب دیکھا تھا۔
" خان آپ کو نہیں لگتا اب ہمیں اپنے بچے کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔"
ان کی بات سن کر پیر خان زور سے ہنسے تھے۔ پیر بیگم نے خفگی سے پیر خان کی جانب دیکھا تھا۔
" آپ ہنس کیوں رہے ہیں میں نے کیا آپ کو کوئی لطیفہ سنایا ہے جو آپ ایسے ہنس رہے ہیں۔" ان کے چہرے پر خفگی واضح تھی۔
" نہیں میں تو بس اس لیے ہنس رہا ہوں کہ کتنے عرصے بعد آپ کوئی بات مجھ سے یوں کررہی ہیں۔"
انہوں نے اب سنجیدگی سے ان کی جانب دیکھ کر کہا تھا۔
" تو اس میں کس کا قصور ہے کیا میرا ہے کوئی قصور اس بات میں؟"
وہ بھی اب کچھ رنجیدگی کے عالم میں ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" نہیں شاید قصور میرا ہے جو کبھی آپ کو وقت ہی نہیں دے پایا کبھی آپ کی باتیں سن ہی نہیں پایا۔" پیر خان شرمندہ تھے۔
" اچھا چھوڑیں ان سب باتوں کو جو بات میں اب کررہی ہوں وہ تو سن لیں۔"
انہوں نے جیسے ماحول ٹھیک کرنے کے لیے بات جلدی جلدی سمیٹی تھی۔
" ہاں تو آپ کیہ رہی تھیں کہ بچے کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہئیے آگے ہی تین بچوں کی شادی کے بارے میں سوچ چکے ہیں دادی آپ بننے والی ہیں اللہ نے چاہا تو جلد نانی بھی بن جائیں گی تو اب کیا سوچنا ہے؟"
سمجھ تو وہ بھی گئے تھے بس انہیں تنگ کرنے کے لیے شرارتاً کہہ رہے تھے۔
" آپ سے میں سنجیدہ بات کررہی ہوں اور آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں میں مہجب کی شادی کی بات کررہی ہوں۔" انہوں نے جھنجھلا کر کہا تو پیر خان نے مسکراہٹ دبائی۔
" مہجب کی شادی کی کیا پڑی ہے آپ کو ابھی تو وہ میرا چھوٹا بچہ ہے معصوم سا اس کی اتنی جلدی شادی کیوں کرنی ہے۔" پیر خان نے ناسمجھی سے کہا تھا۔
" خان جی بس کریں دار جی سے بات کریں مہجب اور انتسارہ کی شادی کے بارے میں اب انتسارہ کو اس کی اصل جگہ پر آجانا چاہئیے۔"
انہوں نے روانی میں کہا تو پیر خان نے ایک گہری سانس خارج کی۔
"ٹھیک ہے کرتا ہوں بات دار جی سے کل ہی کر لوں گا اب آپ پلیز لائٹ آف کریں مجھے نیند آرہی."
انہوں نے جلدی سے اٹھ کر لائٹ آف کی اور اپنی جگہ پر سونے کے لیے لیٹ گئیں۔
***********************
صبح صبح آج میسہ کی آنکھ نہیں کھلی تھی وہ سوتی رہ گئی۔ زکوان اٹھ کر نیچے آگیا تو شیر خان لاونج میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے وہ سیدھا کچن میں چلا گیا جہاں ردوا بیگم نوری کے ساتھ ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔
" پاخیراغلے مورے!"
اس نے پیچھے سے جاکر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے تو وہ مسکرائی تھیں۔
" کیا بات ہے آج بڑا پیار آرہا ہے حیرت ہے لاونج میں اپنے بابا جان کو نظرانداز کرکے سیدھا کچن میں میرے پاس آگئے ہو تم۔"
انہوں نے بے حد حیرانی کے عالم میں اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔
" ارے یہ کیا بات کردی آپ نے مورے بابا جان سے بے شک میں بہت محبت کرتا ہوں لیکن جو آپ کی جگہ ہے وہ بابا جان کبھی بھی نہیں لے سکتے۔"
اس کی بات سن کر وہ مسکرائی تھیں۔
" اچھا بس چپ کر جاؤ میسہ نہیں اٹھی ابھی آج ویسے جب سے وہ آئی ہے نا مجھے بہت آرام مل گیا ہے سارے گھر کے کام سنبھال لیے ہیں اس نے۔"
میسہ کے لیے اپنی مورے کی زبان سے ایسے الفاظ سن کر حقیقی معنوں میں اسے بے حد خوشی ہوئی تھی۔
" پتہ نہیں وہ سو رہی ہے ابھی تک آج اٹھی ہی نہیں تو میں نے بھی پھر اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔" اس نے نرمی سے کہا تھا۔
" اچھا جاؤ تم دیکھو اس کو جاکر ۔"
وہ سر ہلاتا ہوا مڑنے لگا جب اس نے دوبارہ ردوا بیگم کو مخاطب کیا۔
" مورے! یمامہ یونیورسٹی چلی گئی کیا؟"
اس نے ایک آس ایک امید سے ان سے پوچھا تھا۔
" ہاں وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نکلی ہے یونیورسٹی کے لیے۔" ان کے بتانے پر وہ مایوس ہوا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے میں میسہ کو دیکھتا ہوں۔"
وہ کچن سے باہر آگیا اور لاونج سے گزرنے ہی لگا تھا جب شیر خان نے اسے مخاطب کیا۔
" کبھی دو گھڑی اپنے باپ کے پاس بھی بیٹھ جایا کرو جب سے شادی ہوئی ہے بیوی کے پہلو کے ساتھ ہی لگ کر بیٹھے ہو۔" شیر خان کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی۔
" بابا جان پلیز کیسی باتیں کررہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔"
اس نے حیرت و صدمے سے اپنے باپ کی بات سنی تھی۔
" کہاں تم اس شادی کے لیے راضی نہیں تھے اور کہاں اب اتنے خوش ہوگئے بس یہی محبت تھی تمہاری بی بی کے لیے جو کسی اور عورت کے زندگی میں آتے ہی ختم ہوگئی ؟"
انہوں نے اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھا اور سنجیدگی سے اپنے بیٹے کی جانب متوجہ ہوئے انہیں اس کی میسہ کے لیے فکر اور توجہ ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔
اس نے بڑے ہی ضبط سے اپنے باپ کی بات سنی پر کہا کچھ نہیں کیونکہ اسے لگا کہ وہ غلط نہیں کہہ رہے۔
" بولو اب کچھ کہتے کیوں نہیں اس لیے تم نے حویلی اور ہمارے گھر کی بنیادیں ہلائیں تھیں اس لیے دار جی کے ہاتھوں سے ذلیل ہوئے تھے کہ ان کی پوتی کو یہاں لاکر اس کے پیچھے پھرو بڑی محبت کا دعوع تھا نا تمہیں کہ اگر تمہارا رشتہ نہ لے کر گیا تو تم وہ کرو گے جو میں نے سوچا بھی نہیں ہوگا تو جوش مرا کیوں تمہارا اگر ایک عورت تمہیں مضبوط کرکے شیر بناگئی تھی تو اب دوسری عورت تمہیں اپنا اسیر کر کے کمزور کررہی بزدل بنارہی ہے تمہیں میرے بیٹے جیسی کوئی بات مجھے نظر کیوں نہیں آرہی تم میں وہ تمہاری اکڑی ہوئی گردن تنے ہوئے نقوش،بھینچے ہوئے لب کہاں ہیں وہ سب کچھ، کہاں ہے تمہاری محبت کی انتہا اسے محبت نہیں کہتے زکوان خان اسے لگاوٹ کہتے ہیں اسے ایک لمحے کی زد میں آنا کہتے ہیں تم نے جس شخص کو نیچا دکھانے کے لیے یہ سب کیا وہ تو سکون سے بغاوت کرکے چھٹیوں پر گیا ہے اور تم یہ بات بھول چکے ہوکہ اس کی بہن اس سے بدلے کا ہتھیار تمہاری دسترس میں ہے لیکن تمہیں وہ نظر نہیں آرہا میرا بیٹا شیر سے گیدڑ بن گیا ہے ایک عورت کی وجہ سے تف ہے تم پر۔"
وہ اخبار پھینک کر غصے میں لاونج سے نکل گئے اور وہ ان کے لفظوں میں ہی کہیں رہ گیا۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں صوفے پر بیٹھا اور سر صوفے کی پشت سے ٹکا لیا۔
" کیا محبت ختم ہوگئی میری انبہاج سے کیا اس کی محبت کی جگہ میسہ نے لے لی کیا بابا جان ٹھیک کہہ رہے تھے۔"
یہ سارے سوال اس کے ذہن میں مچل رہے تھے پر ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اس کے پاس نہیں تھا ایک بار پھر سے وہ خود سے الجھ گیا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے سارے سوالوں کے جواب کس سے لے جاکر کون ہے جو اس کے اندر کی الجھنوں کو سلجھا سکے وہ سر تھام کر وہی بیٹھا رہ گیا۔
اسے دیکھا اور پھر سوچا
محبت تھی مجھ کو
اسے دیکھا اور پھر سوچا
لگاوٹ تھی مجھ کو
اسے دیکھا اور پھر سوچا
میرے لیے بنی تھی وہ
جب نظر ہٹی اس سے
محبت ختم ہوتی گئی
لگاوٹ بھی کہیں کھو گئی
میں کچھ بکھر سا گیا
مجھے تنہا کچھ لگا
اسے دیکھا اور پھر سوچا
محبت تھی ہی نہیں میری

junoon se ishq ki rah completed✔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant