قسط نمبر 10

6.9K 250 251
                                    

اس کے آفس جانے کے بعد وہ ایسے ہی مین انٹرینس کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی ہاتھ میں ایک چائے کا مگ بھی تھا پر دل ہنوز اداس تھا کتنی محبت کرتی تھی وہ زکوان سے یہ تو اسے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا تھا اس کی زندگی کا دائرہ اب زکوان سے شروع ہوکر اس کی ذات پر ہی ختم ہوجاتا تھا عورت ہمشہ مرد کی زندگی میں دائرے کی طرح گھومتی ہے کبھی اس کی ایک نظر کے لیے دائرے میں چکر کاٹتی ہے تو کبھی اس کی نرمی سے بولے لفظوں کے لیے کبھی اس سے اظہار محبت سننے کی خواہش میں رلتی ہے تو کبھی اس کو خوش کرنے کے لیے۔۔۔۔ عورت ہمشہ مرد کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہے اس کی زندگی کے حسین لمحات کو اپنی خوبصورت مسکراہٹ سے قید کرتی ہے اس کے ساتھ زندگی جینا چاہتی ہے جیسے وہ زکوان کے ساتھ اپنی زندگی کا ہر لمحہ جینا چاہتی تھی اسے اس کی ہر غلطی اور ہر کوتاہی کے ساتھ محبت کرتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی محبت کرنے والا گہرا زخم دیتا ہے تو تکلیف تو ہوتی ہے وہ بھی اپنے اندر اسی طرح کی تکلیف محسوس کررہی تھی اس نے اس سے محبت کرنا نہیں چھوڑی تھی صرف اس کے لفظ اور اظہار کسی کی معافی پر انحصار کررہے تھے اور میسہ کو یقین تھا کہ زکوان اس کی محبت میں وہ معافی لے کر ضرور آئے گا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ آج آفس سے تھوڑا جلدی نکل آیا تھا دل گزشتہ دن میں ہی الجھا ہوا تھا انتسارہ اس کی بچپن کی منگ تھی وہ منگ جس سے مہجب سنان خان نے بے حد محبت کی تھی اتنی کہ اسے لگتا تھا جس دن اس کے ملنے کی امید ختم ہوگی اس دن مہجب سنان خان کی چلتی ہوئی سانسیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ وہ گاڑی چلا رہا تھا مگر دھیان اس کا کہیں انتسارہ میں ہی الجھا ہوا تھا ایک دم گاڑی چررر کی آواز سے رکی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس نے سامنے دیکھا تھا۔ جہاں دو آدمی نقاب چڑھائے اس کی گاڑی کے سامنے تھے انہوں نے اسے گن دیکھا کر گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولنے کے لیے کہا تھا مہجب نے بغیر کچھ کہے مصلحت سے کام لیتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول دیا تھا وہ دونوں اندر بیٹھ گئے تھے۔
" گاڑی چلا۔"
ان میں سے ایک نے اسے گاڑی چلانے کے لیے کہا تھا اس نے چپ چاپ گاڑی سٹارٹ کردی تھی۔
" کیا چاہتے ہو تم یہ والٹ لو میرا یہ فون بھی ہے۔"
مہجب نے گہرا سانس بھر کر ان سے کہا تھا کیونکہ وہ اس وقت اتنا پریشان تھا کہ ان سے کسی بھی قسم کی لڑائی جھگڑا اور بھیس نہیں چاہتا تھا۔
" ہم یہاں تیرا یہ والٹ اور موبائل لینے نہیں آئے ہیں۔"
ان میں سے جو فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا تھا۔
" تو پھر؟"
اب کی بار مہجب نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
" بات صاف ہے لڑکی کے حق میں خود بخود ہی دسبردار ہوجا ورنہ تیرے لیے اچھا نہیں ہوگا۔" ہیچھے پیٹھے ہوئے آدمی نے روانی میں بولا تھا۔
" کونسی لڑکی اور کیا بکواس ہے یہ؟"
" وہی لڑکی جو منگ ہے تیری بچپن کی چھوڑ دے اسے انکار کردے شادی سے ورنہ ابھی کے ابھی گولی مار دوں گا۔"
اس نے گن اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" خبردار جو اس کا نام بھی اپنی زبان پر لائے تو بے غیرت سمجھا ہے کیا جو چھوڑ دوں اسے میری ہے وہ۔"
مہجب نے بھی اب ذرا غصے سے ان سے کہا تھا۔
" تو تو ایسے نہیں مانے گا؟"
ایک بار پھر سے سوال کیا گیا تھا۔
" جو کرنا ہے کرلو گولی مارنی ہے نا مار دو ویسے بھی جس زندگی میں وہ نہیں ہوگی اس کا فائدہ بھی نہیں ہے کوئی۔"
اس نے مضبوطی سے اس سے کہا تھا۔
" بکواس بند کر اپنی اور چھوڑ دے اسے ورنہ۔"
" کہا ہے نہ کہ نہیں تو نہیں۔"
اسی کے ساتھ ہی فضا میں گولی کی آواز گونجی تھی گولی کہاں لگی یہ کوئی نہیں جانتا تھا اس وقت وہ دونوں وہاں سے نکل کر بھاگے تھے۔ سنسان سڑک پر مہجب سنان خان بے یارو مدد گار پڑا ہوا تھا شاید اپنی آخری سانسوں کے دھانے پر تھا وہ۔"
تمہیں پہلے بھی بتایا تھا
چاہا ہے تم کو دل سے
تمہیں پہلے بھی بتایا تھا
منگا ہے تم کو دل سے
میری ایک گزارش سن لو
بس میری رہنا تم ہمشہ
فقط میری رہنا بس تم
                               (ایمن خان)
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
حویلی کے ماحول میں کشیدگی بڑھتی جارہی تھی دار جی اور بی بی جان آج پھر اکھٹے بیٹھے ہوئے تھے بی بی جان آج دار جی سے وہ کہنے کا ارادہ رکھتی تھیں جس کی ہمت وہ شاید کبھی بھی نہیں کرپائی تھیں۔
" خان!"
انہوں نے انہیں اتنی آہستہ مخاطب کیا تھا کہ بامشکل ہی دار جی سن پائے تھے۔
" ہوں؟"
دار جی نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا تھا۔ان کے جواب پر بی بی جان لفظ تلاش کرنے لگ گئی جو انہیں آج دار جی سے کہنے تھے کیونکہ برداشت ان کی بھی بس آخری دھانے پر کھڑی تھی۔
" تیس سال ہوگئے خان تم نے اپنا بیٹی کو گلے نہیں لگایا؟"
بی بی جان نے وہ بات کہہ دی جس کی اذیت وہ پچھلے تیس سال سے برداشت کررہی تھیں۔
" کوئی اور بات کرو زرنور بانو اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے ہمارے پاس۔"
دار جی نے اپنے اسی ازلی سپاٹ لہجے میں ان سے کہا تھا۔
" خان قربانی تو اس نے دے دی تو پھر سزا کیوں بھگت رہا ہے وہ تمہارا طرف سے اس کا سزا کا ترمیم کب ہوگا؟" بی بی جان کا لہجہ شکستہ تھا۔
"اس نے ہمارا عزت کو داغدار کردیا تھا۔"
دار جی نے ایک کمزور سی دلیل دی تھی۔
" کونسا عزت خان اور کب کیا اس نے داغدار تمہارا اس نام نہاد عزت کا خاطر ہی تو مارا اولاد نے تیس سال اپنا شوہر سے جوتیاں کھائی ہیں۔"
بی بی جان نے بھی وہ راز اگل دیا تھا جیسے سینے میں چھپائے وہ پھر رہی تھیں۔
" کیا بکواس کرتا ہے تم شیر خان نے ہمارا بیٹی کو مارا؟"
دار جی نے بے یقینی سے ان سے کہا تھا۔
" خان ایک بار نہیں کئی بار۔"
بی بی جان کے آنسوؤں نے ان کا چہرہ بھگودیا تھا۔
دار جی ایک دم خاموش سے ہوگئے تھے۔
" ایک بار بھی وہ شکایت لے کر تمہارا پاس نہیں آیا جانتا ہے خان کیوں ؟ کیونکہ ہم یا وہ یا اس حویلی کا کوئی بھی عورت ہو جب ایک بار باپ دادا کی عزت کا خاطر قربانی دے دیتا ہے تو ساری زندگی اللہ سے اس پر ثابت قدم رہنے کا دعا کرتا ہے اور یہی دعا مارا بچی نے بھی کیا ساری زندگی دھتکار برداشت کیا اور اس دن جانتا ہے ہم کو  کتنا تکلیف ہوا جب اس کے منہ پر زخموں کا نشان دیکھ کر ہم نے ایسے نظریں چرائی جیسے ہم نے کوئی چوری کیا ہو۔"
بی بی جان بول رہی تھیں جبکہ دار جی آگے سے بالکل خاموش تھے۔
" خدای زہ کونبنی( ہم کو اکیلا چھوڑ دو)"
آواز اتنی آہستہ تھی کہ بی بی جان مشکل سے ہی سن پائی تھیں وہ اٹھ کر باہر نکل گئیں جبکہ دار جی وہی بس ڈھے سے گئے تھے انہیں آج صحیح معنوں میں اپنا آپ بوڑھا محسوس ہورہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ رات کو فارغ ہوکر کمرے میں آیا تھا اس کا چہرہ دیکھ کر انبہاج کو کسی پریشانی کا ادراک ہوا تھا۔
" کیا ہوا سب ٹھیک ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں؟"
اس نے بالوں میں برش کرتے کرتے اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں مہجب کو اتنی دیر ہوگئی آفس سے نکلے ہوئے وہ مجھ سے بھی پہلے نکلا تھا لیکن ابھی تک وہ حویلی پہنچا نہیں مجھے فکر ہورہی ہے اس کی بہت۔" درار نے چکر لگاتے ہوئے کہا تو انبہاج نے تعجب سے اس کی جانب دیکھا۔
" آپ ٹینشن کیوں لے رہے ہیں آجائے گا دوستوں کی طرف چلا گیا ہوگا۔"
انبہاج اسے تسلی دے رہی تھی جب اس کا فون بجا تھا درار نے فون کان سے لگایا تھا۔ اس کے بدلتے تاثرات انبہاج واضح دیکھ سکتی تھی چہرہ از حد پریشان ہوگیا تھا کتھئی آنکھوں میں سرخی واضح تھی فون بند کرنے کے بعد وہ ساکن تھا۔
" کیا ہوا ہے ایسے کیوں بی ہیو کررہے ہیں؟"انبہاج کے چہرے پر پریشانی تھی۔
" وہ۔۔وہ مہجب کو گولی!"
اس سے آگے کے الفاظ اس سے ادا نہیں ہورہے تھے وہ بھاگ کر اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا ادھام کے کمرے کا دروازہ اس نے جارہانہ انداز میں کھٹکایا تھا۔
" لالہ پلیز اوپن دا ڈور!"
ادھام نے دروازہ کھولا تو سامنے اسے پریشان حال پایا۔
" لالہ مہجب کو گولی مار دی کسی نے مجھے ہاسپٹل سے فون آیا تھا۔"
دونوں باہر کی طرف بھاگے تھے رات کے وقت انہوں نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا وہ دونوں ہاسپٹل پہنچے تھے ڈاکٹر نے مہجب کی حالت کافی سیریس بتائی تھی کیونکہ گولی بالکل دل کے پاس لگی تھی خون بہت زیادہ ضائع ہوگیا تھا۔ وہ دونوں شکستہ حال بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔
" خان! بابا جان اور دار جی کو بتانا تو پڑے گا نا بابا جان کو فون ملاؤ۔" ادھام نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
" میں کیسے پلیز لالہ آپ بتادیں میں اس وقت کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔"
وہ اٹھ کر باہر نکل گیا تھا جبکہ ادھام نے حویلی میں فون کرکے بتادیا تھا۔ حویلی میں تو جیسے سکوت چھاگیا تھا ایک قیامت کا سما مچ گیا تھا۔
اگلے ہی پل پیر خان،دار جی اور صالک اشمل خان صبیح کے ساتھ ہوسپٹل آگئے تھے اندر مہجب سنان حقیقتاً زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا تھا اور دوسری جانب انتسارہ صالک خان بھی۔
جیسے ہی سب مرد ہاسپٹل کے لیے نکلے یمامہ انتسارہ کے کمرے میں داخل ہوئی تھی جو شاید سونے کی تیاری کررہی تھی اسے دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔
" ارے واہ اپنے ہزبینڈ کو اس ٹائم اکیلا چھوڑ کر میرے پاس آگئی ہو کوئی جھگڑا تو نہیں ہوگیا لالہ سے؟"
وہ حسبِ عادت چہرے پر شریر مسکراہٹ سجا کر اسے تنگ کررہی تھی لیکن بدلے میں یمامہ کا سنجیدہ رویہ اسے واقعی ہی کسی انہونی کا پتہ دے رہا تھا۔
" کیا بات ہے یمامہ کیا واقع ہی لالہ سے جھگڑا ہوگیا ہے تمہارا چلو میں ابھی بات کرتی ہوں لالہ سے۔"
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے کر جارہی تھی جب یمامہ نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
" انتسارہ میرا کوئی جھگڑا نہیں ہوا ہے۔
" تو پھر کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ؟"
انتسارہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" وہ مہجب لالہ!"
" کیا ہوا مہجب کو ملنے تو نہیں آگئے مجھ سے چھپ کر کہا بھی تھا صبر کرلیں لیکن ان سے صبر ہوتا ہی نہیں ہے کہاں ہیں میں ابھی دیکھتی ہوں۔"
وہ پھر کمرے سے باہر جانے لگی تھی جب یمامہ نے انتسارہ کی بازو پکڑ کر روکا تھا۔
" مہجب لالہ کو کسی نے گولی مار دی ہے ان کی کنڈیشن خاصی سیریس ہے سب مرد ہاسپٹل گئے ہیں۔" اس کا بازو زور سے کھینچتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
" یہ کیا مذاق کررہی ہو؟"
انتسارہ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" یہ مذاق نہیں ہے سچ میں وہ ہاسپٹل ہیں۔"
ایک دم میں انتسارہ نے اس سے اپنا بازو چھڑوایا تھا اور بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" میں خود دیکھ کر آتی ہوں وہ اپنے کمرے میں ہی ہونگے۔"
وہ اس سے ہاتھ چھڑوا کر سیدھا دو تین سیڑھیاں اتر کر پیر خان کے پورشن میں گئی تھی مہجب کے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے کمرا خالی تھا یہاں بھی نہیں ہیں۔
" انتسارہ میری بات سنو تم؟" یمامہ اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ ساتھ والے کمرے سے انبہاج باہر آئی تھی۔
" بی بی مہجب کو دیکھا ہے وہ اپنے کمرے میں نہیں ہیں درار لالہ کے ساتھ ہیں کیا؟"
انبہاج نے اس کی طرف دیکھا تھا جو بہت امید سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
" ہاں ان کے ساتھ ہے وہ آجاؤ تم میرے پاس اندر آؤ۔"
وہ اسے اپنے کمرے میں لے گئی اور بیڈ پر بٹھا کر پانی کا گلاس بھر کر اسے پلایا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
" بی بی مہجب کب آئیں گے؟" چہرے پر خوف سا تھا۔
" آجائیں گے ۔ تم سو جاؤ۔" انبہاج نے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے کہا تھا۔
" یہاں آپ کے پاس کیوں یہ تو درار لالہ کی جگہ ہے نا؟"
اس کے سوالات پھر سے شروع ہوچکے تھے۔
" انتسارہ!"
انبہاج نے اسے گھورا تھا۔
" اوکے سوری ۔"
وہ انبہاج کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی تھی۔ انبہاج کی آنکھیں اس وقت ایک بار پھر صبر سے متعارف ہورہی تھیں انتسارہ پر بہت مشکل وقت تھا۔
         *************************
زکوان ہاؤس بھی خبر ہوچکی تھی زکوان ردوا بیگم اور میسہ کو لے کر حویلی آیا تھا اور اس کے بعد خود اس نے ہاسپٹل جانا تھا۔ ردوا بیگم تو زنان خانے میں پیر بیگم کے پاس بیٹھ گئی تھیں کیونکہ رو رو کر پیر بیگم کی بہت بری حالت ہوگئی تھی جبکہ میسہ انبہاج کے کمرے میں ہی آگئی جہاں انتسارہ تھی میسہ نے انتسارہ کو انبہاج کے ساتھ بیٹھے دیکھا تو بھاگ کر اس کے پاس آگئی تھی۔
" انتسارہ لالہ؟"
اس کے بعد میسہ نے رونا شروع کردیا تھا۔ انتسارہ نے حیرت سے میسہ کی جانب دیکھا تھا۔
" کیا ہوا میسہ تم رو کیوں رہی ہو؟" انتسارہ کے چہرے کی حیرت واضح تھی۔
" کیا مطلب ہے کہ میں کیوں رو رہی ہوں میرے لالہ زندگی اور موت کے بیچ میں ہیں۔"
" بی بی اسے نہیں پتہ کیا؟"
اب میسہ نے انبہاج سے پوچھا تھا جس پر اس نے سر کے اشارے سے اسے بتایا تھا۔انتسارہ کو سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود وہ رو نہیں رہی تھی نہ ہی کچھ بول رہی تھی وہ چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کی یہی حالت اس کے گرد موجود لوگوں کو زیادہ تکلیف میں مبتلا کررہی تھی۔
ہاسپٹل میں پوری رات ان نفوس نے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر گزاری تھی حویلی میں خواتین کا برا حال تھا درار کو مہجب کی ایک ایک بات ایک ایک حرکت یاد آرہی تھی تکلیف سی تکلیف تھی۔صبح صبح ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تھا۔
" ڈاکٹر کیسا ہے وہ اب؟"
ادھام نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا جن کے چہرے سے ہی مایوسی ٹپک رہی تھی۔
" آئی ایم سوری گولی ہم نے نکال دی ہے پر وہ کومہ میں جاچکے ہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کتنے عرصے میں اس سے باہر آئیں گے ۔ آپ لوگ پلیز دعا کریں ہوسکتا ہے جلدی ہوش میں آجائیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سال لگ جائیں۔"
ڈاکٹر اپنی بات کہہ کر رکے نہیں تھے وہ چلے گئے تھے مگر وہاں کھڑے ہوئے نفوس کو جھٹکے دے گئے تھے وہاں ایک طرف زکوان بھی کھڑا تھا۔ ادھام کے ساتھ ساتھ وہاں کھڑے ہر انسان نے یہ خبر سنی تھی اور دار جی یہ خبر سنتے ہی بینچ پر بیٹھ گئے تھے انہیں اپنے دل میں شدید درد کا احساس ہورہا تھا سب لوگ ان کی جانب بڑھے تھے انہیں فوری طور پر ٹریٹمنٹ کے لیے لے کر جایا گیا تھا۔ صرف چوبیس گھنٹوں میں خان حویلی میں سردار اشمل خان کی حکمرانی کا تختہ الٹ گیا تھا۔
انسان دوسروں پر حکومت کرتے ہوئے یہ بات اکثر بھول جاتا ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ شیر خان کی برتریت کو اللہ نے خاک میں ملایا پھر زکوان کو اس کے غرور اور اللہ کی نافرمانی کی سزا ملی۔ ردوا شیر خان کو اولاد کے ساتھ کی صورت میں ان کے زندگی بھر کے صبر کا پھل ملا اور پھر اشمل خان کی سزا کا تعین کیا تھا اللہ کی ذات نے جن روایات کو پچھلے پینتیس سال سے انہوں نے سینے سے لگایا ہوا تھا ان ہی روایات کا چیتھڑا چیتھڑا بکھر گیا تھا اور خود وہ ہاسپٹل کے بیڈ پر پڑے ہوئے تھے جس اولاد کی خوشیوں کو انہوں نے ساری عمر نگل کر قربانی کی نظر کیا تھا وہی آج مکافات عمل کی صورت میں ان کے آگے کھڑی ہوگئی تھی۔ وقت پلٹا تھا اور اس کے ساتھ ہی ساری بساط بھی پلٹ گئی تھی کسی کی سزا کا تعین جلدی ہوا تھا تو کسی کی سزا میں ابھی کچھ وقت تھا بہر حال جو بویا تھا وہ تو سب ہی کاٹ رہے تھے چاہے خوشی سے چاہے غم سے۔
مہجب کے کومہ میں جانے اور دار جی کے ہارٹ اٹیک کی خبر خان حویلی کی عورتوں تک پہنچ چکی تھی اس لمحے خان حویلی کی ہر عورت بے بسی کے دھانے پر کھڑی تھی ماں شدید خواہش ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کو دیکھنے ہسپتال نہیں جاسکتی تھی بیوی شوہر کی عیادت کے لیے نہیں جاسکتی تھی کیوں تھا ایسا سب کے سب روایات کی کچی ڈوری میں بندھے ہوئے تھے جو اب اتنی خستہ حال ہوچکی تھی کہ وقت کے کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتی تھی۔ پیر بیگم بار بار بے ہوش ہورہی تھیں اور اب انتسارہ کو خبر ہوئی تھی۔ جس انسان کے سانس لینے کی آواز اسے اپنے وجود میں سے آتی تھی وہ انسان دنیا و مافیا سے بے خبر ہاسپٹل کے بستر پر پڑا تھا اور اس کے زندگی کی طرف واپس آنے کے لمحات کا اندازہ وہ نہیں لگا سکتی تھی۔ زندگی نے پہلی بار انتسارہ صالک کو صبر سے روشناس کرایا تھا اس زندگی سے بھرپور لڑکی کو بے بسی کے عجیب سے دھانے پر لا کر کھڑا کردیا تھا جہاں وہ خود کو تنہا محسوس کررہی تھی کیونکہ جس کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھے تھے وہ تو اب کہیں تھا ہی نہیں پھر وہ کیوں تھی اس نے خود کے بازو پر ایک چٹکی کاٹی تھی اور خود کے زندہ ہونے کا ادراک کیا تھا۔اس لمحے اس کی جانب سب دیکھ رہے تھے جو جو اس کی محبت کی داستان سے واقف تھا وہ سب وہاں موجود تھیں اور انتسارہ کی خاموشی انہیں کاٹ رہی تھی جو بستر سے نیچے کارپیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
" سن رہی ہو انتسارہ لالہ کومہ میں چلے گئے ہیں تمہیں کیوں سنائی نہیں دے رہا؟"
میسہ روتے ہوئے اسے جھنجھوڑ رہی تھی جو ابھی بھی اپنی سابقہ حالت میں ساکن بیٹھی ہوئی تھی میسہ اس کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر تھک گئی تھی سب کی رو رو کر بری حالت تھی صرف ایک واحد نفس صبر کا منہ بولتا مجسمہ آج بھی اسی سپاٹ تاثرات کے ساتھ وہاں موجود تھا جیسے ہمشہ ہوتا تھا اس کی آنکھیں خشک تھیں شاید آنسو آئے ہی نہیں تھے۔
کتنی دعائیں مانگی تھیں ساری زندگی اس نے اپنی بہن کے لیے کہ اللہ کبھی بھی اسے صبر سے روشناس نہ کرائے تو کیوں ہوا تھا ایسا وہ تو ہمشہ شکر کرتی تھی اللہ کا جس نے اس کی بہن کو زندگی سے بھرپور رکھا ہوا تھا پھر کیوں ہوا تھا ایسا کیا خان حویلی کی ہر عورت کی صبر کے ساتھ روشنائی ضروری تھی جو اللہ نے اسے بھی دکھا دیا کہ لے دیکھ یہ وہ میٹھا زہر ہے جو اندر سے دھیرے دھیرے کاٹ کے مارتا ہے،لے سب نے چکھا تھا صرف تو نے اس کا ذائقہ محسوس نہیں کیا تو چل تو کیوں پیچھے رہتی اب تیری باری ہے اور گھونٹ گھونٹ کرکے وہ میٹھا زہر انتسارہ صالک خان کے ہلک میں انڈیلا گیا تھا جس سے اس کے چہرے سمیت سارا اندر نیلا پڑھ گیا تھا۔ وہ خاموشی سے اپنی زندگی سے بھرپور بہن کے صبر کو دیکھ رہی تھی وہ اسے خود کی طرح پتھر نہیں بنانا چاہتی تھی اس لیے اپنی جگہ سے اٹھی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر آج انتسارہ کو نہ رلایا گیا تو ساری زندگی کے لیے خان حویلی میں ایک اور بےحس انبہاج صالک خان جنم لے لیتی وہ قدم قدم اس کے پاس آئی تھی گھٹنوں کے بل زمین پر اس کے قریب بیٹھی تھی اس نے اس کا کندھا ہلایا تھا۔
انتسارہ نے اپنی خالی خالی آنکھوں سے اس کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں لب بھینچے ہوئے تھے انبہاج کو اسے دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی۔
" کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا انتسارہ کہ وہ ہوش میں نہیں ہے اسے تکلیف ہوئی ہے؟"
انبہاج نے نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپا کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔دو تین آنسو انتسارہ کی آنکھ سے گر کر انبہاج کے ہاتھ پر جذب ہوئے تھے پتھر کے پگلنے کی شرواعت ہوئی تھی۔
" تمہیں اس کی تکلیف سے کوئی مطلب نہیں ہے محبت کرتی ہو نا اس سے کتنی کرتی ہو بتاؤ مجھے۔"
انبہاج نے اس کی ٹھوڑی تھام کر چہرہ اپنی جانب کیا تھا۔
" بہت کرتی ہوں ایسا لگ رہا میں مر رہی ہوں۔"
اس نے بہت آہستہ سے اس سے کہا تھا اور ساتھ ہی آنسو کی رفتار میں تیزی آئی تھی۔
" بی بی مہجب !"
اور پھر وہ اندھا دھند روئی تھی  اس کی چیخیں خان حویلی کے در و دیوار میں جذب ہورہی تھیں اس کی سسکیاں وہاں موجود ہر نفس کو رولا رہی تھیں۔ انبہاج نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا لیکن اس نے اسے خاموش نہیں کرایا تھا اسے رونے دیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی وہ خاموش ہو اس کا اندر دھل رہا تھا انبہاج نے اپنی بہن کو ایک اور انبہاج بننے سے بچا لیا تھا اسے وہ انتسارہ ہی اچھی لگتی تھی جیسی وہ تھی زندگی سے بھرپور ہمشہ مسکرانے والی شرارتی انتسارہ کی شرارتیں سوچ کر ہلکی سی مسکراہٹ انبہاج کے ہونٹوں پر آئی تھی۔
ایک عجیب سی بے تابی ہے تم بن
رہ بھی لیتے ہیں اور رہا بھی نہیں جاتا
ایک عجیب سا احساس ہے تم بھی
جدائی سہہ بھی لیتے ہیں اور سہی بھی نہیں جاتی
ایک عجیب سی تلخی ہے تم بھی
مسکرا بھی لیتے ہیں مسکرایا بھی نہیں جاتا
        **************************
مہجب کو ہاسپٹل میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ دار جی دو دن پہلے ہی ہاسپٹل سے دسچارج ہوکر گھر آئے تھے ڈاکٹرز کے مطابق انہیں ماینر ہارٹ اٹیک ہوا تھا جس کا فوری ٹریٹمنٹ کردیا گیا تھا لیکن وہ کافی کمزور ہوگئے تھے اور اس پر حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ جب سے حویلی واپس آئے تھے وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں تھے انہوں نے کسی سے کوئی بھی بات نہیں کی تھی صرف بی بی جان ہی تھیں جو ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھ رہی تھیں تو وہ وقت آگیا تھا جب قدرت نے سردار اشمل خان! ایک ایسا انسان جس نے پینتیس سال  ایک قبیلے پر حکومت کی تھی خاموش ہوکر رہ گیا تھا۔ انہیں اپنی خاموشی میں دھیرے دھیرے اپنے زندگی بھر کیے گئے اقدامات یاد آرہے تھے لمحوں میں انہوں نے ایک فیصلہ کیا تھا اور اب انہیں اس کی تکمیل چاہئیے تھی بی بی جان اندر داخل ہوئیں تو انہوں نے انہیں مخاطب کیا۔
" بانو!
" ہوں۔"
دار جی نے مخاطب کیا تو بی بی جان نے انہیں جواب دیا۔
" اریکنیو انتسارہ ( انتسارہ کو بلاؤ)"
" سم ( اچھا)"
وہ کہہ کر باہر نکل گئی  تھیں۔کچھ دیر بعد انتسارہ اندر داخل ہوتی دکھائی دی۔
" ھوویل دار جی ( جی دار جی)"
وہ کہہ کر ان کے بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
" اگر ہم تم سے کچھ مانگے تو کیا تم ہم کو دے گا؟"
سوال تھا کہ خنجر جو انتسارہ کو اندر گھبتا ہوا محسوس ہورہا تھا کیونکہ شاید وہ جانتی تھی کہ وہ کیا مانگنے والے ہیں۔"
اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور پھر گویا ہوئی تھی۔
" میں کوشش کرونگی کہ آپ کو مایوس مت کروں۔"
اس نے انتہائی آہستگی سے ان سے کہا تھا۔
" تم زوہیب کے بیٹے فودیل سے شادی کرلو بچے۔"
دار جی نے انتسارہ کی روح کو لمحوں میں تار تار کیا تھا وہ بے یقینی سے دار جی کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں سنجیدگی تھی اور اس کے علاوہ ان کا چہرہ سپاٹ تھا جیسے ہمشہ دوسروں کو سزا سناتے ہوئے ہوتا تھا۔
" معاف کیجیے گا دار جی لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔"
اس نے لمحوں میں فیصلہ کیا تھا۔
" ہمارا پوتا اس قابل نہیں  رہا بچے کہ تم اس سے شادی کرے اور  ہم اب اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو سدھارنا چاہتا ہے۔"
انہوں نے بڑے ہی آرام سے کہا تھا۔
" اپنی ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے آپ میرا حال کیوں داؤ پر لگا رہے ہیں دار جی میں آپ کی یہ بات ہرگز نہیں مان سکتی مہجب جب بھی ٹھیک ہوں گے میں ان سے ہی شادی کرونگی۔"
اس نے آرام سے دار جی کی نفی کی تھی اور دار جی کو کہاں اپنی نفی برداشت تھی وہ تو ہمشہ برتر رہنے والے تھے ایک لمحے میں انہیں غصہ آیا تھا۔
" تمہارا شادی فودیل سے ہی ہوگا ہم نے زوہیب خان کو کہہ دیا ہے کہ وہ جمعے کو آکر اپنا امانت لے جائے۔"
دار جی نے گویا اس کی قوت گویائی سلب کی تھی خود کا دامن بچانے کے لیے اور خود کو سرخرو کرنے کے لیے وہ کسی اور کو پھر جانے انجانے قربانی کی بھینٹ چڑھارہے تھے لیکن اس لمحے وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے اس وقت انہیں صرف ماضی میں کی گئی اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی دھونی تھی اور وہ اسی زیادتی کو دھونے کے لیے پوتی کے ساتھ زیادتی کررہے تھے ایک بار پھر وہ جانے انجانے میں وہی کرنے جارہے تھے جو پہلے انہوں نے کیا تھا تو آخر ایک بار پھر سے کسی کی قسمت کا فیصلہ سردار اشمل خان نے کردیا تھا تو طے یہ پایا تھا کہ انتسارہ صالک خان بھی قربانی دے گی اور حیرت انگیز طور پر انتسارہ صالک خان خاموش تھی وہ کچھ بھی نہیں بول رہی تھی کیوں تھی وہ خاموش یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا لیکن یہ بات وہ خود اچھے سے جانتی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کی کوشش کرتی تھی مگر دھیان بار بار بھٹک کر انتسارہ کی طرف چلا جاتا آج تین دن ہوگئے تھے اس کی درار سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی قبیلے اور ہاسپٹل کے کاموں میں وہ اتنا مصروف تھا کہ جس وقت وہ سونے کے لیے کمرے میں آتا انبہاج اپنی آدھی نیند پوری کرچکی ہوتی اور جب سے دار جی کے فیصلے کے بارے میں اسے معلوم ہوا تھا وہ بالکل ہی خاموش ہوگئی تھی۔ آج زندگی میں پہلی بار اسے دار جی سے کوئی گلا ہوا تھا اور بہت شدید ہوا تھا ورنہ آج تک اسے کوئی بھی بات بری نہیں لگی تھی ان کے اس فیصلے پر زندگی میں پہلی بار صالک اشمل خان بھی بولے تھے لیکن ہمت کسی کی بھی نہیں تھی کہ وہ دار جی کے آگے کچھ بولتا۔ مہجب کی حالت نے تو ویسے ہی سب کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ پیر بیگم بہت خاموش ہوگئی تھیں نہ کسی سے بات کرتی اور نہ کسی کو مخاطب کرتیں اور دوسری طرف راحمہ بانو کو انتسارہ کا دکھ اندر اندر مار رہا تھا یہ سب خاموش تھے خاموش تماشائی جو کسی کو سولی پر چڑھتا ہوا دیکھ کر افسوس ضرور کرتے تھے روتے ضرور تھے مگر اس کی زندگی بچانے کی ہمت ان میں سے کسی کی بھی نہیں ہوتی تھی۔ جس خان حویلی میں چہل پہل رہتی تھی انتسارہ اور میسہ کے قہقہے گونجا کرتے تھے آج وہاں ویرانیوں کا راج تھا ۔ کبھی کبھی بڑوں کی غلطیوں کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہی خان حویلی میں بھی ہورہا تھا ہر کوئی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا تھا۔ سب کچھ ٹوٹ رہا تھا جس میں جذبے اور ارمان سرِفرہست شامل تھے سب زندہ لاشوں کی طرح ادھر ادھر بھٹک رہے تھے یہ تھی وہ پچھلی کئی سوسال کی بوسیدہ روایات جب کی سولی آج بھی انسان چڑھ رہے تھے اور قصور کس کا تھا؟
قصور ان انسانوں کا تھا جو کئی سو سال سے ان روایات کو بوجتے آرہے تھے اور ان کی بقا کے لیے اپنی اولادوں کی خوشیوں کی قربانیاں دیتے تھے ایک پگڑی کی لاج کے لیے کتنی ہی سسکیاں کتنی ہی آوازیں گونجتی تھیں پر بے حس لوگوں کو پرواہ کہاں تھی جھوٹی انا بچانے کے لیے ایک اور فیصلہ بے دردی سے کردیا گیا تھا۔
" دار جی نے اچھا نہیں کیا انتسارہ کے ساتھ آخر کیوں وہ ہم سب کی خوشیوں کے دشمن ہوگئے ہیں؟"
وہ آج جلدی آگیا تھا اور جب سے اسے انتسارہ کے بارے میں دار جی کا کیا جانے والا فیصلہ پتہ چلا تھا تب سے وہ شدید غصے میں تھا۔
" اس دفعہ واقعی ہی دار جی نے بہت غلط فیصلہ کیا ہے مجھے بھی بہت برا لگا ہے۔"
وہ نخوت سے سوچ کر کہہ رہی تھی جب کہ وہ کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔
" لیکن  یہ نہیں ہوگا اب کیونکہ میں ایسا نہیں ہونے دونگا میرے سردار رہتے ہوئے کسی کی حق تلفی نہیں ہوگئی۔"
وہ اب حتمی فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔
" سردار صاحب ذرا ٹھنڈے ہوجائیے آپ پوچھیں تو صحیح دار جی سے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے۔"
" وہ تو میں پوچھوں گا ہی کیونکہ پانی اب سر سے اونچا ہوگیا ہے۔"
وہ کہہ کر جانے لگا تھا جب انبہاج نے اس کی بازو تھامی تھی درار نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" ابھی بات مت کریں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کوئی بھی سٹریس ان کے لیے اچھا نہیں ہے پلیز!"
اس نے التجا کی تھی اس سے جسے اس نے مان لیا تھا۔
درار اٹھ کر چینج کرنے واڈروب کی جانب بڑھ گیا۔جبکہ وہ صرف اس کے جذباتی ہونے کے بارے میں سوچتی رہ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وقت سرکتا جارہا تھا اور اس کے ساتھ ہی انتسارہ کی دھڑکنے بھی دم توڑتی جارہی تھیں کل جمعہ تھا اور پھر وہ کسی اور کی ہوجاتی اور ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ مہجب سنان خان کے علاوہ کسی کی ہوجاتی۔وہ سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی کمرے میں نیم اندھیرا تھا بالکل اس کی زندگی کے اندھیروں جیسا ایک دم دروازہ کھلا تھا اور کوئی اندر داخل ہوا تھا اس نے بالکل بھی دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ کون داخل ہورہا ہے اندر وہ متواتر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی رہی تھی۔
راحمہ بانو نے اس کے پاس نیچے بیٹھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اس نے مورے کی شفقت محسوس کرتے ہوئے سر اٹھایا تھا آنکھیں خشک تھیں پر دل بھرا ہوا تھا۔
" کیا بات ہے بچے کب تک ایسے رہو گی تم؟"
انہوں نے اس کے بال چہرے سے پیچھے ہٹاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" مہجب مجھے بے وفا سمجھیں گے مورے!"
اس نے بے بسی سے اپنی ماں سے کہا تھا۔
" کیوں سمجھے گا وہ تمہیں بے وفا تم نے کونسے اس سے محبت کے وعدے کرکے چھوڑا ہے اسے؟"
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ ساری زندگی سارے وعدے ہی اس سے کیے تھے۔
" میں ان کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرونگی میں نے بچپن سے ان سے محبت کی ہے۔"
ایک بار پھر وہ بے بسی سے کہہ رہی تھی۔
" محبت کی راہ پر مت چلو بچے یہ تباہی کے کنارے تک لے کر جاتی ہے تم دونوں بہنوں نے ہی اپنے لیے کیوں مشکل راستے چنے ہیں کیوں ان راستوں پر چلتی ہوں جہاں کانٹے بھرے ہوئے ہوتے ہیں جو پیروں کو لہولہان کردیتے ہیں۔"
وہ اس کا سر سہلاتے ہوئے بڑی ہی آہستگی سے اس سے کہہ رہی تھی۔
" نہ مورے راستے مشکل نہیں ہیں انہیں ہمارے لیے آپ لوگوں نے مشکل بنادیا ہے ہر وقت ہر لمحے اپنی مرضی مسلط کردیتے ہیں۔ آپ ایک بات بتائیں اگر قربان ہی کرنا ہوتا ہے تو پھر پیدا کیوں کرتے ہیں ان بوسیدہ روایات کی تکمیل کے لیے اولاد قربان کردیتے ہیں تو یہ بہتر نہیں ہے کہ پیدا ہوتے ہی ہمارا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیں تاکہ جو زندگی بھر انہیں تکلیف میں مبتلا کرنا تھا اس تکلیف کو ایک بار ہی سہن کرلیں۔"
وہ آج بہت تلخ ہوگئی تھی اتنی کڑوی باتیں کررہی تھی کہ راحمہ بانو کو اپنے منہ میں اس کی کرواہٹ کا ذائقہ محسوس ہورہا تھا۔
" دار جی کا فیصلہ اٹل ہے بچے!"
ایک بار پھر سے سمجھایا گیا تھا۔
" دار جی کا تو موت کا ہر فیصلہ ہی اٹل ہوتا ہے یہ ہم اور آپ ہی ہیں جنہوں نے ہمشہ دار جی کو ان کے غلط فیصلوں میں سپورٹ کیا ہے اسی بے جا سپورٹ کی وجہ سے دار جی کو ہمشہ اپنا آپ صحیح اور باقی سب غلط لگتے ہیں ۔"
اس کا کہا گیا ایک ایک جملہ درست تھا۔ دروازے میں کھڑے صالک اشمل خان نے اپنی بیٹی کے کہے ہر جملے کی تردید کی تھی ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ غلط باتیں لگتی بھی تھیں لیکن وہ بڑے ہیں سردار کے رتبے پر فائز ہیں اس رتبے اور بڑے پن نے ان سے ہر غلط فیصلہ صحیح کہہ کر منوایا ہے۔
" لیکن مورے اس بار مقابل میں ہوں دار جی کے اپنے ساتھ میں کچھ غلط نہیں ہونے دونگی دیکھیے گا آپ۔"
وہ انگلی اٹھا کر ان سے کہہ رہی تھی اور پھر اٹھ کر کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ پیچھے راحمہ بانو اس کے عزائم سن کر ہی حیران رہ گئی تھی کہ نجانے وہ کیا کرنے والی ہے۔
رات کا نجانے کونسا پہر تھا شاید رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی رات کا آخری پہر تھا لیکن نیند اسے ایک پل کو بھی نہیں آئی تھی موسم کے تیور آج بھی کچھ خطرناک تھے بارش نہیں ہورہی تھی مگر ہوا اتنی تیز تھی کہ آندھی آنے کا ادراک دے رہی تھی صرف آج کی رات تھی اور پھر کل۔۔ اس سے آگے کی سوچ نہ وہ سوچ رہی تھی اور نہ ہی اسے آرہی تھی کیونکہ وہ لمحات اس نے آنے نہیں دینے تھے۔
لمحوں کی رفتار سے اس نے ایک فیصلہ کیا تھا اسے نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ یہ فیصلہ اس نے ٹھیک کیا ہے یا غلط مگر فیصلہ تو کر لیا تھا اب صرف اس پر عمل باقی تھا وہ بستر سے اٹھی تھی اور کھڑکی کے پٹ کھولے تھے۔ جونہی کھڑکی کھولی تیز ہوا کا جھونکا اندر آیا تھا ہوا نے اس کے رگ و پہ میں سرایت بھر دی تھی۔ کچھ دیر وہ کھڑکی میں کھڑی ہوکر گہرے گہرے سانس لیتی رہی شاید خود کو سکون پہنچا رہی تھی پھر جب کچھ سکون ہوا تو کھڑکی بند کرکے پلٹ آئی جو وہ اس لمحے کرنے جارہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہونگے مگر اس لمحے وہ کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھی۔
واڈروب کے پاس پہنچ کر اس نے واڈروب کھولی تھی اور اندر سے سیاہ چادر نکالی تھی سیاہ چادر سے اس نے اپنا وجود اچھی طرح ڈھانپا تھا اور منہ ڈھانپ کر اپنے کمرے سے باہر آگئی تھی خان حویلی اس لمحے تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہر نفس نیند کی وادیوں میں اترا ہوا تھا پھر اسے نیند کیوں نہیں آرہی تھی اسی سکون کی تلاش میں تو وہ خان حویلی سے باہر نکلی تھی دھیرے سے اس نے پورچ کا دروازہ کھولا تھا گارڈ کے علاوہ وہاں سناٹا تھا وہ جانتی تھی کہ سب اس لمحے سورہے ہونگے وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی سروینٹ کواٹروں کی جانب آئی تھی منہ متواتر ڈھانپا ہوا تھا۔اس نے دھیرے سے دروازہ کھٹکٹھایا تھا شاید اندر والے بھی سورہے تھے اس نے دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹایا اور ایک بار پیچھے مڑ کر بھی دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی دروازہ کھلا تھا اور گل خان بابا نیند کی حالت میں دروازے سے نمودار ہوئے تھے۔
" کون ہیں آپ اور اس وقت یہاں کیا کررہی ہیں؟"
گل خان بابا نے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" میں انتسارہ ہوں گل خان بابا مجھے آپ کی مدد چاہئیے۔"
اس نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے گل خان کو اپنی مدد کرنے کے لیے کہا تھا۔
" انتسارہ بی بی آپ اس وقت یہاں کیا کررہی ہیں اور میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں اس وقت؟"
گل خان نے پریشانی سے انتسارہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" بابا آپ پلیز اس وقت گاڑی نکالیں مجھے کہیں جانا ہے۔"
اس نے ان سے کہا تھا۔
" لیکن اس وقت کسی کو پتہ چل جائے گا تو بی بی میری نوکری خطرے میں پڑجائے گئی۔"
گل خان التجائیہ لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا۔
" اور اگر اس لمحے آپ نے میری مدد نہ کی تو میری زندگی خطرے میں پڑجائے گی ۔ پلیز کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا ہم صبح صبح واپس آجائیں گے آپ چلیں نا۔"
" لیکن جانا کہاں ہے بی بی؟"
" آپ چلیں میں راستے میں بتاتی ہوں کہ کہاں جانا ہے۔"
وہ جلدی سے کہہ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔کچھ ہی دیر میں گل خان نے گاڑی سٹارٹ کردی۔ گاڑی حویلی کے تیسرے گیٹ سے نکلی تھی کیونکہ وہاں ایک گاڈ تھا جو فی الحال اونگ رہا تھا اس لیے کسی کو پتہ نہ چلنے کے چانسس کم تھے گاڑی جب حویلی کی حدود سے تھوڑا باہر نکلی تو گل خان نے بھی انتسارہ سے پوچھا۔
" کہاں جانا ہے بی بی؟"
" بابا کیا آپ کو زوہیب خان کا گھر معلوم ہے؟
اس نے بڑے آرام سے گل خان پر بم پھوڑا تھا۔
" جہ۔جی لیکن زوہیب خان کے گھر کیوں آپ نے جانا ہے انتسارہ بی بی اگر دار جی کو معلوم ہوگیا تو بہت برا ہوگا۔
" مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کچھ بھی ہو آپ بس زوہیب خان کے گھر چلیں مجھے بے حد ضروری کام ہے۔"
" ٹھیک ہے لیکن ان کا گھر معالم جبہ میں ہے یہاں سے تقریباً ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔"
گل خان نے اپنے مشاہدے کے مطابق اس سے کہا تھا۔
" نہیں بابا ایک گھنٹہ زیادہ ہوجائے گا مجھے آدھے گھنٹے میں پہنچنا ہے وہاں آپ جلدی گاڑی چلائیں پلیز۔"
انتسارہ نے ان سے جلدی گاڑی چلانے کا کہا تھا۔
" جو حکم بی بی!"
اسی کےساتھ گل خان نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی۔
انتسارہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہی تھی وہ اپنے دماغ میں وہ سب ترتیب دے رہی تھی جو اسے وہاں جاکر بولنا تھا اس کے ذہن میں مہجب کے ساتھ بتایا ہوا ہر لمحہ گھوم رہا تھا مہجب کا ہنستا مسکراتا چہرہ میں تمہیں دیکھے بغیر ایک لمحہ نہیں رہ سکتا،کہو تو لالہ کے ساتھ ساتھ تمہارے لیے بھی اپنے نام کا مایوں کا جوڑا نہ لے آؤ،جس دن تمہارے ملنے کی امید ختم ہوئی اس دن مہجب سنان خان کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔
سارے مہجب کے الفاظ گڈ مڈ ہورہے تھے انتسارہ نے زور سے آنکھیں میچی ہوئی تھیں آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔
" تمہارے ملنے کی امید ختم ہوگئی تو انتسارہ صالک خان کا بھی آخری دن ہوگا مہجب سنان خان تم بےوفا نہیں ہوسکتے جو مجھے یونہی راستے میں تنہا چھوڑ دو تمہیں میرے لیے واپس آنا پڑے گا میں صرف تمہاری امانت ہوں اس میں خیانت کی اجازت میں کسی کو نہیں دونگی تمہیں بھی نہیں یاد رکھنا۔"
اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا محبت کی مار وجود پر پڑھ رہی تھی ایک بار پھر پیار محبت اور عشق الگ الگ ہوگیا تھا۔ پیار وہ جو ہر پیاری چیز سے ہوتا ہے جیسے زکوان کو میسہ پیاری لگی تھی اس کا یہ پیارا لگنا ہی زکوان کو میسہ کے پیار میں مبتلا کر گیا تھا محبت جو ایک سے ہوتی ہے اور بدلے میں اظہار مانگتی ہے جیسے انتسارہ کو مہجب سے اور مہجب کو انتسارہ سے ہوئی تھی اور اظہار کا انعقاد دونوں طرف سے کیا گیا تھا اور پھر آتا ہے سب سے طویل اور کٹھن مرحلہ عشق جو صرف دینے کا نام ہے جس میں کوئی وصول نہیں ہے کوئی حاصل نہیں ہے اور وہ تھا انبہاج کا درار کے لیے عشق جو درد سے ٹھہراؤ تک کا سفر تھا جس میں صرف چاہنا تھا اور بس چاہے چلے جانا تھا بغیر کسی غرض کے بغیر کسی چاہ کے ہر چیز بدل گئی تھی۔ کردار بدل گئے تھے جذبات بدل گئے تھے اگر کوئی نہیں بدلا تھا تو وہ تھی انبہاج صالک خان۔۔۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں وہ جیسے کسی خواب کی کیفیت سے باہر آئی تھی آنکھیں اور چہرہ پورا بھیگا ہوا تھا لمحوں میں اس کی ناک آنسو بہانے کے باعث سرخ ہوئی تھی۔
" انتسارہ بی بی ہم پہنچ گئے ہیں۔"
گل خان نے گاڑی روکتے ہوئے اس سے کہا تھا۔انتسارہ نے نظریں اٹھا کر دیکھیں تو وہ ایک عالی شان گھر کے باہر کھڑے تھے پہاڑوں کے وسط میں درختوں کے درمیان وہ گھر بہت خوبصورت تھا باہر زوہیب خان کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ آسمان سے روشنی زمین پر اپنے پر پھیلا رہی تھی انتسارہ کو اپنا وجود ایک خوف کی لپیٹ میں محسوس ہوا تھا وہ دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر نکلی تھی اس کا منہ گھر کی جانب تھا ایک دم اسے شدید سردی کا احساس ہوا تھا ہوا کے تیز جھونکے نے اس کی چادر اس کے منہ سے ہٹادی تھی آج انتسارہ نے چادر واپس منہ پر نہیں ڈالی تھی آج اس کا چہرہ عیاں تھا وہ قدم قدم چلتی ہوئی گیٹ کے سامنے رکی تھی چوکیدار نے اسے دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔
" جی بی بی کسے ملنا ہے آپ کو؟"
چوکیدار ماتھے پر بل ڈالے اس سے پوچھ رہا تھا۔
" فودیل سے ملنا ہے مجھے۔"
اس نے بھی مضبوط لہجے میں جواب دیا تھا۔
" ٹھیک ہے اندر چلی جائیں آپ۔"
اس نے اسے اندر کا راستہ دکھایا تو انتسارہ کسی روبوٹ کی طرح گھر کے اندر داخل ہوئی تھی مین دروزہ کھولتے ہی وہ ایک وسیع و عریض لاونج میں داخل ہوئی تھی جہاں بڑی بڑی کھڑکیوں پر پردے پڑے ہوئے تھے وسط میں بڑے بڑے صوفے تھے جن کے درمیان میں خوبصورت شیشے کی میز پڑی ہوئی تھی سامنے دیوار پر فل سائز ایل آئی ڈی لگی ہوئی تھی اور ایک دیوار پر وسیع آتش دان بنا ہوا تھا جس میں آگ دہک رہی تھی انتسارہ نے لمحے کے ہزارویں حصے میں اس لاونج کا جائزہ لیا تھا۔
صبح صبح کا وقت تھا گھر میں بے پناہ خاموشی تھی شاید سب سورہے تھے وہ گھوم پھر کر گھر دیکھ رہی تھی اتنے میں ایک ملازمہ کافی کا کپ لے کر وہاں آئی تھی اور اسے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئی تھی۔
" جی آپ کون ہیں اور یہاں کیا کررہی ہیں صبح صبح؟"
ملازمہ نے بھی چوکیدار کا پوچھا ہوا سوال دوبارہ دھرایا تھا۔
" میں کوئی یہاں پر قبضہ کرنے نہیں آئی جو مجھ سے ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ میں یہاں کیا کررہی ہوں فودیل کو بلاؤ مجھ اس سے بات کرنی ہے۔"
انتسارہ نے اب کی بار بلند آواز میں کہا تھا۔
" جنت بی بی آپ کو کب سے کافی لانے کا بولا تھا ابھی تک آپ لائی کیوں۔۔۔"
وہ بولتا ہوا سیڑھیاں اتر کر آرہا تھا جب اسے دیکھ کر اس کے لفظوں کو بریک لگے تھے اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب اس نے اسے دیکھا تھا سیاہ چادر میں لپٹا وجود بال بکھرے ہوئے چادر سے باہر جھانک رہے تھے چہرہ بغیر ڈھکے آنکھیں سوجی ہوئیں ناک سرخ اور ہونٹ بھینچے ہوئے وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی جو کہ سویا ہوا اٹھ کر آیا تھا اور سیڑھیوں کے درمیان میں کھڑا تھا سیاہ ٹراوزر پر سفید ٹی شرٹ پہنے بکھرے بالوں کے ساتھ چہرے پر سارے زمانے کی حیرت لیے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
" انتسارہ تم؟"
اس نے وہی سیڑھیوں پر کھڑے کھڑے ہی کہا تھا اور پھر تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے اترا تھا۔
" جنت بی بی آپ جائیں یہاں سے۔"
جنت بی بی مڑ کر واپس اندر کی جانب چلی گئیں جبکہ وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کے قریب آگیا۔
" میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اتنا گر جاؤ گے فودیل میرے منع کرنے کے باوجود تم نے یہ شادی رکھوائی یہ جانتے ہوئے کہ میں مہجب سے محبت کرتی ہوں"
وہ زور زور سے چیخ رہی تھی۔
" انتسارہ آہستہ بات کرو تم اپنی حویلی میں نہیں میرے گھر میں کھڑی ہو سمجھی نا۔"
فودیل نے بھی اسے ذرا درشت لہجے میں کہا تھا۔انتسارہ چیخ تو رہی تھی مگر اس کے آنسو بار بار اس کی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔
" یہ کیا شور مچایا ہوا ہے فودیل اور کون ہے یہ لڑکی؟"
زوہیب خان بھی باہر آتے ہوئے اس سے پوچھ رہے تھے۔
" بابا جان آیے ملیے ان سے آپ کی  بہو انتسارہ صالک خان۔"
وہ سینے پر بازو فولڈ کرکے انتسارہ کی طرف اشارہ کرکے اپنے باپ سے کہہ رہا تھا۔
" فودیل اپنی بکواس بند کرلو ورنہ میں منہ توڑ دونگی تمہارا اگر تم نے ایک بار بھی میرے لیے ان کی بہو کا لفظ استعمال کیا تو۔"
وہ انگلی اٹھا کر اس سے کہہ رہی تھی۔
" لڑکی حد میں رہو اپنی۔"
" میں آپ کے بیٹے سے ہرگز شادی نہیں کرونگی میں مہجب سے محبت کرتی ہوں سمجھے آپ پلیز میری جان چھوڑ دیں کیوں میری زندگی مشکل میں ڈال رہے ہیں آپ لوگ۔"
اب کی بار تو وہ سچ میں رو پڑی تھی۔
" میں صرف یہ کہنے آئی ہوں کہ اس نکاح سے منع کردیں آپ لوگ میں بار بار منع کرچکی ہوں جو کچھ بھی ہوا تیس سال پہلے اس میں میرا کیا قصور ہے جو میں سزا بھگتوں آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔"
اس نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے زوہیب خان کے ذہن میں ایک دم ایک خیال آیا تھا کہ اگر یہ لڑکی اب حویلی جانے کی بجائے کہیں اور چلی گئی تو نکاح تو ہو نہیں سکے گا اس لیے انہوں نے لمحوں میں ایک فیصلہ کیا تھا۔
" فودیل مولوی کو بلاؤ جو نکاح شام میں ہونا تھا وہ ابھی اور اسی وقت ہوگا۔"
زوہیب خان نے سپاٹ تاثرات کے ساتھ اسے مولوی بلانے کے لیے کہا تھا فودیل نے حیرت سے اپنے باپ کی جانب دیکھا تھا۔انتسارہ کے چہرے کی ہوایاں لمحوں میں آڑی تھیں اس نے باہر کی طرف تیزی سے قدم بڑھائے تھے جب زوہیب خان نے جنت بی بی کو آواز دی تھی ۔
" اس لڑکی کو پکڑو باہر نہ جائے یہ یہاں سے۔"
زوہیب خان نے جنت بی بی کو انتسارہ کو باہر جانے سے روکنے کا کہا تھا۔
جنت بی بی نے انتسارہ کو تھاما تھا۔
" چھوڑو مجھے پلیز جانے دیں یہ کیا کررہے ہیں آپ زبردستی نہیں کرسکتے میرے ساتھ پلیز مجھے واپس حویلی جانے دیں۔"
وہ اب ان کی منت کررہی تھی فودیل ابھی بھی بت بنا حیرت سے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا اور دوسری نظر اس کی انتسارہ پر پڑی تھی جس کے آنسو نکل نکل کر مسلسل اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔ جنت بی بی انتسارہ کو کھینچ کر اندر کی جانب لے کر جارہی تھیں فودیل نے لمحے میں فیصلہ کیا تھا۔محبت تو اسے کب کی انتسارہ سے ہوگئی تھی اس کے آنسو فودیل کو اپنے دل پر گرتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
" رکیں جنت بی بی!"
اس نے جنت بی بی کو رکنے کا کہا تھا اور اسی کے ساتھ اپنے باپ کی جانب دیکھا تھا جو چہرے پر الجھن لیے اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔
" اسے جانے دیں بابا جان!"
کمرے میں مکمل خاموشی تھی صرف فودیل کی آواز گونج رہی تھی چہرہ اس لمحے از حد سپاٹ تھا زوہیب خان نے اپنے بیٹے کے چہرے کی طرف دیکھ کر اس کی تکلیف کا اندازہ لگایا تھا۔
" مجھے نہیں کرنی یہ شادی۔"
چہرہ ابھی بھی سپاٹ تھا وہ کسی سے بھی نظر ملائے بغیر سامنے دیکھتے ہوئے بات کررہا تھا۔
" کیسے نہیں کرنی شادی تم نے محبت ہے وہ تمہاری۔"
زوییب خان نے اس کے بازو کو تھامتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" محبت!"
فودیل کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے اور پھر ایک مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیلی تھی۔
زوہیب خان حیرت سے فودیل کے چہرے کے اتار چڑھاؤ ملاحظہ کررہے تھے۔
" محبت ہے اسی لیے تو نہیں کرنی۔"
محبت کا نام سن کر انتسارہ نے بھی حیرت سے اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر منہ پر ہاتھ رکھا تھا جیسے اسے یقین نہ آرہا ہو اس بات پر۔
" تمہارا نکاح اس سے ہی ہوگا۔"
زوہیب خان ایک نتیجے پر پہنچ چکے تھے۔
              **********************
فودیل نے ایک طنزیہ مسکراہٹ اپنے باپ پر اچھالی تھی۔
" بابا جان محبت دینے کا نام ہے لینے کا نہیں اس محبت میں مجھے اپنے خالی ہاتھ رہنے پر اتنی تکلیف نہیں ہوگی جتنی اس کے خالی ہاتھ رہنے پر ہوگی اس لیے میں اسے اس تکلیف سے نکال کر اپنے کھاتے میں یہ تکلیف ڈالنا زیادہ پسند کرونگا۔"
اس نے ٹھہر ٹھہر کر اپنا نقطہ بیان کیا تھا انتسارہ نے حیرت سے فودیل کو دیکھا تھا جس کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا کہ شاید اب وہ رو دے آنسو نکلنے کو بے تاب تھے لیکن وہ ضبط کرکے وہاں کھڑا تھا۔
زوہیب خان نے بیٹے کے ضبط کو بڑی ہی بے چینی سے جانچا تھا۔
" اور پھر میں یہ شادی کرکے تیس سال پہلے کی جانے والی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا۔" فودیل کے جملے نے زوہیب خان کو چونکا دیا تھا۔
"تیس سال پہلے کی جانے والی غلطی دوبارہ؟"
زوہیب خان نے الجھ کر اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں تیس سال قبل آپ کی جگہ دار جی تھے میری جگہ شیر خان اور ردوا بیگم کی جگہ انتسارہ ۔
میں اور آپ مل کر آج پھر وہی کرنے والے تھے جو تیس سال قبل اشمل خان نے کیا تھا ہمیں تو ان سے بہتر ہونا چاہئیے تھا بابا جان لیکن ہمارے سامنے مثال ہوتے ہوئے بھی ہم ان سے بھی برتر ہورہے تھے انہوں نے تو اپنی بیٹی پر زبردستی اس کی رضا سے کی تھی جبکہ آپ ان کی بھتیجی پر زبردستی اس کی مرضی کے خلاف کررہے ہیں ان میں اور ہم میں کہاں فرق ہے،ہمیں تو روایات کی بازگشت ختم کرنی تھی نا تو جانے انجانے میں ہم کیوں انہی روایات کو قائم کررہے ہیں کیوں کسی کی محبت اس سے چھین رہے ہیں سردار اشمل خان کو سبق دیتے دیتے بدلے کی آگ میں آندھے ہوکر خود بھی کسی کی زندگی برباد کرنے لگے تھے۔ نہیں بابا جان میرا ضمیر ابھی زندہ ہے یہ مردہ نہیں ہوا اور ابھی میں اتنا خود غرض نہیں ہوا کہ اپنی محبت کی خوشی چھوڑ کر اپنی خوشی کو اس پر فوقیت دوں جس دن انتسارہ مہجب کی بیوی بن گئی نا تو اس دن میں سمجھوں گا کہ میری محبت کامیاب ہوگئی۔"
اب ضبط کی حدود ختم ہوگئی تھیں۔ آنسو آنکھوں سے لڑھکتے ہوئے اس کے گالوں پر بہہ نکلے تھے اس نے منہ دوسری طرف کرکے آنسو رگڑے تھے اور پھر انتسارہ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
" چلو میں تمہیں حویلی چھوڑ آؤں۔"
اس نے اسے چلنے کو کہا تھا۔
" مہ۔۔میں ڈرائیور کے ساتھ آئی ہوں۔" انتسارہ نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا تھا۔
" اسے واپس بھیج دو تمہارا اس وقت اکیلے جانا ٹھیک نہیں ہے حویلی۔"
انتسارہ کو اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی سنائی دی تھی۔
" ٹھیک ہے چلو۔"
وہ اسی حولیے میں اس کے ساتھ باہر کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ اس سارے عرصے میں زوہیب خان بت بنے کھڑے تھے ان کی اپنی اولاد نے انہیں بڑی ہی آسانی سےحقیقت کا آئینہ دکھایا تھا۔
            ***********************
حویلی میں ابھی عوام مکمل طور پر نہیں جاگی تھی طبیعت خرابی کی وجہ سے دار جی بھی فجر پڑھ کر لیٹ گئے تھے کمرے میں ابھی بھی نیم اندھیرا تھا وہ شاید کچھ دنوں سے شدید تھکا ہوا تھا اس لیے دیر تک سوتا رہ گیا۔ اس کی آنکھ اپنے بازو پر کسی بوجھ سے کھلی تھی اس نے دیکھا تو انبہاج اپنی جگہ سے کھسک کر بالکل درار کے پاس آئی ہوئی تھی انبہاج کا سر درار کے بازو پر تھا سنہرے بال کھلے ہوئے تھے جس کی لٹیں اس کے چہرے کو چوم رہی تھی پلکیں رخساروں پر سجدہ ریز تھیں اور گلابی گال دہک رہے تھے عنابی ہونٹ بند تھے اور ٹھوڑی کا تل چہرے پر چمک رہا تھا۔ منظر مکمل تھا درار بغیر پلک جھبکے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا آج وہ مان گیا تھا کہ ایک بے حد حسین عورت اس کا نصیب تھی وہ سوتی ہوئی کوئی معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی درار کے ہونٹوں کو ایک حسین مسکراہٹ نے چھوا تھا۔
" میری سردارنی جتنی جاگتی ہوئی معصوم لگتی ہے سوتی ہوئی اس سے بھی زیادہ معصوم لگتی ہے۔"
اس نے یہ سوچتے ہوئے اس کے چہرے سے اس کے بال ہٹائے تھے اور اپنے لبوں سے اس کا ماتھا چھوا تھا۔ وہاں سے نظر دونوں گلابی گالوں پر ٹھہری تھی۔ گالوں سے ہوتی ہوئی نگاہیں ٹھوڑی کے تل پر پھسلی تھیں۔ اس نے دوسرے ہاتھ کی انگلی سے اس کی ٹھوڑی کا تل چھوا تھا درار کے لمس سے انبہاج کی آنکھ کھل گئی تھی۔ درار کو اپنے اتنا نزدیک دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔
" یہ۔یہ میں یہاں کیسے۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرتی درار نے اس کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھی تھی۔
" شیش! ابھی کچھ مت بولو میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔"
انبہاج کے لیے درار کا یہ رویہ بہت نیا تھا انبہاج خاموش ہوگئی تھی۔۔۔
" تمہارے اس تل پر مجھے اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔"
وہ خمار آلود لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا جبکہ انبہاج کے لیے اس کے یہ الفاظ سمجھنا مشکل تھا۔ دروازے پر دستک نے دونوں کو ایک دوسرے کے سحر سے آزاد کیا تھا۔
" خان جی دار جی بلارہے ہیں آپ کو۔"
گل بانو نے باہر سے ہی آواز لگا کر کہا تھا۔
" ٹھیک ہے ان سے بولو میں آتا ہوں۔"
وہ جی اچھا کہہ کر چلی گئی جبکہ وہ بس اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔
" دار جی ہمشہ غلط وقت پر بلاتے مجھے۔"
وہ شدید بے چارگی سے اس سے کہہ رہا تھا جبکہ وہ منہ نیچے کرکے مسکرا دی تھی۔
" جان چھوٹنے پر کیسے ہنس رہی ہو تم؟"
وہ مصنوعی گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
" دار جی بلا رہے ہیں آپ کو میری نماز ویسے ہی کزا ہوگئی پتہ نہیں میں سوتی کیسے رہ گئی۔"
وہ اٹھ گئی تو وہ بھی بغیر چینج کیے باہر کی جانب بڑھ گیا جبکہ انبہاج واش روم کی جانب چلی گئی۔
مردان خانے میں پہنچ کر اس نے دار جی کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
" آپ نے بلایا مجھے؟" درار نے سوالیہ نظروں سے پوچھا تو دار جی نے اثبات میں سر ہلایا۔
" ہوں نکاح کے انتظامات پر ذرا دھیان رکھ لینا خصوصی کیونکہ ہم خود نہیں دیکھ سکے
گا۔"
دار جی نے بڑے تحمل سے اس کو کام بتایا تھا۔
" اور آپ کو یہ غلط فہمی کیوں لاحق ہوئی کہ میں یہ نکاح ہونے دوں گا۔"
اس نے بھی بڑے آرام سے سینے پر بازو باندھے انتہائی تحمل سے ان سے کہا تھا۔
" ہر بار تمہارا بھیس کرنا ضروری ہے ہم سے درار بچے اس وقت ہم تم سے لڑ نہیں سکتا تو جیسا ہم نے بولا ہے تم ویسا کردو بڑا مہربانی ہوگا تمہارا۔"
دار جی نے اکتا کر اس سے کہا تھا۔
" لیکن میں آپ سے کرسکتا یوں بھیس کیونکہ میں آپ کو دوبارہ تیس سال پہلے والی غلطی نہیں کرنے دونگا۔"
تیس سال قبل سن کر وہ بھی درار کے منہ سے دار جی کو اپنی جان ہوا ہوتی محسوس ہورہی تھی۔
" یاد رکھیں دار جی آپ پرانی غلطی سدھارنے کی بجائے پھر سے وہی غلطی دھرا رہے ہیں اس سے زیادہ میں آپ کو کچھ نہیں کہونگا آپ خود سمجھدار ہیں۔"
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سارے راستے وہ دونوں خاموش رہے تھے شاید ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کی ہمت دونوں میں ہی نہیں تھی گاڑی ایک جھٹکے سے حویلی کے سامنے رکی تھی۔ فودیل نے ہارن دیا تو گارڈ نے حویلی کا گیٹ کھول دیا وہ جھٹ سے گاڑی پورچ میں لایا تھا اور وہی اس نے بریک لگائی تھی انتسارہ نے گاڑی رکتے ہی اس کی جانب دیکھا تھا جو بالکل سامنے دیکھ رہا تھا۔انتسارہ گاڑی سے اتری اور اندر کی طرف بڑھنے لگی تھی جب دوبارہ مڑ کر اس کی جانب والی ونڈ سکرین پر آئی تھی۔
" تھینک یو یاد رکھنا جو محبت کا بھرم رکھتے ہیں وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتے بہت سی خوشیاں تمہاری منتظر ہیں۔"
وہ کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ اس نے سر ونڈ سکرین سے ٹکایا تھا اور گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے ہی حویلی میں داخل ہوا تھا۔
درار دار جی سے اور بھی کچھ کہہ رہا تھا جب اس کی نظر مردان خانے کے دروازے پر پڑی تھی جہاں سے فودیل داخل ہوا تھا اور دوسری نظر اس کی زنان خانے میں جاتی انتسارہ پر پڑی تھی اور صرف وہی نہیں دار جی نے بھی دونوں کو دیکھا تھا اورحیرت کا شدید جھٹکا بھی محسوس کیا تھا۔
" تم صبح صبح ادھر کیا کررہا ہے اور یہ انتسارہ تمہارا ساتھ کیوں تھی؟"
دار جی اس سے وہ سوال پوچھ رہے تھے جسے پوچھنے کی ہمت شاید وہ اپنے اندر پیدا نہیں کرپارہے تھے آخر کو انتسارہ حویلی کی بیٹی اور ان کی عزت تھی۔
" میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں یہ نکاح نہیں کرونگا کیونکہ انتسارہ نہیں کرنا چاہتی یہ شادی۔"
اس نے بڑے آرام سے وہاں موجود نفوس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔
" یہ کیا بکواس کررہا ہے تم انتسارہ کا فیصلے کا اتنا اہمیت نہیں ہے۔" دار جی کے ماتھے پر بلوں کا گہرا جال نمودار ہوا تھا۔
" میں بتاتا ہوں آپ سب کو۔"
سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں دروازے پر زوہیب خان کھڑے تھے وہ قدم قدم چلتے ہوئے اندر کی جانب آئے تھے۔
" تمہارا بیٹا کیا کہہ رہا ہے یہ؟"
دار جی نے ماتھے پر بل ڈال کر اب زوہیب خان سے پوچھا تھا۔
" بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے میرا بیٹا آج اس نے ثابت کردیا کہ نہ تو یہ خود غرض ہے اور نہ ہی مفاد پرست اس لیے اس نے وہ فیصلہ کیا ہے جو میں یا آپ سمجھدار ہوتے ہوئے بھی نہیں کرپائے جانے انجانے میں آج آپ وہی غلطی کررہے تھے جو آپ نے تیس سال پہلے کی تھی اور میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی بدلے کی آگ میں اتنا اندھا ہوگیا تھا کہ آپ کو اس غلطی کو دہرانے پر اکساتا رہا۔لیکن آپ کی پوتی اور میرے بیٹے نے آج ہم دونوں کو ہی غلطی کرنے سے بچا لیا اگر آج صبح یہ نہ آتی تو آج ایک اور عورت خان حویلی کی فرسودہ روایات پر قربان ہوجاتی میں نے انتسارہ کا انتخاب کیا ہی اس لیے تھا کہ وہ آپ سے اور روایات سے لڑنے کی ہمت اور طاقت رکھتی ہے۔"                                          "ایک بار آپ نے محبت چھینی تھی تو آپ تب سے اب تک سکون میں نہیں رہے ہیں جانتا ہوں آپ نے اپنی بیٹی کو گلے نہیں لگایا تیس سال سے وہ آپ کا مان رکھتے ہوئے بھی آپ کی شفقت سے محروم رہی ہے تو آج ایک بار محبت دے کر دیکھیں یقین کریں جو سکون دے کر آتا ہے نا وہ چھین کر نہیں آتا ۔"
فودیل نے اب کی بار دار جی سے کہا تھا۔
بدلے میں وہ بالکل خاموش تھے شاید اپنا کیا ہوا ہر ظلم وقتاً فوقتاً یاد آرہا تھا۔
درار نے آگے بڑھ کر فودیل کو گلے لگایا تھا۔
" مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے کہ آج تمہاری وجہ سے ایک اور خان حویلی کی عورت ان بوسیدہ روایات کی بھیٹ چڑھنے سے بچ گئی اور سردار اشمل خان صاحب ایک اور زندگی برباد کرنے سے بچ گئے۔"
وہ ایک بھرپور نگاہ دار جی پر ڈال کر مردان خانے سے باہر نکل گیا تھا۔زنان خانے کی جالیوں سے ٹیک لگائے کھڑی انتسارہ کی جالیوں پر گرفت مضبوط ہوئی تھی اس نے آنکھیں زور سے میچی تھیں آنسو موتیوں کی لڑی کی صورت میں اس کی آنکھوں سے بہہ کر رخساروں پر جذب ہورہے تھے اسے اپنے کندھے پر کسی کا دباؤ محسوس ہوا تھا انتسارہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بی بی جان اپنی چھڑی لیے کھڑی تھیں چہرے پر آج ایک شفیق مسکراہٹ تھی۔ آج ہر وقت رہنے والی کرختگی کہیں غائب تھی۔
" راہیں مشکل ہوں لیکن اگر بندے کا لگن سچا ہو تو منزل مل جاتا ہے ہمارا پوتا سے تمہارا محبت سچا تھا اس لیے تو اس کا حصول اللہ نے تمہارا لیے معمکن بنادیا ہمیں فخر ہے تم پر بچے کہ تمہارا وجہ سے آج ایک عورت قربانی دینے سے بچ گیا جیتا رہ مارا بچہ ۔"
بی بی جان نے  اس کا ماتھا چوما اور مڑ کر واپس چلی گئی تھیں وہ گئی تو انبہاج اس کے قریب آئی تھی اس نے بغیر کچھ کہے اسے گلے لگایا تھا۔
" اللہ تعالی تم پر کبھی صبر کی آزمائش نہ ڈالے میری جان ایک بات یاد رکھنا سانحہ جتنا مرضی برداشت والا کیوں نہ ہو آنسو بہانے سے گریز نہ کرنا آنسو دلوں کی ساری گرد کو لمحوں میں صاف کردیتے ہیں اور دل ایک دم ہلکا ہوجاتا ہے اور جس کے لیے تم صبر سے روشنائی حاصل کررہی تھی وہ شاید تمہارے آنسو بہانے کا منتظر تھا وہ جلد تمہارے اور اپنوں کے پاس واپس آجائے گا۔"
وہ کہہ کر واپس جانے والی تھی جب انتسارہ نے اس کی کلائی تھامی تھی۔
" یہی بات میں آپ سے کہوں گی بی بی آنسو بہا لینے چاہئیے۔ دلوں کی گرد اور دھند لمحوں میں صاف ہوجاتی ہے حد سے زیادہ صبر انسان کو پتھر بنا دیتا ہے اور اب مجھے آپ کے پاس سے پتھر والی کیفیت کا احساس ہورہا ہے۔"
اس نے انبہاج سے کہا تو اس نے لمحوں میں انتسارہ سے نظریں چرائیں اور اس سے نگاہ ملائے بغیر اندر چلی گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دھیرے دھیرے زندگی سے ہر دھند صاف ہوگئی تھی ہر چبھتی ہوئی کسک نکل گئی تھی پھر بھی ان کا دل خالی تھا اندر ابھی بھی کہیں کچھ ادھورا سا تھا زندگی میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا جس شوہر نے ساری زندگی جوتے لگاتے گزار دی تھی ایک اولاد کی بدولت اسے اس کی کی گئی غلطیوں کا احساس ہوگیا تھا،جس اولاد کو ساری زندگی وہ خود سے دور سمجھ رہی تھیں وہ ہمشہ ان کے سب سے قریب تھا محبت دور ہوگئی تھی تو کیا ہوا تھا وقت کے ساتھ وہ زخم پرانے ہوگئے تھے اولاد کی محبت نے ان پر نرم مرحم رکھ دیا تھا اس لیے ان سے رسنے والا خون رسنا بند ہوگیا تھا شاید بے حد صبر آگیا تھا انہیں سب کچھ تو ٹھیک ہوگیا تھا پھر بھی وہ سکون وہ اطمینان کیوں نہیں تھا جس سکون کی تلاش میں انہوں نے زندگی بھر سفر کیا تھا اپنے مقصد اور تکمیل میں وہ ابھی بھی کامیاب نہیں ہوئی تھیں جو ادھورا تھا وہ یہ تھا کہ تیس سال سے باپ کی شفقت سے محروم رہی تھیں اور اب جبکہ زندگی میں سکون کی رمق جاگی تھی تو باپ کی شفقت اور سینے سے لگنے کی طلب میں یک لخت اضافہ ہوا تھا  کبھی کبھی سب کچھ حاصل کرکے بھی انسان ادھورا رہ جاتا ہے۔
وہ صوفے پر اوپر پاؤں کرکے بیٹھی ہوئیں تھیں آنکھیں بند تھیں دل میں بڑھنے والی طلب کو وہ بڑی ہی بے دردی سے دبا رہی تھیں جب سر پر شفقت کے ہاتھ کا احساس ہوا تھا یک لخت آنکھیں کھولی تھیں اور جو انہوں نے دیکھا تھا اس پر یقین کرنا ردوا شیر خان کے لیے ناقابلِ یقین تھا تیس سال کم عرصہ نہیں ہوتا جو انہوں نے اپنے باپ سے بات کیے بغیر گزار دیا تھا۔
" دا۔۔دار جی! "
ان کے لب کانپے تھے پھڑپھڑا رہے تھے الفاظ ادا کرنا بے حد مشکل تھا۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھری ہوئی صوفے سے اٹھی تھیں اور پھر صرف انہیں ایک لمحہ لگا تھا دار جی کے سینے سے لگنے میں پھر وہاں ہچکیاں تھیں اور ردوا بیگم کی سسکیاں تھیں ۔
" بہت دیر ہوگئی تھی۔"
" مجھے لگ رہا تھا کہ اب اگر میں آپ کے سینے سے نہ لگی تو میں ختم ہوجاونگی دار جی!" ردوا بیگم کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
" نہ میرے بچے نہ ہم جانتا ہے کہ ہم نے بہت دیر لگا دی تمہارا پاس آنے میں پر اب سچ میں ہم خود بھی اپنا جھوٹا انا سے تھک گیا تھا ہمیں معاف کردو بچے!"
انہوں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے۔
" نہ دار جی تہ زمہ پلار( نہیں دار جی آپ میرے باپ ہیں۔)
آپ مجھے معاف کردیں کہ میں ایک اچھی بیٹی نہیں بن پائی۔" ردوا بیگم نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا۔
" نہ بچے تم ہمشہ اچھا بیٹی تھا بس ہم نے تم کو سمجھنے میں دیر کردیا۔"
وہ آج کہیں سے بھی وہ اکھڑے ہوئے دار جی نہیں لگ رہے تھے جن کے ماتھے پر ہمہ وقت بل پڑے رہتے تھے وہ اکڑ کہیں نہیں تھی آج جو سردار اشمل خان کی شخصیت کا خاصہ تھی ردوا شیر خان کے صبر کے تابوت میں آج آخری کیل بھی ٹھوک دیا گیا تھا اب صحیح معنوں میں زندگی سکون کی طرف جارہی تھی۔
" ہم بھی آیا ہے تمہارا دار جی کے ساتھ ان کے ساتھ ہی لاڈ میں لگ گیا تم۔"
بی بی جان اپنی چھڑی سنبھالتی ہوئی لاونج میں داخل ہوئی تھیں۔
" ارے بی بی جان آپ کہاں تھیں؟" ردوا بیگم ان کی جانب لپکی تھیں۔
" ہم باہر کھڑا تھا تم کو دیکھ رہا تھا روتے ہوئے۔"
بی بی جان ان سے گلے ملتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ تینوں سب کچھ بھلا کر وہاں سکون سے کھڑے تھے۔
بیتے وقت کی بیتی یادیں
لمحوں کے توقف سے دھندلی تھیں
آج جب ہم واپس ملے تو
صدیوں کی دھند بھی یوں چھٹی
بیتا زمانہ تو بیت گیا تھا
آج برسوں بعد ملنے کی خوشی ملی
                                                (ایمن خان)
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
خان حویلی میں ایک بار پھر سکوت چھا گیا تھا یہ سکوت شاید سکون کی علامت تھا آج صبح ہی پلوشے کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اسے ادھام ہاسپٹل لے کر گیا تھا  لیکن آج وہ اکیلا نہیں گیا تھا پیر بیگم اس کے ساتھ گئی تھیں تو روایات ٹوٹنے کی شرواعت ہوچکی تھی اور اختتام بھی نزدیک تھا بس تھوڑا وقت باقی تھا۔
" بی بی جان!"
درار آواز لگاتا ہوا زنان خانے میں ہی آگیا تھا کیونکہ بی بی جان کے پاس صرف انبہاج بیٹھی ہوئی تھی۔
" کیا ہوگیا کیوں شور مچایا ہوا ہے؟"
بی بی جان درار کی طرف دیکھ کر کہہ رہی تھی
" وہ ادھام لالہ کا بیٹا ہوا ہے مبارک ہو آپ کو۔"۔
اس نے بی بی جان کو گلے لگا کر کہا تھا۔
" ارے ماشاءاللہ شکر ہے اللہ کا اس نے خیر سے یہ دن دکھایا ہم کو۔۔۔اور تم سیدھا ہی زنان خانے میں آگیا؟"
بی بی جان کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے کہہ رہی تھیں انبہاج نے مشکل سے اپنی ہنسی دبائی تھی۔
"ارے بی بی جان میں نے دیکھ لیا تھا باہر سے کہ زنان خانے میں آپ اور انبہاج ہی بیٹھی ہوئی ہیں اور آپ میری بی بی جان ہیں اور انبہاج میری بیوی تو دونوں سے ہی میرا پردہ نہیں ہے اس لیے میں بے دھڑک ہوکر آگیا۔"
وہ کندھے اچکا کر نارمل انداز میں ان سے کہہ رہا تھا۔
" اچھا اچھا بس کردو ادھام کا بیٹا ہوگیا ہے اب تو تم بھی کچھ سوچ لو اب ہم کو تمہارا اولاد چاہئیے بس کہہ دیا ہم نے۔"
بی بی جان نے ہاتھ اٹھا کر حتمی لہجے میں اس سے کہا تھا۔
" ارے بی بی جان یہ آپ کی پوتی بیٹھی ہے اس سلسلے میں اس سے رابطہ کریں۔"۔
وہ ہاتھ اٹھا کر کہہ کر وہاں سے باہر نکل گیا تھا جبکہ انبہاج سر اٹھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
" ہاں بھئی تم کو کیا مسئلہ ہے ؟"
بی بی جان نے سیدھا اس کی ذات پر اٹیک کیا تھا۔
" نہ نہیں بی بی جان میں نے تو کچھ نہیں کہا یہ تو بس ایسے ہی بولتے رہتے ہیں۔"
وہ شرمندہ ہوکر وہاں سے نکلنا چاہتی تھی لیکن بی بی جان سے کون بچائے اس کو۔
" دیکھ لو اگلی بار ہم کو تمہارا اولاد چاہئیے۔"
وہ اب نہیں رکی تھی جلدی سے وہاں سے نکل گئی تھی جب وہ نکلی تو درار زنان خانے کے باہر کھڑا اپنے قہقہوں کا گلا گھوٹنے کی ناکام کوشش کررہا تھا انبہاج کی نظر اس پر پڑ گئی تھی انبہاج نے اسے ایک زبردست گھوری سے نوازا تھا۔
" بہت مزے آرہے ہیں آپ کو فضول بول رہے تھے۔"
انبہاج نے اس کے پیٹ میں ایک مُکا مارا تھا۔
" اللہ شرم کرو اپنے شوہر کو مار رہی ہو ظالم انسان ۔"
وہ دہائی دیتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
" اسی لائق ہیں آپ۔"
وہ منہ بنا کر وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا۔
ادھام کے بیٹے کا پیدا ہونا خان حویلی کی نئی نسل کی شرواعت تھی اس لیے سب بے حد خوش تھے مٹھائیاں بانٹی جارہی تھیں قبیلے کے غریب لوگوں میں سامان بانٹا جارہا تھا ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پھیلی ہوئی تھیں کچھ لمحوں پہلے کا فرسودہ ماحول کہیں غائب ہوگیا تھا اب تو سب خوش تھے لیکن کسے معلوم تھا کچھ خوشیاں صرف وقتی ہوتی ہیں ۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کوئی کام کررہا تھا جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی ہاتھ میں چائے کا ایک مگ بھی تھا اس نے چائے کا مگ اس کے آگے کیا تھا جسے شکریہ کہہ کر بڑی ہی رسانیت سے تھام لیا تھا وہ مڑ کر جانا چاہتی تھی لیکن پھر وہ وہی کھڑی رہ گئی۔ اس دن کے بعد سے وہ زکوان سے زیادہ بات نہیں کررہی تھی بس ہلکی پھلکی گفتگو ہی ہوتی تھی۔
" کچھ کہنا ہے کیا؟"
زکوان نے مگ تھام کر لبوں سے لگایا  اور سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا جو انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
" ادھام لالہ کا بیٹا ہوا ہے مجھے حویلی جانا ہے۔"
اس نے مدعے کی بات کہی تھی۔
" کونگریچولیشنز۔"
" تھینکس۔"
وہ مڑ کر جانے لگی تھی جب اس نے اس کا بازو تھاما تھا۔
" کب تک معاف کرو گی؟"
لہجے میں التجا تھی۔
" جب بی بی معاف کردیں گی۔"
جواب اتنی ہی جلدی دیا گیا تھا جتنا مختصر سوال تھا۔
" آہا۔۔ ٹھیک ہے اب تم سے معافی تمہاری بی بی سے معافی کے بعد ہی مانگوں گا تم تیار ہوجاؤ میں حویلی لے چلتا ہوں۔"
" اوکے۔"
وہ اثبات میں سر ہلا کر چینج کرنے چلی گئی تھی جبکہ وہ انبہاج سے معافی مانگنے کے بارے میں سوچ رہا تھا پچھتاوا تو اسے بہت تھا اور میسہ کی ناراضگی دن بدن اسے پاگل کررہی تھی اسے جلد از جلد انبہاج سے معافی مانگنی تھی اور میسہ سے اپنی معافی کی راہ ہموار کرنی تھی اس کا رخ اب خان حویلی کی جانب تھا
میسہ اور زکوان شام میں عصر کے وقت خان حویلی پہنچے تھے۔ رونق اور چہل پہل سے وہاں کے مکینوں کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا وہ دونوں اندر کی جانب بڑھے زکوان مردان خانے اور میسہ زنان خانے میں چلی گئی مردان خانے میں درار کی سربراہی میں محفل جمی ہوئی تھی مہجب کے بارے میں ڈاکڑز کا کہنا یہ تھا کہ دن بدن ریکوری کے چانسس بڑھ رہے ہیں مگر ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آیا جلد ہوش میں آجائے گا اس بات سے سب کو کافی حوصلہ ہوا تھا لیکن دل اس کی غیر حاضری میں پھر بھی بجھے ہوئے تھے سب سے زیادہ اثر صبیح پر پڑا تھا کیونکہ مہجب اس کا ہر وقت کا ساتھی تھا۔ایک دم وہ خاموش ہوگیا تھا۔
انبہاج کو بی بی جان نے گل بانو کو ڈھونڈنے باہر بھیجا تھا وہ کواٹروں کی طرف آرہی تھی جب زکوان فون سنتا ہوا مردان خانے سے باہر آیا تھا۔ اس کی نظر انبہاج پر پڑی تھی اسے یک لخت وہ پہلی جھلک والا لمحہ یاد آیا تھا ایک بار پھر زکوان شیر خان نے اس کی جھلک دیکھی تھی اور اس بار بھی جانے انجانے میں ہی دیکھی تھی لیکن اب کی بار اس کا ارادہ نیک تھا اس میں کوئی غلطی اور کھوٹ شامل نہیں تھا۔
اس نے جلدی سے فون بند کیا اور اس کی جانب بڑھا۔ اس نے اسے عقب سے پکارا تھا۔
" بی بی سنیں !"
اس آواز کو وہ کیسے بھول سکتی تھی اسی ایک آواز کے ساتھ تو اس کی زندگی کی سب سے بدترین یاد جڑی تھی انبہاج کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس لمحے وہ کیا کرے اردگرد کوئی تھا نہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا اس نے منہ ڈھانپا تھا۔ وہ رک گئی لیکن مڑی نہیں تھی اسے اپنے پورے جسم میں خوف کی لہر محسوس ہوئی تھی لیکن مڑ کر جانا تو تھا ہی اس کا ارادہ تھا کہ مڑ کر تیزی سے نکل جائے۔ وہ مڑ کر تیزی سے جانے والی تھی جب اس نے پھر سے اسے پکارا تھا۔
" ایک بار میری بات سنیں پلیز!"
انبہاج رک گئی تھی آنکھیں نیچے تھیں اور منہ ڈھکا ہوا تھا  وہ کچھ بولی نہیں تھی لیکن ان دونوں کو ساتھ کھڑے ہوئے حویلی کے مین دروازے پر کھڑے درار نے ضرور دیکھا تھا دروازے پر درار کی گرفت ایک لمحے میں اتنی مضبوط ہوئی تھی کہ اس کے بازو کی رگیں تن گئی تھیں۔ ہتھیلی سے خون رسنا شروع ہوگیا تھا اس لمحے درار اپنے جنون پر تھا.
اس وقت اس کا غصے سے برا حال ہورہا تھا لیکن حویلی کی صورتحال دیکھتے ہوئے وہ خاموش ہوگیا اور اندر چلا گیا تھا۔
" مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔"
زکوان آج تک کبھی کسی کے آگے اتنا نروس نہیں ہوا تھا جتنا آج انبہاج سے بات کرتے ہوئے ہورہا تھا اس کا اس کے سامنے کھڑا ہونا مشکل ہورہا تھا لیکن انبہاج وہاں کسی صورت رکنا نہیں چاہتی تھی وہ ایک بار دوبارہ وہاں سے جانے لگی تھی جب اس کی آواز نے اس کے قدم روکے تھے۔
" آپ کو میسہ کی قسم ہے پلیز میری بات سن لیں۔"
اس کے الفاظ نے انبہاج کے بڑھتے ہوئے قدم جکڑ لیے تھے وہ وہی رک گئی تھیں گہری سمندری آنکھیں اٹھا کر اس نے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
" میں اس قابل تو نہیں ہوں مگر پھر بھی جب انسان اپنی غلطی پر نادم ہوتا ہے اسے شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو وہ معافی مانگ کر ہی اپنا دل ہلکا کرتا ہے میں بھی یہی گزارش کرنے آپ سے آیا ہوں۔"
اس نے انتہائی تمہید باندھی تھی ۔
انبہاج نے اب کی بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا اور وہ بولی بھی تھی۔
" یہاں آپ کو آپ کی شرمندگی نہیں میسہ کی محبت لے کر آئی ہے زکوان صاحب۔"
زکوان نے اس کی بات کے جواب میں چونک کر حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا انبہاج کی آنکھیں مسکرائی تھیں۔
" جاؤ معاف کیا تمہیں تمہارے اس گناہ کے لیے جس کے باعث انبہاج صالک خان کی زندگی بھر کی عزت تار تار ہوجاتی ۔"
وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں بول رہی تھی نظریں سامنے تھیں آنکھیں ساکن تھیں  زکوان میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے درمیان میں ٹوکتا۔
" جانتے ہو اس رات میری پاکیزگی کا ایک ایک لمحہ تاریک ہوجاتا لیکن میں شکریہ بھی ادا کرونگی تمہارا تمہاری بدولت میرے وجود کو اس کی خوشبو میں لپٹی چادر نصیب ہوئی تھی۔ وہ چادر جسے درار سنان خان اوڑھتا تھا اس چادر نے میرے وجود کو اپنی لپیٹ میں آج تک لیا ہوا ہے تمہاری وجہ سے پہلی بار اس نے مجھے اپنے ہاتھوں سے چھوا تھا تمہیں شاید معاف تو میں نے تب ہی کردیا تھا جب میں نے اسے اپنے نکاح میں قبول کیا تھا۔
زکوان حیرت میں ڈوب کر اس کی حد سے زیادہ عجیب اور گہری باتیں سن رہا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ انبہاج صالک خان درار سنان خان کے لیے ایسی باتیں کررہی ہے اسے بے اختیار درار کی قسمت پر رشک آیا تھا جسے شاید معلوم بھی نہیں تھا کہ یہ سامنے کھڑی ہوئی حد سے زیادہ حسین عورت صرف اس کے چھونے پر ہی کسی ایسے کو معاف کرسکتی ہے جس کے باعث اس کی عزت جاتے جاتے بچی تھی آج زکوان خان پر محبت کے ایک اور روپ عشق کا ادراک ہوا تھا وہ چپ چاپ وہاں کھڑا تھا بولنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ کہیں غائب ہوگیا تھا لیکن شاید انبہاج کے پاس الفاظ کم نہیں تھے.
" میں میسہ کو بتا دو نگی کہ میں نے معاف کیا آپ کو بہت محبت کرتی ہے وہ آپ سے۔"
انبہاج نے ایک اور بات اس سے کہی تھی جس سے زکوان کے چہرے پر سکون اترا تھا۔
" ہاں وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے لیکن اس بار آپ کی محبت میری محبت پر غالب آگئی میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے دل سے معاف کردیں گی۔"
وہ کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ انبہاج وہی کھڑی رہ گئی تھی بے ساختہ اس کے کانوں میں اپنے کہے گئے جملے ہی گونجے تھے۔
" میں کبھی زکوان خان کو معاف نہیں کرونگی۔"
لیکن آج معاف کردیا تھا اس کو کیوں صرف میسہ کی خاطر معاف کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ میسہ گھٹ گھٹ کر مرجائے گی لیکن اسے تب تک معاف نہیں کرے گئی جب تک وہ خود معاف نہ کردیتی وہ یہ بھی جانتی تھی کہ زکوان خان معافی مانگنے آیا ہے اس لیے کیونکہ میسہ کو سچائی معلوم ہوگئی ہے یہ بات اسے کل ہی یمامہ سے معلوم ہوئی تھی اس کے پاس اسے معاف کرنے کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں تھا سو اس نے وہ کیا تھا جو اسے کرنا چاہئیے تھا مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ دوسروں کو معاف کرتے کرتے اس کی خود کی زندگی اس سے روٹھ رہی ہے۔
نظر جب اس سے ملتی تھی
میں خود کو بھول جاتی تھی
بس ایک دھڑکن دھڑکتی تھی
میں خود کو بھول جاتی تھی
میں اس کو ملنے سے پہلے
خوب سجتی سنورتی تھی
مگر کچھ وہ جو سجتا
میں سب بھول جاتی تھی
میں اکثر کتابوں پر
اسی کا نام لکھا کرتی تھی
مگر کچھ وہ جو لکھتا
میں لکھنا بھول جاتی تھی
میں اکثر اس سے کہتی
میں تم سے پیار کرتی ہوں
مگر کچھ وہ جو کہتا
میں دنیا کو بھول جاتی تھی
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ کمرے میں موجود تھا ہتھیلی سے خون رس رہا تھا مگر اسے درد کا احساس بالکل بھی نہیں ہورہا تھا دل اندر انگارے دہکا رہا تھا غصے سے اس کی نسیں ابھری ہوئی تھیں کتھئی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں اسے دکھ اور غم محسوس نہیں ہوا تھا اسے غصہ آیا تھا ایک جنون طاری ہوا تھا جس نے درار سنان خان کو پاگل کردیا تھا اس کی بیوی کسی اور کے ساتھ کھڑی تھی کیوں؟
" تو کیا انبہاج زکوان کو بھولی نہیں تھی؟
سوال تھے کہ جھکڑ جو اندر چلتے جارہے تھے اس کے شعلوں کو اور دہکاتے جارہے تھے وہ آج اپنے غرور کی آخری حد اپنے جنون پر تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کچھ اچھا برا محسوس نہیں ہورہا تھا دل ایک لمحے میں خالی ہوا تھا اور اسے احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر گرا ہے اور اس کے بالوں میں جذب ہوگیا ہے وہ اپنے بستر پر چت لیٹا ہوا تھا اب تو اس کی ہتھیلی کا خون سفید چادر بھی داغدار کرگیا تھا مگر درد کا احساس اب بھی نہیں ہورہا تھا۔
انبہاج اپنی رو میں اندر داخل ہوئی تھی اور جیسے ہی اس کی نظر بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹے درار پر پڑی  پھر اس کے بعد اس کے ہاتھ سے نکلنے والے خون پر تو اسے اپنے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی وہ تیزی سے دوڑ کر اس کی جانب آئی تھی۔
" یہ۔یہ کیسے ہوا ہے دکھائیں مجھے اور آپ نے اس پر کچھ لگایا کیوں نہیں ہے؟"
وہ پریشانی سے اس کا بازو تھام کر اس سے کہہ رہی تھی درار نے اپنی سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں کے پپوٹوں کو کھولا تھا اور غور سے انبہاج کے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔ کچھ لمحے اسے غور سے دیکھنے کے بعد اس نے اس سے اپنا بازو  چھڑوایا تھا۔
" ڈونٹ ٹچ می اینڈ لیو می الون ؟"
وہ بولا نہیں تھا وہ چیخا تھا۔
انبہاج نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا جس کا وہی پہلے والا بغیر لچک کے لب و لہجہ تھا انبہاج کو ایک دم سکتہ ہوا تھا لیکن اس نے اس کی بات ان سنی کردی تھی اور سائیڈ ٹیبل کے دراز میں سے فرسٹ اییڈ باکس نکالا اور اس کے سامنے بیڈ پر رکھا تھا۔
" آئی سیڈ لیو۔۔۔۔"
ایک بار پھر وہ چلایا تھا اب کی بار پھر انبہاج نے اس کی جانب دیکھا تھا اور پھر ایک نظر ڈال کر فرسٹ ایڈ باکس میں سے پائیو ڈین نکال کر کاٹن پر لگا کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
" آئی سیڈ ڈونٹ ٹچ می!"
اب کی بار پھر سے اس نے اپنا پہلے والا جملہ دہرایا تھا اور ساتھ میں اس کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا تھا لیکن انبہاج کی گرفت مضبوط تھی۔
" جسٹ کیپ کوائیٹ۔"
انبہاج نے اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھ کر کہا تھا۔
جس پر درار کا غصہ اور بڑھا تھا مگر تب تک انبہاج خون صاف کرکے پٹی کرچکی تھی وہ فرسٹ ایڈ باکس دراز میں واپس رکھ کر مڑی تھی جب درار کو اپنے پیچھے کھڑے پایا تھا۔
اس کی آنکھوں نے انبہاج کو ایک عجیب سا تاثر دیا تھا مگر وہ خاموش رہی تھی درار نے اسے اس کے دونوں بازوں سے تھاما تھا انبہاج کے بازوں ہر درار کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ انبہاج کو اپنے گوشت میں درار کی انگلیاں گڑی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
"بہت مزہ آتا ہے نا تمہیں تکلیف دے کر مرحم رکھنے کا؟"
وہ اپنے اسی ازلی انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا انبہاج کی نظر اس کے ہاتھ پر بندھی پٹی پر پڑی تھی جسے ابھی ابھی اس نے باندھا تھا وہ پھر سے خون میں رنگ چکی تھی اور یہ درار کا اسے زور سے پکڑنے سے ہوا تھا۔
" چھوڑیں مجھے آپ کے ہاتھ میں تکلیف ہورہی ہے۔"
وہ اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی ۔
" ہونے دو تکلیف آئی ڈونٹ کئیر۔"
اس نے لاپرواہی سے اس سے کہا تھا درار نے انبہاج کو بازو سے ہی تھام کر اپنے نزدیک کیا تھا بے حد نزدیک اتنا نزدیک کہ درار کی سانسیں انبہاج اپنے چہرے پر محسوس کرسکتی تھی۔
" تم صرف میری ہو درار سنان خان کی اگر میرے علاوہ تمہارے اس دل میں کوئی اور آیا بھی تو یاد رکھنا میں جان لے لوں گا دونوں کی سمجھی نا میں برداشت نہیں کرونگا کسی کو وہ حال کرونگا کہ محبت کرنے والے نصیحت پکڑے گئے۔"
وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہہ رہا تھا انبہاج حیرت کا مجسمہ بنی اس کے سامنے کھڑی تھی اسے درار کے کہے گئے لفظوں میں سے کسی کا مطلب بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔
" چلی جاؤ یہاں سے میرے سامنے سے آئی ڈونٹ وانٹ ٹو سی یو گو ناؤ۔"
وہ دروازے کی طرف اشارہ کرکے اسے کہہ رہا تھا انبہاج درار کے الفاظ اور اس کی عجیب حالت سمجھنے سے قاصر تھی اس لیے تیزی سے کمرے سے باہر آگئی تھی اس کا سانس ایک دم کمرے میں گھٹ رہا تھا۔
درار کو اپنے ہاتھ پر اس کے جانے کے بعد تکلیف کا احساس ہوا تھا ایک دم اس کے ہاتھ پر ٹیس اٹھی تھی اس نے اسی ہاتھ کو زور سے دیوار پر مارا تھا اسے اس لمحے خود کو تکلیف پہنچا کر راحت کا احساس ہورہا تھا وہ پاگل ہورہا تھا بے پناہ پاگل۔
یونہی تو عشق میں سرمست ہوئے ہم
ایک روح میری روح میں تحلیل ہوئی ہے
یونہی تو تجھ پر دل نہیں لٹایا ہم نے
ایک دھڑکن میری دھڑکن سے ملی ہے
یونہی تو تیرے حصول میں پاگل ہوئے ہم
ایک سانس میری سانس سے ملی ہے
یونہی تو تجھ سے دور جاکر بے چین ہوئے ہم
ایک جان میرے جسم سے نکلی ہے
                                                (  ایمن خان)       وہ پوری رات انبہاج نے ٹہلتے گزاری تھی اسے اس کی حالت سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک دم اسے ہوا کیا ہے جو وہ ایسے بی ہیو کررہا ہے لیکن اس پوری رات اسے نیند نہیں آئی تھی کیونکہ زندگی اس کے لیے کچھ اور ہی سوچ چکی تھی وہ کچھ دیر ٹہلنے کے بعد انتسارہ کےکمرے میں اس کے پاس چلی گئی وہ اس کے سرہانے بیٹھ گئی وہ سورہی تھی آج انبہاج کو بہت عرصے کے بعد انتسارہ کے چہرے پر سکون دکھا تھا ابدی سکون محبت ملنے کے بعد کا اطمینان اس کی بند آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔
" شکر ہے میں تمہارے لیے کچھ کرپائی خواہ تمہیں ایک اور انبہاج بننے سے بچانا ہی تھا لیکن میں نے بچا لیا تمہیں وہی رہنے دیا جو تم تھی اب بس دعا ہے کہ تم وہ بھی پالو جس کے لیے اب تک سفر کرتی رہی ہو میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ تمہارا صبر تھمنے والا ہے زندگی خوشیوں کی نوید سنانے والی ہے۔"
آج ایک بار پھر وہ دھیرے دھیرے اس کے سرہانے بیٹھ کر گفتگو کررہی تھی لیکن آج انتسارہ سوتی نہیں رہی تھی آج اس کی بی بی کی تڑپ سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی اس نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
" اور آپ کا صبر کب ختم ہونا ہے؟"
سوال چھوٹا اور سرسری سا تھا مگر جواب اتنا طویل اور مشکل تھا کہ انبہاج کے لیے دینا نامعمکن تھا۔
" جب اس نے چاہا تو اس کی اس ادنیٰ بندی کی کشتی بھی پار لگ ہی جائے گی۔"
اس نے اوپر کی جانب شہادت کی انگلی کرکے کہا تھا۔
" اللہ اپنے ان بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن میں اس کی آزمائش پر اترنے کی سکت ہوتی ہے اس نے آپ کو دی اپنی لامحدود اور لازوال عشق کے امتحان کے لیے چنا اور آپ پر وہ آزمائش ڈالی اور آپ اس کا بوجھ مسلسل اٹھائے چلی جارہی ہیں آپ کے کندھے تھکے نہیں ہیں؟"
انتسارہ نے حیرت سے اس سے سوال کیا تھا شاید وہ بہت حیران تھی۔
اس کے سوال کے جواب میں انبہاج نے گہرا سانس بھرا تھا اور پھر اس کی جانب دیکھ کر گویا ہوئی تھی۔
" تھکتے ہیں لمحہ لمحہ تھکتے ہیں مگر یہ جو اس کی ذات سے محبت ہے نا اور اس کی آزمائش کو اٹھانے کا عزم میرے اندر پل رہا ہے یہ مجھ میں صبر کی رمق بھرتا چلا جاتا ہے اور صبر کی سواری نہ کبھی تپتی ریت میں گرنے دیتی ہے اور نہ ہی تنے ہوئے کندھوں کو جھکنے دیتی ہے۔"
ایک بار پھر سے مشکل ترین سوال کا لاجواب کرنے والا جواب تیار تھا اور انتسارہ واقعی ہی لاجواب ہوگئی تھی۔
وہ دونوں رات باتیں کرتی کرتی ہی سوگئی تھیں صبح صبح انبہاج واپس اٹھ کر زنان خانے میں آگئی تھی چہرے پر سکون رکھے مگر جو جھکڑ اندر چل رہے تھے اس کی خبر کسی کو بھی نہیں تھی مگر آخر کب تک پتہ تو چلنا ہی تھا وہ وقت دور نہیں تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ جب گھر آیا تو سیدھا بغیر کسی سے بات کیے وہ لان میں رکھی کرسی پر چپ چاپ بیٹھ گیا۔دل و دماغ پر ایک ہی ہستی اس لمحے حاوی تھی انبہاج درار سنان خان یہ وہ واحد ہستی تھی جس نے زکوان شیر خان کو شروع سے ہی حیرتوں کے سمندروں میں غوطہ زن رکھا تھا وہ عورت کیا تھی زکوان اسے سمجھنے سے قاصر تھا اس نے اپنی پوری زندگی میں ایسی خوبصورت عورت نہیں دیکھی تھی جس کا حسن نقاب پوش ہونے کے باوجود بھی اس کا پورا وجود منور کرتا تھا ایسی عورت جس کے نقش انسان ایک جھلک پر ازبر کرلے وہ عورت جس کی پہلی جھلک نے زکوان شیر خان کو فیصلہ کرنے پر مجبور کیا تھا وہ اس قدر اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی یہ زکوان شیر خان کو آج پتہ چلا تھا۔
وہ ایک ایسی عورت تھی جو خود پر کی ہوئی زیادتی جو کہ ناقابلِ معافی تھی یہ بات زکوان جانتا تھا ایک شخص کے وجود کی خوشبو سے لتھڑی چادر کا لمس محسوس کرنے کے صدقے معاف کررہی تھی وہ حیران تھا بے حد حیران۔۔۔لیکن معافی اسے مل چکی تھی لہذا جس کے لیے وہ معافی طلب کرنے اس کے سامنے گیا تھا اسے یہ خبر سنانی تھی کہ زکوان شیر خان نے میسہ سنان خان کو جیت لیا ہے ایک سرشاری اسے اپنے اندر محسوس ہوئی تھی وہ اٹھ کر اندر کی جانب بڑھا تھا وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔
" معافی مل گئی ہے مجھے اب تم بھی معاف کردو۔"
اس نے اس کے پاس لیٹتے ہوئے کہا تھا۔
" ٹھیک ہے اگر بی بی نے آپ کو معاف کردیا ہے تو میں کل انہیں یہاں بلاؤں گی اگر وہ اس گھر میں آگئی تو آپ کو میں معاف کردونگی۔" میسہ نے انتہائی آہستگی سے کہا تھا۔
" اب یہ کیا بات ہوئی تم نے بولا تھا معافی مانگو مانگ لی اب بس کردو پلیز۔" اب کی بار زکوان نے جھبجھلاتے ہوئے کہا تھا۔
" بس کردونگی میں دیکھنا چاہتی کیا دل سے معاف کیا ہے انہوں نے کہ نہیں۔"
اس کی بات پر زکوان بس گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ ابھی ابھی پلوشے سے مل کر آئی تھی اس کا بیٹا بہت پیارا تھا بالکل اپنے باپ کی فوٹو کاپی تھا پلوشے ابھی کچھ ہی دیر پہلے ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوکر حویلی واپس آئی تھی وہ اس سے مل کر کچن میں آئی تھی جہاں درخنے کھانے کی تیاری میں مصروف نظر آرہی تھی رات کے بعد سے اس نے درار کو نہیں دیکھا تھا اسے اس کے ہاتھ کی چوٹ کی بہت فکر ہورہی تھی لیکن وہ نظر آئے تو پھر نا۔
" درخنے کیا پکارہی ہو آج تم؟"
اس نے درخنے سے سوال کیا تھا۔
" بی بی آج گوشت کا سالن ساتھ میں پلاؤ اور پلوشے بھابھی کے لیے دیسی مرغی بنانے لگی ہوں۔"
اس نے مصروف سے انداز میں جواب دیا تھا۔
اتنی دیر میں سوپ تیار ہوچکا تھا جو اس نے درار کے لیے بنایا تھا۔
" اچھا یہ سب چھوڑو اور یہ سوپ درار خان جی کو دے کر آؤ اور انہیں مت بتانا کہ یہ میں نے بھجوایا ہے کوئی بھی بہانہ کردینا سمجھی نا؟" انبہاج نے سوپ والا پیالہ ٹرے میں رکھ کر اسے دیا تھا۔
" جی بی بی جو حکم۔"
وہ سوپ کا پیالہ لے کر وہاں سے چلی گئی تھی۔ وہ وہی کھڑی تھی۔ جب گل بانو اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔
" ارے بی بی آپ یہاں ہیں میں پوری حویلی میں آپ کو ڈھونڈ رہی تھی۔" گل بانو نے کہا تو انبہاج نے سوالیہ نگاہوں سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا۔
" کیوں کیا ہوا ہے کیوں ڈھونڈ رہی تھی تم مجھے؟"
وہ ایک ابرو اچکا کر اس سے پوچھ رہی تھی۔
" وہ میسہ بی بی کا فون آیا ہے کب سے بلا رہی ہیں وہ آپ کو؟'' گل بانو نے کہا تو انبہاج نے اثبات میں سر ہلایا۔
" اچھا تم چلو میں آتی ہو۔"
وہ کہہ کر اس کے پیچھے پیچھے زنان خانے کے ایک طرف بنے چھوٹے سے فون سٹینڈ کی جانب آگئی جہاں ایک لینڈ لائین فون رکھا ہوا تھا جو صرف ضرورت کے وقت ہی استعمال ہوتا تھا۔ انبہاج فون کی جانب بڑھی اور فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
" ہیلو پاخیراغلے بی بی!"
دوسری طرف سے میسہ کی آواز ابھری تھی۔
" پاخیراغلے کیسی ہو تم؟"
اس نے اس سے اس کا حال پوچھا تھا۔
" میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں؟" میسہ کی ترو تازہ آواز ابھری تو انبہاج مسکرا دی۔
" میں بھی ٹھیک۔"
" اچھا آج آپ کو میرے گھر آنا ہے۔"
اس نے بڑے آرام سے وہ کہا تھا جو وہ کہنا چاہتی تھی۔
" تمہارے گھر مگر میں کیسے اور کیوں؟"
انبہاج نے الجھ کر اس سے پوچھا تھا۔
" کیونکہ زکوان کہہ رہے ہیں کہ آپ نے انہیں معاف کردیا ہے اور میں نے ان سے کہا ہے کہ اگر آپ نے انہیں معاف کردیا ہے تو آپ میرے گھر آئیں گی ورنہ میں معاف نہیں کرونگی ۔"
اس کی بات کے جواب میں انبہاج نے گہرا ہنکارا بھرا تھا ۔
" میسہ تم کیوں زکوان کو آزمائشوں میں ڈال رہی ہو اس کی زندگی کیوں مشکل کررہی ہو میں تمہیں اپنے منہ سے کہہ رہی ہوں کہ معاف کردیا میں نے اسے پھر یقین کیوں نہیں آرہا تمہیں؟"
انبہاج اب زچ ہوکر اس سے کہہ رہی تھی۔
" کیونکہ دھوکا کھانے کا حوصلہ ایک بار ہوتا ہے بی بی بار بار نہیں۔"
اس نے بھی آرام سے کہہ دیا تھا۔۔

junoon se ishq ki rah completed✔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant