قسط نمبر 4

3.9K 150 34
                                    

"تم پاگل ہوگئی ہو میسہ تمہیں پتہ ہے اگر اس وقت کوئی آگیا یہاں پر تو کیا ہوگا تم اتنا بڑا رسک کیسے لے سکتی ہو آخر؟" انتسارہ بلا دریغ اس پر چڑھ دوڑی تھی۔
" ریلیکس انتسارہ لالہ نے روم لاک کردیا ہے اور میں واش روم جارہی ہوں چینج کرنے اتنی دیر آپ دونوں مل لیں پھر تمہیں مجھے تیار بھی کرنا ہے۔" میسہ نے واشروم کی جانب بڑھتے ہوئے کہا تو انتسارہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
" لیکن مجھے تو بی بی کو بھی تیار کرنا ہے؟" اپنی یاداشت پر ماتم کرتے ہوئے اس نے کہا تو میسہ نے پلٹ کر اس کی جانب دیکھا۔
" ان کی تم ٹینشن نہ لو وہ یمامہ کر لے گی۔"
ان دونون کی باتوں سے مہجب اکتا گیا تھا۔
" اگر تمہیں اتنا برا لگ رہا ہے تو میں واپس چلا جاتا ہوں ۔" مہجب دروازے کی طرف مڑا تھا بے ساختہ انتسارہ نے اسے بازو سے تھاما تھا۔
" ارے میں نے ایسا تو نہیں کہا۔"
مہجب نے اپنے بازو کی طرف دیکھا تھا جو ابھی بھی انتسارہ کی گرفت میں تھا انتسارہ کو اپنی غلطی کا بروقت احساس ہوا تھا اس نے ایک دم اس کا بازو اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا۔ مہجب بے اختیار مسکرایا تھا۔انتسارہ کی شرمندگی کے مارے نظر نہیں اٹھ رہی تھی۔میسہ تو کب کی واش روم جاچکی تھی۔
" تو پھر کیسا کہا ہے آپ نے؟" اب وہ اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
" میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔"انتسارہ اس کے اس طرح دیکھنے پر سٹپٹا گئی اور جلدی سے اپنے دوپٹے سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔مہجب کا فلک شگاف قہقہہ اس کی حرکت پر گونجا تھا۔
" جتنا چھپانا ہے اپنا منہ چھپا لو آنا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے جلد یا بدیر بلکہ جلدی ہی کوئی انتظام کرنا پڑے گا آج کل میرے حواسوں پر تم زیادہ ہی چھا رہی ہو۔ ویسے تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔" اس کی جانب وارفتگی سے دیکھتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
" اوہوں۔۔۔۔۔ہوں۔" میسہ نے اپنا گلا کھنگار کر ان دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ مہجب تو سٹپٹا کر دروازے کی طرف بڑھا تھا کیونکہ باہر سے اسے مختلف باتوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔
" اوکے میں چلتا ہوں اس سے پہلے کوئی اور آئے۔"
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا اور انتسارہ میسہ کی جانب متوجہ ہوئی۔
***********************
ردوا بیگم آج بہت دنوں بعد حویلی آئی تھیں وہ پہلی بار اتنے دنوں بعد حویلی آئی تھیں ورنہ وہ اکثر حویلی آتی رہتی تھیں یمامہ تو آتے ہی سب سے مل کر انبہاج کے کمرے کی جانب چلی گئی تھی کیونکہ اسے راحمہ بانو نے کہا تھا کہ اس کی تیار ہونے میں مدد کرئے۔
مہجب تو میسہ کے کمرے سے نکل کر بھاگ کر صبیح کی تلاش میں نکل پڑا تھا اسے اس کو یمامہ کے آنے کی خبر دینی تھی۔ وہ بھاگنے کے سے انداز میں چھوٹے خان کے پورشن میں آیا تھا اس کا رخ اب صبیح کے کمرے کی جانب تھا۔ اس نے صبیح کے کمرے کا دردوازہ کھولا اور اندر آگیا دیکھا تو صبیح ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوکر بال بنا رہا تھا۔ وہ نیوی بلو کرتا وائٹ شلوار کے ساتھ پہننے اوپر گرے کورٹ پہنے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔
" اوئے تو بس یہاں بال ہی بناتا رہی۔" اندر آتے ہوئے اس نے کہا تو صبیح نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔
" تو اور کیا کروں نہ بناؤں کیا بال؟" صبیح نے برش ڈریسنگ میز پر رکھتے ہوئے کہا تو مہجب نے اسے گھور کر دیکھا۔
" اوئے پاگل آج پھوپھی جان اور یمامہ آگئے ہیں۔"
" کیا واقعی ہی وہ ہیر برش چھوڑ کر مہجب کی طرف پلٹا تھا۔" اس کے چہرے پر مسرت بکھری تھی۔
" ہاں اور اس وقت وہ تیرے ہی پورشن میں ہے بی بی کے پاس۔" مہجب کے بتانے پر وہ کھل اٹھا تھا۔
" ہائے قسم سے مہجب اتنی اچھی خبر سنائی ہے تو نے مجھے خوش کر دیا ہے۔"
" اچھا بس اب چل نیچے اگر پورا فیشن ہوگیا ہو تو بابا جان بلا رہے ہیں۔"
" ہاں چل ۔"
پھر وہ دونوں ساتھ چلتے ہوئے کمرے سے باہر آگئے تھے۔
●●●●●●●●●●●●●●●●●●●●●●●●
یمامہ انبہاج کے پاس اس کے کمرے میں تھی۔ انبہاج اس وقت درار کے نام کے مایوں کے جوڑے میں ملبوس تھی ٹخنوں تک آتا کلیوں والا یلو فراک جس کی ہر کلی میں گوٹے کا کام بنا ہوا تھا نیچے اورنج چوڑی دار پجامہ پہنے وہ حد سے زیادہ حسین لگ رہی تھی اس وقت وہ دوپٹے سے بے نیاز تھی اس کا دوپٹہ بیڈ کے ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ سنہری زلفیں پوری کھلی ہوئی تھیں ابھی انہیں باندھنا باقی تھا گہری سمندری آنکھیں اداس تھیں چہرہ ہمشہ کی طرح سپاٹ تھا۔ اس نے تھال سے یلو اور اونج چوڑیاں اٹھائیں اور اپنی دونوں نازک مومی کلائیوں میں پہن لیں اور پھر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی یمامہ نے اس کی کولہوں تک آتی ہوئی سنہری زلفوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور آگے کر کے ان کی ڈھیلی ڈھالی چٹیا بنائی تھی چٹیا بنانے کے بعد ان پر تھال میں سے گلاب اور موتیے کے پھولوں کی ایک لڑی اٹھا کر اس کی چوٹی پر اچھی طرح لپیٹ دی جس سے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ دونوں کانوں میں گلاب اور موتیے سے بنے آویزے پہنائے اور دونوں کلائیوں میں انہی پھولوں سے بنے گجرے سر پر ٹیکا اور پھر آخر میں بیڈ پر پڑا ہوا دوپٹہ اس نے اس کے سر پر ڈال دیا اب وہ مکمل تیار تھی اور بلاشبہ بے پناہ حسین لگ رہی تھی یمامہ تو اس کا یہ روپ دیکھ کر ہی حیرت میں تھی کہ کوئی اس قدر حسین کیسے ہو سکتا ہے۔
" بی بی حسین تو آپ ہمشہ سے تھیں بہت پر آج تو آپ اتنی خوبصورت لگ رہی ہیں کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ آپ کو کسی کی نظر نہ لگ جائے کہیں۔"
اس کی بات سن کر وہ مسکرائی تھی۔ اس کی بات کے جواب میں وہ خاموش رہی تھی پر دل میں ضرور اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
" تمہیں کیا پتہ ہو یمامہ جس نے دوسروں کی ساری بلائیں اپنے سر لی ہوتی ہیں نا انہیں کسی کی نظر کم ہی لگتی ہے اور میں نے جس کی بلائیں اپنے سر لی ہیں وہ کبھی مجھے ایسے دیکھے گا ہی نہیں کہ مجھے اس کی نظر لگے۔"
" کہاں کھو گئی ہیں آپ چلیں نیچے؟" یمامہ کے کہنے پر وہ ہوش میں آئی تھی۔
" ہاں چلو ۔"
اس نے اسے تھاما اور میسہ کے کمرے کی جانب آگئی اسے بھی ساتھ لینا تھا اور پھر دونوں نے زنان خانے میں جانا تھا۔ ان دونوں نےمیسہ کے کمرے کا دروازہ کھولا تو انتسارہ اسے بھی تیار کر چکی تھی۔ لائٹ یلو غرارے کے اوپر لائٹ پرپل گوٹے والی قمیض پہنے پھولوں کے زیورات پہنے اور بالوں کی چوٹی بنائے وہ بھی بہت حسین لگ رہی تھی پر انبہاج کو دیکھ کر تو اس کے منہ سے بھی ماشاءاللہ ادا ہوا تھا۔
میسہ بھی بہت حسین تھی پر حویلی کی سب سے خوبصورت لڑکی انبہاج صالک خان تھی۔ ادھام اور مہجب کی بھوری آنکھیں تھیں جبکہ میسہ اور درار کی کتھئی میسہ کافی حد تک درار سے ملتی تھی۔ سنہری رنگت،کتھئی آنکھیں تیکھی ناک اور ناک میں ایک ڈائمڈ کی نوز پن خوبصورت ہونٹ جس کا اوپری ہونٹ تھوڑا باریک تھا پھولوں کے زیورات پہنے اور ہاتھوں میں یلو اور پرپل چوڑیاں پہنے سر پر دوپٹہ لیے وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
" میسہ تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔" انبہاج نے پیار سے کہا تو میسہ جھینپ گئی۔
" بی بی لیکن آپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لگ رہی میں۔"
" اہوں تمہیں میرے جیسا لگنا بھی نہیں ہے یاد رکھنا تم میسہ ہو انبہاج نہیں سمجھی۔"
اس نے اثبات میں سر ہلایا تو انبہاج نے اسے گلے لگایا تھا۔
" چلو اب "
یمامہ اور انتسارہ ان دونوں کو چلنے کا کہہ ہی رہی تھیں جب پلوشے دروازہ کھول کر اندر آئی تھی۔
" تیار ہو تم دونوں؟"
" جی بھابھی۔"
" چلو پھر۔۔۔" وہ تینوں ان دونوں کو تھام کر نیچے زنان خانے میں لے آئی تھیں جہاں بی بی جان ان دونوں کی مورے ، پھوپھی جان اور باقی قبیلے کی بہت سی خواتین تھیں زنان خانہ پورا بھرا ہوا تھا۔ بی بی جان نے ان دونوں کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا ہوا تھا ردوا بیگم آگے بڑھی تھیں اور انہوں نے میسہ کی پیشانی چومی اور اس کی ہتھیلی پر شگن کے کچھ پیسے رکھے تھے یہ سب کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔
پھر انہوں نے انبہاج کا ماتھا چوما تھا اور اسے تھوڑی سی ہلدی لگائی تھی۔ ان کے رسم کرنے کے بعد بی بی جان نے دونوں کو ساتھ لگا کر پیار کیا تھا اور ہلدی کی رسم کی تھی۔ پھر پیر بیگم آئی تھیں اور انہوں نے انبہاج کو پیار کیا تھا اور اس کے ہاتھ میں شگن تھمایا تھا۔
" لو بھئی راحمہ تمہاری بیٹی آج سے میری ہوگئی ہے۔" پیر بیگم نے آگے بڑھ کر کہا تو راحمہ بانو نم آنکھوں سے مسکرا دیں۔
" ارے پیر بیگم میری بیٹیاں تو بچپن سے ہی آپ کی تھیں آپ کے ہی بیٹوں کی امانتیں تھیں میں نے تو کبھی انہیں اپنی بیٹیاں سمجھا ہی نہیں۔"
زنان خانے میں موجود سب خواتین باری باری رسم کرنے آرہی تھیں اور وہ دونوں سپاٹ چہروں کے ساتھ وہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔

junoon se ishq ki rah completed✔Where stories live. Discover now