قسط نمبر 8

4K 148 20
                                    

زنان خانے میں ردوا بیگم کو اندر صوفے پر لیٹایا گیا تھا۔ فودیل اب باہر جاچکا تھا ساری حویلی کی خواتین ان کے گرد جمع ہوگئی تھیں پانی کے چھینٹے مارے جارہے تھے انہیں ہوش میں لانے کے لیے لیکن وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھیں بی بی جان آرام سے ان کے پاس بیٹھی اور ان کا سر اپنی گود میں رکھا تھا بارش کے باعث ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ بی بی جان نے پیر بیگم کو اشارہ کیا وہ ہلکی ہلکی غنودگی میں تھیں تو پیر بیگم ،راحمہ بانو اور یمامہ نے سہارا دے کر انہیں اٹھایا اور ان کے کمرے میں لے گئیں۔ انہیں بیڈ پر لیٹایا گیا تھا۔ بی بی جان نے باقی سب کو باہر جانے کا اشارہ کیا تھا اور خود دروازہ بند کرکے ان کے پاس بیٹھ گئی تھیں۔
انہوں نے ردوا بیگم کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔
" بچے کیسی طبیعت ہے اب اور کیا ہوا تھا تم اچانک ایسے کیسے بے ہوش ہوگیا؟"
وہ ان کے بال سہلا کر اب بڑی ہی نرمی سے ان سے مخاطب تھیں۔
" بی بی جان۔۔وہ۔۔وہ۔"
آنسوؤں کا گولا جیسے ان کے حلق میں اٹک گیا تھا جس کے باعث ان کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔
" بولو نا کیا بات ہے؟"
وہ پھر سے ان سے استفسار کررہی تھیں مگر ان کی زبان ان کے لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ان کے آنسو ان کے رخساروں پر متواتر بہہ رہے تھے جس شخص کی ذات پر پچھلے تیس سال سے صبر کیا تھا ایک دم جیسے سارا صبر رائیگا ہوگیا تھا انہیں اس لمحے نہ تو شیر خان یاد تھے،نہ ہی ان سے اپنا رشتہ انہیں اس لمحے صرف اپنی محبت یاد آرہی تھی جس کا گلا بڑی ہی بے دردی سے گھوٹا گیا تھا۔ انہوں نے ضبط سے زور سے آنکھیں میچی تھیں ان کی ہچکی بند گئی تھی شاید وہ آج اس شخص کی ذات پر پہلی اور آخری بار رو رہی تھیں۔ وہ تو اسے چھوڑنے پر بھی نہیں روئی تھیں پھر آج اتنے سالوں بعد کیوں آنسو نکل آئے تھے شاید صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور ردوا بیگم اس وقت صبر کے اس پیمانے ہر کھڑی تھیں جہاں ساری حدیں ختم ہونے والی ہوتی ہیں وہاں نہ تو برداشت بچتی ہے اور نہ ہی حوصلہ وہاں صرف اذیت بچتی ہے تکلیف بچتی ہے اور ان کی زندگی کے یہ لمحات آگئے تھے۔
" بچے بولو کچھ ورنہ ہمارا دل پھٹ جائے گا۔"
وہ اب انہیں جھنجھوڑ کر بولنے پر اکسا رہی تھیں  جس پر انہوں نے آنکھیں کھول کر بی بی جان کی جانب دیکھا تھا۔
" آپ کا دل تب کیوں نہیں پھٹا تھا بی بی جان جب آپ کی بیٹی کی قربانی دی جارہی تھی جب اسے سولی پر لٹکایا جارہا تھا؟"
ان کے سوال نے جیسے بی بی جان کے دل کو کسی تیز دھار آرے سے چیرا تھا وہ ہق دق ان کی جانب دیکھ رہی تھیں ان کے سوال کا شاید بی بی جان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
" جانتی ہیں بی بی جان کبھی کبھی والدین بھی اولاد کے معاملے میں خود غرض ہوجاتے ہیں۔ وہ جانتے ہوتے بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں انہیں سچائی نظر آرہی ہوتی ہے لیکن وہ اس سچائی سے بے حد خوبصورتی سے نظریں چرا لیتے ہیں۔"
وہ  شکوے سے ان سے کہہ رہی تھیں۔ بدلے میں بی بی جان ایسے تھیں جیسے انہیں کسی نے سانپ سنگا دیا ہو جب وہ بولی تو ردوا بیگم بے ساختہ طنزیہ مسکرائی تھیں۔
" تم شیر خان کے ساتھ خوش تو ہو نا؟"
کیا سوال پوچھا تھا بی بی جان نے ردوا بیگم کا مسکرانا فطری تھا۔
" صد افسوس کہ یہ سوال آپ نے مجھ سے تیس سال بعد پوچھا ہے جب میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہی نہیں ہے ہاں اگر تیس سال پہلے پوچھتں تو میں آپ کو بتاتی کہ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا عرصہ کس طرح کاٹا ہے۔۔۔ آپ تھک گئی ہونگی آرام کریں جاکر۔۔"
وہ کروٹ لے کر آنکھیں مند گئیں۔ بی بی جان کو اپنا وجود آج پہلی بار بے جان محسوس ہورہا تھا کیونکہ سامنے لیٹا ہوا وجود کوئی اور نہیں ان کی اپنی سگی اولاد تھا۔ وہ بے جان وجود اور قدموں کے ساتھ ان کے کمرے سے باہر نکل گئیں اور وہ پیچھے پھر سے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
مردان خانے میں زوہیب خان فودیل،زکوان ،دار جی،پیر خان،ادھام اور چھوٹے خان بیٹھے ہوئے تھے۔
زوہیب خان مریل قدموں اور بوجھل دل کے ساتھ مردان خانے میں بیٹھ گئے تھے سچ تو یہ تھا کہ انہیں اپنے الفاظ بھول گئے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں یا انہیں کیا کہنا تھا ان کے ذہن کی سکرین پر اس لمحے بس وہ روتی ہوئی بھوری آنکھیں رقص کررہی تھیں فودیل نے باپ کا کندھا دبایا تھا جیسے انہیں حوصلہ دے رہا ہو اور ان کے آنے کا مقصد باور کروا رہا ہو۔
دار جی تو مختلف اندیشوں کے تحت پہلے ہی خاموش تھے اور ان کے بولنے کا انتظار کررہے تھے البتہ زکوان اس ساری صورتحال کو باخوبی انجوائے کررہا تھا۔ دار جی کا خوف سے لتھڑا چہرہ اسے کہیں نہ کہیں مزہ دے رہا تھا لیکن اسے ہر گز امید نہیں تھی کہ پہلے اسے ہی بلا لیا جائے گا۔
" زکوان بچے؟ " دار جی کی پکار پر وہ ہوش میں آیا تھا۔
" جی دار جی!"
وہ ایک دم ہڑبڑا کر سیدھا ہوا تھا۔
" ہمیں تم سے بھی ضروری بات کرنا ہے؟"
وہ زوہیب خان کو مکمل نظر انداز کرکے زکوان کی طرف متوجہ تھے۔
" جی دار جی حکم!"
بات ایسے کرتا تھا جیسے ہر لمحہ حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہو۔
" ہم چاہتا کہ یمامہ کا نکاح صبیح سے ہوجائے تاریخ تم خود طے کرلو ہم کو کوئی بھی اعتراض نہ ہوگا تمہارا باپ کے پاس تو وقت نہیں ہے کہ آکر حویلی جھانک جائے۔"
اس سے پہلے کے زوہیب خان اپنی کوئی بات کرتے دار جی نے جلدی سے اپنی گفتگو شروع کردی تھی۔
" جی دار جی مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے بابا جان سے پوچھنا پڑے گا اور مورے سے بھی۔"زکوان نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو دار جی نے اس کی جانب دیکھا۔
" مورے سے تمہارا بی بی جان خود بات کرلے گا تم اپنے باپ سے بات کر لینا۔" ان کے کہنے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" جی ٹھیک ہے دار جی جیسا آپ کہیں۔"
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتے زوہیب خان نے بات شروع کردی لہجے میں ایک اعتماد بول رہا تھا۔
" ارے سردار صاحب ! میرے آنے کا مقصد بھی سن لیجیے کب سے خود ہی بولے جارہے ہیں۔"
اب کی بار وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکے تھے اس لیے وہ سب بول رہے تھے جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے۔
دار جی نے انہیں اور فودیل کو ایک ناگوار نظر سے گھورا تھا جس پر وہ ہلکے سے مسکرائے تھے۔
" تو سردار صاحب امید ہے آپ کی راج نگری بہت بہترین جارہی ہوگی کیونکہ آپ جیسے جابر انسان کے ہوتے ہوئے راج نگری کبھی خطرے میں پڑ ہی نہیں سکتی۔" لہجہ برف کی مانند ٹھنڈا ٹھار تھا۔
" کیا بکواس کررہا تم سیدھا سیدھا مدعے پر آؤ سمجھا نا؟"
دار جی نے انگلی اٹھا کر انہیں وارن کیا تھا جس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ اسی ڈھٹائی کے ساتھ بولتے رہے تھے۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
انتسارہ یونیورسٹی سے آنے کے بعد اپنے کمرے میں ہی تھی فودیل کا رویہ اسے حیرانی اور پریشانی میں مبتلا کررہا تھا میسہ اور پلوشے مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھیں۔
" ارے کیا بات ہے پیا گھر جانے کا سوچ کر ہی ہماری لڑکی اداس ہوگئی ہے حالاکہ پیاگھر یہ ساتھ والے پورشن میں ہے۔"
پلوشے نے ہنستے ہوئے اس سے کہا تھا جس پر وہ بھی جواباً ہلکا سا مسکرائی تھی۔
" اوئے ہوئے ہماری انتسارہ کو شرم آرہی ہے پیا گھر کے نام پر؟''
میسہ بھی کیوں پیچھے رہتی وہ بھی اس کے ساتھ برابر کی شریک ہوئی تھی۔
" ہائے کاش بی بی بھی ہوتیں یہاں ہمارے گینگ کا ایک بندہ کم ہے مزہ ہی نہیں آرہا آج حویلی میں۔"
میسہ افسردگی سے کہہ رہی تھی۔
" ارے فکر مت کرو آجانا ہے کل صبح تمہاری بی بی نے راستے میں ہیں پہنچ جائیں گئیں صبح تک ہائے کتنی لکی ہیں نا بی بی درار انہیں لے کر اسلام آباد گئے گھومنے اور میں ہو کہ کبھی اس قید خانے سے باہر ہی نہیں نکلی۔"
پلوشے کچھ اداس ہوگئی تھی۔
" ارے کیوں اداس ہوتی ہیں بھابھی آپ ادھام لالہ سے کہیے گا نا آپ کو لے کر جائیں باہر بےبی کے بعد۔"۔
میسہ نے جیسے اس کی اداسی دیکھتے ہوئے ایک تجویز پیش کی تھی جس پر وہ بس مسکرا ہی سکی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں ایسا لمحہ کبھی بھی نہیں آسکتا تھا اور نہ آنا تھا۔
" مہجب لالہ تو انتسارہ کو لے کر جائیں گے گھومانے۔" میسہ کے کہنے پر پلوشے مسکرائی تھی۔
" ہاں کیوں نہیں اگر نہیں لے کر جائیں گے تو انتسارہ اس بیچارے کو مار نہ دے گی۔"
پلوشے نے موڈ بحال کر کے انتسارہ کو چھیڑا تھا۔
" ہاں ضرور میں تو چھوڑو گی نہیں انہیں میں تو کہوں گی ڈر پھوک مت بنیں درار لالہ کی طرح آگے کھڑے ہوں دار جی کے اور مجھے لے کر جائیں باہر سوات دکھائیں اور دوسری جگہیں بھی۔"
وہ اپنا اداس موڈ بھول کر پھر سے اپنی آنے والی زندگی کی رنگین سوچوں میں گم ہوگئی تھی۔ اس بات سے انجان کے زندگی اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔
             ************************
گاڑی اسلام آباد کی حدود سے بہت باہر نکل گئی تھی دو نفس کے درمیان پھر سے خاموشی کا راج تھا مگر دونوں کے دل ہی بول رہے تھے۔
کبھی کبھی زندگی میں خاموش رہنا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے آپ چاہ کر بھی زبان سے لفظ ادا نہیں کر پاتے یا آپ بولنا چاہتے لیکن آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہی ختم ہوجاتا کتنا مشکل ہوتا ہے جب آپ چاہ کر بھی اپنی چیز کو اپنا نہیں کہہ پاتے کیونکہ غرور اور انا اتنی آڑے آجاتی کہ اپنی چیز کو بھی اپنا کہنے میں ایک شرم ایک عار سی محسوس ہوتی ہے یا یہ کہ لیں کہ ذلت سی لگتی ہے۔ زندگی جب دو لوگوں کو ایک کرتی ہیں نا تو ایک دوسرے کو اپنا کہنے کا حق بھی دیتی ہے لیکن انسان کی اذلی غرور اور انا یہ حق کبھی استعمال ہی نہیں کرنے دیتی پھر سے وہی زندگی اور اس سے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔
           ***********************
" تم سے کہا بھی ہے کہ سیدھا مدعے کی بات پر آؤ یہ ادھر ادھر کی باتیں کرکے ہمارا وقت ضائع مت کرو۔"
دار جی بھی اب کی بار سارا صبر اور ضبط بلاے طاق رکھ کر ذرا درشتی سے ان سے مخاطب ہوئے تھے۔
" ارے ارے سردار صاحب اتنی جلدی بھی کیا ہے تھوڑا صبر رکھیں تھوڑے تحمل کا مظاہرہ کریں میرے خیال سے پتہ تو آپ کو سب ہے لیکن وہ الگ بات ہے کہ آپ جانتے ہوئے بھی بڑی ہی آسانی سے نظریں چرا رہے ہیں۔"
وہ بول رہے تھے اور مردان خانے میں بیٹھا ہوا ہر نفس ان کی بات کو بغور خاص الجھ کر سن رہا تھا ہر کوئی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا اور دار جی یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ زکوان خان کے سامنے تیس سال پہلے والے واقعے کا کوئی بھی ذکر ہو۔
" ہاں تو سردار صاحب بات صاف ہے یہ میرا بیٹا ہے فودیل زوہیب خان زوہیب انڈسٹریز اور پروڈکٹس کا اکلوتا وارث اور آپ یہ مت سمجھیے گا صرف اسے بنا بنایا بزنس دیا ہے میں نے بالکل بھی نہیں یہ سب اس کی محنت کے ثمر میں ملا ہے اسے فودیل زوہیب خان ایم۔بی۔اے ہولڈر ہے۔"
وہ فودیل کی شان میں قصیدے پڑھ  رہے تھے اور دار جی کے علاوہ باقی سب یہ سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ وہ فودیل کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں۔ دار جی کو اپنے ماتھے پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے محسوس ہورہے تھے لیکن وہ سردار اشمل خان تھے جو پچھلے پینتس سال سے اپنے قبیلے اور خاندان پر حکومت کررہے تھے تو وہ اتنی جلدی کیسے ہار مان جاتے ہارنا تو انہوں نے کبھی اپنی زندگی میں سیکھا ہی نہیں تھا انہیں تو صرف دوسروں کو ہرانا آتا تھا لیکن وہ یہ بات آج بھول رہے تھے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا کبھی عروج ہوتا ہے تو کبھی زوال۔
" لیکن خان صاحب ماشاءاللہ فودیل بچا بہت اچھا ہے لیکن یہ سب باتیں آپ یہاں دار جی سے کیوں کر رہے ہیں؟"
پیر سنان خان نے اپنے دل میں مچلتا ہوا سوال آخر پوچھ ہی ڈالا تھا۔
" بات صاف ہے پیر خان میں اپنے بیٹے فودیل کے لیے سردار اشمل خان کی چھوٹی پوتی انتسارہ صالک خان کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔"
ان کا یہ کہنا تھا وہاں بیٹھا ہوا ہر نفس ایسے تھا جیسے اسے سانپ سونگ گیا ہو۔ صالک اشمل خان نے الجھی ہوئی نظروں سے زوہیب خان کی جانب دیکھا تھا۔ وہ سب زوہیب خان کو جانتے تھے وہ ان کی خالہ کے بیٹے تھے اس بات سے سب آشنا تھے پھر وہ اچانک کہیں غائب ہوگئے تھے اور پھر آج اتنے سالوں بعد ایک دم سے واپس آجانا اور آکر اپنے بیٹے کے لیے حویلی کی بیٹی کے لیے رشتہ مانگنا کسی اور کے لیے نہ سہی پر پیر خان اور چھوٹے خان کے لیے ضرور حیرت کا باعث تھا۔
" لیکن میری بیٹی پہلے سے ہی کسی کی منگ ہے حویلی کے بیٹے کی منگ ہے وہ پہلے سے ہی میں بہت معذرت خواہ ہوں خان صاحب لیکن میں اپنی بیٹی کا رشتہ آپ کو نہیں دے سکتا۔"
صالک اشمل خان نے اپنی طرف سے صاف انکار کردیا تھا جس پر زوہیب خان کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی جیسے انہیں پہلے سے ہی اندازہ ہو اس ساری صورتحال کا اس لیے وہ نہ تو گڑبڑائے تھے اور نہ ہی پریشان ہوئے تھے ان کے اطمینان میں ایک رتی بھر بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
" چلو ہوگیا تمہارا دروازہ وہ ہے اب تم جا سکتا ہے کیونکہ ہمیں تم سے مزید کوئی بات نہیں کرنا ہے۔"
دار جی نے اطمینان سے انہیں باہر کا راستہ دکھایا تھا لیکن وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلے تھے سب دم سادھے ایک عجیب سی صورتحال کا شکار تھے وہاں کیا چل رہا تھا صرف تین لوگ جانتے تھے باقی سب تو ہونقوں کی طرح وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔
دار جی نے باقی سب کو باہر جانے کا کہا تھا کیونکہ وہ زوہیب خان سے اکیلے میں ملنا چاہتے تھے فودیل سمیت سب باہر چلے گئے  اور صرف مردان خانے میں دار جی اور زوہیب خان ہی بچے تھے۔
" کیا چاہتا ہے تم انتسارہ کا رشتہ مہجب سے طے ہے تم جاؤ یہاں سے۔"
دار جی نے رخ موڑ کر ذرا درشتی سے کہا تھا مگر نتیجہ پھر صفر کا صفر۔
" آپ سے کہا تھا پہلے بھی دنیا مکافاتِ عمل کا نام ہے اور آپ تو اس بھٹی میں سب سے پہلے جلیں گے جہاں تک بات رہی رشہ طے ہونے کی تو وہ اگر ہوسکتا ہے تو ختم بھی ہوسکتا ہے آپ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے، نہ تو کسی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا،نہ تو کس کے احساسات کو روندھنا،روتے بلکتے ہوئے دوسروں کو دیکھ تو آپ آسانی سے سکتے ہیں سردار اشمل خان صاحب۔"
اب کی بار انتہائی چبا چبا کر کہا گیا تھا۔
" ہمارا کیا گیا ہر فیصلہ ہمشہ درست ہوتا ہے۔"
دار جی نے ایک کمزور سی دلیل انتہائی مضبوطی سے دی تھی۔ جس پر زوہیب خان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
" خود پر یقین ہونا بہت اچھی بات ہوتی ہے سردار صاحب لیکن جب یقین حد سے سوا ہوجائے نا تو اندر ڈگمگانے لگتا ہے آپ کو اپنے کہے گئے لفظوں پر اتنا اندھا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ کبھی غلط بھی ہوسکتے ہیں یہ آپ کے ماننے میں نہیں آرہا ہوتا اور یہی آپ کے ساتھ سالوں سے ہوتا آرہا ہے آپ دولت اور طاقت کے نشے میں اتنے چور ہیں کہ کبھی آپ کو اپنی ذات غلط نہیں لگتی ہے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا کہا ہمشہ ٹھیک ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔" ذوہیب خان نے انتہائی تحمل سے انہیں کہا تو ان کے ماتھے پر لاتعداد شکنیں نمودار ہوئیں۔
" اب تم نے بہت تقریر کر لیا دفع ہوجاؤ اب یہاں سے۔"
انہوں نے انگلی سے دروازے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
"جہاں تک بات رہی رشتے کی تو وہ تو آپ کو میرے بیٹے کو دینا ہی پڑے گا کیونکہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ میں آپ کو اتنی آسانی سے معاف کردوں۔" زوہیب خان کا اعتماد قابلِ دید تھا۔
میری بچی خوش ہے شیرخان کے ساتھ۔"
دار جی نے ایک اور بڑے پتے کی بات بتائی تھی انہیں۔
" کاش کہ خوش ہوتی وہ۔۔۔کیا کبھی آپ نے ایک بار بھی جاننے کی کوشش کی کہ وہ کس حال میں ہے؟ نہیں کیونکہ یقین ہی بہت تھا اپنے فیصلے پر مان ہی انتہا درجے کا تھا اپنی ذات پر۔
ابھی جارہا ہوں کیونکہ وہ یہاں آئی ہوئی ہے اس کی موجودگی میں مزید تماشہ نہیں چاہتا لیکن یاد رکھیے گا ٹھیک ایک ہفتے بعد ادھر ہی منگنی کرنے آؤں گا اپنے بیٹے کی اور آپ کچھ بھی نہیں کرپائیں گے۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
گاڑی موٹر وے پر پوری آب و تاب کے ساتھ بھاگ رہی تھی انبہاج سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سوگئی تھی لیکن وہ گاڑی چلا رہا تھا ایک نظر اس نے اس کے سوئے ہوئے وجود پر ڈالی اور پھر سے اپنی توجہ ڈرئیونگ کی جانب مخصوص کرلی اس کا ذہن بھی مسلسل ایک ہی نقطے پر سوچ رہا تھا کہ حویلی جاکر ہوگا  کیا؟ اس نے کہہ تو دیا تھا مگر کیا اس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے دار جی اور خاندانی روایات کے سامنے کھڑا ہوسکے وہ شاید ہمت کر بھی لے لیکن کبھی کبھی اپنوں کے سامنے کھڑے ہونا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہوتا ہے اپنے خاندان کے حسب نسب سے ایک واحد بندے کا ٹکر لینا انتہائی عجیب لگتا ہے لیکن جب دل باغی ہوجائے نا تو انسان مفلوج ہوجاتا ہے جیسے وہ ہوگیا تھا حیرت انگیز طور پر وہ بہت سپیڈ میں ڈرائیو کررہا تھا اسے تجسس تھا جاننے کا کہ اس کے روایات کی خلاف ورزی کرنے کے بعد کیا ردِعمل دکھایا جاتا ہے کیونکہ وہ اس چیز سے ابھی تک انجان تھا۔
حویلی میں زوہیب خان کے جانے کے بعد دار جی ابھی بھی کہیں ان کے لفظوں میں ہی تھے وہ لفظ نہیں تھے وہ تیر تھے جو دار جی کے سینے میں پیوست ہورہے تھے لیکن دار جی کو اپنی پگڑی کی لاج رکھنی تھی وہ پگڑی جس کو بچانے کے لیے انہوں نے اور ان کے خاندان نے بے شمار قربانیاں دیں تھیں اور اب بھی دے رہے تھے وہ پریشان ہوگئے تھے بہت زیادہ پریشان انہیں اپنی پوتی کے مستقبل کی فکر ستا رہی تھی۔
ردوا بیگم زکوان اور میسہ اپنے گھر جاچکے تھے ردوا بیگم نے خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا یہ تو شکر تھا کہ شیر خان کسی کام کے سلسلے میں دو دن کے لیے سوات سے باہر گئے ہوئے تھے اس لیے وہ قدرے پرسکون تھے لیکن یمامہ کو اپنے کمرے میں وہ منظر اور پھر اس کے بعد اس کی مورے کی حالت بار بار یاد آرہی تھی وہ تو پہلے ہی الجھی ہوئی تھی اب مزید الجھ گئی تھی اس کا شدت سے اس لمحے زکوان کے پاس جانے کو دل چاہا تھا لیکن جب وہ رات اس کی آنکھوں کے سامنے آئی تھی تو شدت سے امڈنے والی خواہش کو اس نے لمحوں میں دبایا تھا۔
زکوان حویلی سے اپنے کمرے میں آیا تو میسہ چینج کر کے بیڈ پر بیٹھ چکی تھی وہ اب لوشن اپنی ہتھیلیوں پر لگا رہی تھی ٹینشن تو اسے بھی ہوئی تھی ردوا بیگم کی حالت دیکھ کر وہ قدم قدم چلتا آیا اور بیڈ پر جوتوں سمیت ڈھیر ہوگیا۔
" مورے سوگئی ہیں کیا؟"
اس نے آنکھیں بند کیے ہوئے ہی میسہ سے پوچھا۔
" جی ابھی سلا کے آئی ہوں مشکل سے ہی سوئی ہیں۔" میسہ نے ہاتھوں پر مساج کرتے ہوئے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
" جائیں فریش ہوکر ریسٹ کریں تھکے تھکے لگ رہے ہیں۔"
اس نے لوشن کی بوتل واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے نرمی سے اس سے کہا جس پر وہ آنکھیں کھول کر کوہنی کے بل بیٹھ گیا اور میسہ کی جانب دیکھنے لگا۔
" تھکا ہوا تھا اب تمہیں دیکھ کر تو ویسے ہی میری تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔"
وہ گھمبیر خمار آلود لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا۔ میسہ کو تو خوف سا ہی محسوس ہوا تھا آج اس سے۔
" میں پانچ منٹ میں آرہا ہوں یہاں سے ہلنا مت تم۔"
وہ اسے انگلی دکھاتے ہوئے وارن کرکے واڈروب سے کپڑے لے کر واش روم میں چلا گیا۔
" اس سے پہلے کے واپس آئے جلدی سے سو جاتی ہوں آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے۔"
وہ جلدی سے منہ پر کمفٹر لے کر سونے کے لیے لیٹی تھی۔اسے لیٹے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی لیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ ابھی اپنی دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کرہی رہی تھی کہ واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ وہ دم سادھے وہی لیٹی رہی اس نے باہر نکل کر اسے منہ پر کمفٹر ڈال کر لیٹا ہوا دیکھا تو بے ساختہ مسکرایا۔
" بڑی چالاک ہے پر میں بھی دیکھتا ہوں آج کیسے بچتی ہے یہ مجھ سے۔"
وہ مسکرا کر بیڈ کی جانب بڑھا تھا اور دوسری طرف آکر لیٹ گیا۔
وہ لیٹا تو اس نے اپنے دوسری جانب دیکھا جہاں وہ لیٹی ہوئی تھی۔
" میں نے تم سے کہا تھا نا یہاں سے میرے آنے تک ہلنا مت۔"
اس نے اسے بازو سے تھام کر اپنی جانب کھنچا تھا میسہ اس حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی اس نے آنکھیں زور سے میچی ہوئی تھیں زکوان کے کھنچنے پر بھی اس نے ایک بھی بار آنکھیں نہیں کھولی تھیں بلکہ اور زور سے میچ لیں تھیں اس کی اس حرکت پر زکوان کو جی بھر کر ہنسی آئی تھی۔ وہ اب غور سے اس کے بند آنکھوں والے چہرے کو دیکھ رہا تھا ہاتھ بڑھا کر اس نے اس کی نوزپن والی ناک چھوئی تھی جو وہ ہمشہ چھوتا تھا۔
" تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ تم کتنی کیوٹ ہو؟''
وہ اس پر جھک کر اب اس سے پوچھ رہا تھا میسہ کو تو اپنا دم نکلتا ہوا محسوس ہورہا تھا لیکن وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔
" بتایا ہے نا۔"
اس نے بڑے آرام سے آنکھیں بند کیے ہی اس سے کہا تھا اب وہ مکمل طور پر اس کی گرفت میں تھی۔
" کس کی اتنی جرات ہے جو تمہیں یہ کہتا رہا ہے کہ تم کیوٹ ہو؟"
وہ اپنے ازلی جارہانہ موڈ میں بس آنے ہی والا تھا۔
" ارے ابھی آپ نے ہی تو مجھے بتایا کہ میں کتنی کیوٹ ہوں۔"
وہ معصومیت کی انتہا پر تھی۔
اس کی بات سن کر زکوان کو بے ساختہ اس پر پیار آیا تھا۔
" بہت تیز ہو مسز زکوان ابھی بتاتا ہوں تمہیں۔"
وہ اس پر جھک رہا تھا میسہ پیچھے ہونا چاہ رہی تھی لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی۔
" تیز نہ ہوں تو مسز زکوان کون کہے مجھے۔"
اس نے بھی کوئی حساب باقی نہ رکھا تھا۔
" اچھا جی ہماری بلی اور ہمی کو میاؤں۔"
وہ ہنستے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
میسہ تو اس کی ہنسی کے لیے ویسے ہی سب کچھ کرسکتی تھی پھر ایک خود کو اس کا کرنے میں کیا حرج تھا وہ لمحے میسہ اور زکوان کی زندگی کے سب سے خوبصورت ترین لمحے تھے۔زندگی دونوں کی ازلی خوشیاں دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
سنا ہے محبت لاجواب کرتے ہو تم
لو ہم نے دے دیا دل
دیکھتے ہیں اس کا کیا حال کرتے ہو تم
        ***************************
صبح صبح فجر کے وقت اس کی بلیک ہیلکس خان حویلی کے پورچ میں داخل ہوئی تھی ہر طرف سناٹوں کا راج تھا وہ بہت تھکا ہوا تھا اس لیے فی الحال نہ تو اس کا دار جی سے ملنے کا موڈ تھا اور نہ اور کسی کا سامنا کرنے کا۔ وہ گاڑی پورچ میں پارک کرکے اترنے والا تھا جب اس کی نظر ساتھ والی سیٹ پر سوئی ہوئی انبہاج پر پڑی وہ اسے جگانا چاہتا تھا مگر چاہ کر بھی وہ ایسا نہیں کر پایا پورچ میں چوکیدار اور ڈرائیور موجود تھے اس نے پہلے چادر سے اچھی طرح اس کا چہرہ ڈھکا اور پھر اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔
باہر نکل کر اس نے چابی ڈرائیور کی طرف اچھالی اور اس سے سامان باہر نکالنے کا کہہ کر خود اس کی جانب والے دروازے پر آگیا۔ دروازہ کھول کر ایک نظر اس کے سوئے ہوئے وجود پر ڈالی اور پھر آگے بڑھ کر اسے اپنے بازوں میں اٹھا لیا۔ پاؤں مار کر اس نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور حویلی کے صدر دروازے سے سیدھا اندر داخل ہوگیا وہ مردان خانے سے گزرنے کے بجائے زنان خانے میں سے گزرا تھا اسے خدشہ تھا کہ کہیں مردان خانے میں اسے دار جی نہ مل جائیں لیکن جب وہ زنان خانے میں داخل ہوا سامنے ہی اسے اپنی مورے تسبح کرتی ہوئی نظر آگئیں۔ وہ جانتا تھا اب سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوجائے گی۔ وہ کسی قسم کے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے بس سلام کرکے اندر جانا چاہتا تھا لیکن اس کی مورے نے آنکھیں کھول لیں اور وہ اسے اپنے سامنے دیکھ کر خوشی سے حیران رہ گئی۔
" پاخیراغلے مورے!" اس نے ان کے آنکھیں کھولنے پر سلام کیا تھا۔
" زمہ شہزادہ راغے ( میرا شہزادہ آگیا)
اس نے جھک کر ان سے پیار لیا۔
" اسے کیا ہوا ہے بچے طبعت تو ٹھیک ہے نا؟"
انہوں نے اس کے بازوں میں سوئی ہوئی انبہاج کی جانب اشارہ کرکے پوچھا تھا۔
" جی ٹھیک ہے بس سوئی ہوئی تھی میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔" درار نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
" اچھا بچے وہ میں کہہ رہی تھی کہ۔" ابھی ان کا جملہ منہ میں ہی تھا کہ وہ بول پڑا۔
" مورے پلیز ابھی کچھ مت پوچھیں میں آپ کے سارے سوالوں کے جواب دوں گا لیکن ابھی مجھے سونا ہے میں ڈرائیو کرکے بہت تھکا ہوا ہوں۔"
اس نے ان کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی تھی۔
" لیکن بچے دار جی؟"
انہوں نے وہ کہہ ہی دیا جو انہیں کتنے دنوں سے بے چین کررہا تھا اس نے ان کی بات سن کر ایک گہرا سانس بھرا تھا۔
" کچھ نہیں ہوتا یو جسٹ ریلیکس میں دیکھ لوں گا آپ کو فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
اس نے ان کی پریشانی کو کم کرنے کی حتی المکان کوشش کی تھی۔
" اب میں جاؤں پلیز! بازو تھک گئے میرے اسے اٹھا کر۔" چہرے پر بے چارگی طاری کرتے ہوئے اس نے کہا تو وہ مسکرا دیں۔
" ہاں جاؤ۔"
انہوں نے مسکرا کر اسے جانے کی اجازت دی تو وہ سیڑھیاں عبور کر گیا اس کے جانے کے بعد جہاں وہ اس کے آنے پر پرسکون ہوئی تھیں وہی دار جی کے ردِعمل کا سوچ کر پریشان بھی ہورہی تھیں۔
اس نے کمرے کا دروازہ پاؤں مار کر ہی کھولا تھا۔ کیونکہ وہ لاک نہیں تھا اندر نیم اندھیرا تھا اس کے کمرے کی ہر چیز ویسے کی ویسی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا اس نے جلدی سے انبہاج کو بیڈ کے ایک طرف لیٹایا لیکن اس کے پاؤں میں کھوسا تھا۔ درار نے گہرا سانس بھر کر اس کے خوبصورت پیروں  کو کھوسے کی قید سے آزاد کیا۔ بلاشبہ اس کے پاؤں بہت حسین تھے اس نے اس کے اوپر کمفٹر ڈالا۔خود اپنی شال اتار کر صوفے پر پھینکی اور ادھر ہی اس کے ساتھ دوسری طرف ڈھیر ہوگیا۔وہ حقیقتاً بہت زیادہ تھکا ہوا تھا اتنا کہ لیٹتے ہی وہ گہری نیند میں چلا گیا تھا۔ انبہاج بھی پوری رات سوتی جاگتی کیفیت میں ہی رہی تھی تو وہ بھی اس وقت سکون سے سورہی تھی دونوں کی آنکھ تب کھلی جب باہر سے پہلے شور کی آواز اور پھر کمرے کا دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی پہلے انبہاج کی آنکھ کھلی تھی کیونکہ وہ نیند کی کچی تھی جبکہ درار کی نیند گہری تھی اور وہ کچھ تھکا بھی ہوا تھا جس کے باعث وہ بہت سکون سے سورہا تھا۔
انبہاج نے ایک نظر ساتھ سوئے ہوئے درار سنان خان پر ڈالی اور دوسری نظر کھٹکتے ہوئے دروازے پر باہر کے ازلی شور سے اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ دروازہ کیوں کھٹک رہا ہے وہ خود تو دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی اس لیے اسے ہی اٹھانے کے بارے میں سوچا تھا۔
" سنیں!"
اس نے دھیرے سے اسے مخاطب کیا تھا۔
لیکن وہ ویسے ہی بے سود پڑا رہا تھا۔دروازہ ایک بار پھر زور سے کھٹکا تھا۔ انبہاج نے اب کی بار اسے آواز دینے کی بجائے زور سے ہلایا تھا۔
" کیا پرابلم ہے سونے دو مجھے۔"
اس نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں ہی اس سے کہا تھا۔
" باہر شور بہت زیادہ ہورہا ہے اور دروازہ بج رہا ہے مجھے لگ رہا ہے دار جی کو ہمارے آنے کی خبر ہوگئی ہے۔"
وہ اپنے تئیں بالکل صحیح اندازہ لگا رہی تھی۔ اس کی بات سن کر درار جھٹ سے اٹھا تھا جب حواس تھوڑے بحال ہوئے تو ساری بات سمجھ میں آگئی۔ "آپ کمرے میں ہی رہیں گی میں دیکھتا ہوں باہر جاکر پلیز آپ نے باہر نہیں آنا۔" وہ بیڈ سے اٹھ کر بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا تھا ہاتھ بڑھا کر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے گل بانو کھڑی تھی۔
" خان جی! دار جی بلا رہے ہیں آپ کو مردان خانے میں۔" گل بانو نے مودب انداز میں کہا تو درار نے اسے گھور کر دیکھا۔
" تھوڑا آہستہ دروازہ نہیں کھٹکا سکتی تھی تم پوری حویلی سر پر اٹھا لی تھی تم نے۔"
اس کا اطمینان قابلِ دید تھا اس نے گل بانو کو اچھی خاصی سنا دی تھی جس پر وہ بیچاری سٹپٹا گئی تھی۔
" معاف کیجیے گا خان جی مگر دار جی کا حکم تھا کہ دروازہ زور سے بجاؤں۔" گل بانو نے معذرت خواہ لہجے میں کہا تو درار نے گہری سانس بھری۔
" جاؤ تم اور کہہ دو دار جی سے کہ تھوڑی دیر میں آرہا ہوں۔"
وہ جی اچھا کہہ کر پلٹ کر نیچے چلی گئی تھی جبکہ وہ دروازہ بند کرکے بالوں میں ہاتھ چلاتا اندر آگیا تھا۔
" اب ہم کیا کریں گے دار جی تو بہت غصے میں ہوگے؟"
انبہاج جو کب سے بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
" کریں گے کیا کچھ بھی نہیں کریں گے زیادہ سے زیادہ کیا کرلیں گے دار جی حویلی سے نکال دیں گے اور ایسا میں ہونے نہیں دوں گا آپ ٹینشن مت لیں میں سب ہینڈل کرلوں گا آپ فریش ہوں میں ذرا پیشی بھگتا کر آتا ہوں۔" اس کا گال تھپتھپا کر اس نے کہا تو انبہاج نے اسے گھورا۔
" ایسی سیچویشن میں بھی آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے؟"
وہ بے حد خوفزدہ تھی اور درار کو اس کا اندازہ ہوگیا تھا وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اسے اس کے چہرے پر خوف کے سائے صاف دکھائی دے رہے تھے اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے تھے۔
" آپ پریشان کیوں ہورہی ہیں میں نے بولا تھا نا دار جی آپ کو کچھ بھی نہیں کہیں گے تو کیوں اتنی ٹینشن لے رہی ہیں آپ؟" اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے درار نے کہا تو انبہاج نگاہیں جھکا گئی۔
" میں نے آج تک کبھی دار جی کو اپنی وجہ سے غصے میں نہیں دیکھا۔"
وہ اب اسے بے بسی سے دیکھ کر کہہ رہی تھی۔
" تو آپ کی وجہ سے تو وہ غصے میں اب بھی نہیں ہیں انہیں تو غصہ میری وجہ سے آیا ہے نا۔"
وہ اب اس سے بے پناہ نرمی سے مخاطب تھا۔
" آپ فکر مت کریں میں ہوں نا آپ کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کہے گا آپ کو سو ریلیکس اچھا اب میں سن کر آتا ہوں دار جی کی بات آپ یہی رہیے گا ٹھیک ہے نا؟"
وہ اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا جس کی ناک رونے کے باعث کچھ سرخ ہوگئی تھی۔
" ہوں۔"
اس نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اس کے گال تھپک کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازہ کھول کر نیچے آیا تو مردان خانے میں حسب توقع عدالت لگی ہوئی تھی۔ دار جی جلی بلی کے پیر کی طرح ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھے ان کی شکل دیکھ کر درار سنان اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس کی اب کیا حالت ہونے والی ہے لیکن اس کے چہرے پر ڈر کا ایک بھی نشان نہیں تھا وہ اطمینان سے چلتا ہوا دار جی کے سامنے آیا تھا۔
" پاخیراغلے دار جی!"
اس نے انتہائی ہمت اور ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں سلام کیا تھا لیکن بدلے میں جس طرح کے تیوروں سے دار جی نے اسے گھورا تھا نا اس نے اس کے اندر بھی تھوڑا سا ڈر کہیں پیدا کیا ہی تھا۔
              **********************
" آرے واہ آئیے آئیے ویسے داد دینا پڑے گا تمہارا بے خوفی اور ہڈ دھرمی کا غلطی کر کے بھی کیسا سکون سے ہمارا سامنے کھڑا ہے تم آج تک ویسا ہمت کسی نے نہیں کیا ہے۔"
دار جی بول رہے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ آگے سے بالکل خاموش تھا۔
" تمہارا جرات کیسے ہوا ہمارا اجازت کے بغیر اس حویلی کا عورت کو حویلی سے باہر لے کر جانے کا؟"
اب کی بار وہ اپنے سوال پر روبرو آگئے تھے اس وقت مردان خانے میں حویلی کے سب مرد موجود تھے اور کسی کی بھی جرات نہیں ہورہی تھی کہ کوئی بھی دار جی کے آگے بولے۔ادھام کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ وہ دار جی کے آگے جاکر بولے آخر وہ بھی تو اتنے سالوں سے یہی سب کچھ برداشت کررہا تھا اس کی بیوی بھی تو حویلی میں محض قید ہوکر رہ گئی تھی اور اس پر اس کی ادھام سے محبت اور صبر ہی تھا جو اس نے ایک لفظ بھی شکایت کا نہیں نکالا تھا۔
" دار جی وہ حویلی کی عورت کے ساتھ ساتھ اس حویلی کے بیٹے کی بیوی بھی ہے اس پر میرا حق ہے کہ میں اسے اپنے ساتھ جہاں مرضی لے کر جاسکتا ہوں یہ اجازت مجھے میرا دین دیتا ہے۔"
اس نے انتہائی تحمل سے ان کی بات کا جواب دیا تھا۔
" دین! کونسا دین؟ وہ دین جس کا تکمیل کے لیے تم سے پانچ وقت کا نماز ادا نہیں ہوتا۔"
دار جی بھی اب کی بار پورے طیش میں آئے تھے۔
" وہ میرا اور اللہ کا ذاتی مسئلہ ہے دار جی اس میں آپ کا بولنا نہیں بنتا۔"
اس کا اطمینان اب بھی قابل دید تھا۔
" سنان خان اس کا زبان کو لگام ڈالو ورنہ آج ہم یہاں بھول جائے گا کہ یہ ہمارا لاڈلا پوتا ہے جس کا جدائی ہم نے پچھلا پندرہ سال برداشت کی ہے۔" انہوں نے سپاٹ نظروں سے سنان خان کو کہا تھا۔
" درار تم چپ کر جاؤ کیوں دار جی کے آگے زبان چلا رہے ہو؟"
سنان اشمل خان نے اسے تنبیہہ کرتی ہوئی نگاہوں سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
" کیوں چپ کرجاؤں بابا جان میں کیوں خاموش ہوں بتائیں آخر مجھے کیا قصور کردیا ہے میں نے جو یہاں عدالت لگی ہے میری؟"
زنان خانے میں بھی بی بی جان سمیت سب خواتین دم سادھے مردان خانے میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھیں البتہ انبہاج ابھی بھی اپنے کمرے میں ہی تھی۔
" انتسارہ بچے جاؤ جاکر بی بی کو بلا کر لاؤ۔" راحمہ بانو نے انتسارہ سے کہا تو وہ سر ہلاتی ہوئی اوپر کی جانب بڑھ گئی۔
وہ اوپر سیڑھیاں چڑھ کر اس کے کمرے میں پہنچی تو وہ بیڈ پر ایک طرف خوف سے بیٹھی ہوئی تھی اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
" بی بی !"
انتسارہ اسے پکار کر اس کی جانب بڑھی تھی۔ انبہاج انتسارہ کے گلے لگی اور پھر وہ جو روئی تو انتسارہ کو اس کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔
" بس بی بی آپ کو نیچے زنان خانے میں مورے بلا رہی ہیں آپ چلیں سیچویشن ٹھیک نہیں ہے۔" انتسارہ نے عجلت میں کہا تو انبہاج نے اس کی جانب دیکھا۔
" کیا مطلب ہے انتسارہ اس بات کا؟"
اس نے خوف سے ایک بار ہھر پوچھا تھا۔
" چلیں تو سب پتہ چل جائے گا۔"
وہ اپنا دوپٹہ درست کرتی اس کے ساتھ نیچے زنان خانے میں آگئی جہاں درار کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔
" بس بابا جان آپ روایات کے بندھے ہونگے لیکن میں نہیں ہوں ان روایات کا قیدی جہاں انسان اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا پہلے حکم صادر کرکے انہوں نے مجھے باہر سے بلوا لیا حالاکہ میں پاکستان نہیں آنا چاہتا تھا پھر انہوں نے میرے آتے ہی اپنی پوتی سے میری شادی کا حکم دے دیا اور میرے انکار کرنے پر مجھے مفت کا بلیک میل کیا شادی کرلی اب باہر لے کر گیا ہوں تو حویلی کی عورت کو باہر لے کر جانے کی جرات کیسے ہوئی میری یہ سوال کیا جارہا ہے مجھ سے۔" اس کی آواز قدرے اونچی تھی۔
" بکواس بند کرو تم اپنا سالوں سال ہوگئے اس حویلی کا عورت کو باہر دہلیز عبور کیے ہوئے صرف یہ تمہارا بیوی کا ضد کرنے پر ہم نے سخت پردے میں پڑھنے کا اجازت دیا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنی حد بھول جائے۔" دار جی نے غصے سے کہا تو درار نے ضبط سے ان کی جانب دیکھا۔
" واہ دار جی جو کل تک آپ کی پیاری پوتی تھی وہ آج صرف میری بیوی بن گئی اور وہ اپنی حد نہیں بھولی اسے اپنی ہر حد اچھے سے یاد ہے وہ میرے کہنے پر میرے ساتھ گئی کیونکہ میں اسکا شوہر ہوں اس کا فرض تھا کہ وہ میری بات مانے۔"
وہ آج ایک ان چاہی عورت کی طرف داری کررہا تھا۔ وہ ان چاہی عورت جو اس کی بیوی تھی جس کے حدود میں ہونے کا اعلان وہ آج اس قبیلے کے سردار کے سامنے سر اٹھا کر کر رہا تھا۔زنان خانے میں جالیوں کے ساتھ لگی انبہاج اس کے ساتھ ہونے پر فخر کرتی یا افسوس اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
" وہ ہمارا پوتی آج بھی ہے لیکن اب وہ ہمارا پوتی سے زیادہ تمہارا بیوی ہے۔"
دار جی بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔
" تو پھر ٹھیک ہے نا اس طرح تو وہ اس حویلی کی بیٹی ہونے سے پہلے بھی میری بیوی ہے حق رکھتا ہوں میں اس پر۔" درار کے لہجے میں اب کی بار سکون تھا۔
" دیکھو درار روایات کی پاسداری کرنے والے تم تنہا نہیں ہو یہاں اپنے اردگرد نظر گھما کر دیکھو یہاں کھڑا ہر نفس ان روایات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔"
صالک اشمل خان نے بھی اسے سمجھایا تھا۔
" خاموش ہوجاؤ تم سب!"
دار جی نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو خاموش رہنے کے لیے کہا تھا۔
" تم قبیلے کا سردار کا پوتا ہے وہ بھی وہ پوتا جو روایات کی زنجیروں سے ہر وقت نکلنے کا کوشش کرتا تو ٹھیک ہے غلطی تم نے کیا ہے اب اس کا سزا بھی تم بھگتو گے ہم اپنا زندگی میں سب برداشت کرسکتا لیکن روایات کی خلاف ورزی نہیں اس لیے تمہیں سزا ملے گا۔"
سزا کے نام پر انبہاج اندر تک کانپ گئی تھی دار جی کی سزائیں کس قسم کی ہوتی تھیں  وہ اچھے سے واقف تھی لیکن درار ان سزاوں کی الف سے بھی واقف نہیں تھا اور یہی چیز اسے لرزانے کے لیے کافی تھی۔
" نہیں بی بی جان روکیں دار جی کو انہیں کہیں کہ درار کو کوئی سزا مت سنائیں آپ اچھے سے جانتی ہیں دار جی کی سزاوں کو پلیز روکیں انہیں۔"
وہ  ہاتھ جوڑ کر بی بی جان کے سامنے کھڑی تھی۔ کس کے لیے وہ منت کررہی تھی اپنے اس شوہر کے لیے اپنے اس عشق کے لیے جو اسے ایک ان چاہی عورت سے زیادہ کچھ تصور ہی نہیں کرتا تھا پھر وہ کیوں اس کی فکر میں گھل رہی تھی ایک بار پہلے بھی اس نے اس شخص کی خاطر خود کو بے مول کیا تھا اور آج پھر وہ اس کو بچانے کے لیے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔
لاڈلے پوتے کے لیے سزا کا لفظ سن کر تو بی بی جان بھی اندر سے کانپی تھیں۔انہوں نے انبہاج کی تڑپ دیکھی تھی لیکن وہ اس لمحے اپنے آپ کو حد سے زیادہ بے بس محسوس کررہی تھیں۔
" مجھے معاف کردو بچے میں اس لمحے تمہارے لیے اور اپنے پوتے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اگر خان نے سزا دینے کا کہا ہے تو وہ اپنی زبان نہیں چھوڑیں گے اب تو صرف دعا اور انتظار کرو تم کہ سزا وہ ہو جو درار سنان خان برداشت کرلے۔" آخر پر وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ بولی تھیں. وہ وہی ڈھے سی گئی تھی اب اسے انتظار تھا موت کے پروانے کا یہ دیکھنے کا کہ عدالت میں اس کے شوہر درار سنان خان کو کیا سزا سنائی جاتی ہے۔
   ◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
" کس بات کی سزا دار جی سزا ان کو دی جاتی ہے جن کا کوئی جرم ہوتا ہے میں نے کیا جرم کیا ہے؟"
درار سزا کا نام سن کر ہی طیش میں آگیا تھا۔
" کیا یہ جرم کم ہے کہ تم اپنے حسب نسب سے ہی بھاگتا ہے تم ہمارا سامنے کھڑا ہوکر ہمارے جذبات کا اندازہ لگا لیتا ہے نا تو کتنا مزہ آئے جب ہم تمہارا سامنے کھڑا ہوکر تمہارا جذبات کا اندازہ لگا سکے۔"
دار جی بول رہے تھے اور وہ الجھ کر ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔ زنان خانے میں موجود سب عورتوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ پیر بیگم ساکت تھیں جیسے اب موت آئی تو اب آئی کیا فیصلہ ہونے والا کوئی نہیں جانتا تھا۔
" جب حدود توڑنا جانتا ہے تم تو سزا بھگتنا بھی جانتا ہی ہوگا کہ ہم تم کو بزدل تصور کرلے۔"
دار جی اس کی انا اور غرور سے بڑے ہی آرام سے کھیل رہے تھے اور وہ کیسے برداشت کرتا اپنی انا کا خون اپنے غرور کی ہار پھر فیصلہ تو اس نے کرنا ہی تھا۔
" منظور ہے مجھے جو بھی سزا دیں آپ۔"
اس کا یہ کہنا تھا مردان خانے میں سب ہی حیرت و غم سے درار کی جانب دیکھ رہے تھے کیونکہ تقریباً سب ہی جانتے تھے کہ سردار اشمل خان کی سزائیں کس قسم کی ہوتی ہیں انبہاج  جالیوں کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گئی تھی کیونکہ اب اس نے سزا منظور کر لینی تھی اور وہ اب کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
دار جی کی آواز ایک بار پھر سے اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
" میں سردار اشمل خان آج اپنے پوتے درار سنان خان کو روایات کو توڑنے اور ان کی خلاف ورزی کرنے پر یہ سزا سناتا ہوں کہ آج سے اس قبیلے کی بھاگ دوڑ میں نہیں یہ سنبھالے گا ہر جرگے کا فیصلہ میں نہیں درار سنان خان کرے گا یہ بنے گا اپنے دادا کا جانشین۔کسی کو کوئی اعتراض ہے تو یہاں بول سکتا ہے۔"
لیکن اعتراض کس کو ہونا تھا وہاں تو سب کو درار کی حالت پر رحم کے علاوہ کچھ نہیں آرہا تھا۔
" او میرے اللہ یہ کیا ہوگیا پیر بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں باقیوں کی حالت بھی ان سے مختلف نہ تھی۔
" یہ پگڑی آج سے تمہارا ہوا اب تم سردار درار سنان خان ہے۔"
انہوں نے اپنے سر سے پگڑی اتار کر اس کے سر پر رکھ دی تھی جو ایسے کھڑا تھا جیسے یہ سب اس کی جگہ کسی اور کے ساتھ ہورہا ہے۔
" اب ہم دیکھے گا تم اس پگڑی کی لاج کتنی رکھتا ہے اور کتنا روایات سے نظریں چراتا ہے۔
جو سزا اشمل خان نے اسے سنائی تھی وہ اس کے علاوہ تقریباً سب جانتے تھے کہ کتنی اذیت ناک ہے۔ یہ تو وہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے اپنے گلے کا طوق اتار کر بڑی ہی آسانی سے اپنے پوتے کے گلے میں ڈال دیا تھا اور اب تو تقریباً پورے قبیلے کو پتہ چل چکا ہوگا کہ قبیلے کا سردار درار سنان خان بن گیا ہے۔
وہ اس کے سر پر بگڑی پہنا کر مردان خانے سے جانے لگے تھے کہ انہوں نے مہجب کو مخاطب کرلیا۔
مہجب بچے!"
" جی دار جی!"
جاؤ جاکر سلطان سے کہو کہ پورا قبیلا میں اعلان کرے کہ سردار اشمل خان نے اپنا جانشین منتخب کرلیا ہے۔"
یہ کیا ہورہا تھا انبہاج کی سمجھ سے بالاتر تھا درار کو قبیلے کا سردار بنا دیا گیا تھا اور وہ اچھے سے جانتی تھی کہ سردار بننے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اب تو ایک پتھر دل انسان کو ایک اور پتھر پہنا دیا گیا تھا جس کا استعمال کیسے کرنا ہے وہ وثوق سے کہہ سکتی تھی کہ وہ جانتا ہوگا کیونکہ وہ خاموش تھا اتنا کہ اس کی اس سارے لمحے میں ایک بھی آواز نہیں آئی تھی۔ حالات کسی اور ہی نہج پر کھڑے ہوگئے تھے۔ بلاشبہ دار جی نے خود اپنا جانشین منتخب کرنا تھا مگر وہ درار ہوگا یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
" انتسارہ!"
اس نے ہولے سے انتسارہ کو پکارا تھا۔
" مجھے میرے کمرے میں لے جاؤ۔"
اس نے سپاٹ تاثرات کے ساتھ اس سے کہا تھا۔
" جی بی بی چلیں۔"
وہ اسے سہارا دے کر اوپر اس کے کمرے میں لے آئی اور اسے بیڈ پر بیٹھا دیا۔
" آپ ٹھیک ہیں بی بی ؟"
اس نے تشویش سے اس سے پوچھا تھا کیونکہ اس کی حالت انتسارہ کو کسی طور بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔
" آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں۔"انتسارہ نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے فکر سے کہا تو انبہاج ایک لمحے کے لیے آنکھیں موند گئی۔
" میں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے۔"
وہ اپنے سامنے بیڈ شیٹ کے ڈیزائن کو گھورتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔
" بی بی آپ کیوں چلی گئی تھیں میں نے آپ کو بہت مس کیا۔"
وہ بھی اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
" کیسے نہ جاتی اس نے مجھ سے کہا تھا چلنے کے لیے۔" انبہاج نے مدہم لہجے میں کہا تھا۔
" وہ جو بھی کہیں گے چاہے غلط ہی کیوں نا ہو آپ مان لیں گی؟"
اس نے حیرت سے اس سے سوال کیا تھا۔
" نہیں ساری نہیں صرف وہ جو ماننے والی ہوں گی۔" انبہاج نے دھیرے سے کہا تھا۔
تم جاؤ اور لائٹ اف کرتی ہوئی جانا مجھے کسی سے نہیں ملنا فی الحال۔" آنکھیں موندے اس نے کہا تو انتسارہ نے بیچارگی سے اس کی جانب دیکھا۔
" لیکن بی بی کچھ کھا تو لیں۔" ایک بار پھر سے کوشش کی گئی تھی۔
" کہا نا جاؤ شاباش تم کرو ناشتہ جب بھوک ہوگی میں کھالوں گی۔"
اس نے قدرے نرم لہجے میں اس سے کہا تھا۔ انتسارہ اٹھ کر لائٹ اف کرکے باہر چلی گئی تو اس نے بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ اس کی آزمائش کب ختم ہوگی یا وہ یونہی ہمشہ زندگی بھر اس کی ذات پر صبر کرکے گزار دے گی۔ صبر آہا۔۔ اس نے ایک گہرا سانس بھرا کس قدر چھوٹا لفظ ہے لیکن معنی اتنا ہی بڑا اس چھوٹے لفظ کو سنبھالتے سنبھالتے ایک عمر بیت جاتی ہے یہ لفظ اور اس کی بازگشت انسان کی نسیں اندر سے کھوکھلی کردیتی ہیں لیکن بظاہر استقامت دکھانا اس لفظ اور عمل کا اوالین تقاضہ ہے۔ وہ ایک مدت سے ایک شخص کی ذات پر اس چھوٹے لفظ کا بڑا بوجھ اٹھا کر گھوم رہی تھی اور اب تو اس کی اپنی شخصیت پر اس شخص کی ذات کا بوجھ اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کا اندر کھوکھلاہٹ کا شکار ہورہا تھا تو کب ختم ہونا تھا یہ امتحان اور اس کی بازگشت وہ جانتی تھی کہ اللہ اپنے بندے کو اتنا ہی آزماتا جتنی اس میں اسطاعت ہوتی ہے تو کیا اس کی سہنے اور برداشت کی حد اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی یا وہ خود اپنی ہار کے جھولے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ یہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا وہ چاہ کر بھی نہیں جان سکتی تھی۔
              **********************
رات سے صبح ہوگئی وہ نفس جس پوزیشن میں تھا ابھی بھی اسی حالت میں تھا ساکن بغیر کسی حرکت کے کیوں ؟ کبھی کبھی جن چیزوں کو ہم بھولنا چاہتے ہیں وہ پھر سے کیوں آنکھوں میں امتحان بن کر سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں وہ بھی اس بری طرح سے کہ سارے گزشتہ زخم ادھیڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ردوا شیر خان کا جسم تو پہلے ہی شیر خان کے تشدید سے مفلوج ہوچکا تھا تو پھر اب اور کونسی تکلیف تھی جس کا ارتکاز ابھی باقی تھا جو قدرت نے زوہیب خان کی صورت میں ان کے سامنے لاکر کھڑی کردی ہے۔ وہ ساکن تھیں ان کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کا سمندر دیکھ کر جس محبت کو ساری زندگی انہوں نے یک طرفہ سمجھا تھا وہ تو کبھی جان ہی نہیں پائی تھیں کہ یہ آگ دونوں کو برابر جھلسا رہی ہے اگر صرف روایات انہیں تھوڑی سی اجازت دیتیں تو وہ آج ایک ان چاہی عورت کے بجائے کسی کی چاہ بن کر اس کے گھر کو مہکا رہی ہوتیں لیکن قسمت اور نصیب دو واحد ایسی چیزیں ہیں جو ایک ہی ہیں اور جن سے کوئی نہ کبھی لڑسکا ہے اور نہ لڑسکے گا یہ جس کا جس کے ساتھ لکھا اسی کے ساتھ گزارنا چاہے تو کسی کی چاہ بن کر گزار دو یا چاہے ان چاہی بن کر پھر اس لمحے انہیں فائدہ کس میں تھا کسی کی چاہ بننے میں یا ان چاہی بننے میں تو معاملہ صاف تھا فائدہ تو ان کا شروع سے ان چاہی میں ہی تھا کیونکہ وہ اگر زوہیب خان کی چاہ بن بھی جاتی  تو ساری زندگی کے لیے اپنی بی بی جان اور دار جی کے لیے ان چاہی ہوجاتی تو پھر اچھا نہیں ہوا کہ لمحوں میں انہوں نے اپنی عزیز خواہش کا گلہ دبایا تھا اور خود کو بڑی ہی فراخ دلی سے قربانی کے لیے پیش کردیا تھا۔
دو تین آنسو ٹوٹ کر ان کی آنکھ سے گرے اور ان کے ہاتھوں میں کہیں جزب سے ہوگئے تھے جب دل مار دیا تو رونا کس بات کا تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں تیس سال قبل کا وقت پھر سے ایک امتحان بن کر ان کے سامنے آگیا تھا جس سے ایک بار پھر انہوں نے سرخ رو ہو کر نکلنا تھا۔
وہ اپنے ہی حال میں وہی پر بیڈ کے ساتھ نیچے ساکن بیٹھی ہوئی تھیں جب انہیں اپنے بال کسی کی گرفت میں محسوس ہوئے وہ جو اس تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں ایک دم ہی تکلیف سے بلبلا اٹھی۔
" تو بےغیرت عورت کس کو کھڑے ہوکر دیکھ رہی تھی حویلی میں بتا مجھے ذلیل عورت۔"
صدمے سے جیسے ان کی آواز ہی بند ہوگئی تھی انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر شیر خان کو یہ سب پتا کیسے چلا یمامہ تو بتا نہیں سکتی تھی کیونکہ اس وقت صرف وہی کھڑی تھی وہاں ان کے پاس پھر کون تھا وہ۔
" کو۔۔۔کون کہ۔۔کس کی بات کررہے ہیں آپ؟" لڑکھڑاتے لہجے میں انہوں نے کہا تو شیر خان کی غضب ناک آواز ابھری۔
" زیادہ انجان بننے کی ضرورت نہیں ہے تجھے۔۔۔ سارے زمانےکی بدنام عورت میرے ہی مقدر میں لکھنی تھی۔" چہرہ غصے کی تمازت سے سرخ پڑرہا تھا۔
" بس شیر خان بس بہت ہوگیا اس سے آگے ایک لفظ بھی مت بولنا سارے زمانے کی بدنام عورت اگر تمہارے نصیب میں لکھی گئی تھی تو سارے زمانے کے عیاش مرد کو میرا بھی مقدر بنایا گیا ہے سمجھے نا؟"
وہ آج بول رہی تھیں وہ تھک گئی تھیں مار کھا کھا کر اگر آج مار  پڑنی تھی تو کیوں نا تھوڑا بول کر ہی کھا لی جائے کبھی کبھی خاموش رہ کر آپ اپنے آپ کو بزدل قرار دے دیتے ہو۔ حالاکہ آپ بزدل ہوتے نہیں ہو صرف وقت اور حالات بزدل بنا دیتے ہیں۔
" تو زبان چلاتی ہے میرے آگے تیری جرات کیسے ہوئی بولنے کی میرے سامنے۔"
انہوں نے ایک زور دار تھپڑ ان کے منہ پر مارا تھا جو ان کے منہ پر نہیں روح پر لگا تھا۔ ایسے کتنے ہی تھپڑوں سے ان کی روح پچھلے تیس سال سے گھائل تھی۔ اب تو وہ درد محسوس کرتی ہی نہیں تھیں۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا آوازیں اتنی اونچی تھیں کہ صاف پورے گھر میں سنائی دے رہی تھیں۔
زکوان ابھی ابھی آفس گیا تھا اور میسہ اپنے بیڈ پر ہی لیٹی ہوئی تھی اسے اپنی طبیعت کچھ ڈھیلی سی محسوس ہورہی تھی اس لیے اٹھنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی لیکن نیچے سے آتی آوازوں نے اس کی حس بیدار کردی تھیں۔ وہ اپنے بستر سے اپنا دوپٹہ لیتی ہوئی بال جوڑے کی شکل میں لپیٹتی ہوئی نیچے آئی تھی وہ اس وقت اکیلی تھی
یمامہ یونیورسٹی چلی گئی تھی وہ بس ابھی پھوپھی جان کو ناشتے کا پوچھنے نیچے آنے ہی والی تھی کہ یہ آوازیں۔۔۔ وہ از حد پریشان ہوگئی اس لیے ہڑبڑی میں نیچے اتری تھی نیچے اتر کر سامنے کا منظر دیکھ کر اسے اپنی روح نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی شیر خان ردوا بیگم کو درندوں کی طرح مار رہے تھے میسہ کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہورہا تھا اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ منظر دیکھا تھا۔
" چھوڑیں پھوپھا جان آپ پاگل ہوگئے ہیں؟"
اس نے ان کے قریب جاکر اونچی آواز میں ان سے کہا تھا۔
" لڑکی تم بیچ سے ہٹ جاؤ ہمارے معاملے سے دور رہو تم سمجھی نا۔" انہوں نے انگلی دکھاتے ہوئے اسے دور رہنے کے لیے کہا تھا۔
" کیوں دور رہوں میں یہ میرا بھی گھر ہے۔" میسہ پوری قوت سے چلائی تھی۔
" میسہ بچے تم جاؤ یہاں سے پلیز۔"
ردوا بیگم نے سرخ چہرے کے ساتھ اسے وہاں سے جانے کے لیے بولا تھا۔
" کیوں جاؤں میں پھوپھی جان یہ انسان نہیں ہے درندہ ہے جو ایسے پیٹ رہا ہے وہ بھی بغیر بات کے۔"
وہ انتہائی غصے اور نفرت سے ان سے کہہ رہی تھی۔
" لڑکی اپنی حد میں رہو سمجھی نا اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔"
انہوں نے طیش کے عالم میں اس سے کہا تھا۔
"آپ کیوں سہتی ہیں ان کی ماریں بتائیں مجھے کیوں کچھ نہیں بولتی آپ اپنے بیٹے کو کیوں نہیں بتاتی کہ یہ شخص کس قدر سفاکی سے آپ کو مارتا ہے۔" وہ چیخ کر بولتے ہوئے ان کے نزدیک آئی تھی۔
" بچے پلیز جاؤ یہاں سے اور زکوان کو کچھ مت کہنا۔" ردوا بیگم نے سسکتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" کیوں نہ کہوں میں ان سے بتاؤں گی میں انہیں کہ ان کا یہ نام نہاد باپ کیا سلوک کرتا ہے ان کی ماں کے ساتھ۔" وہ ہر لحاظ فراموش کیے ہوئے تھی۔
" کہا ہے نا بکواس بند کر اپنی لیکن نہیں ہورہی تیری زبان بند۔"
شیر خان نے ایک زور دار تھپڑ میسہ کے منہ پر بھی مارا تھا جس سے وہ اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پائی تھی اور سیدھا دروازے میں کسی کے قدموں میں گری تھی۔
زکوان نے حیرت سے نیچے اپنے قدموں میں گری ہوئی میسہ کو دیکھا تھا اور پھر اس کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ۔
" میسہ کیا ہوا کیا تم ٹھیک ہو؟"
اس نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا تھا انگلیوں کے نشان اس کے چہرے پر وہ واضح دیکھ سکتا تھا یہ نشان دیکھ کر اس نے اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں اسے سمجھنے میں ایک لمحہ نہیں لگا تھا کہ یہ نشان کس کے ہاتھ کے ہیں اوپر سے اپنی مورے کی حالت دیکھ کر وہ ایک لمحے میں چکرا کر رہ گیا تھا۔ وہ تو کوئی فائل لینے آیا تھا اندر قدم رکھتے ہی پہلے میسہ کی اور پھر شیر خان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ اور جو کچھ اس نے سنا تھا وہ اسے پاگل کرنے کے لیے کافی تھا میسہ بالکل خاموش کھڑی تھی اسے ایک لمحہ لگا تھا دنیا و مافیا سے بیگانا ہونے میں  وہ زکوان کے بازوں میں ہی جھول گئی تھی۔
" او شٹ میسہ اٹھو کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو میسہ!
مورے پلیز کال دا ڈاکٹر۔"
وہ اسے اپنے بازوں میں اٹھا چکا تھا اس سارے عرصے میں شیر خان کے چہرے پر پریشانی سخت واضح تھی زکوان چلتا ہوا ان کے سامنے آیا  اور انتہائی غصے میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوگیا اور جب اس نے بولنا شروع کیا تو اس کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔
" آئیندہ اگر آپ نے میری مورے پر ہاتھ اٹھایا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اور اگر میری میسہ کو کچھ ہوا تو میں یہ بھول جاؤں گا کہ آپ میرے باپ ہیں۔"
وہ اسے بازوں میں اٹھا کر وہاں سے باہر نکل کر اوپر سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں آگیا اور اسے بیڈ پر لیٹا دیا۔
" میسہ اٹھو میری جان کیا ہوا ہے تمہیں پلیز میسہ اٹھو۔"
اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے پانی کے گلاس میں سے دو تین چھینٹے اس کے منہ پر مارے لیکن اسے ہوش نہیں آیا اتنی دیر میں نوری نے کمرے کا دروازہ بجایا۔
" خان جی ڈاکٹرنی صاحبہ آگئی ہیں۔" نوری کے بتانے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" ٹھیک ہے تم اندر بھیجو انہیں۔"
وہ باہر نکل گئی تو ایک گریس فل سی لیڈی ڈاکٹر اندر داخل ہوئی تھیں۔
" ڈاکٹر پلیز شی از مائی مسز آپ دیکھیں انہیں ہوش نہیں آرہا۔" زکوان کے لہجے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
" شیور خان جی ڈونٹ وری میں چیک کرتی ہوں۔"
وہ دونوں بازو سینے پر فولڈ کر کے سائیڈ پر کھڑا تھا پریشانی چہرے سے ہی جھلک رہی تھی ڈاکڑ اسے چیک کرکے زکوان کی جانب آئی تھی۔
" مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا خان جی! کہ انہیں اس حالت میں اتنا سٹریس کیوں دیا گیا ہے یہ ان کے لیے بہت زیادہ ڈینجریس ثابت ہوسکتا تھا۔"
ڈاکٹر کی بات سن کر زکوان نے حیرت اور نا سمجھی کی ملی جلی کیفیت میں ڈاکٹر کی جانب دیکھا تھا۔
" آئی۔آیم۔سوری ڈاکٹر بٹ کس کنڈیشن میں میں کچھ سمجھا نہیں آپ کی بات۔" زکوان نے ناسمجھی سے کہا تو ڈاکٹر مسکرائی۔
" خان جی یور وائف اس ایکسپیکٹینگ۔" ڈاکٹر کے بتانے پر اس نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" واٹ فرم وین۔"
اس نے حیرت سے ان سے پوچھا تھا۔
" یہ ان کی ارلی پریگنینسی ہے اور انہیں سخت ضرورت ہے کہ یہ ریلیکس رہیں ورنہ بہت سی کمپلی کیشنز ہوسکتی ہیں۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا تھا۔
" ڈونٹ وری ڈاکٹر میں ان کی پوری کئیر کرونگا آئیں میں آپ کو باہر تک چھوڑ آتا ہوں۔"
وہ باہر نکل گئی۔ وہ ان کے پیچھے انہیں چھوڑنے باہر چلا گیا تھا بیک وقت اس کو خوشی اور غصے دونوں نے گھیرا تھا خوشی اسے اپنے باپ بننے کی تھی اور غصہ اسے اپنے باپ پر تھا۔
             *************************
سارا دن وقتاً فوقتاً قبیلے کے مختلف لوگ سردار درار سنان خان کی پگڑی کی تصدیق کرنے آتے رہے اور اب تو وہ باقائدہ طور پر سردار کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ مختلف جرگوں کے فیصلوں میں بھی وہ سرگرم رہا تھا لیکن جو واحد بات تھی وہ یہ تھی کہ اس نے کسی سے بھی بات نہیں کی تھی۔ سارا دن وہ بالکل سپاٹ تاثرات کے ساتھ ایک روبوٹ کی طرح دار جی کے ساتھ گھومتا رہا تھا سچ تو یہ تھا کہ اس نے کبھی بھی خود کو اس زمہ داری کے لیے تیار نہیں کیا تھا لیکن وہ حیران تھا دار جی پر کہ کیا سزا دی ہے انہوں نے اسے ایک ایسی پھانس دی تھی جسے نہ تو وہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی اگل سکتا تھا وہ ایک ایسے کانٹے میں پھنس گیا تھا جو ساری زندگی اس نے ساتھ لے کر چلنا تھا۔ اور وہ چاہ کر بھی اس کانٹےکو خود سے الگ نہیں کرسکتا تھا۔
رات دس بجے حویلی کی ساری بجھیں  تو اس نے بھی اپنے کمرے کا رخ کیا سارا دن سے انبہاج نہ تو کمرے سے باہر نکلی تھی اور نہ ہی اس نے کچھ کھایا تھا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو وہ عشاہ کی نماز پڑھ کر جانماز طے کررہی تھی۔ جانماز طے کر کے اس نے اسے مکمل نظرانداز کر کے دوپٹہ اتار کر صوفے پر پھینکا بالوں کو جوڑے کی شکل دی اور بیڈ پر لیٹ گئی تب تک وہ واش روم سے فریش ہوکر باہر آگیا تھا اس نے اپنی رسٹ واچ کھول کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی وہ کیجوئل کپڑوں میں ملبوس تھا گرے ٹراوزر کے اوپر سیاہ ٹی شرٹ پہنے بھورے بال ہاتھ سے ماتھے سے پیچھے ہٹاتا وہ بیڈ کے دوسری طرف آکر لیٹ گیا۔ وہ حیران تھا اس نے اس سے کوئی بات نہیں کی نہ ہی آنے کے بعد کھانے کا پوچھا نہ کپڑے نکال کر دیے تو اس کا چوکنا تو لازمی تھا۔
" انبہاج!"
اس نے دھیرے سے اسے مخاطب کیا تھا مگر انبہاج نے جاگتے ہوئے بھی اس کے بلانے پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
" سوگئی ہو کیا؟"
اس نے پھر اسے مخاطب کیا تھا مگر پھر بے سود کوئی جواب نہیں اب کی بار اس نے اسے کمر سے پکڑ کر رخ اپنی جانب کیا  تو انبہاج نے آنکھیں زبردستی زور سے بند کرلی تھیں۔
" تم مجھے اوئیڈ کررہی ہو؟"
درار کو جیسے اپنے نظرانداز کیے جانے کا یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے بے حد بے چینی نے آن گھیرا تھا وہ نہیں جانتا تھا کیوں مگر وہ اس کے بات نہ کرنے پر سخت بے چین ہوگیا تھا۔
" تم ناراض ہوکیا؟"
اب کی بار پھر پوچھا تھا غصہ تو اسے بہت آرہا تھا کہ میڈم زیادہ ہی نخرے دیکھا رہی ہیں پر پھر ضبط کرگیا تھا کہ اس کا اپنا ہی گزارا نہیں ہورہا تھا اس سے بات کیے بغیر آج وہ یہ بات وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ درار سنان خان کو انبہاج درار کی عادت ہوگئی تھی اور عادت محبت سے کتنی زیادہ جان لیوا ہوتی  ہے وہ بہت اچھے سے جانتا تھا وہ تو ابھی تک خود اپنے اندر پلنے والے جذبوں سے یکسر انجان تھا مگر وہ اس بات سے بھی بے خبر تھا کہ جب تک اسے اپنے جذبوں کی آگاہی ہونی تھی تب تک بہت دیر ہوجانی تھی کسی کو پا کر کھونا کیا ہوتا ہے یہ اسے اچھے سے سمجھ آنے والا تھا زوال اب دھیرے دھیرے اختتام کی طرف جارہا تھا۔
" ایسے مصنوعی آنکھیں بند کر کے نا بالکل چڑیل لگ رہی ہو۔"
وہ اس پر جھک کر اس سے کہہ رہا تھا مگر اس نے پھر بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
" اچھا تو تم ایسے نہیں مانو گی مجھے اپنے طریقے سے کوشش کرنی پڑے گی۔"
وہ اس سے کہہ کر اس کے چہرے پر جھک رہا تھا انبہاج کو اس کی سانسیں اپنے چہرے پر صاف محسوس ہورہی تھیں۔
" کیا مسئلہ ہے یہ کیا کررہے ہیں آپ؟" انبہاج نے اسے دور ہٹاٹے ہوئے کہا تھا۔
" زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے صرف تمہاری توجہ حاصل کررہا ہوں۔"
وہ بھی بے حد اطمینان بھرے لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا۔
" اور آپ کو میری توجہ حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی حالاکہ میرے خیال کے مطابق آپ کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ ناچاہتے ہوئے بھی تلخ ہوگئی تھی۔
" تم ناراض ہو؟ یہ تمہیں اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے؟" درار نے ماتھے پر تیوری لیے کہا تو انبہاج نے رخ موڑ لیا۔
" میرے پاس یہ سارے حقوق نہیں ہیں کہ میں ناراض ہوسکوں آپ سے یا کچھ پوچھ سکوں لائٹ آف کردیں پلیز مجھے نیند آرہی ہے۔" رخ موڑ کر اس نے کہا تو درار نے دانت پیسے۔
" اچھا حقوق تو سارے دے دیے ہیں میں نے تمہیں پھر بھی گلے نہیں ختم ہوتے تمہارے۔؟" درار نے دانت پیستے کہا تھا۔
" مجھے یہ نمائشی حقوق کبھی بھی نہیں چاہئیے تھے۔"
وہ اس سے کہہ کر رخ موڑ گئی تھی۔
" ہم یہ بھیس کیوں کررہے ہیں آخر؟"
اب وہ بھی تنگ آچکا تھا۔
" ہم نہیں آپ۔"
اس نے اس کی طرف انگلی کرکے اس سے کہا تھا۔
" تمہیں برا کس بات پر لگ رہا ہے تم صبح سے باہر نہیں آئی نہ ہی کچھ کھایا مورے بتا رہی تھیں مجھے۔"
اب وہ اس کے برابر میں اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
" آپ نے یہ پنیشمنٹ کیوں لی آخر؟"
وہ سامنے دیکھتی ہوئی اس سے کہہ رہی تھی۔
" او تو تمہیں یہ چیز بری لگ رہی ہے؟ یار میں نے کہاں لی تھی وہ تو دار جی نے دی مجھے۔" وہ اس لمحے بیچارگی کی حد پر تھا۔
" ہاں اور آپ تو اتنے معصوم ہیں نا جیسے دار جی نے کہا زہر پی لو تو پی گئے۔"
وہ سخت غصے میں تھی۔
" اچھا تو تمہیں پرابلم کیا ہے اس سزا سے؟"
وہ اب انتہائی نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
" پرابلم یہ ہے کہ آپ نے دیکھا نہیں دار جی نے ساری زندگی سردار بن کر کیسے فیصلے کیے ہیں اور اب آپ؟"
اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور اس کا منہ تھوڑی سے پکڑ کر اپنی جانب کیا۔
" ایسا کبھی مت سوچنا کہ درار سنان خان سردار اشمل خان جیسے فیصلے کبھی کرے گا سردار اشمل خان کو روایات بچانے میں دلچسپی تھی لیکن درار سنان خان کو روایات بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں وہی فیصلہ کرونگا جو مجھے ٹھیک لگے گا۔" اس نے انتہائی تحمل سے کہا تھا۔
" خان جی کھانا؟"
باہر سے پہلے دروازہ کھٹکھٹانے اور پھر درخنے کی آواز آئی تھی۔
" ہاں آجاؤ درخنے رکھ دو یہاں۔" درار نے کہا تو درخنے انبہاج کی جانب متوجہ ہوئی۔
" بی بی آپ سارا دن باہر ہی نہیں آئیں؟"
درخنے  انبہاج سے ہوچھ رہی تھی جو بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی۔
" ہاں تمہاری بی بی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی سیٹ ہونے والی ہوئی ہوئی ہے ان کی طبعیت۔"
انبہاج نے اسے گھورا تو درار نے شرارت سے ایک آنکھ دبائی تھی۔درخنے کھانا رکھ کر چلی گئی تو وہ پھر سے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
" چلو کھانا کھا لو ورنہ پھر تمہاری طبیعت سیٹ کردینی ہے میں نے۔"
درار نے پھر سے شرارت سے اس سے کہا تھا جس پر انبہاج نے اپنے پیچھے رکھا ہوا کشن اس پر اچھالا تھا جسے بڑی رسانیت سے کیچ کرلیا گیا تھا۔
" کھانا!"
اس نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ وہ آج حیران تھی خلاف توقع اس کا موڈ کافی اچھا تھا۔
" مجھے بھوک نہیں ہے واقعی میں۔" انبہاج نے آنکھیں میچے کہا تھا۔
" کھاتی ہو کہ سیٹ کروں پھر میں تمہیں۔"
اب کی بار لہجہ سنجیدہ تھا پر آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔
" اچھا کھا رہی ہوں۔ آپ نے کھا لیا کیا؟" اس نے پوچھا تو درار نے نفی میں سر ہلایا۔
" نہیں یار مجھے بھوک نہیں ہے۔" درار کے کہنے پر انبہاج نے اسے گھورا تھا۔
" کھائیں ورنہ میں بھی سیٹ کردو گی آپ کو۔"
اس نے بھی اسی کے انداز میں اسے کہا تھا بے اختیار درار قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
" بہت تیز ہو ویسے تم؟" ٹرے کے نزدیک آتے ہوئے اس نے کہا تو انبہاج مسکرا دی۔
" اچھا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔"
وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ انبہاج نے دل ہی دل میں اس کے ہمشہ ایسے رہنے کی دعا کی تھی لیکن وہ دعا کرتے ہوئے یہ بات بھول گئی تھی غیرت اور غرور انسان کو بندلتے رہتے ہیں وہ کبھی وہ نہیں رہتا جو وہ بننا چاہتا ہے اس لیے وہ کیسے اس سے یہ امید لگا سکتی تھی۔ ایسی امید وہ بھی اس شخص سے بیکار تھا کھانا کھا کر اس نے برتن سائیڈ پر رکھے۔ درار تو لیٹ گیا جبکہ وہ واش روم چلی گئی تھوڑی دیر بعد ہاتھ دھو کر آئی اور لائٹ اف کر کے اپنی جگہ پر لیٹ گئی۔ آج اسے اپنے اندر ایک عجیب ہل چل اور سکون بیک وقت محسوس ہورہا تھا وہ اپنے اندر مچتے ہوئے شور سے خود بھی حیران اور انجان تھی۔ وہ دل ہی دل میں اس شخص کے لیے ڈھیروں دعائیں کرتی نیند کی وادیوں میں اتر گئی تھی۔
وفا کو میری
جفا کو اپنی
کبھی جو لکھنا
تو قصہ تمام لکھنا
گلاب شاخوں سے جب ادھورے سے پھول چننا
جو دھڑکنوں میں صدا کوئی بھی کبھی جو سننا
تو یاد کرنا
کبھی دسمبر کی سرد راتوں میں سوچنا جو تم
میں یاد کرتی ہوں تمہیں ہر پل
مجھے بھی تم فقط یاد کرنا
               ********************
وہ اندر آرام کررہی تھی زکوان ڈاکٹر کو چھوڑ کر واپس اندر آیا تو ردوا بیگم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں زکوان نے دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ کیا رو رہی ہیں لیکن اسے ان کے چہرے پر ہلکے سے بھی آنسو نہیں دکھے تھے۔ وہ چلتا ہوا ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ آج چہرے سے ہی شکستہ لگ رہا تھا کیوں تھا وہ شکستہ حال اس کی وجہ ساتھ بیٹھی ہوئی یہ ہستی تھی۔ اس نے ان کی گود میں سر رکھ لیا تھا۔
" آپ نے پہلے کبھی مجھے کیوں نہیں بتایا کہ بابا جان آپ پر۔۔"
اس نے آگے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اس کے اندر ہمت نہیں تھی کہ وہ آگے کچھ بولتا ردوا بیگم نے اس کے بالوں میں اپنی نرم مخروطی انگلیاں چلائی تھیں۔
" میرا کبھی بھی تم سے ویسا رشتہ ہی نہیں تھا کہ میں تمہیں کچھ بھی بتا پاتی تم ہمشہ سے ہی اپنے بابا جان کے زیادہ نزدیک تھے وہ تمہاری ہر جائز نا جائز بات مانتے اور میں ہمشہ ایک ماں ہونے کا فرض نبھانے کی کوشش میں تمہارے بابا جان کی جوتیاں کھاتی رہی۔" نگاہیں ساکن تھیں۔
" مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا مورے کہ آپ نے کیوں برداشت کیا یہ سب دار جی سے کیوں نہیں کہا آخر آپ نے کہ بابا جان آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔"
اس کی بات کے جواب میں انہوں نے ایک گہرا سانس لیا تھا۔
" چھوڑو پرانی باتیں میں بس اتنا جانتی ہوں تم کبھی بھی برے نہیں تھے میرے بچے تمہارے بابا جان کی بے جا حمایت اور ساتھ نے تمہیں برا بنا دیا تھا میں ہمشہ سے چاہتی تھی میرا بچہ نرم طبیعت کا مالک ہو دوسروں کی مدد کرنے والا لیکن میرا ایک بھی خواب تمہارے بابا جان کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا۔"اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے انہوں نے کہا تو وہ مسکرا دیا۔
" میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مورے اور ہمشہ سے کرتا تھا بابا جان کے لاڈ پیار نے مجھے کبھی بھی آپ سے غافل نہیں کیا تھا اور جہاں تک بات رہی بابا جان کی تو وہ آپ پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے یہ کیسے بھول گئے کہ میں انہی کا بیٹا ہوں اتنی آسانی سے تو میں انہیں معاف نہیں کروں گا۔" اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
" نہ میرے بچے وہ بابا ہیں تمہارے تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گئے۔" ان کے لہجے میں خوف تھا۔
" نہیں مورے اور نہیں اگر کوئی شخص اپنی حد بھول جائے  تو اسے اس کی حد یاد کرانی چاہئیے۔
" لیکن بچے!"
" پلیز مورے اچھا ایک گڈ نیوز ہے آپ کے لیے۔"
" گڈ نیوز وہ کیا؟"
" آپ دادی بننے والی ہیں۔"
اس کا یہ کہنا تھا ردوا بیگم تو خوشی سے نہال ہی ہوگئی تھیں۔
" تم سچ کہہ رہے ہو؟"
" جی بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔"
" ارے واہ ماشاءاللہ میرا بچہ باپ بننے والا ہے اب تم خود باپ بنو گے تو پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ اولاد کی محبت آخر ہوتی کیا ہے۔میسہ کیسی ہے اسے چوٹ تو نہیں لگی میری وجہ سے تمہارے بابا نے اسے بھی۔" انہوں. نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
" آپ فکر مت کریں وہ بالکل ٹھیک ہے بس ڈاکٹر کہہ رہی تھیں کہ اس نے سٹریس زیادہ لے لیا ہے اور اس کنڈیشن میں سٹریس ٹھیک نہیں ہے اس کے لیے۔" اس کے کہنے پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" ہاں بچے تم نے اب اس کا بہت خیال رکھنا ہے بھول جاؤ پرانی باتیں اب بس تم یہ سوچو کہ وہ تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے۔" انہوں نے تحمل سے اسے سمجھایا تھا۔
" مورے میں تو پہلے سے ہی بھول گیا ہوں سب صرف درار کے علاوہ۔۔"
آخری بات اس نے منہ میں کہی تھی اگر اونچی کہتا تو یقیناً سخت ست ہی سننے کو ملتی اسے۔
" جاؤ تم میسہ کو دیکھو جاکر اسے کچھ چاہئیے نہ ہو۔" ان کے کہنے پر وہ اٹھ گیا تھا۔
" میں دیکھتا ہوں آپ بھی ریسٹ کریں اور ہاں وہ یمامہ آئی نہیں یونیورسٹی سے ابھی؟"جاتے جاتے اس نے پوچھا تھا۔
" نہیں بس آنے ہی والی ہے۔"
" مورے وہ یمامہ اور صبیح کی شادی کے بارے میں کیا سوچا پھر آپ نے دار جی نے اس دن بات کی تھی مجھ سے۔" زکوان کے کہنے پر انہوں نے ایک پرسوچ نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
" ہاں بچے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے تمہارے بابا سے بس بات کرلوں پھر کوئی ڈیٹ رکھ لیتے نکاح کی۔"
ان کی بات سن کر تو وہ بھڑک ہی گیا تھا۔
" ان سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اس کا لالہ ابھی زندہ ہے آپ ڈیٹ ڈیسائیڈ کر کے دار جی کو انفارم کردیں ویسےبھی شیر خان صاحب ایسے کسی معاملے میں انٹرسٹڈ نہیِں ہوگئے۔"
وہ دانستہ انہیں بابا کہنے سے اجتناب کررہا تھا اس بات سے بے خبر کہ لاونج کے دروازے پر کھڑے وہ اس کی اپنے بارے میں گفتگو ملاحظہ کرچکے تھے انہوں نے اپنے لب بھینچ کر اپنے غصے کو کنٹرول کیا تھا۔
   ♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
" بابا جان سردار اشمل خان کبھی بھی آپ کو اپنی پوتی کا رشتہ نہیں دیں گے اور پھر جب سے آپ نے انہیں دیکھا ہے آپ بالکل ہی خاموش ہوگئے ہیں کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیوں آپ گم سم ہوگئے ہیں۔"
اس کی بات کے جواب میں انہوں نے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" بچے کبھی کبھی نا انسان اتنا بے بس ہوجاتا ہے کہ چاہ کر بھی اپنی من پسند چیز کو چھو نہیں سکتا حالاکہ وہ آپ کے بے حد قریب رکھی ہوتی ہے اسی طرح کا کچھ میں نے بھی محسوس کیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت میرے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل رہا ہو کہ میں نے اسے مٹھی میں قید نہ کیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔ تیس سال سے جس چہرے کو اپنے سامنے دیکھنے کی ہمت میں اپنے اندر جمع نہیں کرپایا تھا آج اچانک تیس سیکنڈ کے لیے میرے سامنے آگئی اور میں ابھی اس کے ہونے کا یقین ہی نہیں کرپایا تھا کہ وہ میری نظروں سے اوجھل بھی ہوگئی۔ اس کو دیکھ کر نا پھر سے سارے گزشتہ زخم ہرے ہوگئے ہیں اور جو حشر اس شیر خان نے اس کا کیا ہے نا اس کے بعد تو میں اپنے فیصلے پر اور پختہ ہوگیا ہوں ان روایات کی بازگشت تو اب ختم کرنی ہی ہے تاکہ کل کو کسی اور ردوا کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے اور اس کے احساسات بھی ردوا شیر خان کی طرح مر نہ جائیں کہیں۔"
وہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے جبکہ وہ وہی بیٹھا یہ سوچتا رہ گیا تھا کہ اس کے باپ کے ماضی میں اس کا قصور کہاں ہے وہ کیوں ایک ایسی لڑکی سے شادی کرے جو کسی اور سے پہلے سے ہی محبت کرتی ہے یہ سچ ہے کہ اسے وہ زندگی سے بھرپور لڑکی اچھی لگتی تھی لیکن وہ یہ بات کبھی بھی نہیں بھولتا تھا کہ وہ مہجب سنان خان کے لیے سانس لیتی ہے مہجب کے نام پر ایک عجیب سا حسد اور جلن سی اسے محسوس ہوئی تھی جسے وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا زندگی اسے کس ڈگر پر لے کر جارہی تھی فودیل زوہیب خان اس سے یکسر انجان تھا اس نے صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر اسے قدرے پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔
    ♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
حویلی میں میسہ کے امید سے ہونے کی خبر سن کر درار کے سردار بننے کا جو فرسودہ ماحول چھایا ہوا تھا وہ یک دم کچھ صاف سا ہوا تھا پلوشے کی ڈلیوری میں بھی بس ایک مہینہ رہ گیا تھا اس لیے وہ مکمل طور پر بیڈ ریسٹ پر تھی انتسارہ نے جب انبہاج کو یہ خبر سنائی تو وہ تو خوشی سے چہک اٹھی۔ اس نے پھوپھی جان کے گھر کا نمبر ملایا کال ریسویو کی گئی تو اس نے میسہ سے بات کرنے کا کہا لیکن نوری نے بتایا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے  وہ ریسٹ کررہی ہے تو اس نے بھی فون بند کردیا۔ وہ خود سے ہمکلام ہوئی۔
" تو میسہ تم نے زکوان خان کی قبر کو اپنی موجودگی سے آخر جنت بناہی ڈالا وہ شخص جس کو مانگنے سے تم خوف محسوس کرتی تھی آج پورا کا پورا تمہارا ہے روایات اسے تم تک لائی تھیں لیکن تم نے اس کا باطن جیت لیا ہے اس شخص کو جیت لیا ہے جس سے شادی کل تک تمہیں محبت ملنے کا دکھ لگ رہا تھا آج اسی کے آنگن میں پھول مہکانے کی تیاری تم نے کرلی ہے میں بہت خوش ہوں کہ میری ذات تمہاری خوشیوں کے بیچ رکاوٹ نہیں بنی بس پتہ نہیں ابھی تک میں کیوں نہیں جیت پائی درار سنان خان کا باطن اس نے اپنا ظاہر تو بڑی ہی بے دردی سے مجھ پر احسان کرکے میرے حوالے کردیا تھا جس کی شاید ضرورت بھی مجھے نہ تھی لیکن جس کی خواہش تھی وہ ابھی تک اس کا میرا نہیں ہوسکا سچ کہتے ہیں لوگ سب کو سب کچھ نہیں ملتا کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کسک کوئی نہ کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہے ۔"
یہ بات سوچتے ہوئے وہ یہ بھول رہی تھی کہ قدرت نے اس کے لیے بہت پہلے سے ہی اسے ظاہر و باطن سمیت اسی کا مقدر کر دیا تھا تو پھر اس کی شکایت بنتی نہیں تھی کیونکہ اس نے خود اپنے لیے خاموشی اور صبر کا راستہ چنا تھا اور ان دونوں راستوں میں فتح دیر سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ وہ بھی تب جب بندہ اپنے عہد پر قائم رہے جب عہد ڈگمانے لگے تو منزل مشکل ہوجاتی ہے اور اللہ کو اس کی شاید یہی بات پسند تھی کہ وہ صبر اور خاموش رہ کر تھکتی نہیں تھی جب بھی اسے لگتا وہ تھکنے لگی ہے وہ اللہ سے گڑ گڑا کر اپنے لیے اور صبر مانگ لیتی تو کیوں نا پھر اس کی منزل اس سے قریب ہوتی منزل قریب تھی مگر بس اسے ابھی نظر نہیں آرہی تھی وہ وقت بھی دور نہیں تھا جب منزل اس کے قدموں میں ہوتی۔
                 ********************

junoon se ishq ki rah completed✔Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang