قسط نمبر 2

3.8K 165 47
                                    

یہ خبر حویلی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی کہ خان نے بی بی سے شادی سے انکار کردیا ہے۔ وہ بس اپنے پیپر کی تیاری کو آخری ٹچ دے رہی تھی کیونکہ صبح اس کا آخری پیپر تھا جب راحمہ بانو اس کے کمرے میں آئی تھیں۔ ان کی روئی روئی شکل دیکھ کر انبہاج کو کچھ ہوا تھا تب تک اسے نہیں پتہ تھا کہ کیا کچھ ہوگیا ہے۔ جب اس کی مورے اس کے کمرے میں آئی تھیں تب اس نے اپنی بکھرئی ہوئی کتابیں بند کرکے ایک طرف رکھی تھیں اور ان کا ہاتھ تھام کر انہیں اپنے برابر میں بٹھایا تھا۔
" کیا بات ہے مورے! آپ ایسے پریشان کیوں لگ رہی ہیں مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے آپ رو کر آرہی ہیں؟"
انہوں نے گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کیا تھا اور اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔ وہ اپنی مورے کے اس افتاد پر حیران تھی کہ آخر وہ اتنی پریشان کیوں ہیں۔
" پلیز بتائیں کیا ہوا ہے؟" اس نے بے چینی سے پوچھا تو وہ اس سے نگاہیں چرا گئیں۔
" درار نے تم سے شادی سے انکار کردیا ہے۔" وہی جانتی تھیں کہ انہوں نے یہ الفاظ کس طرح ادا کیے تھے۔
" او۔۔" اس نے گہرا ہنکارا بھرا شکر ہے آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ میں نے کہا پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔"اس نے لاپرواہی سے کہا تو راحمہ بیگم دنگ رہ گئیں۔
انہوں نے اسی وقت اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جہاں ہلکی سی مسکراہٹ تھی پھر انہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا وہ کوئی انتسارہ،میسہ یا یمامہ نہیں تھیں جو اس کے بے تاثر چہرے کو دیکھ کر سمجھ جاتیں کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اس کی مورے تھیں جنہوں نے اسے پیدا کیا تھا اور وہ اس کی آنکھوں میں رقم اذیت کو دیکھ چکی تھیں جو مسکراہٹ کے پیچھے اس نے بڑی ہی خوبصورتی سے چھپائی ہوئی تھی انہوں نے اس کے پاس سے اٹھ کر اس کا ماتھا چوما تھا۔
" اللہ تمہارا صبر کبھی نہ ٹوٹنے دے مجھے فخر ہے تم پر۔"
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی تھیں۔وہ جو بیڈ کے پاس کھڑی تھی وہی اس کے سہارے سے زمین پر بیٹھ گئی تھی اسے اپنی پلکیں نم اور اپنی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے محسوس ہوئے تھے اس نے بے دردی سے اپنے لاکھ کوشش کے باوجود امڈنے والے آنسوؤں کو صاف کیا تھا اور پھر سے کتابیں کھول کر بیٹھ گئی تھی۔
ان سے عشق کمال کا ہوتا ہے
جن کا ملنا مقدر میں نہیں ہوتا

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ آج آخر کار اس کا انگلش لیٹریچر میں ماسٹر ختم ہوجانا تھا اور وہ یونیورسٹی کو خیر آباد کہنے والی تھی آج اسکو یونیورسٹی بہت سے کام مکمل کرنے تھے کیونکہ وہ بار بار بغیر مطلب کے گھر سے نہیں نکل سکتی تھی اس لیے اس نے سوچا تھا کہ آج سارے کام مکمل کرکے ہی گھر لوٹے گی۔ اس نے ہلکے سبز رنگ کی فراک سفید چوڑی دار پجامے کے ساتھ پہن رکھی تھی ہلکا سبز اور سفید دوپٹہ اس نے گلے میں ڈال رکھا تھا سیاہ چادر سر پر اوڑھ کر وہ اپنا بیگ اٹھا کر کمرے سے نکلی اور گل خان بابا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر یونیورسٹی چل دی۔

******************
صبح صبح ردوا شیرخان اپنے شوہر شیر خان کو قہوہ دے کر اپنے لاڈلے بیٹے کے کمرے میں آئی تھیں۔ انہوں نے کمرے کا دروازہ دھکیل کر کھولا تو اندر کا منظر دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ کمرے میں نیم اندھیرا تھا اور وہ بیڈ پر آڑا ترچھا لیٹا ہوا تھا۔ ردوا بیگم نے قدم آگے بڑھا کر اس کے کمرے کے پردے پیچھےہٹائے تو باہر سے سورج کی روشنی چھن چھن کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوگئی۔ پورا کمرہ بکھرا ہوا تھا۔ کمرے کی ایسی حالت دیکھ کر ردوا بیگم کو بہت غصہ آیا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زکوان خان کی حالت بری کردیں۔ مگر افسوس کہ وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ زکوان خان اپنے باپ کی لاڈلی اولاد تھا ایسی اولاد جسے سر چڑھانے کا سہرا اس کے باپ کے سر ہی جاتا تھا۔ وہ انتہائی بگڑا ہوا تھا مگر وہ بہت زیرک،دور اندیش اور سمجھدار انسان تھا۔غرور تو اس میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور وجہ اس کی رگوں میں بھی دوڑنے والا پٹھانوں کا خون تھا۔
"زکوان! اٹھو۔۔۔حلیہ دیکھا ہے آپ نے اپنے کمرے کا کیا حال بنایا ہوا ہے؟ اوپر سے آپ کے روز کے نت نئے کارنامے سن کر میں تو حیرت میں ہی پڑ جاتی ہوں کہ زکوان خان میرا بیٹا اور اتنا سمجھدار حالاکہ ایسا گھر میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا آپ نے پھر بھی لوگ آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں؟" اس کے کمرے میں بکھرا ہوا سامان سمیٹنے کے ساتھ ساتھ وہ اس کے بارے میں سنی گئی تعریفوں پر حیران بھی ہورہی تھیں۔
" مورے! آپ کو تو بس ہر وقت مجھ میں خامیاں نکالنے کا شوق ہے ہونہہ۔۔" وہ سر جھٹکتا ہوا کہہ رہا تھا۔
" اچھا بس اٹھیں آج میں نے درار کو بلایا ہے دوپہر کو کھانے پر آپ بھی گھر میں ہوں تو بہتر ہوگا یاد ہے نا آپ کو رات بھی بتایا تھا میں نے کہ بلایا ہے اسے۔" اس کے بکھرے ہوئے کپڑوں کو واڈروب میں سیٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تو اس کی بیزار سی آواز ابھری۔
"جی مورے! یاد ہے مجھے کہ آج شہزادہ چارلس آرہے ہیں۔ "وہ طنز پر طنز کر رہا تھا اور ردوا بیگم کو ان کا یہ انداز اپنے لاڈلے بھتیجے کے لیے بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔
"پر ریممبر میں گھر نہیں رک سکتا مجھے آفس جانا ہے اور ویسے بھی مجھے آپ کے اس لاڈلے بھتیجے میں کوئی خاص انٹرسٹ نہیں ہے سو میں نہیں رک سکتا۔ " وہ دوٹوک لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ردوا بیگم سر جھٹک کر اس کے کمرے سے باہر آگئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ اس کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان کے جاتے ہی وہ بستر چھوڑ کر واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ کسی اور سے تو نہ سہی پر وہ دار جی سے کافی حد تک ڈرتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ ان کا احترام کرتا تھا۔
زکوان شیر خان کوئی معمولی شخصیت کا حامل انسان نہیں تھا بلکہ وہ انتہائی خوبصورت مرد تھا۔ اس کی گہری گرے رنگ کی چمکدار آنکھیں تھیں جن میں ہمہ وقت کچھ پانے کی چمک رہتی تھی۔ اس کے ڈارک براون بال تھے۔ کھلتا ہوا سرخ و سپید رنگ،ستواں ناک اور خوبصورت عنابی ہونٹ تھے جنہیں وہ کم ہی مسکرانے کے لیے کھولتا ورنہ وہ ہمہ وقت بینچے رہتے تھے۔ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو اور کسرتی جسم کے ساتھ وہ ایک بھرپور وجیہہ مرد تھا جسے پالینے کی خواہش ہر لڑکی کرتی تھی پر اس کے نام کی مہر میسہ سنان خان کے اوپر بچپن سے لگ چکی تھی اس لیے وہ میسہ سنان خان کی ملکیت تھا۔ کریم کلر کی شلوار قمیض کے اوپر ڈارک براون کورٹ پہنے پیروں کو پشاوری چپل میں قید کیے اور دونوں کاندھوں پر پیچھے سے ڈارک براون شال ڈالے آنکھوں پر ڈارک گلاسیس لگائے وہ اپنی لینڈ کروزر کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ چکا تھا۔گاڑی سٹارٹ کرکے اس نے آفس کے روڈ پر ڈال دی تھی۔
وہ پیپر دے کر یونیورسٹی سے باہر نکلی تھی پر آج اسے حیرت ہوئی تھی کہ گل خان بابا ابھی تک اسے لینے آئے نہیں ورنہ وہ ہمشہ اس کے نکلنے سے پہلے ہی اسے لینے کے لیے موجود ہوتے تھے وہ کبھی یونیورسٹی کے علاوہ حویلی سے باہر نہیں نکلی تھی اور نہ اسے راستوں کا علم تھا اس لیے اب صحیح معنوں میں اس کی رنگت زرد پڑی تھی۔ اوپر سے آج اس کے پاس سامان بھی زیادہ تھا ایک ہاتھ سے فائلیز تھامے اور دوسرے ہاتھ سے اپنی سیاہ چادر کا نقاب تھامے کاندھے پر بیگ پہنے وہ جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ گل خان بابا کہاں رہ گئے تب ہی وہ یونیورسٹی کے گیٹ سے تھوڑا سائیڈ میں آکر کھڑی ہوئی تھی سردی بڑھتی جارہی تھی۔ ابھی وہ سائیڈ پر کھڑی ہوئی ہی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے لڑکیوں کے ٹولے نے گزرتے ہوئے اسے زور سے ٹکر ماری تھی جس کے باعث اس کی ساری فائلز نیچے گرگئی تھی اسے ان پر شدید غصہ آرہا تھا۔ سردی کے باعث ہوا بہت تیز تھی حتی کہ اس کی سیاہ چادر پھڑ پھڑا رہی تھی۔ جوں ہی وہ اپنی فائلیز اٹھانے کے لیے نیچے جھکی ہوا کے تیز جھونکے نے اس کے پھڑ پھڑاتے ہوئے نقاب کو ایک پل میں اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔ نقاب کے ہٹنے سے وہ سٹپٹا گئی تھی ایک پل کی تاخیر کیے بغیر اس نے سیاہ چادر واپس منہ پر کی تھی۔ اس نے شکر ادا کیا تھا کہ کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا پر وہ بیچاری یہ جانتی بھی نہیں تھی کہ کسی نے اس کے ایک پل میں ہٹے ہوئے انچل سے اس کے سارے نقش تقریباً حفظ کر لیے ہیں اور یہ ایک پل اسے بھاری پڑنے والا تھا۔
زکوان خان بھی اسی وقت لنچ بریک میں اپنے آفس سے لنچ کرنے نکلا تھا ریسٹورینٹ قریب ہونے کی صورت میں وہ پیدل ہی تھا جب وہ سڑک پار کرنے لگا اچانک اس کی نظر سڑک کے اس پار کھڑی گہری سمندری آنکھوں والی لڑکی پر پڑی اس کا منہ ڈھکا ہوا تھا پر اس کی آنکھیں اسے بلا کی حسین لگی تھیں۔ اچانک اس کے دل میں اس لڑکی کا چہرہ دیکھنے کی خواہش جاگی تھی وہ خود بھی اپنی اس بے تکی سی خواہش پر حیران تھا آج تک کبھی اس نے کسی لڑکی کو ایسے غور سے نہیں دیکھا تھا حالاکہ اس کی بے پناہ گرل فرینڈز تھیں پر وہ ہمشہ سے جانتا تھا کہ وہ بچپن سے کسی سے منسوب ہے پھر اب وہ یہ بات کیسے بھول گیا تھا۔ اس نے اس ایک لمحے میں اس چہرے کے ہر نقش کو یاد کر لیا تھا وہ اپنا آپ ان گہری سمندری آنکھوں میں کہیں کھو بیٹھا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں اتنا بے قرار ہوگیا ہے کیوں اس کا دل مچل رہا ہے کہ بار بار اس گہری سمندری آنکھوں والی کا چہرہ دیکھے آج اس ایک چہرے کو دیکھنے کے بعد اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ وہ لنچ کرنے نکلا ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے وہاں کھڑے ہوئے اس لڑکی کو گاڑی میں بیٹھ کر جاتے دیکھا تھا اس کے ذہن نے برق رفتاری سے کام کیا اور اس نے دور جاتی ہوئی گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا۔ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے۔
*******************
وہ تقریباً بارہ بجے دوپہر اپنی پھوپھی ردوا بیگم کے گھر پہنچا تھا وہ اس وقت گھر میں اکیلی تھیں نہ ان کے شوہر گھر رکے تھے اور نہ ہی بیٹا ہاں البتہ یمامہ ضرور گھر پر تھی پر وہ اس کے سامنے نہیں آئی تھی۔ وہ ردوا بیگم سے مل کر سامنے لاونج میں لگے صوفے پر بیٹھ گیا تھا ردوا بیگم بھی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
"سنگائے( کیسے ہو؟)" انہوں نے محبت سے اس کا احوال پوچھا تھا ان کی محبت پر وہ شرمندہ ہوا تھا۔
"ہیمہ( ٹھیک ہوں") مسکراتے لہجے میں ان کے سوال کا جواب دیتے وہ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا۔
" کیا پیو گئے؟" انہوں نے اطراف میں نگاہ دوڑاتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" پھوپھی جان فی الحال تو پلیز ایک کپ کافی کا پلوا دیں۔" سر تھامتے ہوئے اس نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئیں۔
" ٹھیک ہے میں منگواتی ہوں۔"
انہوں نے اپنی ملازمہ نوری کو آواز دی اور اسے کافی بنا کر لانے کو کہا وہ سر ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ ردوا بیگم بہت غور سے اپنے بھتیجے کا چہرہ دیکھ رہی تھیں جو انہیں کافی تھکا اور ستا ہوا لگا تھا اور اس کی وجہ بھی وہ جانتی تھیں پر وہ خاموش تھیں جیسے آج سے تیس سال پہلے رہی تھیں کیونکہ وہ بھی جانتی تھیں کہ روایات ہمشہ جذبات پر حاوی ہوتی ہیں وہ صرف اپنے بھتیجے کو سمجھا سکتی تھیں پر انہیں ابھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا اپنا بیٹا بھی اسی راہ کا مسافر بننے والا ہے۔
انہوں نے اسے ہلکے سے پکارا تھا۔ اس نے چونک کر اپنی مہربان پھوپھی کی جانب دیکھا تھا جن کے چہرے سے ہی اس کے لیے شفقت ٹپک رہی تھی۔
" کیا بات ہے کیا سوچ رہے ہو کیوں خود سے الجھ رہے ہو؟" اپنے صوفے سے اٹھتے ہوئے انہوں نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
" میں خود سے کیا الجھوں گا پھوپھی جان! آپ جانتی ہیں اس لیے میں پاکستان نہیں آرہا تھا جانتا تھا میں کہ یہاں آنے کے بعد یہ سب کچھ ہونا ہے میرے ساتھ۔" جھنجھلا کر اس نے کہا تو وہ ہلکا سا مسکرا دیں۔
" پھر بھی تم آگئے نا دیکھو بلی کو اپنے قریب آتے دیکھ کر اگر کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی جان بچ جائے گی مرنا تو اس نے پھر بھی ہوتا ہے بس وہ اپنی موت سے آنکھیں چرا لیتا ہے۔" مسکراتے ہوئے وہ اسے اصل مدعے کی جانب لارہی تھیں۔
" کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا میں سمجھا نہیں۔"
وہ الجھی ہوئی نظروں سے ردوا بیگم کی جانب دیکھ رہا تھا۔
" بچے! جس خاندان اور حسب نسب سے ہمارا تعلق ہے نا وہاں یہ سب نہیں چلتا کوئی آپ کو پسند ہے نہیں ہے آپ نے اس سے شادی کرنی یا نہیں کرنی آپ اس کے ساتھ خوش رہ سکو گے یا نہیں رہ سکو گے یہ باتیں کچھ معنی نہیں رکھتی یہاں صرف وہ ہوتا ہے جو طے ہوتا ہے اس لیے بہتر وہی ہوتا ہے جو آپ کے لیے طے کیا جائے اس سے ہی دل لگا لو اپنے دل کو اس کے لیے تیار کر لو ورنہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔" وہ انتہائی دھیمے لہجے میں اسے سمجھا رہی تھیں۔
" نہیں پھوپھی جان! آپ کو کیا پتہ ہو کہ ایسے کسی ان دیکھے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے ان چاہے انسان کو اپنی زندگی میں بغیر رضا کے شامل کرنا کیا ہوتا ہے۔"
ایک پل میں ردوا بیگم اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ماضی کے تکلیف دہ مراحل میں واپس چلی گئی تھیں جہاں صرف ان کے لیے اذیت ہی اذیت تھی وہ درار کی بات سن کر ایک پل تکلیف سے مسکرائی تھیں۔
" کیا تم کسی کو پسند کرتے ہو بچے؟"
یہ وہی جانتی تھیں کہ انہوں نے کس تکلیف سے یہ سوال پوچھا ہے کیونکہ اگر اس کا جواب مثبت ہوتا تو وہ اپنے لاڈلے بھتیجے کو اس کی تباہی سے کسی طور بھی نہیں بچا سکتی تھیں۔
" نہیں پھوپھی جان ایسی بات بالکل بھی نہیں ہے مجھے کوئی بھی پسند نہیں ہے پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی سے بھی شادی کر لوں۔" ان کی بات کی نفی کرتے ہوئے اس نے واپس اپنی بات پر زور دیا تھا۔
" وہ کسی نہیں ہے درار سنان خان! نہیں ہے وہ کسی وہ اشمل خان کی پوتی اور صالک اشمل خان کی بیٹی انبہاج صالک خان ہے حویلی کی سب سے خوبصورت لڑکی، سب سے ذہین لڑکی،سب سے پاکیزہ اور معصوم لڑکی اور سب سے صابر بھی۔ ارے خوش قسمت تو تم ہو جو وہ تمہارے نصیب میں لکھی گئی ہے اور تم اسے ٹھکرا رہے ہو وہ بھی بغیر دیکھے۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ میں اپنی بھتیجی کو ایک غیر محرم کے سامنے یوں ڈسکس کر رہی ہوں پر تم نے مجھے مجبور کیا ہے۔ کیا کہا تھا تم نے ہاں کہ آپ کیا جانیں کسی ان چاہے انسان کو زندگی میں شامل کرنا کیا ہوتا ہے تو میں بتا دوں تمہیں کہ مجھ سے بہتر یہ کوئی نہیں جانتا کہ روایات ہمشہ جذبات سے جیت جاتی ہیں۔ مجھ سے بہتر یہ کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ خود کو قربان کرنا کیا ہوتا ہے خود کو اپنے ماں باپ کی عزت کی خاطر مٹا دینا کیا ہوتا ہے۔" سپاٹ چہرے اور بھیگے لہجے میں انہوں نے کہا تو وہ دنگ رہ گیا۔
" کیا مطلب آپ ایسے کیوں بول رہی ہیں پھوپھی جان!؟"
ایک بار پھر وہ تلخی سے مسکرائی تھیں۔
" آج تم پہلے ہو جسے تیس سال بعد میں یہ تکلیف دہ ماضی بتا رہی ہوں یہ تو میں نے کبھی خود کو بھی یاد نہیں کرایا ہے پر آج جب تم نے یہ بات چھیڑ ہی دی ہے تو پھر سنو تم نے بولا نا کہ آپ کیسے جان سکتی کسی ان دیکھے انسان کو شامل کرنا تو سنو پچھلے تیس سال سے میں ایک ان چاہے انسان کے ساتھ گزار رہی ہوں جسے یہ بھی نہیں پتا کہ محبت ہوتی کیا ہے شادی کا مطلب کیا ہے، میاں بیوی کا رشتہ ہوتا کیا ہے۔ تیس سال سے اس گھر میں گھٹ گھٹ کر گزار رہی ہوں اپنے شوہر کی ایک محبت کی نظر کے لیے میں تیس سال سے ترس رہی ہوں۔"
اس نے نظر اٹھا کر اپنی پھوپھی کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جہاں آنسو نہیں تھے شاید وہ تو تیس سال پہلے ہی خشک ہو چکے تھے وہاں صرف اسے تکلیف نظر آئی تھی اذیت رقم تھی ان کے چہرے پر۔
" کیا آپ کسی اور کو پسند کرتی تھیں؟"
یہ ایک اور اذیت ناک سوال تھا جو اس نے پوچھا تھا۔
" ہاں اپنے خالہ زاد سے جانے انجانے میں محبت کر بیٹھی تھی اس بیچارے کو تو علم بھی نہیں تھا کہ محبت کرتی ہوں میں اس سے میں اس وقت آخری لڑکی تھی جو کالج گئی تھی اس کے بعد کسی لڑکی کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ حویلی سے قدم بھی باہر نکالے صرف میری وجہ سے وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رہ پڑی تھیں۔ میں کبھی اس کے سامنے نہیں گئی تھی صرف زنان خانے کی جالیوں سے ہی اسے دیکھا کرتی تھی۔ میں بچپن سے شیر خان کی منگ تھی پر بد قسمتی سے محبت زوہیب خان سے کر بیٹھی اور جس وقت میری شادی کی بات چلی حویلی میں مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں زوہیب خان کے بغیر رہنے کا سوچتی تھی تو جان نکلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی تب میں نے دار جی سے بات کرنے کا سوچا تھا۔ سوچا کہ ان کی لاڈلی بیٹی ہوں وہ انکار نہیں کریں گئے۔ میں دار جی کے کمرے میں گئی اور اپنے اس منہ سے انہیں اپنی محبت کے سارے قصے سنائے یہ سوچے بغیر کہ ایک باپ کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے اپنی بیٹی کے منہ سے اس کی محبت کے قصے سننا اور تب اپنی زندگی کا پہلا تھپڑ اپنے باپ کے ہاتھ سے اپنے منہ پر کھایا تھا میں نے جانتے ہو مرنے کا مقام تھا میرے لیے میرے باپ نے کہا تھا دفع ہوجاؤ کالک مل دو میرے منہ پر۔" ایک پل لگا تھا مجھے فیصلہ لینے میں اور میں نے اپنی ساری عمر قربان کردی اپنے باپ کی عزت کے آگے۔۔۔ خود کو شیر خان کے حوالے کردیا تھا جو ساری زندگی مجھے ایک بیوی سے زیادہ رکھی ہوئی عورت سمجھتا آیا ہے۔ دار جی نے اور سب نے یہی سمجھا سارا تعلیم کا قصور ہے اور پھر وہ وقت آیا جب انبہاج کے کالج،یونیورسٹی جانے کا ٹائم آیا۔ وہ سکول نہیں پڑھی تھی چھپ چھپ کے میں نے اسے میٹرک کروائی۔اس نے دار جی سے بات کی اپنے لیے بھی تمہاری بہن کے لیے بھی اور حویلی کی ساری لڑکیوں کے لیے اس نے دار جی سے ایک ہی بات کہی تھی کہ " عورت تعلیم کے بغیر جاہل رہتی ہے اور جب عورت جاہل رہتی ہے نا اور اسے چار دیواری میں قید کر دیا جاتا ہے پھر وہ وقت آتا ہے جب وہ گھٹن سے فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے اور وہ کام کر گزرتی ہے جو اس کے خاندان پر داغ لگانے کا باعث بنتے ہیں۔"
وہ سن تھا اور وہ تب چونکا تھا جب اس کی پھوپھی خاموش ہوچکی تھیں۔
" تم بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں۔"
وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھیں آج اس جگہ اس نے بے پناہ حقیقتیں جانی تھیں اور آج اسے اچانک وہ سنہری زلفوں والی لڑکی یاد آئی تھی جو فر فر انگریزی بول رہی تھی پتہ نہیں اسے کیوں لگا تھا کہ وہی انبہاج صالک خان ہے ایک بار پھر سے اس چہرے کو دیکھنے کی خواہش دل میں جاگی تھی جسے اس نے دل میں ہی دبا لیا تھا۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
وہ ابھی ابھی پیپر دے کر گھر پہنچی تھی آج وہ پرسکون ہوگئی تھی کہ پیپر کی ٹینشن ذہن سے ہٹی وہ کاریڈور عبور کرتی ہوئی بائیں جانب بی بی جان کو سلام کرنے ان کے کمرے میں آئی تھی دار جی تو اس وقت مردان خانے میں ہوتے تھے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ تو وہ صرف بی بی جان کے کمرے میں آگئی انہیں بتانے کہ اس کے پیپر اچھے ہوگئے ہیں۔اس نے بی بی جان کے کمرے میں جاکر دستک دی اندر سے آواز آئی اور وہ اندر چلی گئی۔ بی بی جان بیڈ کے کراون سے ٹیک لگائے تسبح کررہی تھیں ۔
" پاخیراغلے بی بی جان!" ان کے سامنے جھکتے ہوئے اس نے کہا تو بی بی جان نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا۔
"آگئی تم؟ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو وہ سر ہلاگئی۔
" جی آپ کو پتہ بی بی جان میرے سارے پیپر بہت اچھے ہوئے ہیں اور امید بھی ہے کہ نتیجہ بھی زبردست آئے گا۔ بی بی جان آج میرا انگلش لٹریچر میں ماسٹرز ختم ہوگیا ہے۔" وہ جوش سے انہیں بتا رہی تھی۔
" ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے شکر ہے بچے خیر سے تعلیم پورا ہوا تمہارا۔"
ابھی وہ اس سے بات کررہی تھیں کہ درار بی بی جان کو پکارتا ہوا ان کے کمرے میں داخل ہوا یہ پہلا موقع تھا جب اس نے باہر سے اجازت نہیں مانگی تھی شاید دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے وہ سیدھا ہی اندر آگیا تھا۔
اس کی آواز اپنے اتنے قریب سے سن کر وہ جہاں کھڑی تھی وہی سن کھڑی رہ گئی۔ دل ایک بار پھر سے اتنی زور سے دھڑکا تھا کہ لگ رہا تھا ابھی اس کے دھڑکنے کی آواز درار کے کانوں تک پہنچ جائے گی۔ اس طرح سے اس کے اندر آنے پر بی بی جان بھی اپنی جگہ ساکت رہ گئی تھیں کیونکہ انبہاج ان کے کمرے میں ہی کھڑی تھی پر درار کی طرف اس کی پشت تھی جو کہ سیاہ چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ پریشان تو درار بھی ہوا تھا اسے شرمندگی ہورہی تھی کہ وہ ایسے کیسے بغیر اجازت بی بی جان کے کمرے میں آگیا۔
" آپ ایک طرف کھڑے ہوں درار!"
بی بی جان کے کہنے پر وہ نگاہیں جھکا کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ بی بی جان نے انبہاج کو جانے کا اشارہ کیا۔ وہ سیاہ انچل سے چہرہ ڈھانپ کر دروازے کی جانب مڑی تھی جس کے ایک طرف درار کھڑا تھا کتنا مشکل تھا اس کے لیے اس کے سامنے سے گزر کر جانا وہ بھی بغیر اسے دیکھے۔ اسے اپنے چہرے پر نمی محسوس ہورہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے آنسو تیزی سے اس کا سیاہ انچل بگھو رہے ہیں۔
وہ مڑی تھی۔ اس نے اسے مڑتے ہوئے دیکھا تھا اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ بی بی جان دونوں کو دیکھ رہی تھیں اسے گزرتے ہوئے اور درار کو اسے دیکھتے ہوئے انہوں نے اسے منع نہیں کیا تھا کہ وہ اپنی نظر نیچے رکھے وہ نہیں جانتی تھیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا بس وہ اس لمحے خاموش تھیں۔
اس نے اس کے سیاہ انچل کے نیچے سنہرے بالوں کو دیکھا تھا اور پھر اس کی نظر وہاں سے پھسلتی ہوئی اس کی گہری سمندری آنکھوں پر آکر ٹھہری تھی وہ ساکت تھا جامد تھا اس کی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو دیکھ کر جو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کیوں بھیگ رہی ہیں۔ پھر وہاں سے اس کی نظر اس کے دودھیہ سرخ و سپید ہاتھوں پر ٹھہری تھی جن سے اس نے اپنے سیاہ انچل کو تھام رکھا تھا اس کے ہونٹ ہلےتھے اور جو نام ان ہونٹوں سے ادا ہوا تھا وہ تھا انبہاج اسے یقین تھا وہ انبہاج ہی ہے اس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل ڈالا تھا وہ کسی کمزور لمحے کی زد میں نہں آنا چاہتا تھا۔ وہ بی بی جان کے کمرے سے باہر نکل گئی تھی اور وہ وہی کھڑا رہ گیا تھا۔
سامنے منزل تھی اور پییچھے اس کی آواز
رکتا تو سفر جاتا،چلتا تو بچھڑ جاتا
میخانہ بھی اسی کا تھا،محفل بھی اسی کی تھی
اگر پیتا تو ایمان جاتا، نہ پیتا تو صنم جاتا
سزا ایسی ملی مجھ کو،زخم ایسے لگے دل پر چھپاتا تو جگر جاتا،سناتا تو بکھر جاتا
**********************

junoon se ishq ki rah completed✔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant