#کچھ_تو_خدا_کا_خوف_کر
#ازقلم_ستارہ_احمد
#تیسری_قسطاتنباہ!
یہ ایک خیالی کہانی ہے۔۔۔جیسے میں معاشرے کی ایک براٸ کی جانب اشارہ ہے۔۔۔اس میں موجود کسی کردار کا رائٹر کی زندگی سے کوٸ تعلق نہ سمجھا جاۓ۔۔۔شکریہآج پہلی بار تھا جب میں اس کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہی تھی۔میں سوچ رہی تھی کہ بات کا آغاز کیسے کروں؟وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آٸ تھی۔
کیسی ہو؟میں نے اسے دیکھ کر سوال کیا تھا۔
”ٹھیک۔“جواب اس کی حالت کے برعکس آیا تھا۔پھر ہم دونوں یہاں سے وہاں ٹہلنے لگے۔میں تھوڑی دیر پہلے ہی لیکچر اٹینڈ کر کے آچکی تھی۔۔جبکہ وہ اس لیکچر میں بھی غیر حاضر تھی۔
”ایک بات پوچھوں؟آخر میں نے ہمت کر کے کچھ پوچھنا چاہا۔
”ہمم۔“اس نے اپنے جوتوں کی جانب دیکھتے ہوۓ سر ہلایا۔نجانے وہ کس سوچ میں گم رہتی تھی۔
”تم اتنی خاموش اور اداس کیوں رہتی ہو؟“میں نے احتیاط سے اس کی جانب دیکھا۔وہ چلتے چلتے ایک بینچ پر بیٹھ گٸ۔اور اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑورنے لگی۔پھر نیچے زمین کو تکتے ہوۓ آہستہ سے گویا ہوٸ۔۔
”کچھ باتیں ہوتی ہیں جو اپنے اندر ہی رکھنی چاہیں۔اگر آپ انہیں کسی دوسرے کو منتقل کر دیں تو تکلیف میں کمی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ یہ تکلیف ایک سے دوسرے تک پھیل جاتی ہے۔“آج پہلی بار اس نے تفصیلی جواب دیا۔وہ تھوڑی دیر رکی اور پھر بولی۔
”جیسے اگر سیاہی کا ایک قطرہ ٹشو پیپر پر ڈالیں تو وہ اس پر پھیل جاتا ہے اور باقی حصّے کو بھی داغدار کر دیتا ہے۔تو بہتر ہے کہ میں خاموش رہوں۔“اس کے لہجے میں ٹہراٶ تھا۔میں خاموشی سے اس کو سن رہی تھی۔پھر میں بھی نیچے زمین کو دیکھنے لگی۔۔میں اسے کچھ بتانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیمپس میں موجود گرلز کارنر میں نماز کی ادائيگی کر رہی تھی۔۔کیونکہ اکثر ایک،دو نمازوں کا ٹائم یونيورسٹی میں ہی ہوجاتا تھا۔وہ سائیڈ پر ایک کرسی پر بیٹھی مجھے گھورتی رہی۔میں نے سلام پھیر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ اور دعا مانگ کر اٹھی اور اس کو دیکھا۔۔”تم نماز نہیں پڑھو گی اسمارہ؟“
وہ چونکی اور پھر جاۓنماز کو دیکھتے ہوۓ بولی۔”کافی سال ہوگۓ ہیں۔۔میں نے نماز پڑھنا چھوڑ دی ہے۔“
”کیوں؟“میں نے تشویش سے سوال کیا۔
کیونکہ اب اس کی عبادت میں دل نہیں لگتا۔میں اس سے کچھ مانگنا نہیں چاہتی۔“وہ عجیب سے یاسیت بھرے لہجے میں بولی۔
”لیکن کیوں؟“
جب اس نے میرا خیال نہیں کیا۔تو میں کیوں اس کی عبادت کروں؟“اس نے میری جانب دیکھ کر پوچھا۔میں خاموش ہوگٸ۔
نجانے کیا بات تھی جس نے اسے الله سے متنفر کر دیا تھا۔لیکن یہ پوچھنا ابھی مناسب نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیپر شروع ہونے والے تھے اور ان سے پہلے ایک سیمسٹر بریک تھا۔ آج ہمارا آخری دن تھا یونيورسٹی میں۔۔اور پھر چھٹیاں پر جانے والی تھیں۔اسمارہ اب پہلے سے کم چھٹیاں کرنے لگی تھی۔۔ایک ایک ہفتے کے بجاۓ اس کی چھٹیاں ایک یا دو دن میں سمٹ گٸ تھیں۔لیکن لیکچر وہ اب بھی نہیں لیتی تھی۔جس دوران میں لیکچر لیتی وہ باہر لان میں بیٹھی میرا انتظار کرتی رہتی۔اور باقی سارا وقت ہم ساتھ ہی گزارتے تھے۔پھر بھی خاموشی زیادہ تر ہمارے درمیان پہرہ جماۓ رکھتی۔۔
”تو اب تم اس ایک ماہ کے بریک میں پیپرز کی تیاری کرو گی؟“میں نے اس سے سوال کیا۔اس وقت ہم لان میں موجود تھے۔اور گرمی اپنے عروج پر تھی۔۔لوح کے تھپیڑے چہرے پر پڑ رہے تھے۔۔
”نہیں۔“اس نے مختصر جواب دیا۔
”کیوں؟“ میں نے پوچھا۔
ا”مجھے پڑھنے میں انٹرسٹ نہیں۔“اس نے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور پانی کا ایک گھونٹ لیا۔
”تو تم اپنا ٹائم کیوں ویسٹ کررہی ہو یہاں؟“میں نے اسے غور سے دیکھا۔وہ طنزیہ ہنس دی۔
”میرا ٹائم اتنا قیمتی نہیں جس کے ضائع ہونے کی مجھے پرواہ ہو۔“اس نے بوتل واپس بیگ میں رکھی اور اٹھ کھڑی ہوٸ۔میں نے اس کی تقلید کی۔
ایک دم اس کے ہاتھ میں پکڑا جرنل نیچے گرا۔میں اسے اٹھانے کے لیے جھکی اور اس دوران وہ بھی جھکی۔۔اور اس نے جرنل میرے اٹھانے سے پہلے ہی اٹھا لیا۔۔لیکن میں وہی ساکت ہو گٸ۔۔اور دھیرے دھیرے اوپر اٹھی۔ اس کی آنکھوں میں دیکھا اور سرسراتی ہوٸ آواز میں پوچھا۔
”یہ تمہارے بازو پر کیا ہوا؟“جرنل اٹھاتے وقت اس کی آستیں اوپر ہوٸ تو میں نے وہاں موجود جلنے کا نشان واضح دیکھا تھا۔۔
”کہاں؟“وہ انجان بنی۔
میں نے اس کی کلاٸ پکڑی اور آستین اوپر اٹھاٸ۔۔اور اسے دیکھتے ہی میرے منہ سے درد بھری آواز نکلی۔”سس“۔
اتنا گہرا جلنے کا نشان ۔وہ بھی ایسا جیسے حال ہی میں جلا ہو۔
لیکن وہ بلکل سپاٹ کھڑی تھی۔جیسے وہ نہیں جلی تھی۔۔یہ تو کوٸ اور تھا۔میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”یہ؟“اور اس کے بازوکی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔
”جل گیا تھا۔“اس نے شانے اچکاۓ۔
اُف اتنی برداشت کیسے ہو سکتی تھی کسی میں؟
وہ کیسے خود کو سب کے سامنے نارمل ظاہر کر سکتی تھی؟
”کیسے؟“میں نے اس پر سے نظریں نہیں ہٹاٸ۔
”کسی گرم چیز سے ٹچ ہو گیا تھا۔“اس نے جواب دیا۔میں اس کے تاثرات سے کچھ اندازہ نہیں لگا پارہی تھی۔یہ زخم ٹچ ہوگیا نہیں،ٹچ کیا گیا لگ رہا تھا وہ بھی کافی دیر تک۔میں نے اس سے کچھ نہ کہا۔۔
اور آستین تھوڑی اور اوپر کی تو وہاں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جلنے کے نشانات تھے۔۔جیسے کسی نے سگریٹوں سے داغے ہوں۔میں نے اس کا وہ ہاتھ چھوڑا اور دوسرا پکڑ کر اس کی آستین ہٹاٸ۔اس بازو کا بھی یہی حال تھا۔وہ میرے سامنے ایسے کھڑی تھی جیسے یہ سب اس کے ساتھ نہ ہوا ہو۔
”یہ داغ کس چیز کے ہیں؟“میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”سگریٹ کے۔“اس نے بلاتامل جواب دے کر میرے خیال کی تصدیق کردی۔
”کس نے لگاۓ؟“میں نے پوچھا۔
اس نے اہنا ہاتھ چھڑا لیااور مجھ سے پوچھا۔
”حیا رضاکچھ زیادہ ہی نہیں ہوگیا؟“وہ میرے سوالوں سے اکتا گٸ تھی۔
”جی۔“میں نے کہا۔اور پھر بلکل خاموشی سے وہ اپنے راستے مڑی اور میں اپنے راستے۔۔میرا دماغ سن ہو چکا تھا۔اور اب کچھ بھی سمجھنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آسمان کو تک رہی تھی۔تاروں کی مدھم مدھم روشنی اور ٹھنڈی ہوا فرحت بخش احساس دلا رہی تھی۔چاند نجانے کہاں تھا۔میں نے یہاں وہاں آسمان پر دیکھا۔لیکن شاید بادل اسے اپنے پیچھے ڈھانپ چکے تھے۔
یعنی بات میری سوچ سے بھی زیادہ بھیانک تھی۔۔میں نے سوچا۔۔
وہ کسی بہت بڑی اذیت کا شکار تھی۔باطنی اور بیرونی دونوں جانب سے۔
آخر اسے یہ زخم دینے والا کون تھا؟
کیوں وہ یہ اذیت سہ رہی تھی؟
بہت سے سوالات میرے دماغ میں ابھرتے اور پھر مدوم ہوتے رہے۔سیمسٹر بریک اسٹارٹ ہو چکا تھا۔یعنی اس سے ملنے کا بھی کوٸ چانس نہیں تھا۔
وہ اپنے ساتھ کیا کرنا چاہ رہی تھی؟
کیا اس سب کے پیچے وہی تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ماہ میں سے پندرہ دن گزر چکے تھے۔میں زوق وشوق سےپیپر کی تیاری میں مصروف تھی۔جب اچانک مجھے اسمارہ کا خیال آیا۔اور پھر یاد آیا کہ میں اس کا موبائل نمبر حاصل کر چکی تھی۔۔
میں جلدی سے اٹھی اور اس کا نمبر ڈائل کیا۔دوسری طرف رنگ جانے لگی اور پھر تیسری رنگ پر ہی اس نے کال ریسیو کرلی۔
”اَلسَلامُ عَلَيْكُم۔“میں نے بات کا آغاز کیا۔
دوسری جانب سے کوٸ جواب نہ آیا۔میں نے کان سے موبائل ہٹا کر دیکھا۔کال لگی ہوٸ تھی۔
”ہیلو۔“میں نے دبارہ کہا۔جواب نادارد۔
”ک۔۔کون؟“کچھ منٹ بعد سوال کیا گیا۔
”حیا رضا بات کر رہی ہوں۔“میں نے پرجوش انداز میں بتایا۔
وہاں پھر خاموشی چھا گٸ۔میں کچھ عجیب سا محسوس کرنے لگی۔۔شاید اسے میرا کال کرنا پسند نہیں آیا تھا۔
”ح۔۔حیا۔“اسمارہ کی ٹوٹی پھوٹی آواز سناٸ دی۔
”جی۔“میں نے جواب دیا۔
”مجھے بچالو۔“دوسری جانب کی بات سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گۓ۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟“میں نے جلدی سے کہا۔
”وہ۔۔وہ آگۓ۔“اس نے کہا۔اس کی آواز سے مجھے لگا وہ نشے میں ہے۔
”کون؟“میں نے سانس روک کر پوچھا۔
”بہت تکلیف ہوتی ہے حیا۔میری روح تک کے ریشے بھی نہیں بچتے۔“دوسری جانب سے مدھم سی آواز آٸ۔
”اسمارہ۔۔بتاٶ نا کون آگۓ۔“لیکن میرا سوال اس تک پہنچنے سے پہلے ہی کال کٹ ہوگٸ۔۔
کون آگۓ؟میں بڑبڑاٸ۔پہلے اس نے کہا تھا کہ آگیا اور اب آگۓ۔۔۔آخر چکر کیا تھا۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔Ye rahi tesri qist.......Ab jaldi se parh k bataen k Kesi lagi apko ye epi..😊