Part 9

60 3 2
                                    

Donot copy paste with out my permission

#نویں_قسط
#کچھ_تو_خدا_کا_خوف_کر
#ازقلم_ستارہ_احمد

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور زندگی دن اور رات کے تابع بھاگتی چلی جارہی تھی.
چار سال پر لگا کر اُڑ گۓ۔۔۔میں نے مسکرا کر اسمارہ کی جانب دیکھا اور اس نے مجھے آنکھ ماری۔
اور ہم نے ایک ساتھ ہاتھ میں پکڑے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ اپنی کیپ اوپر کی جانب اچھلیں اور کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔۔۔
آج ہمارا تعلیمی دور ختم ہوا تھا اور پرکٹیکل دور شروع ہوا چاہتا تھا۔۔ہم انے ہاتھ میں ڈگری سرٹیفیکیٹ لۓ بات بے بات ہنس رہے تھے۔۔۔
اسمارہ کے چہرے پر پھیلی روشنی اور آنکھوں میں بسی چمک دیکھ کر کوٸ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ لڑکی کس دور اور کس تجربے سے گزر آٸ تھی۔۔۔
وہ اپنے سے زیادہ لوگوں کی فطرت کوپہچاننے لگی تھی۔میرا ساتھ اس کے لۓ مبارک ثابت ہوا تھا۔یہ تو میں یقین سے کہ سکتی تھی۔۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟“۔اس نے آنکھیں سُکیڑیں۔۔
”ایک نٸ اسمارہ کو، ایک نٸ زندگی کو، ایک نٸ لڑکی کو۔جو صبح کی چلتی صبا جیسی لگنے لگی ہے۔۔اسے دیکھ رہی ہوں۔“
”ہاہاہا۔“وہ ہنس دی۔۔
”حیا تمہیں تو شاعر ہونا چاہیے تھا۔“
اس نے مجھے ٹھوکا دیا۔”بتادو۔غالب کی پوتی یا نواسی وغیرہ تو نہیں ہو؟“
”شریر۔“میں نے اسے مکا جڑ دیا۔۔
”تم مجھے غالب سے نہیں ملاٶ۔۔۔بس میرا شجرہ نسب بہادر شاہ ظفر تک لے جاٶ۔وہ جیسا بھی بادشاہ تھا۔۔لیکن شاعر کمال کا تھا۔“
”ہاں ہاں۔یہ تم بادشاہ ہوں اور شہزادوں کے خواب دیکھنا چھوڑ دو اب۔“اس نے ہاتھ نچایا۔۔
میں نے آنکھیں پھیلا لیں۔۔۔
”مجھے مغل بادشاہوں کی زندگی بہت بھاتی ہے۔۔تمہیں تو پتا ہے۔۔ان کے محل اور شاہی باغات،ان کے دربار۔۔۔اُف۔میں ان کی بناٸ گٸ ہر جگہ پر کسی بدروح کی طرح بھٹکنا چاہتی ہوں۔“
میں اپنے ہاتھ پھیلا کر گول گول گھومی۔
”کچھ تو خدا کا خوف کرو حیا۔یہی مغل بادشاہ تخت کے لیے اپنے خاندان والوں کا سر قلم کروا دیا کرتے تھے۔“
”وہ جو بھی کرتے ہوں اسمارہ۔میں بھی کوٸ شہزادی ی ی۔۔۔۔آہ۔۔۔“
اسمارہ نے مجھے چٹکی کاٹی۔۔۔
”شہزادی صاحبہ۔۔۔خوابوں کی دنیا سے نکل آٸیں اب آپ۔“
میں نے اسے غصے سے گھورا اور ناراض ہوکر آگے بڑھ گٸ۔۔۔
”تم مجھے حقیقت میں جینا سیکھا کر خود اتنے بےسُرے خواب دیکھتی ہو۔“اسمارہ منہ بگھار کر بولتے ہوۓ پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی۔۔
””میں تم سے ناراض ہوں۔۔اس لیے میں نہیں کہوں گی کہ میرے خواب تمہارے خوابوں سے ہزاردرجہ بہتر ہیں۔۔“
”ہاہا۔۔“پیچھے سے اس کے ہنسنے کی آواز آٸ تو میں نے مڑ کر دیکھا۔۔
”کیا ہوا؟“
دیکھو۔۔تم نے مجھے نہیں بتایا۔۔پھر بھی مجھے پتا چل گیا کہ تمہارے خواب میرے خوابوں سے ہزاردرجہ حسین،خوبصورت،اعلی  اور باکمال ہیں۔“اسمارہ نے لہرا لہرا کر کہا۔۔
میں نے منہ بنایا۔۔
”میں کسی دن تمہیں دھکا دے کر بھاگ جاٶں گی۔۔“میں اسے دھکا دیتے اپنے ہاتھوں کو قابو کیا۔۔۔وہ آگے بڑھ آٸ اور ساتھ کھڑے ہوکر کہنے لگی۔۔۔
”تمہیں تو دھکا دینا ہی نہیں آتا حیا۔۔۔تم تو ہاتھ بڑھا کر اٹھانے والوں میں سے ہو۔“اس کی آنکھوں میں تعریف تھی۔۔عزت تھی۔۔کیا کچھ نا تھا میرے لیے۔۔۔
”آٶ آٸیس کریم کھاٸیں۔“میں نے بات بدلتے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑا اور کینٹین کی طرف بڑھی۔۔
”چاکلیٹ فلیور۔۔“اس نے مجھے یاد دہانی کرواٸ۔۔
میں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
”پاستا میں لوں گی۔۔“میں نے اسے چھیڑا۔۔
وہ فوراً بھاگی اور کینٹین سے دو چاکلیٹ فلیور میں آٸیس کریم لے آٸ۔۔کافی عرصے سے یہی سب چلا آرہا تھا۔۔
اسمارہ اب بہت بہتر تھی۔۔لیکن کبھی کبھی گہری اداسی اس کے گرد احاطہ کرلیتی۔۔
لیکن اب اس کے اندھیرے کمرے کی کھڑکی کھل چکی تھی۔۔اور روز صبح مسکراتا ہوا سورج سب سے پہلے اس کا دیدار کرتا ہوا اٹھتا اور اپنی روشنی کی ہلکی سی کرن اس کے چہرے پر ڈالتا ہوا پوری دنیا کو روشن کردیتا۔۔۔۔
اس کے چہرے پر پھیلا سکون اللہ ی جانب پلٹ جانے سے آیا تھا۔۔
وہ باقاٸیدگی سے پانچ وقت کی نماز ادا کرنے لگی تھی۔۔ہر ماہ ایک قرآن ختم کرنا اس پہ فرض ہوگیا تھا۔۔
اسکارف میں موجود اس کا روشن چہرہ کچھ اور منور لگنے لگا تھا۔۔پھیکی سی مسکراہت پھیلتے پھیلتے روشن سی ہوکر اس کے لبوں پر موجود رہنے لگی تھی۔۔آنکھوں کے نیچے موجود ہلکے غائب  ہو چکے تھے۔۔
پہلے کی سنجیدگی نے شوخی اوڑھ لی تھی۔۔دل کا پھیلتا ناسور یک دم ٹھنڈا پڑچکا تھا۔۔
مکمل علاج کروانے کی وجہ سے اس کی سانس کی بیماری اور دیگر مسائل حل ہونے لگے تھے۔۔
کبھی کبھی تو میں اسے پہچان ہی نہیں پاتی تھی۔۔۔وہ اب ایک بہتر زندگی کی طرف آگٸ تھی۔۔
وہ اداس راتوں کی پینٹینگ چھوڑ کر صبح کی نٸ کھلتی ہوٸ روشنی کو پینٹ کرنے لگی تھی۔۔آدھے ادھوڑے چاند کے بجاۓ ایک پورا مکمل چاند اس کے کینوس پو بکھرنے لگا تھا۔۔اس کے ہاتھ میں جادو تھا۔۔ہر پینٹینگ کی ہوٸ چیز پہلے سے بڑھ کر جیتی جاگتی محسوس ہونے لگی تھی۔۔
وہ اپنی پینٹینگ کو آرٹ گیلری میں رکھوانے لگی۔۔اور مجھےان تک پہنچنے ے پہلے ہی سب انہیں خرید چکے ہوتے تھے۔۔میں اسے غصے سے گھور کر مکا مارتی۔۔
”میرے لیے بچتی ہی نہیں ہیں۔“
”تم کیوں خریدنا چاہتی ہو۔۔چھوڑ دو یہ ضد۔۔مجھ سے لے لیا کرو۔“
وہ ہنستے ہوۓ کہتی۔۔اس نے ایک بار پھر یہ راگ الاپ دیا تھا۔۔
”نہیں۔۔میں تمہاتی پینٹینگ ہر صورت میں خریدنا چاہتی ہوں۔“
”اچھا بابا لے لینا۔۔آٶ پہلے ان پینٹینگ سے ملنے والی رقم سے پارٹی کرتے ہیں۔۔۔“میں اثبات میں سر ہلادیتی۔۔۔
ہم دونوں ہی اپنی اپنی فیلڈ میں آگے بڑھ چکے تھے۔۔۔
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسمارہ کے ماموں کی دو بیٹیاں اسنیا میں آچکی تھیں۔۔جو وقت کے ساتھ بڑی ہوتی جارہی تھیں۔۔میں ہمیشہ دعا کرتی تھی کہ کسی لڑکی کے ساتھ کبھی ایسا نہ ہو جو اسمارہ سہ چکی تھی۔۔
لیکن مکافاتِ عمل کو کوٸ نہیں روک سکتا۔۔چھوٹی بیٹی کے دماغ میں پیداٸشی طور پر ٹیومر تھا۔۔
جس کی وجہ وہ دوسرے سال میں ہی اس بےدرد زمانے سے چھٹکارا پاگٸ۔۔۔اور ماموں کی واٸیف ہارٹ اٹیک ہونے کی صورت میں بیمار رہنے لگی۔۔۔ان کو سنبھالتے سنبھالتے اسمارہ کی ماموں وقت سے پہلے بوڑھے لگنے لگے تھے۔۔۔
یہ اللہ کے کام تھے۔۔ظالم کے گرد رسی کسنے لگی تھی۔۔۔
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”حیا میں سوچ رہی ہوں کہ میں ایک فاٶنڈیشن بناٶں۔“
”کس چیز کے لیے؟“۔میں نے اسے اچھنبھے سے دیکھا۔۔
”زیادتی کی گٸ لڑکیوں کو آواز دینے کے لیے۔۔ان کو جینا سکھانے کے لیے۔۔۔اور ایسے درندوں کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے۔۔۔“
اس کے لہجے میں عزم تھا۔۔
”اگر ایسا ہے تو ہم ساتھ مل کر بناٸیں گے۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔اور ہم دونوں اس کے اونر ہوں گے۔۔“ وہ مسکراٸ۔۔
”ہم نہیں۔۔۔صرف تم۔۔۔کیونکہ میں تمہاری ہلپر ہوں گی۔۔“
”کیوں؟“
”کیونکہ مجھے ایسے ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔تم سلطان ہوگی اور میں سلطان ساز۔۔“
میں نے سلطان اور سلطان ساز پر زور دیا۔۔۔
”لیکن۔۔۔“
”بس میں نے جو کہا وہی ہوگا۔۔“میں نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔۔
اسمارہ نے راضی نہ ہوتے ہوۓ بھی خاموشہ اختیار کرلی۔۔۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاٶنڈیشن کا اسٹرکچر کھڑا ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔روزبروز کام اپنے پایہ تکمیل تک پہنچتا جارہا تھا۔۔
آخر ایک ایک سال بعد فاٶنڈیشن کی عمارت مکمل طور پر تیار ہوگٸ۔۔۔
میں نے اور اسمارہ نے اس کا ربن کاٹ کر اس فاٶنڈیشن کا آغاز کیا۔۔
اسی دوران میں نے اوپر کی جانب دیکھا۔۔فاٶنڈیشن کی بلڈینگ ک ماتھے پر بڑا بڑا ”حیارضا فاٶنڈیشن“ سورج کی کونوں میں جگمگا رہا تھا۔۔۔
اسمارہ کو لاکھ منا کرنے کے باوجود اس نے یہی نام اس فاٶنڈیشن کے لیے منتخب کیا تھا۔۔۔۔۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                                                  جاری ہے

Apni raye dena mat bholiye ga...apk comments ki muntazir😊

Sneak Peak'sWhere stories live. Discover now