Don't copy paste without my permission
#کچھ_تو_خدا_کا_خوف_کر
#ازقلم_ستارہ_احمد
#چھٹی_قسطاتنباہ!اس کہانی میں موجود کسی بھی کردار کا تعلق لکھاری کی زندگی سے نہ سمجھا جاۓ۔۔۔شکریہ
وہ دو ہفتے سے بستر پر پڑی بخار سے پھنک رہی تھی۔۔واقعی کسی کے سامنے اپنے دل کا غبار نکال دینا یا دل ہلکا کر دینا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔یہ جاتے جاتے بھی اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔۔۔انسان تڑپتا ہے،سسکتا ہے۔۔لیکن کچھ کر نہیں پاتا۔۔اپنا راز یا اپنی ذات کا کوٸ حصہ جب آپ کسی دوسری کو بتاتے ہیں تو یہ ایک سے دوسرے تک کسی ناسور کی طرح پھیل جاتا ہے۔۔۔اگر وہ اپکا کوٸ اپنا ہے تو آپ کے ساتھ ساتھ وہ بھی تڑپتا ہے۔۔آخر میں نے تنگ آکر اسے کال ملاٸ جو کچھ ہی بیل جانے کے بعد دوسری جانب سے اٹینڈ کر لی گٸ۔۔۔
”اسلام و علیکم۔“ میں نے بات کا آغاز کیا۔۔
”وعلیکم اسلام۔“ وہاں سے دعا کا جواب آیا۔۔
”بس کردو اسمارہ۔۔اب کتنے دن غیر حاضر رہو گی؟“میں اس کی آواز سنتے ہی پھٹ پڑی تھی۔۔
”یار ہمت نہیں ہے بلکل بھی یونيورسٹی آنے کی۔“وہ بے چارگی سے بولی۔
”ہمت تو کرنی پڑے گی نا۔جینا آسان تو نہیں ہوتا۔“میں نے کہا۔
”میں جی کب رہی ہوں۔۔بس اب تو مررہی ہوں۔“اس کی آواز میں درد تھا۔ میرا دل کانپ گیا۔۔
”ایسی مایوسی والی باتیں نہ کرو۔خیر ہمت کرو۔اور کل یونيورسٹی حاضر ہو جاٶ۔“میں نے بت تکلفی سے کہا۔۔
”اچھا دیکھتی ہوں۔کوشش کروں گی آنے کی۔“اس نے ہار مان لی۔۔
”ہاں بلکل۔۔میں انتظار کروں گی۔“میں نے اسے اپنے لفظوں سے باندھا۔۔
”اچھا بابا۔۔چلو باۓ۔۔پھر ملتے ہیں۔“اس نے حنیف سی آواز میں جواب دیا۔۔
”اللہ حافظ۔“میں نے کال کٹ کردی۔۔اب وہ یقیناً آنے والی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو ہفتے پہلے۔۔۔۔
اسمارہ کے اس انکشاف کے بعد ہم کتنی ہی دیر وہاں چپ چاپ بیٹھے روتے رہے یا آنسو پیتے رہے۔۔۔اوتے کیا رہے؟آنسو خود ہی ساتھ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔یہ آنسو بھی کتنے اچھے ہیں نا۔۔کوٸ آۓ یا نہ آۓ یہ ہر خوشی اور غم کے موقع پر ساتھ نبھانے آجاتے ہیں۔انہیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔بس یہ اپنے مالک کا دل ہلکا کرتے رہتے ہیں۔۔اسے دلاسا دیتے رہتے ہیں۔۔اس وقت یہ آنسو بھی ہمارا دل ہلکا کر رہے تھے۔۔
پھر وہ خاموشی سے بنا کچھ کہے اٹھ کر چلی گٸ۔۔میں نے اسے نہیں روکا کیونکہ میں سمجھ سکتی تھی۔۔کسی کے سامنے اپنی ذات کا کوٸ پہلو بیان کرنا کتنا تکلیف دہ،اور پھر اس سے نظریں ملانا کتنا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔
میرے لیے اس بات پہ یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ کوٸ ماموں ایسا کیسے کر سکتا ہے۔۔وہ بھی اپنی بہن کی اولاد کے ساتھ۔۔۔یہ تو اسکے لیے زمین پھٹنے اور اس میں گڑ جانے والی بات ہے۔۔
میں ان دنوں بہت اپ سیٹ رہی۔۔اٹھتے بیٹھتے ہر اس لڑکی کا خیال دماغ میں ایک زہریلے سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا تھا جو اس اذیت سے دوچار ہو چکی تھیں۔۔
سمجھ نہیں آتا کہ آخر ان کو کس بات کی سزا دی گٸیں۔۔صرف اس بات کی کہ وہ لڑکیاں تھیں؟۔۔۔
میں اب طے کر چکی تھی کہ میں اسمارہ کو اس فیز سے نکلنے میں مدد کروں گی۔۔۔شاید وہ کچھ بہتر ہو جاۓ۔۔لیکن اس کے لیے مجھے کیا کرنا تھا۔یہ ابھی سوچنا باقی تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔