Do not copy paste without my permission
#کچھ_تو_خدا_کا_خوف_کر
#از_ستارہ_احمد
#گیارہویں_قسطمیں نے اس کے چہرے کو سفید پڑتے دیکھا۔۔اور پھر اس لڑکی کی جانب متوجہ ہوٸ۔۔۔
اسے ایک چادر سے لپیٹا گیا تھا۔۔۔چہرے پر نیل اور زخموں کے نشانات موجود تھے۔۔
”ڈاکٹر ہما کو بلاٸیں جلدی۔۔“میں نے فوراً ہدایت دی۔۔
اسی لمحے ڈاکٹر ہما وہاں پہنچیں۔۔۔
”ڈاکٹر آپ انہیں چیک کریں۔۔اور باقی ٹیم کے ممبرز کو بھی بلوالیں۔۔۔“
ہم نے اپنے فاٶنڈیشن میں ساری فیمیل ڈاکٹرز کو رکھا تھا۔۔
یہ اقدام لڑکیوں کی زہنی صیحت کے پیشِ نظر اٹھایا گیا تھا۔۔
”جی میں نے انہیں انفارم کر دیا ہے۔۔“ڈاکٹر ہما نے جواب دیا اور جلدی سے پیشینٹ کی جانب بڑھیں۔۔
میں اسمارہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے ٹیرس پر لے آٸ۔۔۔جہاں سے دور تک پھیلی اونچی نیچی عمارات کو دیکھا جا سکتا تھا۔۔
” کیا ہوا ہے؟“میں نے تشویش ظاہر کی۔۔
”حیا۔۔۔وہ۔۔“اسمارہ کانپی۔
میں نے سوالیہ نظریں اس پہ جماۓ رکھیں۔۔۔
اتنے میں ایک کبوتر پھڑپھڑاتے ہوۓ میرے قدموں میں آگرا۔۔۔
میں اور اسمارہ دفعتاً چونکے۔۔۔
وہ کبوتر نڈھال لگتا تھا۔۔۔میں نے جھک کر اسے اٹھایا اور اس کے پروں کو سہلانے لگی۔۔۔
اور ساٸیڈ پر کبوتروں کے لیے رکھے پانی کو طرف بڑھی اور اس کی چونچ پانی میں ڈپ کردی۔۔۔
وہ جلدی جلدی پانی پینے لگا۔۔میں نے اسے وہیں چھوڑ دیا۔۔۔
اور واپس اسمارہ کے پاس آٸ۔۔۔
وہ اس کبوتر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔نہیں۔۔بلکہ وہ کہیں اور دیکھ رہی تھی۔۔۔اس کے لب ہلے۔۔
”میں بھی اسی طرح تھی نا کچھ سال پہلے۔۔۔اور تم نے مجھے اٹھا کر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا تھا۔۔“
اس کی نظریں میری طرف گھومیں۔۔۔میں دم سادھے اسے سن رہی تھی۔۔۔۔
” تمہیں اللہ نے کتنی اچھی چیز سے نوازا ہے حیا۔۔۔دوسرے کو اس کے قدموں پر واپس کھڑا کردینا کچھ کم تو نہیں ہوتا نا۔۔“
اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔۔۔
”کیا ہو گیا ہے اسمارہ؟۔۔کون تھی وہ لڑکی؟“
میں نے بےچینی سے پوچھا۔۔۔
”میرے ماموں کی بیٹی۔۔“اس نے بمشکل کہا۔۔۔
اور یہ انکشاف میرے اوپر بجلی بن کر ٹوٹا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اوپر گھومتے پنکھے کو دیکھا۔۔۔اور اٹھ بیٹی۔۔۔
وہ اب بہتر محسوس کررہی تھی۔۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ ا سپتال میں موجود تھی۔۔۔
اس نے بیڈ سے نیچے نظریں دوھڑا کر اپنے چپل ڈھونڈنے چاہے جو وہیں تھے،جہاں اس نے اتارے تھے۔۔۔۔
اس نے اپنے پیر ان چپل میں اڑسے اور اٹھ کھڑی ہوٸ۔۔۔۔
اس کے چہرے پر معصومیت تھی اور آنکھوں میں درد ٹھرا ہوا سا لگتا تھا۔۔۔
پچھلے گزر جانے والے سارے مناظر اس کے نظروں کے سامنے گردش کرنے لگے۔۔۔۔وہ کمرے سے باہر آٸ تو سامنے سے دو تین نرسیں ایک اسٹریچر کو جلدی جلدی کھنچے چلی آرہی تھیں۔۔۔
وہ اسٹریچر اس کے سامنے سے گزرا تو اس نے ایک زخمی لڑکی کو اس پہ پڑے دیکھا۔۔۔۔نرسیں اسٹریچر آٸ سی یو میں لے گٸیں۔۔۔
ایک درد سا اس کے اندر اٹھا۔۔۔اور ایک عزم کے ساتھ وہ واپس کمرے میں چلی گٸ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔