Part 5

91 4 4
                                    

Do not copy paste without my permission

#کچھ_تو_خدا_کا_خوف_کر
#ازقلم_ستارہ_احمد
#پانچویں_قسط

اس نے کہنا شروع کیا۔۔
”میں اپنے والدین کی سب سے شرارتی اولاد تھی۔ٹک کر نہ بیٹھنے والی۔یہ میری سرشت میں ہی نہ تھا۔۔اچھلنا،کودنا،سب کو تنک کرنا میرے بہترین مشغلوں میں سے تھا۔۔سب مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ہمارا کافی بڑا خاندان ہے تو کہیں نہ کہیں آنا جانا لگا رہتا تھا..اسی سب موج مستیوں میں میرا بچپن گزرنے لگا۔میں اپنی زندگی کی دس سیڑھیاں چڑھ چکی تھی جب نانی کے گھر سے خالہ کی شادی کا دعوت نامہ آیا۔میں بہت خوش تھی۔۔اپنے پسند کے کپڑے لیے۔۔میچنگ کی ہر چیز لی۔۔اور ہم کچھ دنوں کے لیے نانی کے گھر رہنے کے لیے چلے گۓ۔۔تب اس چھوٹی سی عمر میں ہی مردوں کی درندگی کو میرے سامنے کھول کر رکھ دیا گیا حیا۔“
وہ کپکپاٸ اورمیری جانب دیکھا۔۔۔میں اسے یک ٹک،بغیر سانس لیے،ساکت ہوۓ،پتھر کا مجسمہ بنے،برف ہوۓ دیکھ رہی تھی۔اس نے پھر بولنا شروع کیا۔
”جانتی ہو مجھے اذیت دینے والا کون تھا؟“
میں نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔۔
”میرے ماموں۔“
مجھے لگا میرا سانس واقعی رک گیا ہو۔اس کے بہتے آنسوٶں میں روانی آچکی تھی۔
”انہوں نے مجھے پہلی بار عجیب سی نظروں سے دیکھا..میں ابھی ان نظروں کو پہچاننے کے قابل نہیں ہوٸ تھی۔۔ماموں بہانے بہانے سے مجھے اپنے پاس بلا تے اور میں جی ماموں،جی ماموں کرتے کرتے ان کے پاس پہنج جاتی۔اس دن خالہ کی مایوں تھی۔جب ماموں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا۔
”آئیس کریم کھاٶ گی گڑیا؟“
”واٶ۔۔آئیس کریم۔۔“میری آنکھیں چمکنے لگیں۔۔اور میں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
”چلو پھر چلتے ہیں۔“ان نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں خوشی خوشی ان کے ساتھ چل دی۔“اسمارہ نے نگاہیں اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا۔۔۔
” وہ مجھے بڑی خالہ کے گھر لے گۓ۔۔وہ بھی اس وقت نانی کے گھر میں موجود تھیں۔۔۔میں نے حیرت سے ماموں کو دیکھا۔۔”ماموں آئیس کریم دلانی تھی آپ نے؟“میں نے انہیں یاد دلایا۔۔
”جی بیٹا یاد ہے مجھے۔۔میں نے آپ کی آئیس کریم خالہ کے فریج میں رکھی تھی۔آٶ چلو۔۔“
میں بھاگ کر اندر گٸ اور فریج کھولا۔۔وہاں آئیس کریم موجود تھی۔۔میرا دل بلیوں اچھلنے لگا۔۔میں نے بہت آرام سے آئیس کریم نکالی تاکہ اس کو کچھ ہو نہ جاۓ۔۔
”ماموں آپ کھائیں گے؟“میں نے آئیس کریم ان کی طرف بڑھا کر پوچھا۔
”نہیں آپ کھاٶ۔۔آٶ یہاں روم میں بیٹھو۔“میں بھاگ کر کمرے میں گٸ اور بیڈ پر بیٹھ کر جلدی جلدی    آئیس کریم کا پیکٹ کھولنے لگی۔۔ماموں میرے پاس بیٹھ گۓ۔۔میں نے آئیس کریم ختم کر کے کہا۔۔”چلیں ماموں؟“اسمارہ نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھا اور دھیمے سے بولی۔۔
”ان نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔میں گھبرا کر منمناٸ۔۔
”ممّا کے پاس جانا ہے۔“
”شش۔۔“ماموں نے اپنے منہ پر انگلی رکھتے ہوۓ کہا۔۔
میں نے بھاگنا چاہا۔۔ماموں نے پکڑ لیا۔“اسمارہ کی ہچکی بندھ گٸ۔۔وہ اپنے ہاتھوں کو زور زور سے رگڑنے لگی۔۔جیسے ان دیکھی گندگی ہٹانا چاہتی ہو۔۔پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔اور میرا نام پکارا۔۔
”حیا۔۔“
”مجھے ماموں نے بہت مارا حیا۔بہت مارا۔۔میں بھاگ نہ سکی حیا۔“اسمارہ نے اپنے پاٶں آگے کیے۔۔
”میرے ہاتھ پاٶں مفلوج ہوگۓ حیا۔۔دیکھو۔۔دیکھو ان کو کیا ہوگیا حیا۔۔میرے ہاتھ پاٶں کام نہیں کر رہے۔۔“وہ جیسے حیرانی سے پاٶں کو دیکھتے ہوۓ چینخنے والے انداز میں بولی۔۔
”یہ مفلوج ہوگۓ نہ؟“اس نے آنسوٶں بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا۔۔۔آنکھوں میں موجود کاجل آنسوٶں سے بہ گیا تھا۔۔
میں نے اس کے سوال پر اثبات میں سر ہلایا۔۔وہ پھر بولنے لگی۔۔
” میں ماموں جی۔۔ماموں جی۔۔کرتی رہی۔۔
”ماموں جی مت ماریں۔۔ماموں جی۔۔“لیکن ان نے میری ایک نہ سنی حیا۔۔“
اسمارہ نے دونوں ہاتھوں سے اہنا منہ ڈھانپ لیا۔۔پھر وہ اپنا ہاتھ بینچ پر زور زور سے مارنے لگی۔۔۔اندر درد سے پھٹتے دل کو برداشت کرنے کے لیے۔۔۔ساتھ ساتھ دھیمے لہجے میں بولتی رہی۔۔
”انہوں نے مجھے بہت مارا۔۔بہت۔۔بہت۔۔“
میں نے اسمارہ کا ہاتھ پکڑ لیا جو سائیڈ سے چھل چکا تھا۔۔
میری آنکھوں سےنجانے کب آنسو بہنے لگے تھے اور ان میں شدت آتی جا رہی تھی۔۔
” میں وہیں مر گٸ۔۔“اس نے میری جانب نظریں گھمائیں اور پوچھا۔”میں مرگٸ نا حیا؟“
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔اس وقت اس کی آنکھوں میں جو درد جو تکلیف میں نے دیکھی وہ بیان سے باہر ہے۔۔۔وہ بولنے لگی۔۔
”میرے جسم،میری روح کے چھتڑے چھتڑے ہوگۓ۔۔۔میں ٹوٹ کے بکھر گٸ۔۔ماموں نے جب مجھ معصوم کی پرواہ نہ کی تو وہ میرے ساتھ موجود اپنے رشتے کی کیسے کرتے۔۔۔پھر انہوں نے مجھے چلنے کو کہا۔۔میں نجانے کیسے اٹھی اور اپنا لاغر وجود،اپنا گندہ وجود لے کر چلنے لگی۔۔
ماموں مجھے واس لے آۓ۔ لیکن سارے راستے ڈراتے دھمکاتے رہےکہ خبردار کسی کو بتایا تو کہیں اور لے جاٶں گا اور اس سے بھی زیادہ بُرا ماروں گا۔۔“مجھے لگا اسمارہ کانپ رہی ہے۔۔
”میں ڈر گٸ تھی حیا۔۔بہت ڈر گٸ تھی۔۔میں ممّا کے پاس پہنچ گٸ۔۔مجھے تیز بخار چڑھ گیا اور وہ بخار اب تک نہیں اترا حیا۔“
اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ماتھے سے لگایا۔۔جو واقعی بخار سے تپ رہا تھا۔۔میں نجانے اس وقت کیا کیا محسوس کررہی تھی۔۔اسمارہ سے ہمدردی یا افسوس۔۔یا اس شخص سے نفرت۔۔
”یہاں ہی یہ سب ختم نہیں ہوا۔مجھے بہت اذیت دی گٸ۔۔میں پھر ویسی نہ رہی جیسی پہلے تھی۔مجھے ہر جگہ درد اٹھتے۔۔راتوں کی نیند اور دن کا سکون۔۔۔ہر چیز مجھ سے چھن گٸ۔۔پوری پوری رات رونا جیسے معمول ہو گیا۔۔مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگٸ۔۔مجھے ہر مرد سے نفرت ہوگٸ۔۔میں خاموش اور چپ چاپ رہنے لگی۔۔ممّا نے وجہ پوچھی تو میں نے کوٸ بہانا بنا دیا اور مما مان گٸ حیا۔۔وہ کیوں مان گٸ؟۔۔وہ ماں تھیں۔۔اپنی بیٹی کو نہ سمجھ پاٸ۔۔اس دن وہ بھی میرے دل سے اتر گٸ۔۔مجھے بہانے بنانا آگۓ۔۔اور آج تک میں بس بہانے ہی بنا سکتی ہوں۔۔“میں افسوس بھری نظروں سے اسمارہ کو دیکھ رہی تھی۔۔
”میں نے مرنے کی بھی کوششیں کیں۔۔ایک بار نیند کی گولیاں زیادہ مقدار میں کھالیں۔۔لیکن میں بچ گٸ حیا۔۔“
اسمارہ نے اپنے زخمی بازو،جس کو پہلے بھی اذیت دیتی رہی تھی اسے نوچ ڈالا۔۔
”میں کیوں بچ گٸ؟“
وہ جیسے ضبط کی انتہا پر تھی۔ہر تکلیف سے گزرنے کے بعد وہ آج پھر ویسی ہی تکلیف محسوس کر رہی تھی۔۔
”میں خود کو زردوکوب کرنے لگی۔۔“اس نے اپنی ہتھلیاں میرے سامنے پھیلادیں۔۔جہاں کٹ کے نشان موجود تھے۔۔
”میں چاہتی تھی کہ اپنی یہ ساری جلد جلا دوں۔۔لیکن اتنی ہمت نہ ہو پاٸ۔۔اور ایک دن ابو کی سگریٹ کی ڈبیا دیکھی تو چھپکے سے ایک نکال لی۔۔اور رات کو جب سب سوگۓ۔۔میں اوپر چھت ہرگٸ اور سگریٹ جلا لی۔۔اس نے مجھے اتنا سکون دیا حیا۔۔کیا بتاٶں۔۔۔
وہ زہریلا مادہ،وہ دھواں جب میرے اندر اترا تو جیسے ہر چیز ٹھر گٸ۔۔دھواں باہر خارج کرنے کے بجاۓ خود کو اذیت دینے کے لیے میں وہ اپنے اندر اتارتی رہی۔۔کھانستے کھانستے دھری ہو جاتی لیکن منہ سے ہاتھ نہ ہٹاتی تاکہ کسی کو میری آواز نہ پہنچ جاۓ۔۔
میں ساری ساری رات خود کو اذیت دیتی اور پھر پورا دن اس اذیت کو ضبط کرنے میں گزر جاتا۔۔۔رات کو جاگتے رہنے سے سر درد رہنے لگا جو پھر میگرین کی وجہ ٹھہرا۔۔
پھر دوسری بارایک کزن نے میرا ہاتھ پکڑا لیکن میں تو بھاگنا بھول چکی تھی۔۔میں ساکت اور مفلوج کھڑی رہی۔۔وہ بھی اپنی آگ بجھا کر چلا گیا۔۔۔
اس کے بعد میں نے خود کو سگریٹ سے جلانا شروع کردیا۔۔پھر مجھے نشہ آور لیکویڈز کا پتا چلا تو چھوٹے بھاٸ کو بہلا پھسلا کر منگوانے لگی۔۔وہ بھی میری خاطر لادیتا اور کسی کے سامنے منہ تک نہ کھولتا۔۔۔اور آج تک میرے گھر میں سب ان باتوں سے ناواقف ہیں۔۔مجھے نشہ آور چیزوں نے تباہ کر دیا۔۔میں ضبط کی انتہا پر ہوں حیا۔۔“
اسمارہ نے اپنی سرخ آنکھیں مجھ پر گاڑ دیں۔۔میں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر خود کو قابو کیا۔۔۔
”مردے کو بھی نہیں چھوڑتا کوٸ۔۔“اس نے تکلیف سے کہا۔۔
”میرے پھپڑے کمزور ہوگۓ ہیں۔۔سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔۔اور  ہر چیز سے نفرت ہوگٸ ہے حیا۔آئیس کریم۔۔رشتےدار۔۔میرا اپنا وجود۔۔میرا جسم۔۔۔یہ سب میری ناگواری کا باعث ہیں۔۔۔۔میں آج تک یہ سہ رہی ہوں۔۔لیکن نہیں سہ پارہی۔۔میں جینا چاہتی ہوں۔۔لیکن نہیں جی پارہی۔۔میں یہ سب بھولنا چاہتی ہوں۔۔لیکن نہیں بھول پارہی۔۔“اسمارہ نے بےدردی سے اپنے آنسو رگڑدیے۔۔اور پھر آسمان کی جانب دیکھا۔۔
”میں الله سے بھی ناراض ہوں۔۔نہ تب ان نے میرا ساتھ دیا۔۔اور نہ اب دیتے ہیں۔۔
میں کچھ بھول نہیں پارہی۔۔ایک بار یہ ہوا ہوتا تو بھی شاید سکون ہوتا۔۔۔لیکن بار بار کی اذیت نے مجھے کبھی سکون سے نہ رہنے دیا۔۔
میری زرا سی آنکھ بھی لگ جاۓ تو مجھے ان کے ساۓ نظر آتے ہیں۔۔وہ مجھے پکڑ لیتے ہیں حیا۔۔وہ مجھے مارتے ہیں۔۔“
اسمارہ نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔۔اور گہرے گہرے سانس لے کر اپنی سانس بحال کرنے لگی۔۔۔
”اور تم کہتی ہو کہ میں ایسی کیوں ہوں؟میں کیوں اداس رہتی ہوں؟میں ایسے ہی چپ نہیں رہتی۔۔چھوٹی سی عمر میں پوری دنیا کو جان گٸ تھی۔۔۔سب کو پہچان گٸ تھی۔۔۔میں تم سے بھی دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔“۔اس نے مجھے دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔۔۔۔
”لیکن تمہارا بار بار مجھے مخاطب کرنا میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگا۔۔تم سے دوستی میری مجبوری تھی تاکہ تمہاری ضد ختم ہو جاۓ۔۔لیکن پھر تم میرے لیے اجالا ثابت ہونے لگی۔۔۔امید کی ایک کرن۔۔اندھیرے میں چراغ کی روشنی جیسے۔۔بلبل کو راستہ دیکھاتا ایک جگنو جیسے۔۔۔“
وہ پھر مجھے دیکھنے لگی۔۔لیکن میں اسے نہیں دیکھ رہی تھی نہ سن رہی تھی۔۔۔
میرے ذہن میں وہ چھوٹی سی زینب،وہ چھوٹی سی فرشتے گردش کر رہی تھیں۔۔اور بھی نہ جانے کتنی بچیاں ہو گی۔۔میرا دل پھٹ رہا تھا۔۔۔
آخر کیا قصور ان سب کا؟
کیوں ان درندوں نے ان معصوموں کی پرواہ نہ کی؟
آخر کیوں؟
ان کی ہوس اتنی تھی کہ بچیوں کو بھی نہ چھوڑا۔۔وہ ان درندوں کی دی جانے والی اذیت نہ سہ پاٸ۔۔اور جو سہ گٸ۔۔میں نے اسمارہ کو دیکھا۔۔۔ان کی کیا حالت ہے۔۔وہ نہ جیتی ہیں،نہ مرتی ہیں۔۔
آخر کیوں عورت زاد گھر کی چار دیواری میں بھی محفوض نہیں رہی۔۔۔کبھی باپ، کبھی بھاٸ،کبھی ماموں،کبھی تایا،چچا اور کزنز کی درندگی کی بھینت چڑھ جاتی ہیں۔۔۔آۓ دن ایسی خبریں آتی ہیں۔۔۔اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔۔اور جب پرانی ہو جاتی ہیں تو سب بھول بھال جاتے ہیں۔۔۔
غیروں کے دیے گۓ زخم پر تو پھر بھی کھرنڈ آجاتا ہے۔۔لیکن اپنوں کے دیے گۓ زخم صدا تازہ رہتے ہیں۔۔صدا ہرے رہتے ہیں۔۔
ہر انسان ایسا نہیں ہوتا۔۔۔اچھاٸ اب بھی موجود ہے۔۔۔لحاظ اور شرم کا اب بھی پہرہ ہے۔۔۔عزت دار لوگ اب بھی موجود ہیں۔۔لیکن یہاں ان لوگوں کی بات کی جارہی ہے جو یہ کارنامہ ہاۓ انجام دے چکے ہیں۔۔
ایک واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک لڑکے نے کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی۔۔اور پھر جرگے کے فیصلے پر اس لڑکے کی بہن کو۔۔زیادتی کی گٸ لڑکی کے چچا،ماموٶں کے سپرد کر دیا گیا۔۔کہ وہ جو چاہے کریں۔۔۔کیوں؟
آخر کیوں؟بہن کو بھاٸ کے بدلے بھینت چڑھا دیا گیا۔۔کیا وہ کچھ بھی نہیں تھی کسی کی نظر میں؟
کیا عورت کی اپنی کوٸ عزت نہیں؟
کیا عورت زاد کچھ بھی نہیں؟
آخر صنفِ نازک کن کن زخموں کو سہے؟
کہاں تک اذیت کا شکار ہو؟
یہ سلسلہ آخر کب رکے گا؟
یا خدا آخر کب انصاف ملے گا ان سب کو؟
یہاں ان عورتوں کی بات نہیں کی جارہی جو یہ کارنامے کھلے عام کرتی ہیں۔۔یہاں ان کی بات کی جارہی ہے جو پاک ہیں،معصوم ہیں۔۔
آہ۔۔۔۔۔جتنے بھی آنسو روکنا چاہو۔۔وہ نہیں تھمتے۔۔کلیجہ شق ہوا جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ نہیں رکتا۔۔
صنفِ نازک کو اپنی حقیقت پہچاننی ہوگی۔۔اپنی عزت کی پروا خود کرنی ہوگی۔۔۔آپ کے ہاتھ میں ہے یہ سب کچھ۔۔اپنے گرد حفاظت کی دیوار آپ نے تعمیر کرنی ہوگی۔۔۔اپنے آپ کو آپ نے سمیٹنا ہو گا تاکہ کوٸ درندہ آپ کی خوبصورتی کی مُشق پاکر آپ پر حملہ آور نہ ہو۔۔
آج کل عورت کو حراساں کیا جاتا ہے۔۔۔اپنی خواہش پوری کرنے کے بعد اسے کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔۔کیا آج کل کا یہ وہی مسلمان ہے جیسے ہمارے رسولﷺ نے عورت کی عزت کرنا سکھایا تھا۔۔۔عورت کے حقوق بتلاۓ تھے۔۔۔لیکن آج کل کا انسان کیا۔۔مسلمان بھی یہ بھول چکا ہے۔۔اور صرف اپنی ہوس پوری کرنے کو معصوم بچیوں کو نشانا بنا رہا ہے۔۔۔میری ان سب ہوس پرست درندوں سے التجا ہے کہ کچھ تو خدا کا خوف کر۔۔۔۔۔
یہ تو سراسر زنا ہے۔۔۔زور و زبردستی ہے۔۔اذیت کی آخری حد ہے۔۔
آخر کب ان کو سزا ملے گی؟
کب یہ اپنے انجام کو پہنچیں گے؟
کب ان کو ہدایت نصیب ہوگی؟
کب عورت زاد اور بچیاں ان تکالیف سے ممبرا ہوں گی؟
یا الله ہم تجھ سے انصاف کا سوال کرتے ہیں۔۔ان لوگوں کو ہدایت نصیب کر۔۔ان کی بہو بیٹیوں کو بھی اس اذیت سے دوچار نہ ہونے دے۔۔۔آمین۔۔
ہمارا مسیحا،ہمارا سامع ہمارا خدا ہی ہے۔۔جو ایک ہے،واحد ہے،تنہا ہے۔۔ہر چیز کا مالک ہے۔ستر ماٶں سے زیادہ چاہنے والا ہے۔۔اس سے منہ نہ پھیریں۔وہ اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔اس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیں۔۔۔اس کے سامنے جھک جاٸیں۔۔ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ آپ کی نہ سنیں۔۔جب ایک ماں اپنے بچے کی تکلیف پہ تڑپ جاتی ہے۔۔تو وہ ستر ماٶں سے زیادہ محبت کرنے والا کیوں نہ سنے گا؟
اپنا دامن اس کے حضور پھیلا لیجیے۔۔وہ سارے جہاں کی نعمتیں آپ کے دامن میں ڈال دے گا۔۔
اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ الله پاک نے اسمارہ کی نہ سنی ہو۔۔لیکن وہ اس سے انجان ہو گی۔۔رب لحکیم کی مصلیحتوں کو سمجھنے والا کوٸ نہیں۔۔۔۔۔
                                                                                                      جاری ہے۔۔۔۔۔

Sab is epi k bary me apni raye zaroor dijiye ga...or bataen k ap log kia kehty hen is bary me?ap logon ka kia khayal hai?

Sneak Peak'sWhere stories live. Discover now