باب 3: جب میں سات سال کا تھا

13 1 4
                                    

"زین اٹھو" میری والدہ نے مجھے کڑک دار آواز میں صبح کیلئے جگایا، اسل میں صبح کے 7 بج رہے تھے اور اسکول کا وقت ہو گیا تھا، ''پہلے مصطفیٰ کو اٹھایئے نا'' میں نے اپنے چھوٹے بھائی کی طرف امی کو متوجہ کراکر خود کچھ دیر اور سونے کیلئے وقت مانگا،
میں بہت خوش تھا کیونکہ میرے نام نہاد سینئر اسکول میں یہ میرا پہلا دن تھا کم از کم میں اپنے اسکول کو سینئر کہہ سکتا تھا کیونکہ مجھے پرائمری سطح سے سیکنڈری لیول پر ترقی مل چکی تھی اور اسی لیے میں بہت فخر محسوس کر رہا تھا اور یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے میں سستے بھرم دیکھاتے ہوئے اپنے اسکول میں داخل ہوا اور اپنے آپکو بڑے طالبعلموں میں شمار کرنے لگا۔
پہلے اور دوسرے سبجکٹ کافی بوریت کے ساتھ گذرے، مگر جب تیسرے سبجکٹ کے استاد نے جونہی کلاس کا دروازہ کھولا، سارے طلبہ خوش کن لہجے میں بیک وقت ایک ہی آواز میں "گڈ مارننگ ٹیچر" کہنے لگے،چنانچہ میں نے بھی ایک طالب کی حیثیت سے یہی کچھ کیا مگر مجھے اس بات کی ہر گز خوشی نہیں ہے کیوں کے اب بڑے ہو کر احساس ہو رہا ہے کے اتنا سستا "گڈ مارننگ ٹیچر" کتنا عجیب لگتا ہے بو لتے ہوئے لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے تو اب دکھ رکھنے کا بھی فائدہ نہیں، اسی طرح دن گزرتے گئے، آہستہ آہستہ سال بھی پلک جھپکتے گذر گیا جیسا کہ شاعر کے بقول ہنری آسٹین نے ایک بار کہا ،
"وقت جاتا ہے ، کیا آپ کہتے ہیں؟ آہ ، نہیں! افسوس ، وقت رہتا ہے ، ہم جاتے ہیں"۔
سال کے آخر میں مجھے اچھے گریڈ کے سرٹیفکیٹ ملے اور مجھے سرٹیفکیٹ دیکھ کر حیرت ہوئ کہ میں اس قابل کیسے بن گیا کیونکہ سارا سال میں نے رنگ ریلیاں منائی تو اتنا اچھا ریزلٹ دیکھ کے میں دنگ رہ گیا تھا۔ اسی سال کچھ نئے چہرے بھی دوست بن گئے، ان میں کچھ لڑکیاں بھی تھیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ لرکیاں کیوں میری طرف اتنا مائل تھیں،
لیکن شاید اس کا جواب میرے پاس ہے کیوں کہ میری خواتین دوستوں کو آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا تھا۔ میرے مرد دوستوں کے برخلاف میری دوستوں کو ٹھنڈے لطیفے اور مضبوت لطیفوں میں فرق نہیں کرنا آتا تھا لہذا میرے لئے ان کی تفریح ​​کرانا آسان ہو گیا وہ بھی بہت سارے مضحکہ خیز لطیفوں کو جانے بغیر اور میں نے انکی اس بےوفوفی کا مزے سے لطف اٹھایا یہاں تک کہ کئ بار میں نے انہیں سستے اسٹیشنری آئٹم زیادہ قیمت پر فروخت کرے اور انہیں کانوں کان خبر نہیں لگی کے انکو ماموں بنایا جا چکا ہے ۔
مجھے سنگین چیزوں پر بھی ہنسنے کی ایک بہت عجیب عادت تھی اور میرے اساتذہ کے ذریعہ مجھے اس عادت کی وجہ سے بری طرح سزا بھگتنی پڑتی تھی۔ یہاں تک کہ میں اپنی سزا کے دوران ہنستا تھا اور کبھی کبھی مجھے اسٹیشنری کے ساتھ اپنے دوستوں کی مدد کرنے پر بھی سزا دی جاتی تھی جیسے ایک بار ریاضی کے سبق میں میرے ایک عجیب دوست نے ایک صافی (eraser) کا مطالبہ کیا کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ بچوں کو ایک صافی(eraser) کے ساتھ ایک انوکھا پیار ہوتا ہے، یہاں بچے کچھ غلط لکھدیں تو جب تک اس حصے کو درست نہیں کرلیں انکو سکون نہیں آتا چاھے اس کے لئے انہیں کتنا بھی گرنا کیوں نہ پڑھ جائے۔ میرا تو دور دور تک اس سانڈ جتنے موٹے دوست کو اپنا ربڑ دینے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن خوش قسمتی سے اس وقت میری دوست مومنہ میرے باجو میں بیٹھی تھی اور میں اپنا ربڑ اس گنجے دوست کو دے کر مومنہ کے سامنے اپنے نمبر بڑہانا چاہتا تھا چونکہ وہ موٹو میرے پیچھے بیٹھا ہوا تھا لہذا میں نے اپنی کرسی جھولی اور اڑتے ہوئے ہاتھ سے پیچھے اسے ربڑ  منتقل کردیا مگر اگلے ہی لمحے ایسا کچھ ہو گیا جس کے بعد میں مومنہ کیا کسی بھی لڑکی کو موں دیکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ہوا کچھ یوں کے اگلے ہی لمحے میرے استاد نے میری کرسی زمین پر کھینچی اور ربڑ اس موٹے سے لے کر میرے موں پر مارا اور مجھے جماعت سے باہر کھڑا کر دیا مگر زیادہ شرمندگی مجھے اس لیے ہوئ کیونکہ مومنہ میری پھوٹی قسمت کے مزے لے رہی تھی اور اس سے میں نے سیکھا کے کبھی کسی لڑکی کے سامنے مر کے بھی نمبر نہیں بڑھانے چاہیں۔

معصومیتWhere stories live. Discover now