قسط چہارم

2 0 0
                                    

جھمورا ٹی وی،کراچی
جھومرا ٹی وی میں لوگ معمول کے مطابق کام میں مصروف تھے۔
شیشے کے کمرے میں بیٹھا ارون باہر بیٹھے نیوز ڈیسک والوں کو باآسانی دیکھ سکتا تھا وہ کیا کام کر رہے ہیں۔
اچانک ایک لڑکا جو کیمرہ مین تھا بھاگ کر اندر داخل ہوا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اس کے کچھ کہتے ہی سب کی توجہ سامنے لگے 34 بائی 40 کی اسکرین پہ مرکوز ہوگئیں۔
سب دھیان سے دیکھ رہے تھے جہاں حیرت اور پریشانی عیاں تھیں وہیں کچھ لوگ سرگوشیاں بھی کر رہے تھے۔
اس بے چینی کو دیکھ کر ارون سے رہا نا گیا میز کے نچلے حصے پہ لگا سرخ بٹن دبایا۔ چند لمحوں میں ایک لڑکا مؤدب سا اندر داخل ہوا۔
وہ چپراسی تھا جو ٹی وی اسکرین کو بمجبوری چھوڑ کر یہاں آیا تھا۔ اس کے چہرے پہ بھی ایک بے چینی تھی کہ ابھی اسے جانے کی اجازت ملے اور وہ اڑتا ہوا واپس وہیں چلا جائے۔
ہاں بھائی بلال یہ بتاؤ باہر کیا ہورہا ہے یہ  سب کام چھوڑ کر ٹی وی سے کیوں چپک گئے ہیں؟
کچھ کاغذات پہ وہ دستخط کرنے میں محو تھا۔
جناب وہ آپ کی دوست ہیں نا زونیا دیوان ان کو انتقال ہوگیا ہے۔
کچھ لمحوں کیلئے جیسے اس پہ کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ مگر دماغ نے الفاظ ایک بار پھر سے دھرائے اس کو یقین دھانی کروائی کہ وہ جو سن رہا ہے درست سن رہا ہے۔
قلم رک چکا تھا حیرت و استعجاب کی مہر چہرے پہ ثبت تھی۔
جناب ان کو گولیاں لگی تھیں۔
بلال نے اسے سن دیکھا تو خود ہی وہ بات بتائی جو وہ جاننا چاہتا تھا۔
صاحب کچھ چاہیے؟ پانی لاؤں آپ کیلئے۔۔
حد سے زیادہ خاموش پاکر فکرمندانہ پیشکش کی۔
تم جاؤ ۔۔۔ بس دو جملے ہی ادا ہوسکے۔ ایک نظر زارون کو دیکھتا وہ واپس پلٹ گیا۔
مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نہیں زونیا نہیں جاسکتی۔۔ میرے ہوتے ہوئے وہ۔۔ مجھ پہ قرض ڈال کر کیسے چلی گئی۔۔ میرا قرض کیسے پورا ہوگا۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا۔۔ میں ایک وعدہ نا نبھا سکا۔۔
دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے اس وعدے کی کسک سے تڑپ رہا تھا جو آج سے کئی سال پہلے نہایت کم عمری میں کیا گیا تھا۔ مگر خیر وعدہ تو وعدہ تھا۔ کیاے بھی نبھانا تھا مگر یہ کیا ہو گیا تھا۔
۔۔۔
دس سال پہلے (لندن)
شیشے کی سی چمکتی سڑکیں ان پہ برستا ابرِ رحمت ان کی سڑکوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا۔ اس پہ چند گاڑیاں آگے پیچھے نہایت برق رفتاری سے بھاگ رہی تھیں۔ رات کے اس پہر یقیناً کوئی منچلوں کا ٹولہ اپنے من کی تسکین کی خاطر یوں بےخطر سڑکوں پہ دوڑ رہا تھا۔
مگر یہ لندن، جہاں سو سال سہی مگر اب قانون کی بالادستی تھی۔ دنیا کے چند ممالک میں سے ایک جس کے قانون کا ایک بڑا حصہ لکھا ہوا نہیں پے مگر مانا جاتا ہے۔
سو سال پہلے یہاں کی سڑکیں ہماری طرح بے کل سی ٹیڑھی میڑھی، گڑھے ، جابجا کچرے کے ڈھیر، بھوک افلاس ذدہ سا لندن آج دنیا کے بہترین شہروں مین شمار ہوتا ہے۔ 71 سال ہم بھی گزار چکے ہیں۔ اگلے انتیس تیس سالوں میں کیا خبر ہم بھی لندن سے سبق سیکھ کر اس جیسے نا سہی کم از کم ایسے نا رہیں۔
خیر وہاں کے بہترین نظام کی بدولت اب پولیس کی گاڑیاں سائرن بجاتی ان گاڑیوں کے پیچھے ہوگئی تھی۔ کل تین گاڑیاں تھیں جو ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کو بیتاب تھیں۔ اب ان میں چوتھی گاڑی پولیس کی شامل ہوگئی تھی۔
وائرلیس شور کرنے لگے تھے،  پیغام بھیجے جارہے تھے تاکہ گاڑی کو آگے والے ناکے پہ کھڑی پولیس کی گاڑی دبوچ لے۔
دس منٹ کے اندر اندر ہوا بھی کچھ یوں سامنے سے آتی گاڑی سے پولیس اہلکار اترے اور گنیں تان کے کھڑے ہوگئے جس پہ گاڑی چلانے والے نے نہایت بے دردی سےبریک لگائے گاڑی تیز رفتار سے چل رہی تھی اس بریک کے نتیجے میں الٹ کر کسی حادثے کا شکار ہوسکتی تھی۔ مگر اندر بیٹھا ڈرائیور کمال مہارت رکھتا تھا اس نے ہینڈبریک کھینچ کر اسٹئیرنگ گھمایا جس سے گاڑی ایک ہی جگہ گول گول گھومنے لگی اور کچھ ہی دیر میں رک گئی۔
گاڑی میں صرف ایک نوجوان لڑکا تھا قریباً 20 سال عمر ہوگی۔ خوف اس کے چہرے پہ عیاں تھا۔ گاڑی سے اترتے ہی اس نے نظریں یہاں وہاں گھمانی شروع کردیں جیسے اپنے ساتھیوں کو تلاش کر رہا ہو۔ اس کا منہ گاڑی کی طرف کرکے اس کی تلاشی لی جانے لگی جب کہ دوسرے اہلکاروں نے گاڑی کی تلاشی شروع کردی۔
گاڑی میں بیگ رکھے تھے جن کو کھولنے پہ اس میں سے بڑی مقدار میں ڈرگز برآمد ہوئے تھے۔
اب اس لڑکے کا بچنا محال تھا۔ پولیس اسے ہتھکڑیاں پہنائے اپنی گاڑی میں لیجارہی تھی،جبکہ دیگر دو گاڑیوں کی تلاش جاری تھی۔ مگر وہ تو سرے سے غائب ہی ہوگئی تھیں۔
۔۔۔۔
پولیس والے انگریزی میں سوالات کررہے تھے۔ جب کہ لڑکا سہما ہوا سب کو بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔
اسی اثناء میں ایک پولیس آفیسر داخل ہوا۔
گھنی موچھوں کے نیچے مسکراتے لب وہ اس لڑکے کے سامنے بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں یہ پہلا شخص تھا جو مسکرایا تھا ورنہ سب ہی غصے سے گھور رہے تھے یا چلا رہے تھے۔
سر وہ میرا نہیں ہے میں تو بس ان سے بچ کے بھاگ رہا تھا۔
تمھارا نام کیا ہے؟ ایک گلاس پانی کا اس کی طرف بڑھایا۔
زارون ۔۔ اپنا نام بتا کر ایک سانس میں پانی حلق میں مانو انڈیل لیا گیا ہو۔ 
۔۔۔۔۔۔
سول اسپتال (کراچی)
اسپتال کے باہر میڈیا والوں کی ڈی سی این جی وینز جو وہ لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ڈھیروں مختلف لوگو کے ساتھ موجود تھیں۔ رپورٹرز اور کمیرہ مینز کای صورت اسپتال کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر انہیں ایمرجنسی کے دروازے پہ ہی روک لیا گیا تھا۔
کراچی کا سب سے بڑا اسپتال ہونے کی وجہ سے وہ سب سے مصروف اسپتال بھی تھا۔ مریضوں کی ایک بڑی تعداد وہاں ہر وقت موجود رہتی تھی۔ ایسے میں اتنے میڈیا والوں کی موجودگی ان کے کام میں خلل ڈال سکتی تھی۔
پولیس اہلکاروں کا مستعد دستہ ان کو دور رکھنے کی حتی الامکان سعی کر رہا تھا۔
مگر وہ میڈیا والے ہی کیا جو کسی کی دھمکی سے دور بھاگ جائیں۔
صحافی تو وہ پروانہ ہوتا ہے جو شمع پہ ہی منڈلاتا ہے۔ اس کی روشنی کی حقیقت بیان کرنے کی چاہ میں جل کے مرجائے اسے بس پسِ پردہ کی تلاش ہوتی ہے۔
وہ لوگ بھی ڈٹے ہوئے تھے اندرونی حالات کیا ہیں بتانے سے گریز کیا جارہا تھا۔ ناجانے کس نے خبر نکالی تھی کہ زونیا دیوان کی موت ہوچکی ہے۔
سب شعبہ حادثات کی چئیرپرسن نبیلہ ہاشم سے ملاقات کرنے کے خواہاں تھے۔ مگر یہاں تو اسپتال کی دہلیز لانگنا محال ہوگیا تھا۔
کچھ تو اندر ایسا تھا جس کی پردو پوشی کی جارہی تھی۔ اور ایسے سنسی خیز بیانات سے لبریز خبریں ٹی وی رپورٹرز اپنے کیمروں کو ریڈی کرکے شوٹ کررہے تھے۔ سب کی خواہش تھی ویڈیو میں اسپتال صاف دکھائی دے۔ ایک بہترین شاٹ کی کوشش میں پورا احاطہ اسپتال کا اس وقت پریس کلب کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
ایک ایمبولینسس بھیڑ میں جگہ بناتی ہوئی کسی صورت داخلی دروازے کی جانب بڑھی۔ اسپتال کا عملہایک اسٹیرچر کو دھکیلتے ہوئے لارہا تھا۔ جس کے ہمراہ افسوس و غمزدہ ذدہ چہرہ لئے اینٹی نارکوٹکس کے چیف ابتہاج فاروقی کو آتے دیکھا۔
تھوڑی ہی دیر میں جوتوں کی گونج سے پورا احاطہ گونج رہا تھا۔ سب کے قدم اسی جانب بڑھ گئی تھی جس جانب ابتہاج اسٹریچر کے ہمراہ نکل رہا تھا۔
سر کیا آپ جانتے ہیں میڈم پہ حملہ کرنے والے تھے؟
سر کیا آپ کو پتہ ہے ان ہی حملہ کیوں ہوا؟ سر کیا زونیا میڈم کو پہلے کوئی دھمکی ملی تھی؟
غرض سوالات کی بوچھاڑ میں اسٹریچر کو ایمبولینس میں چڑھا دیا گیا۔ کھڑ بھڑ کی آوازوں کے ساتھ دروازہ بند ہوا ابتہاج ہاتھ میں ایک عدد فائل تھامے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔
لندن
سر میں اسٹوڈینٹ ایکسچینج پروگرام کے تحت آسٹریلیا سے یہاں پڑھنے آیا تھا۔
آج ہمارا آخری دن تھا یہاں تو جامعہ کے دوستوں کے ساتھ ہم ہاسٹل کے پاس ایک ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے۔ مگر اچانک وہاں کچھ لوگ آئے اور میرے کچھ دوستوں کو گھسیٹ کے باہر لے آئے ریستوران کا مالک ایک بوڑھا شخص ہے جو شاید کوریا سے تعلق رکھتا ہے۔
اس نے خوف سے دروازے بند کر لیے جس کی وجہ سے ہماری مدد کو کوئی نا آیا اور انہوں نے ہم آٹھ میں سے چار کو اسی وقت مار دیا۔
باقی ہم چار سے انہوں نے کہا کہ ڈرگز کے پیسے دیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرے دوستوں میں سے کوئی ڈرگز بھی لیتا تھا۔۔ انہوں نے پیسے نا ملنے پہ باقی تین کو بھی گولی مار دو۔ باقی ایک میں بچا تھا جس کو کسی بات کا کوئی علم ہی نہیں تھا کہ میرے ساتھ رہنے والے کن کاموں میں ملوث ہیں۔ میں بہت ڈر گیا تھا اپنی جان بچانے کیلئے مجھے کوئی تدبیر نہ سوجھی تو میں نے ساتھ کھڑے ہوئے شخص کی گن چھین کر اس کی کنپٹی پہ رکھ دی اور گاڑی لے کر وہاں بھاگ نکلا۔ وہ لوگ میرا مسلسل پیچھا کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں آپ لوگ آگئے اور میں یہاں۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے زرا بھی علم نہیں کہ گاڑی میں کیا کیا ہے۔
ٹھیک ہے اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو یہ میرا وعدہ ہے میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ لیکن اگر تو تم جھوٹے نکلے یا اس سب میں تمھیں ملوث پایا تو سزا سے بچ نہیں پاؤ گے۔
پولیس اہلکار کی بات سن کر زارون نے گردن ہلائی اور سہمی ہوئی نگاہوں سے ہامی بھرمی۔
گھبراؤ نہیں تم یہاں محفوظ ہو۔ میں گھر جارہا ہوں میرے ڈیوٹی آوورز ختم ہوگئے تھے۔ ایمرجنسی کال پہ آنا پڑا۔ آرام سے سوجاؤ صبح ملاقات ہوگی کچھ چاہیے ہو تو ان سے مانگ لینا۔
۔۔۔۔
جھمورا ٹی وی  کا دفتر
سر آپ کہاں جارہے ہیں، آپ کا شو ہے۔ زارون کو ہال سے باہر جاتے دیکھ اس کے اسسٹنٹ جنید نے ٹوکا۔
میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے،میں گھر جارہاہوں۔
لیکن سر شو کون کرے گا؟ اس کی پریشانی بھی جائز تھی ہفتے میں چار دن آپ کے ساتھ زراون سیّد عوام میں کافی حد تک مقبول تھا۔
لائیو جانے والے اس شو کو زارون کے علاوہ کوئی اور کر بھی نہیں سکتا تھا۔
ہائے رے پاکستانی صحافی ان کی زندگی بھی کسی مشین کی مانند یے۔ ایک ریس کے گھوڑے کی طرح آنکھوں پہ پٹی باندھے ایک سمت میں دوڑتے رہتے ہیں۔ بناء کسی چھٹی کے۔
اسے ریٹنگ کی بھوک کہہ لیں یا پاکستان کے حالات جہاں ہر خبروں کی بہتات میں صحافیوں کی زندگی دب کر رہ گئی ہے۔
مجھے نہیں پتہ۔۔ دو لفظ کہتا زارون وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
اس کی آنکھوں میں سرخی اتر آئی تھی۔ ناجانے یہ سرخی کس بات کی تھی۔ غصہ، غم یا کچھ اور ۔۔۔
دارب خان دوسرے فلور سے اتر کر اندر آگئے تھے اور اشارے سے جنید کو مزید کچھ بولنے سے روک دیا۔ وہ زارون کا زونیا کی طرف جھکاؤ دیکھ رہے تھے اور اب جبکہ اس کی موت کی خبر گردش کر رہی تھی وہ اس کی حالت کو اچھے سے سمجھ رہے تھے۔
آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے زارون ایک شادی شدہ لڑکی کی محبت میں مبتلا ہے۔ یہ گناہ کررہا ہے لیکن وہ اس وقت سے محبت کر رہا ہے جب ابتہاج اس کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔
اگر اصولی طور پہ دیکھا جاتا تو زارون کی زونیا سے محبت کے درمیان ابتہاج آیا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ زونیا نے کبھی زارون سے محبت نہیں کی۔
دونوں بلکہ تینوں کی طرف سے کوئی ایک بھی قصوروار نہ تھا۔ مگر پھر بھی ایک دل تو ٹوٹا ہی تھا۔ مگر یہ کیا ہوگیا تھا، زونیا ہی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ ابتہاج اور ارون اسے کسی کی محبت نصیب نا ہوئی۔
ارون اپنے فلیٹ میں اکیلا رہتا تھا، اس کا کوئی رشتہ یہاں اتنے سالوں میں کسی نے نا دیکھا نا کبھی ارون کی زبان سے سنا۔
اپنے فلیٹ میں داخل ہوکر سیدھا خواب گاہ میں داخل ہوا اور بستر پہ اوندھے منہ گرگیا۔

زونی۔۔۔ مت جاؤ پلیز۔۔ تکیے کو مٹھیوں میں جکڑے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

Zard Shafat (زرد صحافت)Where stories live. Discover now