دیوان پیلس۔
ابا جی آخر چل کیا رہا ہے۔ ہماری بھتیجی نہیں تھی وہ۔ یہ فیصلہ ابتہاج اکیلے کیسے لے سکتا ہے۔ اس کی تدفین اس گھر سے ہونی چاہیے تھے۔ وہ اس گھر کی بیٹی ہے، شرعی لحاظ سے تو مرنے کے بعد نکاح بھی موقوف ہوجاتا ہے۔ اسے لحد میں اتارنے حق بھی نہیں اس کے پاس ۔۔
سفیر دیوان کے بڑے بیٹے محمد رضا اور زونیا کے تایا اس بات سے سخت خفا تھے کہ نا ہی زونیا کا جسد دیوان پیلس لایا گیا تھا نا ہی کسی کو آخری دیدار نصیب ہوا تھا۔ آئی تھی تو بس یہ خبر کہ زونیا کی تدفین ہوگئی ہے۔
سفیر دیوان تکلیف سے دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ مگر زبان سے چند لفظ ہی ادا ہوئے۔
دعا کرو اس کیلئے، اسے تمھاری دعاؤں کی سخت ضرورت ہے۔
یہ چند الفاظ کہتے وہ اپنی خواب گاہ کی جانب چل پڑے تھے۔
کیا کہا ابا جی نے۔۔ ان کی بیگم جو دور کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی تھیں سفیر صاحب کے جاتے ہی تیزی سے اپنے شوہر کے پاس آئیں۔
کچھ نہیں۔۔ آپ نے بات نہیں کی اب جائیداد کا کیا ہوگا؟ اس کے شوہر کو کچھ نہیں ملنا چاہیے۔ میں صاف کہہ رہی ہوں ایسا ہوا تو میں کورٹ جانے سے بھی نہیں رکوں گی۔ یہ میرے بچوں کا حق ہے۔ میں ایسے کسی باہر والے کو لیجانے نہیں دوں گی۔ پہلے ہی آپ کے ابا جی نے جو ظلم کرنا تھا میرے بچوں کے سارتھ وہ کر چکے ہیں۔آہستہ بولیں نور بیگم ابا جی نے سن لیا تو مل گیا آپ کو۔۔
تو میں غلط کیا کہہ رہی ہوں اٹھا کر آدھی جائیداد دے دی یہ بچے ان کے نہیں ہیں کیا؟ عارفین بھائی کا جو حصہ تھا دے دیتے۔۔ہم کون سا لالچ دکھا رہے تھے۔
حق بات بھی بری لگنے لگتی ہے اگر موقع محل موزوں نا ہو۔ حالات بات کہنے کیلئے سازگار نا ہوں۔ وہی حال نور کا تھا انہوں نےبات صحیح کہی تھی مگر اس کو کہنے کا موزوں وقت یہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔
فاروقی مینشن
جناب آپ کیلئے کسی حشمت صاحب کا فون ہے۔ ابتہاج کے کمرے کے دروازے پہ ملازم کی جناب سے دستک ہوئی۔
میں نے کہا تھا مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔ آپ لیجائیے۔۔ روکھے سے لہجے میں انکار کردیا گیا۔
صاحب وہ کہہ رہے ہیں ایمرجنسی ہے بات کرنا ضروری ہے۔
خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر کورڈ لیس لے کر کان سے لگایا۔ جو ہیلو سنتے ہی بیتابی سے چہلک پڑا۔
سر میں رئیس احمد بات کر رہا ہوں، جن دو لوگوں نے میڈیم پہ حملہ کیا تھا وہ گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ آپ جیسے ہی فری ہوں یہاں آجائیے گا۔ میں نے کسی کو بھی ان لوگوں کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔میں ہیڈ کواٹر ہی آرہا تھا۔۔ فون جلدی سے ایک طرف رکھا۔
ابتہاج۔۔ کسی نے پیار سے پکارا۔ فاروقی صاحب تھے ان کے ہمراہ خجستہ بھی موجود تھیں۔
بیٹے ہم تمھارے ساتھ ہیں کبھی خود اکیلے محسوس نہیں کرنا۔ تم بے فکر ہوکر جاؤ باقی ہم سب سنبھال لیں گے۔کیوں خجستہ میں صحیح کہہ رہا ہوں۔
جی بلکل۔۔ ابتہاج بیٹا آپ فکرمند نہیں ہونا ہم آپ کا راز راز ہی رکھیں گے کسی کو کچھ علم نا ہوگا۔
اپنی ماں کی معصومیت دیکھ ابہتاج مسکرا کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔
اینٹی نارکوٹکس ہیڈ کواٹرز، کراچی۔
سر ان دونوں کو باندھ کر رکھا ہے اب تک کوئی اندر نہیں گیا۔
گڈ ورک رئیس ۔۔ اپنے جونیئر کی حواصلہ افزائی کرتا ہوا وہ لاک اپ میں داخل ہوا۔ جہاں وہ دو درندے قید تھے جنہوں نے زونیا پہ گولیاں چلائی تھیں۔
سر ہم کچھ نہیں جانتے ہمیں تو بس پیسے ملے تھے۔کس نے دیے کیوں دیے ہمیں کچھ نہیں معلوم ۔۔ ابتہاج کے اندر قدم رکھتے ہی دونوں گھگیانے لگے۔
پیسے کیسے ملے تھے؟
صاحب پرانی بستی میں چائے والے ہوٹل میں پچھلے ہفتے ایک آدمی نے ہمیں یہ کام دیا تھا۔
اس کی بڑی سی داڑھی تھی اور سر پہ اسکارف اوڑھا ہوا تھا۔ آنکھوں پہ بھی بڑا سا کالا چشمہ لگایا ہوا تھا۔
پیسے اور تصویر ساتھ دی تھی۔ پھر ہم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔۔
ایک سوال کے جواب میں پوری داستان مل رہی تھی۔
ٹھیک ہے پھر تم میرے کسی کام کے نہیں۔ ہوسٹلر میں سے گن نکال کر لوڈ کی۔
نہیں نہیں صاحب۔۔ رسیوں سے بندھے دونوں لڑکے کرسیوں کے ہمراہ گڑگڑا رہے تھے۔
خود ہی بتاؤ میری بیوی کے قاتلوں کا میں کیا کروں۔۔
صاحب ہم نے خود سے نہیں مارا صاحب ہمیں معاف کردو صاحب ۔۔
سچ کہتے ہیں موت کا خوف انسان کے اوسان خطا کر دیتا ہے۔ ان دونوں لڑکوں کے ساتھ اس وقت یہی ہورہا تھا۔
وہ خوف سے کچھ بھی کہہ رہے تھے۔
نا جس نے تم سے کہا تم اس کے بارے میں بتا رہے نا کوئی کام کی بات پھر میں تمھیں زندہ کیوں رکھوں؟
۔۔۔۔۔
لندن
لڑکے تم خوش نصیب ہو جو تمھارا کیس آفیسر عارفین دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ کوئی بھی آفیسر ہوتا وہ تمھاری اس کہانی پہ یقین نہیں کرتا اور تم تو گئے تھے ہمیشہ کیلئے اندر۔۔
5 کلو گرام کوکین کا پیکٹ تمھاری گاڑی میں سے برآمد ہوا تھا۔ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ ایک آفیسر زارون کو لاک اپ سے لیکر گاڑی تک لیجارہا تھا۔ جہاں سے آفیسر عارفین زارون کو عدالت میں پیش کرنے والے تھے۔ ان کے ساتھ دو ساتھی پولیس والے اور تھے جبکہ چوتھا ڈرائیوار تھا۔
گاڑی میں سوار وہ جیسے بروکلن بریج پہ پہنچے ان پہ فائرنگ شروع ہوگئی۔
آفیسر عارفین شاید حملے کیلئے پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔
پولیس کی ایک گاڑی ناجانے کہاں سے آئی اور دائیں جانب سے کوور کیا۔
زارون تم نیچے کو ہوکر بیٹھ جاؤ۔ عارفین نے کھڑکی سے باہر نکلتے ہوئے زارون کو ہدایت کی۔ جسے پاتے ہی وہ سمٹ کر نیچے ہوگیا۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں بروکلن بریج سے گاڑیاں گزر رہی تھیں۔
تھوڑی سی دیر میں سوشل میڈیا پہ نیوز وائرل ہونی شروع ہوگئی تھی۔
بریج سے اترتے ہی پولیس کی گاڑیوں نے چاروں طرف سے عارفین کی گاڑی کو گھیرے میں لیا اور پیچھے آتی حملہ آوروں کی گاڑیوں پہ نشانہ داغا۔
آفیسر عارفین اپنی فہم و فراست سے زارون کو عدالت صحیح سلامت پیش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے۔
وہ اپنے ساتھ ثبوت بھی لائے تھے جس سے ثابت ہوتا تھا زارون واقعی بےقصور تھا اور اس سب میں غیر اردای طور پہ پھنسا۔ مگر وہ لوگ ہاتھ نہیں آئے تھے جو اس سب کے پیچھے ملوث تھے۔
تمھاری جان کو خطرہ ہے جب تک وہ لوگ گرفتار نہیں ہوجاتے تم ایسا کرو تب تک میرے گھر چلو۔۔
عارفین کی بات سن کر زارون مارے حیرت کے گنگ انہیں دیکھتا رہا۔
ایک مسلمان بھائی دوسرے مسلمان کا ساتھ نہیں دے گا تو پھر کون دے گا؟ ایسے مت دیکھو میں تم پہ کوئی احسان نہیں کر رہا ہوں بس اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔ اپنے اللّٰه کی خوشنودی پانے کیلئے کر رہا ہوں۔ اب منع نہیں کرنا آجاؤ۔
ہاسٹل سے ضروری سامان لیے وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔
وہ ایک خوبصورت سا لکڑی کا کاٹیج تھا۔ جس کے باہر چھوٹا سا لان تھا۔ جس میں رنگ برنگے قسم قسم کے پھول لگے ہوئے تھے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے کی دیوار پہ ایک عورت کی تصویر لگی ہوئی تھی بلا کی حسین وہ عورت کسی کو بھی اپنے حسن کا دیوانہ بنادے جو کوئی بھی دیکھتا تو مبہوت رہ جاتا تھا۔ اپنی گود میں ہوبہو اس جیسی چھوٹی سی بچی لیے کھڑی تھی۔ جہاں دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
زارون کی نگاہیں بھی تصویر پہ ٹک گئی تھیں۔ یہ میری بیوی امِ حبیبہ اور وہ میری بیٹی ہے زونیا۔
عارفین تعارف کروارہے تھے۔
زارون آنکھیں کھول میرے بھائی۔۔۔ باذل اس کا گال تھپتھپا رہا تھا۔ جس کا بخار کافی سنگین حد تک بڑھ چکا تھا۔ مگر اس نے آنکھیں نا کھولیں۔
اچھا کیا گل اماں آپ نے مجھے بتا دیا۔ اس کو اتنا بخار ہورہا ہے۔۔ باذل ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرتا اس کی ملازمہ سے بات کر رہا تھا۔
صاحب میں تو ڈر ہی گئی تھی۔ صاحب ایسے چھت کو دیکھتے جارہے تھے۔ اور وہ اسی لڑکی کا نام لیے جارہے تھے۔
یہ جو ابھی لیے۔۔ زارون کی طرف اشارہ کیا جو ہذیانی کیفیت میں زونی زونی ہی بڑبڑا رہا تھا۔
باذل چپکا سا ہوگیا،وہ اپنے دوست کی مدد کیسے کر سکتا تھا بھلا جو لڑکی مرگئی کہاں سے آئے گی۔
اتنی سرخ آنکھیں ہورہی تھیں۔ صاحب آپ کو کچھ چاہیے چائے وغیرہ بنا کر لاؤں آپ کب سے پٹیاں کر رہے ہیں تھک گئے ہوں گے۔
بزرگ ملازمہ کہانی سناتیں کبھی انہیں مہمان کا خیال آتا۔
YOU ARE READING
Zard Shafat (زرد صحافت)
Randomصحافت، یعنی حق اور سچ کی بات کہنا۔۔ مگر کچھ ایسے عناصر جو اس کو بلائے طاق رکھ دیں، صحافیوں کے بھیس میں ایسی کالی بھیڑیں ہی زرد صحافت کی بنیاد ڈالتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی جہاں دو صحافی ایک جسے زرد صحافت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسے پیار ہوگیا ہے...