قسط اول

29 1 0
                                    

دلیل اخبار کا دفتر:
کیا بات ہے سر آپ اتنے پریشان کیوں ہیں۔۔ میں دیکھ رہی ہوں جب سے یہ لیٹر آپ کو ملا ہے۔آپ بہت بے چین لگ رہے ہیں۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔ زونیا نے جبّار عزیزی کے ہاتھ میں کچھ کاغذات دیکھے جن کو پڑھنے کے بعد ماتھا پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔
انہوں نے کاغذات اس کے سامنے رکھ دیئے۔جسے بغور پڑھا۔
یہ سب کیا ہے سر ۔۔ اتنا بڑا قرض کب لیا۔۔ پچھلے چار سال میں میرے سامنے تو کبھی ایسی بات نہیں ہوئی۔
گڑیا۔۔ یہی تو بیٹے کبھی قرض لیا ہی نہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کیا کیا جائے۔عزیزی صاحب فکرمند تھے۔
ان پہ لوکل بینک کی طرف سے سو کروڑ کا قرض تھا۔ پورا دلیل کا آفس بھی بیچ دیتے بشمول مشینیں اور اپنا وہ گھر جہاں وہ رہتے تھے تب بھی ممکن نہیں تھا کہ سو کروڑ کا قرض اتار پاتے۔
سر پولیس کو فون کرتے ہیں ان کو بتاتے ہیں دھوکا ہورہا ہے۔زونیا نے مشورہ پیش کیا۔
۔۔۔۔۔۔
سر آپ کا سوسائٹی میں ایک نام ہے اس لئے میں ایک موقع دے رہا ہوں ورنہ ایسے کیسز میں پولیس شامل ہوتی نہیں ہے۔ اے ایس پی نے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
مہربانی ہے صاحب آپ کی۔۔۔ ہم نے دستخط نہیں کئے نا ہی کوئی قرض لیا یہ کسی کی سازش ہے۔ عزیزی صاحب اس وقت پولیس اسٹیشن میں موجود تھے۔
آپ فکر نہیں کریں ہم بینک والوں سے اوریجنل پیپرز لے کر ان کی جانچ کروالیں گے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اے ایس پی نے کاغذات کی ایک کاپی اپنے پاس رکھ لی۔
زونیا باہر کار میں انتظار کررہی تھی۔ عزیزی صاحب کے باہر آتے ہی وہ نکل پڑے۔
۔۔۔۔۔
فاروقی مینشن
ابتہاج شادی کو ایک مہینہ بھی نہیں ہوا بیٹا اور تم لوگ بناء چھٹی کے پھر کام پر لگ گئے۔ یہی دن تو ساتھ گھومنے پھرنے کے ہوتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارو،سمجھو ایک دوسرے کو۔۔  پھر تو سب اپنی لائف میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ مسسز فاروقی فون پہ اپنے صاحبزادے سے مخاطب تھیں۔
لو زونیا بھی آگئی۔ بات کرو اس سے۔۔ گھر میں داخل ہوئی زونیا کے ہاتھ میں لینڈ لائن کا رسیور تھما دیا۔ زونیا خاموشی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
ارے میرے سامنے کیسا شرمانا میں ماں ہوں کر لو بات۔۔
خجستہ یہاں آنا زرا ۔۔ دور سے سارا منظر دیکھتے غضنفر فاروقی نے اپنی اہلیہ کو آواز دے کر بلایا۔
کیا کر رہی ہو۔۔ وہ بچے نہیں میاں بیوی ہیں کوئی پرائیویسی ہوتی ہے تم بھی نا۔۔
لو تو میں کونسا کسی کو کچھ بتانے جارہی تھی۔خجستہ خفا ہوئیں۔
تمھارا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ تم یہ چائے پیو ٹھنڈی ہورہی ہے۔ ایک کپ ان کے سامنے رکھا۔
۔۔۔
کیسی ہیں آپ۔۔ زونیا سے پہلے ابتہاج کی جانب سے ابتداء ہوئی۔
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟
میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔
آپ واپس کب آئیں گے۔۔ زونیا کی طرف سے وہ سوال ہوا جس کی توقع ابتہاج کو قطعی نہیں تھی۔ مگر وہ چاہتا تھا کے ہو۔
آپ کہیں تو میں ابھی آجاؤں۔۔۔
میرے کہنے سے آجائیں گے کیا۔۔
تو آجائیں۔۔ زونیا مسکرائی اور فون بند کردیا۔
۔۔۔۔
کراچی پریس کلب
زینت کو انصاف دو۔۔ زینت کے قاتل کو گرفتار کرو۔۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک جمِ غفیر ہاتھوں میں بورڈ تھامے نعرے بازی کررہا تھا۔ جبکہ ایک طرف ایک چھوٹی بچی کی تصویر رکھی ہوئی تھی جس کے سامنے موم بتیاں اور پھول رکھے جارہے تھے۔
پاکستان میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی جن کی عمر 3 سے 7 سال تک تھی، کیسسز سامنے آرہے تھے۔
قصور میں چھوٹے بچوں کے ساتھ 2014 میں کیس سامنے آیا تھا۔
مگر زینت کے اس کیس کے بعد فیصل آباد میں دس سال کے لڑکے کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے بعد لاش ملی تھی۔
ابھی خیبرپختون خواں کے ایک اسکول میں لڑکیوں کو شٹل کاک برقعے بطور تحفہ پیش کئے گئے۔ کسی نے اعتراض کیا زبردستی پردہ کیوں کروا رہے ہو۔ کسی نے کہا اچھی بات ہے اللّٰہ کا حکم ہے۔
خیر سے فساد کی وجہ کا تو برقعے میں ڈھانپ دیا  مگر جس سے بچنے کیلئے پہنایا تھا اس کی درندگی کا تماشہ پھر بھی جاری ہے۔ زونیا اپنے ایک ریسرچ آرٹیکل کے حوالے سے پوری ٹیم کو بریف کرہی تھی۔
سر مجھے تو وہ سٹی ٹائمز کے صحافی نے جو بات کہی تھی اور وہ عدالت میں ثابت نہیں کرپائے ۔۔ وجہ درست لگ رہی ہے۔ اتنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی پھر ان کے ساتھ تشدد 2 سال ڈھائی سال ۔۔سوچ کے وحشت ہوتی ہے۔ زونیا کی بات سن کر ہال میں گہرا سناٹا تھا۔
بیٹے یہ پرواجیکٹ تمھیں بند کرنا پڑے گا۔ عزیزی صاحب ہاتھ میں ایک عدد کاغذ کا ٹکڑا لے کر اندر داخل ہوئے۔
سب نے پلٹ کر ان کی جانب دیکھا جو کافی تھکے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔ اپنی کرسی پہ آکر دھنس گئے۔ ساتھ کھڑے ملازم نے ان کو پانی کا گلاس پیش کیا۔
کیا بات ہے سر آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔ مدیر نے سوال کیا۔
ابھی کچھ دیر میں حکومتی عہدے دار آکر آفس سیل کردیں گے۔ ہم پہ دوسرا فراڈ کا کیس دائر ہوا ہے۔ ساتھ میں ایک سو کروڑ کا قرض بھی چکانا ہے۔ لائف ٹائم بینک کا، ان کے مطابق ہم نے ان سے 4 سال پہلے 70 لاکھ کا قرضہ لیا تھا جس پہ انٹریسٹ کے ساتھ اب وہ سو کروڑ ہوگئے ہیں۔ جس کیلئے ہمیں پچھلے ہفتے ایک عدد یاددہانی بھیجی گئی تھی کہ ایک ہفتے میں پیسے نا جمع کروائے تو ساری جائیداد کی نیلامی ہوگی۔
اوپر سے دوسرا کیس فراڈ کا دارب خان نے دلیل اخبار کے دفتر کی زمین اپنی ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔ عزیزی صاحب کی باتوں نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
۔۔۔۔۔
سمندر کنارے کراچی کا ایک خوبصورت ہوٹل، ایک لکڑی کے تختے جس کے نیچے سمندر کا پانی بہہ رہا ہے اوپر میز کرسیاں لگی ہوئی ہیں جہاں لیمپ کی مدھم روشنی ماحول کو مسحور کن بنارہی تھی۔ کچھ غیر ملکی اور پاکستانی اس پرسکون منظر سے لطف اندوز ہوتے محبت پاش نگاہوں کا اور محبت سے لبریز الفاظ کا تبادلہ کرکے ایک دوسرے کیلئے اپنے احساسات و جذبات جتا رہے تھے۔
ہاں محبت کو ہی تو جتانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی الفاظ واقعی بہت اہم ہوتے ہیں۔ ہم محبت محسوس تو کررہے ہوتے ہیں مگر انہیں سماعتوں سے اپنے اندر محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
جیسے کسی بات کا اثر دیکھ اور سن کر جتنا زیادہ ہوتا ہے ویسے ہی جو بات صرف دیکھی یا صرف محسوس کی جائے میں بہت فرق ہے۔
انہی خوشیاں بانٹتے انسانوں میں دو نفوس ابتہاج اور زونیا تھے۔
ابتہاج کیلئے زونیا اس کی محبت تھی چار سال پہلے جب وہ پاکستان آئی، ایک متحرک سماجی کارکن کی حیثیت سے اس نے ایک تیزاب سے جلی ہوئی لڑکی کیلئے دن رات لڑتے ہوئے گزارے جبکہ اس کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہاں رہے گی۔ کوئی جاب بھی نہیں۔
ائیرپورٹ کے باہر اس لڑکی پہ تیزاب پھینکا کیونکہ اس نے پسند کی شادی کی تھی۔ آٹھ سال بعد پاکستان واپس آئی تو بھائی نے چہرہ بگاڑ دیا۔ اگر کوئی اس کے ساتھ حادثے کے پل سے ساتھ رہا تو وہ تھی زونیا۔
ایک اسکینڈل جہاں کالج اور اسکول کے بچوں کو ڈرگز دئے جارہے تھے اس پورے ریکٹ کا پردہ فاش کرنے کے بعد زونیا دیوان کو دلیل اخبار کی طرف سے جاب آفر ہوئی جسے اس نے قبول کرلیا۔ یہاں سے زونیا کی پاکستان میں باقاعدہ ایک صحافی کے طور پہ زندگی کا آغاز ہوا۔ لیکن زونیا ابتہاج کی منظورِ نظر اس وقت بن چکی تھی جب ائیر پورٹ پہ وہ کسٹم کے نام پہ ڈھکی چھپی رشوت کے مطالبے پہ اچھی خاصی سنا کر نکلی تھی۔ چیخ چلا کر نا اس نے اپنا تماشہ بنایا تھا نا آفیسرز کا مگر شاندار جواب نے باکمال طریقے سے مسئلہ حل کردیا تھا۔
جب یہ معلوم ہوا کہ زونیا دیوان اور کوئی نہیں سفیر دیوان کی پوتی ہے تو رشتہ مانگنے میں کوئی دیر نہیں کی گئی۔ جو حالات دیوان پیلس کے تھے جو رویہ وہاں کے مکین زونیا کے ساتھ رواں رکھ رہے تھے وہ سب سفیر صاحب کے علم میں تھا۔

ابتہاج فاروقی کے خاندان کو کئی سالوں سے جانتے تھے۔ اس کے والد سے عمر میں کچھ سال ہی بڑے تھے۔ سترہ سال کی عمر میں شادی کی بدولت وہ اس عمر میں پرنانا اور پر دادا بھی بن گئے تھے۔ ابتہاج کو وہ بچپن سے جانتے تھے۔
کیا آپ نے کبھی کسی سے پیار کیا ہے؟ زونیا نے ابتہاج سے سوال کیا الفاظ بہت بھاری تھے مگر انداز ایسا تھا مانو کوئی بات ہی نا ہو۔
نہیں کبھی فرصت ہی نہیں ملی۔۔ جواب بھی بناء چونکے ویسے ہی آیا جیسے کیا گیا تھا۔
مگر سننے والی کا چہرہ اس جواب سے گلاب ہو گیا تھا۔
وہ لوگ خواہ مخواہ بول رہے تھے آپ کے ساتھ کوئی تبسم ہوتی ہے آپ اس کو پسند کرتے تھے۔
زونیا کی بات سن کر ابتہاج نے ایک لمحے کیلئے زونیا کو دیکھا اس کے بعد فلک شگاف قہقہہ اور زونیا اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
اس میں ہنسنے والی کیا بات تھی۔۔ میں تو پوچھ رہی تھی۔۔ زونیا کا چہرہ ایک دم اتر گیا تھا۔
تم نے شادی میں تبسم کو دیکھا نہیں تھا؟ ابتہاج نے آگے جھک کر بڑی رازداری سے پوچھا
زونیا نے جلدی سے سر نفی میں ہلایا۔
رکو دکھاتا ہوں۔۔ پینٹ کی جیب سے فون نکال کر ایک عدد تصویر اس کے سامنے کی۔
زونیا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اب کے چونکنے کی باری ابتہاج کی تھی۔
ہووو۔۔  لڑکے کے ساتھ ۔۔۔ منہ پہ ہاتھ رکھے اس نے ابتہاج کو شرم دلانے کی کوشش کی۔
اس سے پہلے کے ابتہاج کچھ بولتا،زونیا ہنس رہی تھی۔ اس کو ہنستا دیکھ ابتہاج بھی ہنس پڑا۔
تم نے مجھے کنفیوز ہی کردیا۔۔
آپ کو کیا لگا آپ ہی مجھے بیواقوف بناسکتے ہیں۔۔
نہیں ۔۔ نہیں۔۔ میری مجال ملکہ عالیہ۔۔ ان باتوں کو چھوڑیے پہلے یہ بتائیں میٹھے میں کیا کھائیں گی؟
کھیر یا گاجر کا حلوہ یا دونوں ۔۔ کھانے کے نام پہ زونیا کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔
جیسا آپ کہیں یو ہائی نیس ۔۔ سینے پہ ایک ہاتھ رکھ کر ادب سے جھکا مانو شاہی غلام ادب سے لورنش بجا لائے۔
۔۔۔۔۔
ارون۔۔ میں تو کہہ رہا ہوں تیرا کام پورا۔۔ وہ لڑکی اپنے گھر کی ہوگئی اب تو بھی واپس آجا کیوں وہاں رہ کر خود کو اذیت دے رہا ہے۔ ارون اپنے گھر میں بیٹھا کسی سے فون پہ باتیں کررہا تھا۔
کیسے آجاؤں اس کی زندگی کو ابھی بھی خطرہ ہے۔ جو کام وہ کرتی ہے اس کی جان کو تو خطرہ ساری زندگی لگا ہی رہے گا کسی نا کسی سے تو کب تک ایسے اس کی حفاظت کرے گا۔ تیری اپنی زندگی بھی تو ہے۔
میری اپنی زندگی آج سے سات آٹھ سال پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ جب سے مجھے اس کی حفاظت سونپی گئی ہے تب سے میری زندگی میری زونی کی ہے۔
بھائی تیرا مسئلہ پتا ہے کیا ہے وہ تیری زونیا نہیں ہے۔۔ وہ دیوان خاندان کی بیٹی ہے شہزادی ہے اور تو ہماری طرح ایک معمولی سا لڑکا تو کیوں نہیں سمجھ رہا ہے۔ میرے پاس کیلی فورنیا آجا۔ یہاں تجھے کوئی اچھا کام مل ہی جائے گا۔ یہاں کوئی لڑکی پسند کرلینا۔ ہوریں رہتی ہیں بھائی یہاں ہوریں ۔۔ بس ایک بار آجا تو۔۔
چھوڑ بھائی تو میری فکر نہیں کر۔۔ تو سیٹ ہے نا وہاں اپنا خیال رکھ۔۔
عام زندگیاں فیری ٹیل جیسی نہیں ہوتیں، اکثر ہم جن سے پیار کرتے ہیں وہ ہم سے نہیں کرتے اور جو ہم سے کرتے ہیں ہم ان سے نہیں کرتے۔۔۔
۔۔۔۔
دلیل کا دفتر سیل ہوچکا تھا۔ گورنمٹ اہلکاروں نے عزیزی صاحب کا گھر بھی سیل کر دیا تھا۔
سر آپ لوگ میرے ساتھ گھر چلیں۔۔ زونیا کی بات سن کر انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
نہیں گڑیا۔۔تم گھر جاؤ میں اور تمھاری آنٹی اس کے گھر رہیں گے آج اس کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دو۔۔ انہوں نے ایک نوجوان لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو ان کا ضروری سامان گاڑی میں رکھ رہا تھا۔
سر آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہو آپ مجھے ضرور بتائیں گے۔ اور فکر نہیں کیجئے گا مجھے بھروسہ ہے آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا میں ثبوت لاؤں گی اور عدالت آپ کو پورے عزت و وقار کے ساتھ سب واپس دے گی۔ زونیا پورے جوش سے کہہ رہی تھی۔
۔۔۔۔

Zard Shafat (زرد صحافت)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora