قسط سوئم

9 1 0
                                    

تم کیا یہاں سوتے رہتے ہو۔۔ کرتے کیا ہو؟ تمھیں خبر نہیں ہوئی اور وہ لوگ۔۔۔ غم و غصے سے بھپرا ہوا لڑکا میں اپنی ماں کی بکھری ہوئی قبر کے سامنے کھڑا تھا۔
معاف کردیجئے جناب۔۔ ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائے۔ کچھ اوباش لڑکوں کا گروہ ہر رات یہاں آ دھمکتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں قبروں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ میرے بھائی رمضان نے ان لڑکوں کو ٹوکا تو انہوں نے مار مار کر اس کا ہاتھ توڑ دیا۔ ایک 13 سال کے لگ بھگ عمر والا لڑکا جس کے ایک ہاتھ میں پلستر بندھا تھا دوسرے ہاتھ سے قبر کی مٹی درست کر رہا تھا۔
میرا بھائی رجب اور میں ہم تینوں یہاں پچھلے 8 مہینے سے کام کررہے ہیں۔ صاحب غریب لوگ ہیں ہماری تو پولیس والے بھی نہیں سنتے آپ صاحب لوگ ہیں آپ شکایت درج کروائیں گے تو کچھ ہو بھی پائے گا۔ کم عمرگورکن نے وہاں ہونے والے اس اخلاق سے گری ہوئی بد ترین حرکت پہ اپنی کمزوری کا اظہار کیا۔
پولیس کہاں کسی کی داد رسی کرتی ہے یہ لوگ تو بس عوام کا تماشہ بنانے کیلئے بیٹھے ہیں۔بڑبڑاتا ہوا  فاتحہ کے بعد وہ لڑکا وہاں سے نکل گیا۔
پولیس کاروائی نہیں کرتی بعد کی بات ہے پہلا سوال تو یہ ہے کیا آپ ان کے پاس مدد کیلئے گئے۔رویے کی شکایت تو دوسری بات ہے۔
۔۔۔۔۔
سر میں میرے اگلے گواہ اور اس کیس کےسب سےاہم شخص کو بلانا چاہوں گا جنہوں نے تحقیق کی اور اس سارے معاملے کی حقیقت تلاش کی۔
مس زونیا دیوان۔۔
جی مس زونیا آپ اپنا تعارف پیش کردیں اور ہمیں اس کیس کے حوالے سے بتائیں۔
میں پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی ہوں اور دلیل اخبار میں بطور نائب مدیر کام کررہی ہوں۔
چار سال پہلے جب میں پاکستان آئی تب سے یہاں کام کررہی ہوں۔
چار سال پہلے آپ کہاں کام کررہی تھیں؟
میں لندن میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھی وہیں پلی بڑی ہوں۔ چونکہ میرے والدین کا انتقال ہوچکا ہے اس لئے پڑھائی مکمل ہونے پہ میں یہاں پاکستان آگئی۔
آپ ہمیں یہ بتائیں لائف ٹائم بینک سے قرض لینے کے حوالے سے جب آپ نے تحقیقات شروع کیں تو کیا پایا۔
جج صاحب پچھلے چار سال سے میں دلیل کا حصہ ہوں۔ اگر اخبار قرض میں ہوتا تو ہماری تنخواہوں پہ اثر پڑتا مگر سب کو لگاتار ہر ماہ کی تنخواہ ملتی رہی۔ یہ بات جاننے کیلئے میں فرداً فرداً سب سے ملی ہوں اور ایک فائل میں ان سب کا بیان بمع دستخط موجود ہے۔
دوسری بات جو پروسیکیوشن نے کہا کے پیسوں کی ضرورت تھی یہ ہمارے فائنینس ریکارڈ کے زریعے ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔
مگر اس وقت سب سے اہم مدعا یہ ہے کہ لائف ٹائم بینک نے ایسا دعویٰ کیا ہی کیوں؟ وکیلِ صفائی کے سوال پہ گردن ہلائی۔
جی اس کا میرے پاس ثبوت ہے۔ میں نے ہمارے کیمرہ مین رضوان علی کے ساتھ مل کر ایک اسٹنگ آپریشن کو انجام دیا۔
جج صاحب اس سی ڈی میں آپ واضح دیکھ پائیں گے دراب خان لائف ٹائم بینک کے سربراہ کو پیسوں سے بھرا بریف کیس دے رہے ہیں۔
آپ نے دونوں کو بات کرتے ہوئے سنا وہ یہ پیسے کیوں دے رہے تھے؟
جی ہاں۔۔وہ کہہ رہے تھے، وہ عزیزی صاحب کو برباد کرنا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے دلیل کے دفتر کی زمین پہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان کی ہے اور دوسرا کیس ان کو کرنے کو کہا کہ وہ کہیں سو کروڑ کے ڈیفالٹر ہیں عزیزی صاحب اور اخبار کی کل آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ سو کروڑ یونہی دے پائیں اس لئے ان کے گھر آفس غرض ہر ایک چیز نیلام ہوجاتی جو کہ ہونے والی تھی۔
یور آنر یہ ہے وہ سی ڈی اس میں آپ پیسوں کا لین دین اور آوازیں واضح طور پہ سن سکتے ہیں۔ سی ڈی میں جو مناظر ہیں وہ اصلی ہیں اس کا ثبوت بھی بطور تصدیقی رپورٹ آپ کی میز پہ موجود ہے۔
تمام گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں یہ عدالت اس نتیجے پہ پہنچی ہے کہ دلیل اخبار کے مالک اور کرتا دھرتا جبّار عزیزی نے لائف ٹائم بینک سے کسی قسم کا کوئی قرض نہیں لیا۔ اس لئے یہ کیس خارج کرتی ہے اور ساتھ عدالت کو گمراہ کرنے اور ایک معصوم شہری کو دھوکا دینے کے جرم میں دارب خان اور لائف ٹائم بینک کے مالک ملرّم علی فارس کو فوراً حراست میں لینے کا حکم سناتی ہے۔
۔۔۔۔۔
تم نے اچھا نہیں کیا؟ میں اپنی زمین لے کر رہوں گا۔ تمھیں عرش سے فرش پہ نا لایا تو میرا نام دارب نہیں۔ کورٹ کے احاطے میں کھڑے عزیزی صاحب کو دارب خان کھلے عام دھمکی دے رہا تھا۔
دارب صاحب آپ جانتے ہیں اس طرح کورٹ میں کھڑے ہو کر دھمکی آپ کیلئے کس قدر مہنگی پڑسکتی ہے۔ زونیا کہیں سے نکل آئی تھی اس نے دونوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سن لی تھی۔
کسی کی خاموشی کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔۔
تم۔۔ تمھیں اندازہ بھی نہیں تم کس دلدل میں دھنستی جارہی ہو۔ ایک دن بہت پچھتاؤ گی۔
حق کہنے والے نہ جھکتے ہیں نہ ڈرتے ہیں۔ یہ سچ کی تاثیر ہے کسی کو بھی بہادر بنا دیتی ہے۔ زونیا  مسکرائی۔ دارب خان غصے سے گھورتا رہا پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔
۔۔۔۔۔
دلیل کا دفتر
دفتر کے بیرونی حصے میں ایک عدد لکڑی کی ٹیبل جس پہ کپڑا ڈال کر خوب اچھے سے سجایا ہوا تھا۔ اس پہ ایک عدد بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا۔
ہاتھ میں بیگ پکڑے زونیا جیسے ہی اس طرف آئی تو چونک اٹھی۔
وہ ہمیشہ گاڑی پارکنک مال میں پارک کرکے آفس پیدل آتی تھی۔
ایک دفعہ عزیزی صاحب نے پوچھا کہ آخر اس کی کیا منطق ہے تو جواب ایسا کمال تھا کہ سب لاجواب ہوجائیں۔ وہ ایک جونیئر صحافی تھی اور مرسیڈیز کی مالک تھی۔
سر میری دولت اپنی کمائی ہوئی تو ہے نہیں خاندانی دولت ہے دادا صاحب چاہتے ہیں کہ گاڑی استعمال کروں تو لے آتی ہوں مگر یہاں میرے ساتھی جو روز آٹو رکشہ میں سفر کرتے ہیں۔ کسی دن مجھے اس گاڑی سے اترتے دیکھ لیا اور انہیں میرے انداز میں تکبّر لگا تو ۔۔ ویسے بھی جب دولت بناء محنت کے کم عرصے میں آجائے تو تکبّر آہی جاتا ہے۔ دنیا میں دوست کھو دوں اور آخرت میں اللّٰه کی محبت اب بتائیں کیا فائدہ؟
مگر اس کو وہاں پارک کرنے سے فائدہ ہی فائدہ میرے اللّٰه میاں خوش،دوست خوش اور صحت بھی اچھی اتنا چل کر جو آؤں گی۔ بولیں ہے نا فائدے کا سودا۔۔
بیٹے ہمیشہ زبان کو لگام دینے والی دلیل کہاں سے لاتی ہو۔ تم وکیل ہوتیں تو کورٹ میں بس تمھارا طوطی بولتا۔ عزیزی صاحب اکثر زونیا کے دلائل سن کر ایسے ہی داد دیتے تھے۔
اب اس بات کے بعد تو بولنے کی کوئی گنجائش بچتی ہی نہیں۔
خیر زونیا جیسے ہی اندر داخل ہوئی اتنی سجاوٹ دیکھ کر کچھ دیر کیلئے وہیں ٹھر گئی۔
زونیا بیٹے وہاں کیوں کھڑی ہو اندر آؤ۔۔ عزیزی صاحب نے اس کو اشارے سے اندر بلایا۔ جو بڑے بڑے بینرز پہ "شکریہ زونیا دیوان۔ شکریہ، شکریہ دوست" اس جیسے سلوگنز دیکھ کر رک گئی تھی۔
سر یہ ۔۔ اس سب کی کیا ضرورت ہے۔ میں ایک صحافی ہوں میرا کام ہے سچ کیلئے لڑنا حق کی آواز بلند کرنا۔ پھر تو یہ میرا اپنا آفس تھا۔ یہ اس طرح مجھے شکریہ کہہ کر پرایہ کیوں کیا جارہا ہے۔
دیکھا میں کہا تھا زونیا میڈم کو برا لگے گا۔ زونیا کی بات سن کر ساتھ کھڑے ایک جونئیر رپورٹر نے سب کو دیکھا۔
نہیں برا نہیں لگا اسے بس تھینک یو کہنے پہ تھوڑا بھاؤ کھا رہی ہے۔ چلو چپ چاپ کیک کاٹو بہت بھوک لگی ہے۔۔ رپورٹر ڈیسک کی انچارج شمسہ خبیب نے زونیا کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
شمسہ کی بات پہ سب ہی ہنس پڑے۔
زونیا بیٹے آپ نےجو کام کیا ہے اس کو کرنے کیلئے حوصلہ چاہیے آج کے زمانے سگا بھائی کسی کا نہیں ہوتا مشکل میں سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں آپ اس دلار کی بلکہ اس سے کہیں زیادہ کی مستحق ہیں۔
سرپرائز صرف یہیں ختم نہیں ہوا ہے، کچھ اور بھی ہے۔ مگر ہہلے کیک کاٹو۔۔ عزیزی صاحب نے ربن بندھی ایک چہری اس کی طرف بڑھائی۔ تالیوں اور ہنسی قہقہوں کے بیچ کیک کٹا۔
عزیزی صاحب نے سب کو مخاطب کیا۔
آج میں آپ کے سامنے دلیل کے نئے مدیر کا نام لینے والا ہوں۔ جس نے اپنے حوصلے اور لگن سے دلیل کو بہت سہارا دیا ہے۔ اگر اس کا ساتھ یونہی ہمارے ساتھ رہا تھا وہ دن دور نہیں دلیل پاکستان کے دوسرے اخباروں سے کہیں آگے نکل جائے گا۔
چلیں میں بتا ہی دیتا ہوں اور وہ نام ہے زونیا دیوان۔۔
جونیئر اور انٹرنیز کی جانب سے زور دار تالیوں میں عزیزی صاحب کے فیصلے کا بڑا گرم جوش خیر مقدم کیا گیا۔ مگر سینئرز جو اس کی وجہ سے دلیل دوبارہ کام کرنے کی حالت میں واپس آگیا ہے کی خوشی منا رہے تھے۔ اب ماتم کناں چہرے لئے اس کو گھور رہے تھے۔
انسان کا مزاج سمجھنا ناممکن ہے۔ جو لوگ کچھ لمحوں پہلے جس لڑکی سے پیار جتا رہے تھے۔ اس کی بدولت ان کے گھر کا چولہا بند نہیں ہوگا۔ متشکر نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اگلے ہی لمحے وہ لڑکی زہر لگ رہی تھی۔ وہ اس کی ترقی قبول نہیں کر پارہے تھے۔
کچھ لوگ قسمت کے بڑے دھنی ہوتے ہیں مگر وہ سمجھ ہی نہیں پاتے۔ کیونکہ اکثر وہ جس چیز کے پانے کی چاہ کرتے ہیں قدرت اس ایک چیز کو چھوڑ کو ہزاروں اچھی چیزوں سے انہیں نوازتی رہتی ہے اور وہ روتے ضدی بچے کی طرح اسے اپنی لاعلمی میں چڑ کر پیچھے پھینک دیتے ہیں کیونکہ انہیں وہ نہیں ملا ہوتا جو انہیں چاہیے تھا۔ اکثر احساس ہوتے ہوتے بہت دیر ہوجاتی ہے۔ کاش کے انسان وقت رہتے باتوں کو سمجھ سکے۔
شو کی ایک زور دار آواز کوئی کچھ سمجھ پاتا ایک گاڑی تیزی سے گزری جس میں سے میں ایک آدمی کھڑکی میں سے آدھا نکلا منہ پہ ڈھاٹہ باندھے اس شخص نے سیدھی دو گولیاں چلائیں اور ایک بار شو کی آواز گاڑی وہاں سے رفو چکر ہوگئی۔
سب کو ہوش تب آیا جب زمین پہ خون میں لت پت زونیا کو تڑپتے دیکھا۔
ارے کوئی ایمبولینس کو فون کرو۔۔ کسی کی بھیڑ میں سے آواز آئی۔
ارے وہ کالی گاڑی کا نمبر لکھا؟ پکڑو اسے۔۔ بھیڑ میں مختلف آوازیں گونج رہی تھیں۔ زونیا وہیں فرش پہ پڑی ہوئی تھی۔ کوئی اس کے پاس نہیں تھا۔
سب یہاں وہاں ہوگئے تھے اور اس کے پاس جانے کیلئے ناجانے کیا سوچ رہے تھے۔
آدھا گھنٹے بعد ایک ایمبولینس شور مچاتی ہوئی بلآخر ہہنچ ہی گئی۔ اب زونیا تڑپ نہیں رہی تھی۔ بلکل بے سدھ پڑی اپنے ہی خون میں لتھڑی ہوئی۔ ڈرائیور نے دلیل کے چپراسی زولفقار کے ساتھ مل کر زونیا کو اسٹریچر پہ ڈالا اور لے گئے۔
زونیا کے فون پہ آنے والی کال نے زولفقار کو اپنی جانب متوجہ کیا دوسری جانب ابتہاج تھا۔
زونی۔۔۔ آج گھر سے نہیں نکلنا انٹیلیجنس رپورٹ ملی ہے تمھاری جان کو خطرہ ہے۔ ابتہاج ایک ہی سانس میں بول گیا۔
صاحب میڈم کو گولیاں لگی ہیں۔ میں ان کو سول ہسپتال لے جارہا ہوں پاس میں یہی ہے آپ جلدی آجائیں۔
تم اس کے ساتھ رہنا جب تک میں وہاں آجاؤں۔۔ بس میں آرہا ہوں۔۔۔ ابتہاج کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا ردِّعمل دے۔ روئے،چیخے چلائے ۔۔ مگر یہاں اس کے کمزور پڑنے سے کوئی تنہا رہ جاتا۔ خود مجتمع کرتا وہ اٹھ کر تیزی سے باہر بھاگا۔ جہاں اس کے قدم اپنی منظورِ  نظر کی جانب تھے۔
۔۔۔۔
سول ہسپتال، کراچی
کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں سے ایک اسپتال جس میں کافی شعبے امراض موجود ہیں۔ جن میں روزانہ لاکھوں مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک کورٹ کچہری اور دوسرا اسپتالوں کے چکر سے اللّٰه بچائے۔ ایک بار پیر پڑ جائے تو چکر لگتے ہی رہتے ہیں۔
مگر میں کہتی ہوں دیکھنے کا نظریہ ہے۔ اگر کسی کو ان جگہوں سے تکلیف ملی تو کوئی خوشی خوشی بھی نکلتا ہے۔
اب اسپتال میں اگر کوئی حاملہ خاتون داخل ہوئی ہیں اور وہ ایک رحمت کو ساتھ لے کر گھر جارہی ہیں تو ان کیلئے اسپتال خوشی کا زریعہ بنا۔ ویسے ہی کورٹ میرج والوں کیلئے بھی زندگی کے نئے سفر کا آغاز اسی کورٹ سے ہوا۔
سول ہسپتال کا ایمرجنسی کا احاطہ اتنا طویل ہے کئی چھوٹے پرائیوٹ اسپتال اس میں سما جائیں۔ اسپتال کی چار دیواری کے ساتھ چادریں اور دریاں بچھائے، اچیائے ضروریہ مین سے چند ساتھ لئے لائن سے ڈھیروں لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ کون لوگ تھے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اندرونِ سندھ سے پیاروں کے علاج کیلئے میلوں کا فاصلے طے کرکے آئے تھے۔ پیسوں کی کمی نے ان کو کھلے آسمان تلے شب بسری کیلئے مجبور کیا ہوا ہے۔ لیکن وہ سنا ہے اندرونِ سندھ کو لندن بنا دیا گیا ہے۔ مگر یہ معصوم لوگ پھر بھی یہاں آنے اور اس طرح رہنے پہ مجبور ہیں۔
انہی لوگوں کے درمیان سے بھاگتا ہوا ایک آدمی اندر کی جانب جارہا تھا۔اسے ایمرجنسی احاطے میں یوں دیوانہ وار بھاگتے دیکھ کسی کو کوئی اچھنبا نہیں ہوتا اگر وہ اکیلا ہوتا۔ صبح سے شام تک ہر دوسرا بندا ایسے ہی بھاگتے ہوئے احاطہ پار کرتا تھا۔
ہاتھوں میں بندوقیں لئے چھ سے سات کھڑی قد کانٹھی والے نوجوان اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔
درست پہچانا وہ کوئی اور نہیں ابتہاج تھا جس کے ساتھ اس کے آفیسرز دوڑ رہے تھے۔
بھیڑ میں سے راستہ بناتے ہوئے وہ کاؤنٹر کی جانب بڑھے جہاں تصویر دکھا کر اس کا پوچھا۔
رسپیشن پہ کھڑی لڑکی نے سہمے ہوئے انداز میں آپریشن تھیٹر کا پتہ بتایا۔
اب سب بالائی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں زونیا کا علاج چل رہا تھا۔
۔۔۔۔

Zard Shafat (زرد صحافت)Where stories live. Discover now