فاروقی مینشن
کیا بات ہے امی سب ٹھیک تو ہے نا۔۔ قاروقی مینشن کے پچھلے حصے میں موجود کواٹرز کے مرکزی دروازے پہ بے چینی سے ٹہلتی ہوئی خجستہ بیگم ابتہاج کی آواز پہ بے صبری سے پلٹیں۔
جلدی چلو میرے ساتھ وہ بہت بے چین ہورہی ہے۔ ہم سے تو سنبھل ہی نہیں رہی تھی۔ بڑے برے ڈگ بھرتا ابتہاج اندر کی جانب بڑھا۔
مینشن کا یہ حصہ تقریباً خالی تھا جیسے کوئی یہاں ہو ہی نہیں۔ یہ پرانا حصہ تھا پہلے ملازمین کے رہنے کی جگہ تھی لیکن بعد میں نئے کواٹرز بننے کے بعد اب یہ حصہ مختصر تو رہ گیا تھا مگر ویران تھا یہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔
اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے مختلف تھی۔ اندر سے یہ حصہ بالکل کای ہسپتال جیسا معلوم ہورہا تھا۔چمکتا صاف ستھرا فرش، سفید دیواریں ، ہر ایک چیز چمک رہی تھی۔ کوئی بھی دیکھتا تو اس چکمتے صاف ستھرے پورشن کو دیکھ کر سمجھ جاتا کہ سب کچھ نیا ہے۔کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے وہاں ایک نرس بیڈ کے پاس کھڑی تھی۔ جو ابتہاج کو دیکھ سکون کا سانس لیا۔ خجستہ نے آنکھ سے اشارہ کیا جس کو پاتے ہی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے ساتھ وہ خود بھی باہر کی طرف رخ کر گئیں۔
ابتہاج بیڈ کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور بستر پہ لیٹی لڑکی کا ہاتھ دھیمے سے اپنے ہاتھ میں لیا۔
آہٹ پاکر آنکھیں کھول دیں۔ جن کے نیچے کافی گہرے حلقے تھے۔ ہونٹ بھی سیاہ پڑگئے تھے۔ چہرہ زرد مگر آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔
اس لڑکی نے بیٹھنے کی کوشش کی۔
لیٹی رہو زونی۔۔ تمھیں ابھی بہت کمزوری ہے۔
میں ۔۔ تھک گئی ہوں لیٹے لیٹے۔۔ آواز بمشکل سنائی دے رہی تھی۔ نقاہت کی وجہ سے آواز اندر ہی گھٹ گئی تھی۔
مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔ چھوٹے تایا اور پھوپھو کو گرفتار تو نہیں کیا نا۔۔ بےچینی سے سوال پوچھا گیا۔
تم کس مٹی کی بنی ہو۔۔ ابتہاج حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
بتائیں نا پلیز ۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈگمگا گئے۔
نہیں کیا۔۔ تم نے جس حال میں درخواست کی تھی وہ مان لی۔ معاویہ میرا دوست ہے نرم مزاج اور اچھے اخلاق کا ہے۔ تمھاری بات کا مان رکھ لیا ہے۔ ورنہ جو ان لوگوں نے کیا ہے وہ قابلِ سزا جرم ہے۔ ابتہاج کے لہجے میں سختی اور ساتھ بے بسی تھی۔
میرے تایا اور پھوپھو ہیں۔ ان کا مجھ پہ پورا حق ہے۔ جو ہوا بھول جائیں ۔۔
ایسی دیوانہ وار محبت ۔۔ بس اتنی سی بات کیلئے آپ نے پورا گھر سر پہ اٹھایا ہوا تھا وہ بھی اس حال میں۔۔
میں اب ٹھیک ہوں۔۔ مجھے ایک بڑی کمال کی لیڈ ملی تھی بچوں کے کیس کے حوالے سے اور یہ سب ہوگیا۔
اس حال میں بھی دماغ یہیں چل رہا ہے۔ آپ اس بستر سے نہیں اٹھیں گی جب تک ڈاکٹرز آپ کو اجازت نہیں دے دیتے۔ اور باہر جانا تو بھول جائیں۔
صرف آپ کے احترام میں میں نے ان دونوں کے ساتھ کچھ نہیں کیا ورنہ میں۔۔
پلیز بزرگ ہیں ہمارے دل میں برائی نا رکھیں معاف کردیجئے۔۔ ابتہاج کی مٹھی کو تھام کر اس کا غصہ کم کرنے کی کوشش کی۔
آپ جانتے ہیں مما اور ڈیڈ کو ایک دوسرے کا پیار تو ملا مگر وہ ہمیشہ کیلئے اپنوں کے پیار سے محروم ہوگئے۔ میں بہت بری ہوں ۔۔ سب مجھ سے دور چلے جاتے ہیں۔۔ پہلے مما پھر ڈیڈی ساری زندگی میں نے اکیلے رہ کر گزاری ہے۔ جب پہلی بار دادا جان مجھے لینے آئے تھے میں بتا نہیں سکتی مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی۔ اب جو رشتے مجھے ملے ہیں میں انہیں کسی قیمت پہ کھونا نہیں چاہتی۔۔ کسی بھی قیمت پہ ۔۔
ابتہاج کے پاس کہنے کیلئے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ کیونکر ہوسکتے ایسی والہانہ محبت کون کسی سے کرتا ہے۔
آج کل تو خاندان کا مطلب اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں تک محدود رہ گیا ہے۔ خون کے رشتوں سے اس قدر محبت شاید ہی کہیں نظر آئے۔
۔۔۔۔۔
چار مہینے بعد
زونی بیٹا گھر سے باہر نا جاؤ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ خدانخواستہ پھر سے حملہ ہوگیا تو۔۔ خجستہ پریشان سی دیکھ رہی تھیں جو بیگ بنارہی تھی باہر نکلنے کیلئے۔
امی۔۔ یہاں بیٹھیں آپ خواہ مخواہ پرہشان ہورہی ہیں۔ جن لوگوں نے حملہ کیا تھا تو وہ تو پکڑے گئے۔اب مجھے کسی سے خطرہ نہیں اور آپ کی دعائیں ہیں نا میرے ساتھ۔ جن کے ساتھ ماں کی دعا ہوتی ہے ان کا بھی بھلا کوئی کچھ بگاڑ پایا ہے۔
بالک صحیح کہا ہے بیٹا۔۔ کسی خاتون کی آواز سن کر دونوں خواتین پلٹیں۔
جدید تراش اور ڈیزائن کا جوڑا پہنے، ہاتھ میں برینڈڈ بیگ اٹھائے پینسل ہیل پہ چلتی ہوئی نور بیگم دروازے کی چوکھٹ پہ آکھڑی ہوئی تھیں۔
خجستہ بیگم کے چہرے کا رنگ یک دم تبدیل ہوگیا مگر زونیا کو دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔
آپ کو مہمان خانے تک محدود رہنا چاہیے تھا۔ آئندہ خیال رکھیے گا۔۔ میرے گھر میں مجرموں کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔۔ صرف زونی کی وجہ سے برداشت کررہی ہوں اس لئے بہتر ہوگا آئندہ اس بات کا خیال رکھیں۔ ان کے قریب جاکر تنبیہ کی جسے نور بیگم سر جھکائے سنتی رہیں۔ خجستہ بیگم چلتی ہوئی باہر نکل گئیں۔
YOU ARE READING
Zard Shafat (زرد صحافت)
Randomصحافت، یعنی حق اور سچ کی بات کہنا۔۔ مگر کچھ ایسے عناصر جو اس کو بلائے طاق رکھ دیں، صحافیوں کے بھیس میں ایسی کالی بھیڑیں ہی زرد صحافت کی بنیاد ڈالتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی جہاں دو صحافی ایک جسے زرد صحافت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسے پیار ہوگیا ہے...