قسط دوئم

6 1 0
                                    

ارے میڈم آپ ہمارے گھر۔۔۔ زونیا اچانک دلیل کے پیون کے گھر پہنچ گئی تھی۔
ہاں بھابھی دفتر سیل ہوگیا ہے اس اتوار نیلامی ہے سب ہی کافی پریشان ہیں یہاں پاس سے گزر رہی تھی تو سوچا بچوں اور آپ سے ملتی چلوں۔ کیسی ہیں آپ۔۔
زونیا ابھی تک گھر کے دروازے پہ کھڑی تھی۔
ارے باجی آپ باہر کیوں کھڑی ہیں اندر آئیے نا۔۔ اس نے ایک طرف ہوتے ہوئے زونیا کو اندر آنے کا راستہ دیا۔
زلفی بھائی کہاں ہیں نظر نہیں آرہے۔۔ ایک کمرے کا گھر تھا۔ جہاں ایک طرف چارپائی لگی تھی جس پہ سلیقے سے گدا اور چادر بچھی ہوئی تھی جبکہ دوسری طرف الماری تھی جس کے ساتھ کاٹن کے دو ڈبے جن میں شاید کپڑے ہی تھی۔
معاف کیجئے گا باجی ہمارا گھر چھوٹا ہے میں آپ کو تمیز سے بٹھا بھی نہیں پارہی ہوں۔ بچے بھی باہر کھیلنے گئے ہیں ورنہ کرسی منگوا لیتی خالہ کے گھر سے وہ پچھلی گلی میں ہی رہتی ہیں۔ زولفقار کی اہلیہ شرمندہ ہورہی تھی۔ زونیا کے پہناوے میں ایسا کچھ خاص نا تھا مگر خاندانی رئیسی اس کے چہرے سے جھلکتی تھی۔
بھابھی آپ مجھے شرمندہ کررہی ہیں۔۔۔ آپ کو پتہ ہے آپ خوش نصیب ہیں آپ کے پاس ایک گھر ہے جہاں آپ کو چاہنے والے اپنے موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس صرف ایک چاردیواری ہوتی ہے مگر  یہ بیچارے لوگ صرف چار دیواری کے قیدی ہوتے ہیں۔ نا اپنے یوتے ہیں نا اس چاردیواری میں اپنوں کا سکھ۔
باجی چائے لیں گی یا کافی ؟ میں ابھی قاسم کو بلاتی ہوں کولڈ ڈرنک لے آئے آپ کیلئے۔۔
بھابھی بیٹھ جائیں یا میرے پاس ۔۔ میں آپ سے ملنے آئی ہوں۔۔ اور میرے معدے میں تکلیف ہے نا میں گرم مشروبات پی سکتی ہوں جیسے چائے کافی وغیرہ اور نا ہی یہ کولڈ ڈرنک جیسی چیزیں۔۔ آپ یہ سارے تکلفات چھوڑیں اور یہ کچھ سامان ہے تو تھوڑا بہت بس یہ گلی کے پاس سے لیتی ہوئی آگئی ۔پہلی بار آرہی تھی خالی کیسے آتی مبادہ وہ ناراض ہوکر لینے سے انکار ہی نا کردے۔
اچھا چھوڑیں مجھے یہ بتائیں آج تو بدھ ہے بچے اسکول کیوں نہیں گئے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔
مجھے زلفی بھائی سے بھی ملنا تھا۔۔
باجی جب سے آفس بند ہوا ہے مالک مکان کو خبر ہوگئی ابھی سے اس نے کہہ دیا ہے اگر دس دن میں کوئی نوکری نا ملی تو ہم اپنا سامان باندھ لیں بس اسی لئے وہ نوکری کی تلاش میں روز بھٹک رہے ہیں۔ بچوں کو بھی اسکول سے نکال دیا کہ نوکری نہیں فیس کہاں سے دیں گے۔ اپنے دوپٹے کا پلو منہ پہ رکھے زولفقار کی بیوی رو رہی تھی۔
بھابھی آپ فکر نا کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ میرا کارڈ ہے زلفی بھائی سے کہیے گا مجھ سے رابطہ کریں۔
زونیا کے جانے کے بعد تھیلی پیکٹ کھولے تو ان میں بچوں کے کپڑے،کھلونے،کہانیوں کی کتابیں اور ایک طرف ایک لفافہ تھا۔ اسے کھولا تو اتنی رقم موجود تھی کہ بچوں کے اسکول کی فیس، گھر کا کرایہ اور ایک مہینے کا خرچ آرام اے نکل سکتا تھا۔
دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے وہ دعا کررپی تھی۔
کہتے ہیں دعا بھی وہ قعبل ہوتی ہے جو دل سے نکلے اور یہ آپ کے کرموں کا پھل ہوتا ہے کسی کے دل سے زبردستی دعا نہیں کرواسکتے۔
۔۔۔۔
ریستوران والا، کراچی
یار سنا ہے تیرا آفس کسی ناجائز زمین پہ ہے اس لئے نیلام ہورہا ہے؟
ہاں یار بہت پریشانی ہے کیا ہوگا پولیس کو شکایت بھی درج کروائی ہے مگر اب تک کوئی کاروائی نہیں ہوپائی۔ لائبہ کی بات پہ زونیا نے افسردگی سے کہا۔
یار پلیز یہ کاروباری مسئلے مسائل اپنے اپنے دفتروں میں چھوڑ کر آیا کروں۔ یہاں ہم خوش ہونے آئیں ہیں۔ پریشے نے اکتا کر کہا۔
فکر معاش میں مبتلا لوگوں سے عشق کے ستم کیا پوچھتے ہو
ہمارا تو محبوب بھی یہی ہے اور ستم گر بھی یہی
زونی ۔۔ ابتہاج بھائی اور تم دونوں خوش تو ہو نا؟ تم لوگوں نے چھٹی نہیں لی بلکل بھی؟ پریشے نے سوالوں کا رخ بدلا۔
ہاں۔۔ خوش ہیں۔۔ ارینج میرج ہے مجھے ان سے ملے ہوئے کتنے دن ہوئے ہیں۔ پہلے دوست تو بننے دو پھر میاں بیوی بھی بن جائیں۔۔ اب ایک اور کوئی دادی ماں والا سوال کیا نا تو اٹھا کے پھینک دوں گی۔
ارے نہیں نہیں ایسا ظلم نا کیجئے گا۔۔ ایک مردانہ آواز نے تینوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
موبائل کی اسکرین پہ ایک چہرہ مسکرارہا تھا۔
پہچانا میں حداب قریشی۔۔ اس نے ہاتھ ہلا کر تینوں کی طرف دیکھا جب کے تینوں حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔
بازل بھائی بھی ہوں گے آپ لوگوں کے ساتھ زونیا نے یہاں وہاں نظر دوڑائی۔
نہیں تمھارے بھائی نہیں ہیں بس میں اور میرا دوست کھانا کھانے آئے تھے۔ زارون نے ایک ہاتھ سے بال سنوارے۔
ہاں اس کو اسکرین میں سے ٹھنسا رہے تھے نا صاف صاف کیوں نہیں کہتے ہمارا پیچھا کررہے ہو تم لوگ۔۔ زونیا غصہ ہوئی۔
ارے پریشے تم اپنی جھانسی کی رانی کو روکو یار۔۔ کتنا غصہ کرتی ہے اس بیچارے پولیس والے کا کیا ہوگا۔۔ حداب ہنس رہا تھا۔
وہ پولیس والے نہیں اینٹی نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ کے چیف ہیں۔
پریشے نے اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا جو فون پہ جھک کر ڈانٹ رہی تھی۔ زارون کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
یار ہم ہمیشہ لڑتے کیوں ہیں؟ دوستی نہیں ہوسکتی ؟ پریشے نے دونوں کی طرف دیکھا۔
یہ بات کی زبردست والی۔۔ حداب خوشی سے چہکا۔
دوستی۔۔ اس کے باس کی وجہ سے ہمارا پورا دفتر نیلام ہورہا ہے۔ ہماری زمین بھی ہماری نہیں رہی۔ زونیا نے غصے انگلی زارون کی طرف اٹھائی۔
کیا پاگل ہوگئی ہے تو۔۔ وہ آفس اس کا ہے کیا ؟ پریشے نے ٹوکا۔
ہاں پلیز۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا میں تو بس وہاں کام کرتا ہوں۔ جیسے اور دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ کورٹ کیس کرنا یا نا کرنا میرے اختیار میں تھوڑی ہے۔ زارون کا لہجہ نرم تھا۔ زونیا نے پاس رکھی بوتل کی سیل کھول کر ٹھنڈا پانی گلاس میں انڈیلا اور ایک سانس میں پی گئی۔
کبھی کبھی ہم اپنے غصے کا نشانہ اسے بناتے ہیں جس کا اس میں دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ویسے اگر تحامل سے سوچا جائے تو اس غصے نام کی مخلوق کا سرے سے کوئی فائدہ نہیں البتہ اتنے وقت کیلئے ہم خود کو اذیت میں رکھتے ہیں۔ اسی لئے حدیثِ نبویﷺ میں غصے کو حرام قرار فرمایا یے۔
غصہ آنا ایک عام سی بات ہے مگر اس پہ قابو پانا اسے بھگانا مومن کی نشانی۔
ہم نے ابھی آرڈر نہیں کیا ہے زراون تم بتاؤ کیا لوگے۔
پریشے اس کو کمپنی دینے کی کوشش کررہی تھی جبکہ زونیا اور لائبہ خاموش تھے۔
تم جس پروجیکٹ پہ کام کر رہی ہو میں جانتا ہوں اور تمھاری مدد کر سکتا ہوں۔ زراون نے چمچ سے میکرونی کانٹے میں لپیٹتے ہوئے ایک نظر زونیا کو دیکھا۔
میں اپنا کام خود کرلوں گی شکریہ۔۔ بناء اس کی طرف دیکھے فوڈ اسٹیکس سے بھنا ہوا جھینگا اٹھا کر ساس میں ڈبویا۔
۔۔۔
نیلامی کا دن آگیا تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ زونیا اس نیلامی کو روک پائے گی یا نہیں چلیں دلیل کے دفتر چل کر دیکھتے ہیں جہاں سب تیار ہے۔
کورٹ سے آفیشلز آچکے تھے۔ عزیزی صاحب ایک طرف بیٹھے تھے ان کے ساتھ ان کا بیٹا بھی موجود تھا۔ اخبار کے مدیر خاور چوہان کو ایک معروف ٹی وی چینل کی آفر آئی تھی جسے انہوں نے قبول کرلیا تھا اور آج وہ اپنے آفس میں تھے۔ دلیل آفس کے ملازمین میں سے اگر اس وقت وہاں کوئی موجود تھا تو عزیزی صاحب کا چپراسی زولفقار۔ جہاں مایوسی نے ان تین لوگوں کے چہرہ کا احاطہ کر رکھا تھا۔
بولی شروع کرنے کیلئے میزبان نے مائیک سنبھالا۔
رک جائیے۔۔ ایک ہانپتی ہوئی زنانہ آواز  چند لوگوں کو ہی سماعتوں تک پہنچ پائی۔
میڈیا والوں کا رش، خریداروں کی آوازوں میں زونیا کی آواز کہیں دب کر رہ گئی تھی۔ مگر پھر ایک زوردار مردانہ آواز گونجی جس کے الفاظ وہی تھے جو زونیا کے تھے۔ سب کی نظریں اس نفوس کی طرف تھیں جس نے رک جانے کی صدا لگائی تھی۔
سب کی سوالیہ نظریں دیکھ اس نے زونیا کی طرف اشارہ کیا۔ اتنے سارے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ دیکھ زونیا کچھ دیر کیلئے تھوڑا گھبرائی۔
گھبراؤ نہیں۔۔ کہو جو کرنے آئی ہو۔۔ وہ ابتہاج تھا جو یہاں ناجانے کہاں سے آگیا تھا۔
زونیا مسکرائی۔ جیسے شکریہ ادا کر رہی ہو۔
جناب میں کچھ پیش کرنا چاہتی ہوں یہ کاغزات ہیں کورٹ سے حکم امتناعی (Stay order)لائی ہوں یہ نیلامی روک دیجئے۔
ایسے کیسے روک دیں اور کیوں روک دیں۔ دارب خان کے آدمیوں نے آگے بڑھ کر زونیا سے بحث کرنی چاہی مگر اس کے آگے ابتہاج آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ جس کے منہ میں جو بھی الفاظ تھے وہ منہ کے اندر ہی دم توڑ گئے۔ ساری دنیا اسے جانتی تھی۔
زارون بھی وہاں موجود تھا مگر سارا تماشہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں سب نکل رہے تھے۔
سر آپ فکر نہیں کیجئے گا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ زونیا عزیزی صاحب سے مخاطب تھی جو اپنی نشست سے اٹھ کر اس کے پاس آئے تھے۔
مگر بیٹے یہ سب آپ نے کیا کیسے؟ ہم نے بھی کورٹ سے وقت کی مانگ کی تھی مگر ہمارے کاغذات رد ہوگئے تھے۔
سر۔۔ مجھے ثبوت مل گئے ہیں۔ جس کا کچھ حصہ میں نے عدالت میں پیش کرکے اس فیصلے پہ امتناعی کی عرضی لے لی۔ اب آپ دیکھتے جائیں دلیل پھر سے کام کرے گا اپنے پورے وقار کے ساتھ اس کی ساکھ بحال ہوگی۔ انشاءاللّٰه
زونیا کی بات سن کر انہوں نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور دعا دی۔
میڈم آپ بتائیں گی آپ کے پاس کون سے ثبوت ہیں وہ کون سی جادو کی چھڑی آپ کے ہاتھ لگ گئی جس سے آپ کو لگتا ہے آپ جیت جائیں گی؟ ہاتھ میں مائیک پکڑے ایک لڑکا اس کے پاس آکر سوال کررہا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے سارے کیمروں کا رخ زونیا دیوان،ابتہاج اور عزیزی صاحب کی جانب ہوگیا۔
حق کو کسی جادو کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اٹل ہوتا ہے اور سامنے آکر رہتا ہے۔دلیل کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کے ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔
میم کیا اینٹی نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ بھی اس میں آپ کے ساتھ ہے۔
رپورٹر کا سوال سن کر زونیا نے ایک نظر ساتھ کھڑے ابتہاج کو دیکھا اور ہنس پڑی۔
یہ نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ نہیں میرے شوہر ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے اس کی بانہہ تھام لی۔
تو کیا میم آپ یہ کیس سر کے ساتھ مل کر حل کریں گی؟
آپ لوگ بھی نا کیسے سوال کرتے ہیں؟ صحافت میرا کام ہے اور یہ اینٹی نارکوٹکس کے چیف ہیں۔ وہ ان کا کام ہے۔
بیوی کو جہاں ایک شوہر کی مدد کی ضرورت ہوگی وہ بلاجہجک لے گی اور نا بھی مانگے تو آج کی طرح بناء مانگے ہی مل جائے گی۔ مگر جہاں ہمارے پروفیشن آئیں گے وہاں ہم دونوں ہی اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔
۔۔۔۔۔
گاندھی گارڈن،کراچی۔
میم یہ سی ڈی میں ہے سب ، آپ جیسا سوچ رہی تھیں سب کچھ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آپ کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑے گا۔ ایک چھوٹے سے تالاب کے کنارے کھڑی مچھلیوں اور بطخوں کو دانا ڈالتے ہوئے ساتھ کھڑے لڑکے کو دھیان سے سن رہی تھی جو کچھ فاصلے پہ کھڑا منہ موڑے اسی سے مخاطب تھا۔
ٹھیک ہے تم فکر نہیں کرو ان کو میں دیکھ لوں گی۔۔ دیکھتے ہیں کتنے خطرناک ہیں۔۔
۔۔۔۔۔
سندھ ہائی کورٹ
کیس نمبر 41/2019 جبّار عزیزی مخالف لائف ٹائم بینک فراڈ کیس کاروائی شروع کی جائے۔
کورٹ میں باقاعدہ کیس شروع کرکے وکلاء کو جرّاح کے آغاز کا اندیہ دیا جاچکا تھا۔
محترم جج صاحب!
جناب جبّار عزیزی صاحب نے آج سے چار سال پہلے پاکستان کے سب بڑے بینکنگ نیٹ ورک رکھنے والے بینک لائف ٹائم سے 70 لاکھ کا قرض لیا تھا۔جس کی ایک قسط بھی چکائی نہیں گئی۔ بعدازاں اس پہ لگنے والا انٹریسٹ بڑھتا گیا اور اب اس کل قرضے کی لاگت سو کروڑ بن گئی ہے۔ جناب آپ کے سامنے وہ تمام قانونی کاغذات موجود ہیں جن میں اس قرضے کی تفصیلات اور ان پہ جبّار عزیزی صاحب کے دستخط موجود ہیں۔
پروسیکیوشن نے اپنی دلیل رکھ دی بمع ثبوت ان کا کیس ویسے بھی پہلے سے ہی بہت مضبوط تھا اور یہ ساری دنیا جانتی تھی۔ اس لئے جب زونیا حکم امتناعی لے کر آئی تھی یہ سب کیلئے حیران کن بات تھی۔ جس کو سب اس کے خاندانی مضبوط بیک گراؤنڈ سے تشبیہ دے رہے تھے۔
جناب میرے معزز دوست حرم صاحب نے کہانی بہت اچھی سنائی ہے اور یہ کہانی ہم سب نے سن رکھی ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا، یہ کہانی من گھڑت ہے۔ آج سے چار سال پہلے میرے موکل نے کوئی قرض نہیں لیا اور نا ہی ان کاغذات پہ دستخط کئے۔
جج صاحب! کوئی قرض کیوں لیتا ہے جب اس کو اس کی ضرورت ہو۔ میرے مؤکل کو 70 لاکھ کا قرض لینے کی کیا ضرورت ہوگی جبکہ ان کا کام درست طریقے سے چل رہا تھا۔ انہیں اضافی پیسوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وکیلِ صفائی نے اپنا مؤقف پیش کیا۔
لگتا ہے جناب کو کسی پہ بھروسہ نہیں جج صاحب یہ کاغذات ملاحظہ کیجئے۔ ارباز صاحب یہ ایک کاپی آپ کیلئے بھی ہے۔ جج صاحب یہ وہ رپورٹ ہے جس میں لکھا ہے دستخط اصلی ہیں کسی نے نقل نہیں کئے ہیں۔
دوسرا میرے معزز ساتھی ایک بات کہہ گئے لگتا ہے صاحب اپنا ہوم ورک ٹھیک سے نہیں کرکے آئے۔انہوں نے کہا چار سال پہلے جبّار صاحب کو پیسوں کی ضرورت نہیں تھی۔
تو جناب یہ فنانشل رپورٹ ہے دلیل اخبار کی جس میں ان کی آمدنی کم گھاٹا زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔
اور اگر میں غلط نہیں ہوں جو کہ میں نہیں ہوں یہ میرے پاس کچھ ہے۔ ایک کارڈ عذر داری کے وکیل کو دکھاتے ہوئے جج صاحب کی طرف بھیجا۔
یہ شادی کا کارڈ ہے ہمارے معزز جبّار عزیزی صاحب کی اکلوتی بیٹی کی شادی کا ۔ 6 دسمبر 2016۔۔ اب بیٹی کی شادی میں جہیز کا خرچہ، باراتیوں اور رشتے داروں، لینا دینا اور ناجانے کن کن چیزوں کا خرچہ آپ کی بھی شادی ہوئی ہے کبھی بھابھی سے پوچھئے گا ان کے والد نے کتنا خرچ برداشت کیا تھا۔
آبجیکشن جج صاحب یہ میری ذاتی زندگی کو اس کیس میں گھسیٹ رہے ہیں۔۔
آبجیکشن سسٹین۔۔ آپ صرف وہی بات کریں جو اس کیس سے متعلق ہو۔ جج صاحب نے سرزنش کی۔
سوری یور آنر۔۔ مگر میں صرف سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ شادی بیاہ پہ کتنا خرچہ آتا ہے۔ ویسے ہی عزیزی صاحب کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ جس کیلئے انہوں نے قرض لیا اور اب نا قرض چکا رہے ہیں بلکہ اس سے مکر بھی گئے ہیں۔
کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے تو پیش کریں۔ جج صاحب نے وکیل صفائی کو مخاطب۔
بلکل ہے نا جج صاحب میں دلیل اخبار کے فائنینس ایڈوائزر جہانگیر خالق کو بلانا چاہوں گا۔
جہانگیر خالق حاضر ہو۔۔۔ جج صاحب کے ساتھ کھڑے سنتری نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر صدا بلند کی۔
کچھ ہی لمحوں میں اپنی باری کا انتظار کرتے جہانگیر خالق کٹہرے میں موجود تھا۔ کلمہ پڑھوا کر سچ کہنے کا وعدہ لیا گیا۔
عدالت کو بتائیں آپ کتنے سال اس عہدے پر عزیزی صاحب کیلئے کام کررہے ہیں؟
سر میں پچھلے 7 سال سے یہاں کام کر رہاہوں۔
اچھا یعنی چار سال پہلے جو حالات تھے آپ ان کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں کیا ہوا اور کیا نہیں۔
جی ۔۔ جہانگیر خالق نے گردن ہلا کر وکیل صفائی  کی بات کی تصدیق کی۔

تو یہ بتائیں جو رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے کیا وہ واقعی سچ ہے؟
نہیں سر یہ سب جھوٹ ہے بلکہ میں اپنے ساتھ ایک رپورٹ لایا ہوں جس کا ریکارڈ ہمارے آفس میں بھی موجود ہے۔ ہم کبھی بھی گھاٹے میں نہیں رہے۔ 2014 میں منافع کم ضرور ہوا ہے مگر گھاٹا کبھی نہیں ہوا۔ اور اس سب کا بھگتان ہم نے 2015 میں کر لیا تھا۔ ہمارے اخبار کے ساتھ ایک نیا ہفتہ وار مجلہ شروع کیا تھا جس سے اخبار کی سرکیولیشن بڑھ گئی تھی اور 2015 میں ہم نے اچھا خاصہ کاروبار کیا ہے۔ آپ چاہیں تو اس رپورٹ کی جانچ بھی کرواسکتے ہیں۔
جج صاحب رپورٹ کی کاپی آپ کے سامنے موجود ہے۔ جس میں واضح طور پہ یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ میرے موکل جناب عزیزی صاحب کا کاروبار گھاٹے میں ہرگز نہیں تھا۔ اس کی تصدیقی رپورٹ بھی آپ کے سامنے موجود ہے۔
اب میں ایک ایسے گواہ کو بلانا چاہتا ہوں جس کے بیان کے بعد یہ سب واضح ہوجائے گا کہ میرے موکل نے کبھی کسی قرضے طلبی کے کاغزات پر کوئی دستخط کئے ہی نہیں۔
۔۔۔۔

Zard Shafat (زرد صحافت)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang